مرحوم علامہ مصباح یزدی نے اپنی ایک تقریر میں موضوع "حضرت زینب (س) جیسا بنیں” پر روشنی ڈالی ہے جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

اگر ہم سچے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم حضرت زینب (س) سے محبت کا دعویٰ کریں مگر ہمیں عفت و حیا کا گلہ تک نہ ہو؟

یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم حضرت زینب (س) سے محبت رکھتے ہوں مگر حق کی دفاع میں اپنی ہر چیز قربان کرنے سے گریز کریں اور ہم میں جرات ہی نہ ہو؟!

اگر ہم واقعی ان سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان جیسا بننا ہوگا۔

انسان کے کردار اور راستہ کے انتخاب میں نمونہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ بعض ماہرین نفسیات انسان کی ترقی کو نمونہ کی موجودگی میں ہی ممکن سمجھتے ہیں۔

قرآن کریم نے بہت سے نمونے پیش کیے ہیں جن میں پیغمبر اسلام (ص)، حضرت ابراہیم (ع) اور دیگر انبیاء شامل ہیں اور ان کی پیروی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ہمیں نوجوان نسل تک اقدار کو نمونوں کے ذریعے پہنچانا چاہیے۔

ہمیں فن کے مختلف ذرائع جیسے تعزیہ، تھیٹر، کہانی نویسی وغیرہ کے ذریعے ان نمونوں کو نوجوانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

قرآن کریم نے اچھے اور برے دونوں قسم کے نمونے متعارف کرائے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ نمونہ کی کتنی اہمیت ہے اور دوسروں کا اس کی تقلید کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یقیناً انسان کے کردار کی تشکیل کے لیے نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے بہت سے ظاہری اعمال ان نمونوں سے اخذ کردہ ہیں جو فلموں میں دکھائے جاتے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے مطلوبہ نمونوں کو فن کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کریں۔

اگر اسلام میں دو شخصیات کو نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہو تو پہلی حضرت فاطمہ زہرا (س) اور دوسری حضرت زینب (س) ہیں۔

اسلام کے 1400 سالہ دور اور اسلامی انقلاب کے تین عشروں میں ان دو عظیم خواتین کا حق ادا نہیں ہو سکا ہے اور اسلامی معاشرہ ان بزرگوار شخصیات کی عظمت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا ہے۔

ہمیں نہ صرف حضرت زینب (س) اور حضرت فاطمہ (س) سے نمونہ لینا چاہیے، بلکہ ان دو شخصیات کو پوری دنیا میں نمونہ کے طور پر متعارف کرانا چاہیے۔

ماخذ: 12 اردیبهشت 1378 (2 مئی 1999) کی تقریر

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے