آخری زمانے کے متعلق بعض روایات کو لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام سے پہلے دنیا کی اکثریت آبادی یعنی دو تہائی انسان مر جائیں گے۔ لیکن اس قسم کی روایات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا حقیقی مفہوم جسمانی موت نہیں بلکہ معنوی آزمائش ہے۔
فرق و مذاہب کے ماہر حجۃ الاسلام علی محمدی ہوشیار اس حوالے سے وضاحت کرتے ہیں کہ بہت سی روایات جن میں انسانوں کے بڑی تعداد میں "ختم ہو جانے” یا "کم ہو جانے” کی بات کی گئی ہے، ان کا تعلق دراصل ظہور سے پہلے کے امتحانات اور معنوی طور پر تمحص کے عمل سے ہے، نہ کہ جسمانی ہلاکت سے۔ مثلاً امام صادق علیہ السلام سے منقول روایت میں آیا ہے: "یہ امر (ظہور) اس وقت تک واقع نہیں ہوگا جب تک دو تہائی لوگ ‘چلے نہ جائیں’۔” یہاں "یَذْهَبَ” کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو مرنے کے بجائے کسی راہِ حق سے ہٹنے یا گمراہی کی طرف جانے کے معنی میں بھی آ سکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "یہ امر اس وقت تک واقع نہیں ہوگا جب تک تمہیں آزمایا نہ جائے، چھانا نہ جائے، اور تم میں سے صرف تھوڑے باقی نہ رہ جائیں۔” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اصل مدعا اہل حق کی شناخت اور گمراہوں کو جدا کرنا ہے، نہ کہ اجتماعی موت۔
دوسری جانب کچھ ایسی روایات جو "دو تہائی کے مرنے” یا "نو دہم کے جانے” کا ذکر کرتی ہیں، ان میں بھی لفظ "مرنے” کی جگہ "جانے” کا استعمال ہوا ہے، جو معنوی طور پر الگ ہونے یا حق سے دور ہو جانے کی تعبیر ہے، نہ کہ جسمانی ہلاکت۔
جہاں تک "مرگ سرخ” اور "مرگ سفید” یعنی تلوار سے قتل اور طاعون جیسی بیماری سے موت کی روایات کا تعلق ہے، تو وہ دراصل ظہور امام مہدی علیہ السلام کے بعد کے دور سے تعلق رکھتی ہیں، نہ کہ ظہور سے پہلے کے۔ مثلاً امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ: "قائم کے زمانے میں سرخ موت اور سفید موت واقع ہوگی۔ سرخ موت تلوار سے قتل ہے اور سفید موت طاعون ہے۔” اس روایت میں استعمال شدہ جملہ "بین یدی القائم” کا مطلب ظہور کے زمانے کے آس پاس یا ہمعصر ہے، نہ کہ اس سے پہلے۔
کچھ روایات اہل سنت کے منابع سے منقول ہیں جیسے ابن سیرین کی روایت کہ: "امام مہدی اس وقت تک ظہور نہیں کریں گے جب تک ہر نو میں سے سات آدمی مارے نہ جائیں۔” یہ روایت معصوم سے منقول نہیں اور شیعہ اصول حدیث کے مطابق معتبر نہیں سمجھی جاتی، اس لیے عقیدے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔
خلاصہ یہ کہ:
1. جن روایات میں دو تہائی یا نو دہم انسانوں کے "چلے جانے” کا ذکر ہے، ان کا مطلب جسمانی موت نہیں بلکہ معنوی ہٹ جانا، ارتداد یا آزمائش میں ناکام ہونا ہے۔
2. مرگ سرخ و سفید جیسی روایات کا تعلق امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد کے واقعات سے ہے، نہ کہ اس سے پہلے۔
3. بعض ضعیف اور غیر معتبر روایات کو غلط انداز میں پیش کرکے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے اور مهدویت کے عقیدے کو نقصان پہنچتا ہے۔
لہٰذا ان روایات کو سمجھنے کے لیے دقیق مطالعہ، حدیثی اصولوں کی رعایت اور معصومین علیہم السلام کے کلام کی گہرائی اور عمولق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ان روایات کو ظاہری معنی دے کر پھیلانا نہ صرف غلط فہمی کا باعث بنتا ہے بلکہ مهدویت کے مقدس عقیدے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔