یہودیوں کی مسلمانوں سے مخالفت کی تاریخی وجوہات

تحریر: سید باقری 

یہودیوں خصوصا صیہونیوں کا مسلمانوں سے ظالمانہ اور انسانیت سے عاری رویہ آج تمام دنیا کے سامنے ہے حتی کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اگر مسلمان مورد ظلم قرار پا رہے ہیں تو وہاں کسی نہ کسی شکل میں اس کے پیچھے یہودی سازش نظر آئے گی۔

اس ظلم و ستم کا سب سے آشکار نمونہ مظلوم فلسطینی عوام پر صہیونیوں کے مظالم ہیں جو سالوں سے دنیا کی ایک اہم خبر بن گئے ہیں حتی کہ اس مسئلہ کو حل و فصل کرنے کیلئے قائد کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی (رح) نے رمضان کے آخری جمعہ کو روز قدس کے عنوان سے منانے کا حکم دیا تاکہ فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم وستم کو لوگ بھول نہ جائیں۔

لہذا یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس ظالمانہ رویہ کی وجہ کیا ہے ؟

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خود قرآن یہودیوں کی اس خصلت کے بارے میں صاحبان ایمان کو آگاہ کر رہا ہے کہ تم سے سب سے زیادہ دشمنی یہود کرتے ہیں (۱) لہذا ان سے ہوشیار رہو ، اس آیت میں دشمنی کا حکم نہیں دیا جارہا ہے بلکہ دشمنی کے مقابل ردعمل ہے۔ حتی کہ مدینہ میں ساکن یہودیوں نے کفار و مشرکین سے دوستی کو پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اور مسلمانوں سے دوستی پر ترجیح دی ، یہ یہودی مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث تھے۔ (۲)

جبکہ اس کے برعکس مسلمانوں نے کبھی بھی ان سے  یہودی معاشرہ ہونے کی بنا پر دشمنی نہیں کی ان کے دین کی بنیاد پر ان سے دشمنی نہیں کی بلکہ ان کے ظلم و ستم ، ان کی نژاد پرستی اور ان کے تکبر کی مخالفت کی ہے ، اسلام ایسے یہود کا مخالف ہے ، قرآن کا فلسفہ ہے فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ۔(۳) حتی کہ اسلام ایسے یہودیوں کی جان ، ناموس اور مال کی حفاظت کرتا ہے جو مسلمانوں کی پناہ میں ہوں کسی بھی طرح کی ان کی توہین کی اجازت نہیں دیتا ایک مسلمان کی طرح ان کی بھی حرمت کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی ہتک حرمت کرنے والوں سے مقابلہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت میں آپ کو پتہ چلا کہ معاویہ کے لشکر نے ایک یہودی عورت کے پیر سے خلخال اتار لیا ہے اس کا زیور اتار لیا ہے جس پر آپ بہت غصہ ہوئے اور آپ نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور فرمایا اگر ایک مسلمان اس خبر کو سن کر مرجائے تو اس پر ملامت نہین ہے بلکہ یہ حادثہ سزاوار ہے کہ یہ سن کر مسلمان کا یہ حال ہو۔ (۴) اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے اسلام اقلیت کے حقوق پر کتنی توجہ دے رہا ہے۔

لہذا اب سوال اٹھتا ہے کہ یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی تاریخی وجوہات کیا ہیں ؟

سب سے پہلی وجہ نسل پرستی اور خود کو سب سے برتر سمجھنا ہے دوسرا سبب حسادت ، تیسرا سبب نفسانی خواہشات کی پیروی ، چوتھا سبب مال و زر کی جمع آوری کی ہوڑ ، پانچواں سبب قلبی قساوت اور وحشی گری ، چھٹا سبب ظلم و ستم کی طبعیت کا پایا جانا وغیرہ۔

یہودیوں کی نسل پرستی:

نسل پرستی یہودیوں کی ایک بنیادی تعلیم ہے حتی کہ طول تاریخ میں نسل پرستی اور یہود کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے حتی کہ  یہودیوں کا یہ عقیدہ کہ وہ سب سے برتر نسل ہیں ایک ایسا عقیدہ ہے جس نے ان کے دوسرے عقائد کو تحت الشعاع قرار دے دیا ہے ، اور اس نسل پرستی میں وہ اس قدر آگے بڑھے کہ انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کے آئین کو نسل یہود میں محصور کردیا ہے اور اس آئین کی تبلیغ بھی نہیں کرتے ہیں کیونکہ آئین یہودیت کو نسل بنی اسرائیل میں منحصر جانتے ہیں لہذا وہ سب سے نفرت کرتے ہیں اور سبھی کے خلاف سازشیں کیا کرتے ہیں اور ان کی اس نسل پرستی کا تذکرہ قرآن نے بھی کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : آپ کہہ دیجئے کہ اے یہودیوں! اگر تمہارا خیال ہے کہ سب لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو پھر موت کی تمنا کرو اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو اور وہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے اپنے ان (برے) اعمال کی وجہ سے جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ (٥) یہودیوں کی نسل پرستی اور سب سے برتر ہونے کی سوچ نے ان میں دوسری اقوام کی نسبت حسد ، کینہ اور دشمنی کے جذبات بھر دیئے ہیں ، اور یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی ایک وجہ یہی ہے۔

حسد،معاشرہ کے سقوط کا اہم سبب:

حسادت دین سے دور ہونے کا ایک اہم سبب اور دنیاپرستی کا ایک شعبہ ہے یہاں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے حسادت کو کفر کی بنیاد اور اصل قرار دیا ہے ، آپ فرماتے ہیں : ایک دوسرے سے حسد کرنے سے بچو کیونکی کفر کی اصل حسادت ہے۔ (٦) یہودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سے پہلے ایک ایسے نبی کے ظہور کے انتظار میں تھے جس کے سائے میں یہودی اپنی سرداری کو حاصل کرسکیں اور اپنے روشن مستقبل تک پہونچ سکیں لہذا کفار سے کہتے تھے کہ وہ نبی خاتم آنے والا ہے اور ہم اس کی نبوت کو قبول کرکے تم پر کامیابی حاصل کریں گے لیکن نبی کی بعثت کے بعد انہوں نے اس نبی خاتم کا انکار کردیا جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ یہود ، نبی خاتم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں۔ (٧) لہذا مدینہ و اطراف مدینہ میں یہودیوں کا قیام اسی آخری نبی کے انتظار کی وجہ سے تھا ، قرآن یہودیوں کے انکار کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے : اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس والی کتاب (توراۃ) کی تصدیق کرتی ہے باوجودیکہ اس کے آنے سے پہلے خود یہ لوگ کافروں کے خلاف اس کے ذریعہ سے فتح و ظفر طلب کیا کرتے تھے۔ مگر جب وہ (کتاب) ان کے پاس آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو اس کا انکار کر دیا۔ پس کافروں (منکروں) پر اللہ کی لعنت ہو۔(٨) بہرحال اس سلسلے سے متعدد آیات اور مختلف واقعات میں ذکر ملتا ہے۔

لہذا یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی ایک وجہ یہی حسد تھا کہ کیسے ایک عرب علاقہ سے تعلق رکھنے والا قریشی آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بن گیا اور یہی حسادت یہودیوں کے دین کے تباہ ہونے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس کا وہ انتظار کر رہے تھے اس کے انکار کا سبب بنا۔

__________________

حوالہ جات:

۱: سورہ مائدہ آیت ۸۲ ، لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ۔

۲: ناصر مكارم شيرازى ، تفسير نمونه ‏، ج ۵، ص ۵۵۔

۳: سورہ بقرہ آیت ۱۹۳

۴: نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۷ ، … وَ لَقَدْ بَلَغَنِي، أَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ يَدْخُلُ عَلَى الْمَرْأَةِ الْمُسْلِمَةِ وَ الْأُخْرَى الْمُعَاهَدَةِ، فَيَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وَ قُلْبَهَا وَ قَلَائِدَهَا وَ رِعَاثَهَا، مَا تَمْتَنِعُ مِنْهُ إِلَّا بِالِاسْتِرْجَاعِ وَ الِاسْتِرْحَامِ … فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا كَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ كَانَ بِهِ عِنْدِي جَدِيراً۔

٥: قران کریم ، سورہ جمعہ ، آیت ۶ و ۷ ۔ قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ۔

٦: کلینی ، محمد بن یعقوب ، اصول كافي ، ج ۱  ، ص ۸ ، ح ۸ ۔ اِیَّاکُمْ اَنْ یَحْسُدَ بَعْضُکُمْ بَعْضاً فَاِنَّ الْکُفْرَ اَصْلُهُ الْحَسَد۔

٧: قران کریم ، سورہ بقرہ ، آیت ۱۴۶ ۔ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۔

٨: قران کریم ، سورہ بقرہ ،  آیت ۸۹ ۔  وَ لَمَّا جَاءَهُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَ کاَنُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلیَ الَّذِینَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلیَ الْکَفِرِین ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے