مرحوم آیت اللہ محمدی ریشہری کی تحقیق کے مطابق تاریخی منابع میں حضرت عبدالعظیم کی ولادت اور وفات کی کوئی معتبر تاریخ درج نہیں ہے۔ وہ ایسی بیشتر روایات کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں اور بعض شواہد کی بنا پر ان کی ولادت کا زمانہ تقریباً سنہ ۱۸۰ ہجری کے قریب بتاتے ہیں۔ اسی طرح امام ہادی علیہ السلام کی روایت کے مطابق یہ بات بھی یقینی ہے کہ حضرت عبدالعظیم امام دہم کی شہادت (۲۵۴ ہجری) سے پہلے وفات پا گئے تھے۔
آیت اللہ رضا استادی، جو شیعہ محقق ہیں، اس بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبدالعظیم کی تاریخِ ولادت اور وفات کا سب سے پرانا ماخذ جواد شاہ عبدالعظیمی کی کتاب نور الآفاق ہے، مگر وہ اسے جعلی اور غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔
بزرگ شیعہ محقق آقابزرگ تہران کے بقول حضرت عبدالعظیم نے امام رضا اور امام جواد علیہما السلام کو درک کیا اور اپنا عقیدہ و ایمان امام ہادیؑ کے سامنے پیش کیا، جسے امام نے صحیح قرار دیا۔ نقل ہے کہ حضرت عبدالعظیم نہایت ادب و انکساری کے ساتھ امام جوادؑ یا امام ہادیؑ کی محفل میں حاضر ہوتے تھے اور امام بھی انہیں اپنے قریب بٹھاتے اور ان سے حال احوال پوچھتے تھے۔
امام رضا علیہ السلام کا شیعیانِ اہل بیت کے نام پیغام
امام رضا علیہ السلام نے ایک اہم پیغام حضرت عبدالعظیم کے ذریعے اپنے شیعوں تک پہنچایا۔ آپؑ نے فرمایا: "اے عبدالعظیم! میرا سلام میرے چاہنے والوں تک پہنچا دو اور ان سے کہو کہ دل میں شیطان کو داخل نہ ہونے دیں۔ سچ بولنے، امانت ادا کرنے، بامعنی سکوت اختیار کرنے، فضول جھگڑوں اور بے فائدہ کاموں سے پرہیز کرنے کی نصیحت کرو۔ انہیں صلہ رحم، میل ملاپ اور باہمی محبت کی طرف دعوت دو، کیونکہ یہی چیز خدا، مجھے اور دوسرے اولیاء الٰہی کے قریب کرنے کا ذریعہ ہے۔
> میرے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قیمتی زندگی دشمنی اور اختلافات میں ضائع نہ کریں۔ میں نے اپنے اوپر عہد کیا ہے کہ جو بھی ایسا کرے گا، یا میرے چاہنے والوں کو تکلیف پہنچائے گا، خدا سے دعا کروں گا کہ اسے سخت ترین دنیوی عذاب دے اور آخرت میں بھی اسے خسارہ اٹھانے والوں میں قرار دے۔
> نیز انہیں یہ بتاؤ کہ خدا ان کے نیکوکاروں کو بخش دے گا، اور بدکاروں کو بھی معاف کرے گا سوائے ان کے جو شرک کریں، یا ہمارے پیروکاروں کو اذیت دیں، یا دل میں ان کے خلاف کینہ رکھیں۔ ایسے افراد ہرگز بخشے نہیں جائیں گے مگر یہ کہ توبہ کر لیں۔ اور اگر توبہ نہ کریں تو خدا ہمیشہ کے لیے ان کے دل سے ایمان نکال دے گا اور وہ ولایت و دوستی اہل بیتؑ سے محروم رہیں گے۔”
حضرت عبدالعظیم حسنیؑ کی نمایاں خصوصیات
علماء نے حضرت عبدالعظیم کی کئی خصوصیات بیان کی ہیں:
1. عقیدے کی پیشکش و تصدیق
حضرت عبدالعظیم نے اپنے عقائد کو امام ہادیؑ کے سامنے پیش کیا اور امامؑ نے انہیں درست قرار دیا۔
2. زیارت کا عظیم ثواب
امام ہادیؑ نے ایک شخص کو فرمایا: "اگر تم اپنے شہر ری میں عبدالعظیم کی قبر کی زیارت کرو گے تو ایسا ہے جیسے حسین بن علیؑ کی زیارت کی ہو۔”
علّت اس ثوابِ عظیم کی وہی خدا بہتر جانتا ہے، لیکن ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب عباسی خلفاء نے ۱۸ مرتبہ امام حسینؑ کے مزار کو منہدم کیا، حضرت عبدالعظیم ان کی تعمیرِ نو اور احیائے مرقد میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
3. جہاد و دفاع
حضرت عبدالعظیم ان لوگوں میں شامل تھے جو طاغوت کے خلاف کھڑے ہوئے اور امام حسینؑ کے مزار کے دفاع میں جدوجہد کی۔
4. اہلِ علم و تبلیغ
وہ نہ صرف عالم دین اور مبلغ تھے بلکہ ائمہؑ کی معرفت اور اطاعت میں بھی ممتاز مقام رکھتے تھے۔ امام موسی کاظمؑ سے لے کر امام ہادیؑ تک، تمام معاصر ائمہ کو پہچانا اور ان سے ہدایت حاصل کی۔
5. راوی حدیث
حضرت عبدالعظیم کو شیعہ روایات کی سند میں راوی کے طور پر بھی شمار کیا جاتا ہے۔
6. وکیل اور موردِ اعتماد امام
ابوحماد رازی نقل کرتے ہیں کہ امام ہادیؑ نے فرمایا: "جب تمہیں کسی مشکل کا سامنا ہو تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھنا اور میرا سلام بھی انہیں پہنچا دینا۔”
7. اہل بیتؑ سے یقینی نسبت
حضرت عبدالعظیم امام حسن مجتبیؑ کی اولاد میں سے تھے اور اہل بیتؑ کے معتبر سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی قبر مطہر ری میں یقینی طور پر موجود ہے۔
8. اطاعتِ امام
ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ امام معصوم کی اطاعت اور پیروی کرتے تھے۔ دراصل انسان کی سعادت اور کمال اسی پیروی میں ہے۔
مصادر
منتهی الامال، شیخ عباس قمیؒ
حکمتنامه حضرت عبدال
عظیم الحسنی، محمدی ریشہری
ویکی شیعہ
وبسایت آستان مقدس حضرت عبدالعظیم حسنیؑ