“ایّاکَ نَعْبُدُ وَ ایّاکَ نَسْتَعین”
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔
یہ قرآن کریم کی وہ آیت ہے جس کے معنی و مفہوم کو صحیح نہیں سمجھا گیا ہے۔اسی لئےاس آیت کو “یا علی مدد” کہنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس آیت سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ مدد صرف اللہ ہی سے طلب کرنا چاہیئے، کسی غیر اللہ سے مدد طلب کرنا اس آیت کی مخالفت ہے اور شرک ہے۔ حالانکہ قرآن کریم ہی کی متعدد آیتوں میں اس بات کی رد ملتی ہے۔ انبیاء کرام نے بھی براہ راست خدا سے مدد طلب نہیں کی بلکہ کسی غیر خدا کے واسطے سے خدا کی مدد حاصل کی ہے۔ مثلًا جناب سلیمانؑ نے آصف ابن برخیا سے مدد حاصل کی۔ جناب یوسفؑ نے قید سے رہائی کے لیے ایک قیدی سے مدد حاصل کرنے کو شرک نہیں جانا۔ جناب یعقوبؑ کی بینائی کے لیے جناب یوسفؑ نے صرف دعا نہیں کی بلکہ اپنی قمیص بھیجی جس کے واسطے سے اللہ نے ایک نبیؑ کی مشکل کو آسان کیا۔ (بلا شبہ یوسفؑ کی قمیص کے بغیر بھی خدا یعقوبؑ کی بینائی لوٹا سکتا تھا۔).
بہرحال سورہ حمد کی تلاوت مسلمان کثرت سے کیا کرتے ہیں۔ نماز میں اس آیت (…ایاک نستعین) کا پڑھا جانا ایک اہم رکن ہے۔ عبادت چاہے کسی بھی شکل میں ہو، خصوصًا نماز ،صرف اور صرف اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ ہر مومن کے لیے لازم ہے کہ نماز میں اپنی ساری توجّہ ذکرِ خدا کی طرف مرکوز رکھے۔ حقیقی توحید بھی یہی ہے کہ نماز میں کسی غیر خدا کا ذکر کرنا تو کیا کسی غیر کا خیال بھی نہیں آنا چاہیے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نماز کے تشہد میں “اشھد ان محمدًا عبدہ و رسولہ۔ اللّٰهم صل علیٰ محمد و آل محمد” شامل ہے۔ اس طرح ذکر محمدؐ و آلِ محمدؑ بھی اللہ کے ذکر کا حصہ ہے اور نماز جیسی اہم ترین عبادت کا رکن ہے۔ کسی نمازی کی نماز بغیر ان حضرات پر صلوات پڑھے مکمل نہیں ہوسکتی۔ پھر نماز کے سلام میں ہم رسول خدا (ص) سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں “السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ”۔ اے اللہ کے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات نازل ہوں ۔ نماز میں صرف ذکر نبی نہیں بلکہ باقاعدہ نبیؐ سے کلام ہو رہا ہے۔ پس جس طرح ذکر محمد اور آل محمد “ایّاک نعبد” – (صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں) کے اصول کو نہیں توڑتا اسی طرح ان ذوات مقدسہ سے مدد طلب کرنا “ایّاک نستعین-” (صرف تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)” کے اصول کو نہیں توڑتا. خالصتًا اللہ کے لیے ادا کی جانے والی نماز میں ذکر محمدؐ و آل محمدؑ کیا نمازی کو مشرک بنا دیتا ہے؟ کیا نماز جیسی عبادت میں شرک کی تعلیم دی جارہی ہے؟؟ ہرگز نہیں۔ جب نماز میں رسول اللہ (ص) کو خطاب کرکے سلام کیا جاسکتا ہے تو کیا ان سے اور ان کے وصی سے خطاب کرکے مدد نہیں طلب کی جاسکتی ہے؟ لہذا یہ کہنا کہ “یا علیؑ مدد” کہہ کر براہ راست مولا علیؑ سے مدد طلب کرنا شرک ہے یہ ایک بیہودہ بات ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ خود الله نے ان حضرات کو اپنی طرف وسیلہ قرار دیا ہے اور مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ انہیں کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں اپنی دعاؤں اور اپنے اعمال کو پیش کریں تاکہ ان کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ سوره المائدة: 35]۔
اے ایمان لانے والو!….. اس کی بارگاہ میں وسیلہ طلب کرو….
آیت میں وسیلہ سے مراد امام وقت ہے (تفسیر قمی)۔ تفسیر ‘البرہان’ میں اس آیت کے ذیل میں مناقب ابن شہر آشوب سے یہ روایت نقل کی گئ ہے جس میں امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ “میں ہی وہ وسیلہ ہوں”
( قال أمير المؤمنين (عليه السلام) في قوله تعالی: وَ ابْتَغُوا اِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ: «أنا وسيلته».)
اس طرح کی روایات کثرت سے کتب احادث میں موجود ہیں جن میں ائمہؑ کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنائے جانے کا ذکر ہے۔ ان حضرات کی زیارات میں بھی ملتا ہے کہ اہلبیتؑ ہی ‘باب اللہ’ ہیں وہ دروازہ ہیں جو الله کی طرف کھلتاہے۔ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں: “من اراد اللہ بدء بکم” جو بھی اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ آپؑ سے ابتداء کرتا ہے۔ پس خالص توحید یہی ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے واسطے کو اپنایا جائے اور ان ہی کے وسیلے سے خدا سے مدد طلب کی جائے۔ جو اہلبیتؑ کے وسیلے کو اہمیت نہ دے یا اس کو کمتر سمجھ کر چھوڑ دے اور براہ راست خدا سے مدد طلب کرے وہ حقیقت میں مشرک ہے۔ شیطان کا جرم یہی تھا کہ اس کو الله کا سجدہ کرنے سے اعتراض نہیں تھا مگر آدمؑ کے سامنے سر سجدے میں رکھنا اسے گراں گزر رہا تھا. شیطان اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ یہ سجدہ آدم کو نہیں تھا، الله ہی کے لیے تھا، مگر اس سجدے میں تعظیم ابوالبشر آدمؑ کی تھی۔ افسوس اس بدبخت نے اللہ کو توحید سکھانے کی کوشش کی اور وسیلے کا انکار کردیا۔ اس کا حشر تو سب جانتے ہی ہیں۔ بس اسی طرح اللہ نے اہلبیتؑ کو اپنے بندوں کے لیے قبلہ ایمان، قبلہ عمل، قبلہ دعا، قبلہ استعانت بنایا ہے جو ان کو فراموش کرکے الله کے منتخب وسیلے کو قبول نہیں کرتا اس کے پاس شیطان والی توحید ہے جس کا وہ پرچار کرتا رہتا ہے۔
2 Responses
قرآن کریم کی وہ آیت ہے جس کے معنی و مفہوم کو صحیح نہیں سمجھا گیا ہے۔اسی لئےاس آیت کو “یا علی مدد” کہنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس آیت سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ مدد صرف اللہ ہی سے طلب کرنا چاہیئے، کسی غیر اللہ سے مدد طلب کرنا اس آیت کی مخالفت ہے اور شرک ہے۔ حالانکہ قرآن کریم ہی کی متعدد آیتوں میں اس بات کی رد ملتی ہے۔ انبیاء کرام نے بھی براہ راست خدا سے مدد طلب نہیں کی بلکہ کسی غیر خدا کے واسطے سے خدا کی مدد حاصل کی ہے۔ مثلًا جناب سلیمانؑ نے آصف ابن برخیا سے مدد حاصل کی۔ جناب یوسفؑ نے قید سے رہائی کے لیے ایک قیدی سے مدد حاصل کرنے کو شرک نہیں جانا۔ جناب یعقوبؑ کی بینائی کے لیے جناب یوسفؑ نے صرف دعا نہیں کی بلکہ اپنی قمیص بھیجی جس کے واسطے سے اللہ نے ایک نبیؑ کی مشکل کو آسان کیا۔ (بلا شبہ یوسفؑ کی قمیص کے بغیر بھی خدا یعقوبؑ کی بینائی لوٹا سکتا تھا۔).
بہرحال سورہ حمد کی تلاوت مسلمان کثرت سے کیا کرتے ہیں۔ نماز میں اس آیت (…ایاک نستعین) کا پڑھا جانا ایک اہم رکن ہے۔ عبادت چاہے کسی بھی شکل میں ہو، خصوصًا نماز ،صرف اور صرف اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے
صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔
یہ قرآن کریم کی وہ آیت ہے جس کے معنی و مفہوم کو صحیح نہیں سمجھا گیا ہے۔اسی لئےاس آیت کو “یا علی مدد” کہنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس آیت سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ مدد صرف اللہ ہی سے طلب کرنا چاہیئے، کسی غیر اللہ سے مدد طلب کرنا اس آیت کی مخالفت ہے اور شرک ہے۔ حالانکہ قرآن کریم ہی کی متعدد آیتوں میں اس بات کی رد ملتی ہے۔ انبیاء کرام نے بھی براہ راست خدا سے مدد طلب نہیں کی بلکہ کسی غیر خدا کے واسطے سے خدا کی مدد حاصل کی ہے۔ مثلًا جناب سلیمانؑ نے آصف ابن برخیا سے مدد حاصل کی۔ جناب یوسفؑ نے قید سے رہائی کے لیے ایک قیدی سے مدد حاصل کرنے کو شرک نہیں جانا۔ جناب یعقوبؑ کی بینائی کے لیے جناب یوسفؑ نے صرف دعا نہیں کی بلکہ اپنی قمیص بھیجی جس کے واسطے سے اللہ نے ایک نبیؑ کی مشکل کو آسان کیا۔ (بلا شبہ یوسفؑ کی قمیص کے بغیر بھی خدا یعقوبؑ کی بینائی لوٹا سکتا تھ