مغرب نے بچوں کی ذہن سازی کے لیے ایک نیا اور مؤثر ہتھیار اختیار کر رکھا ہے: پرکشش اور خیالی کرداروں کے ذریعے شخصیت سازی۔ ان کرداروں کو اینیمیشن، ویڈیو گیمز اور تخیلاتی فلموں کی مدد سے بچوں کے ذہنوں میں اتارا جا رہا ہے، اور یہ عمل اس قدر خاموشی اور ہوشیاری سے انجام دیا جا رہا ہے کہ والدین اس کے اثرات سے تقریباً غافل ہیں۔
حجۃ الاسلام و المسلمین محسن عباسی ولدی نے ایک خطاب میں اس حساس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مغرب شخصیت پر مبنی مواد کے ذریعے بچوں کی زندگیوں میں بتدریج اور غیر محسوس انداز میں اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس عمل میں براہ راست کسی قسم کی تشہیر یا تبلیغ شامل نہیں، لیکن رفتہ رفتہ بچوں کے رویے، عقائد اور رجحانات ان خیالی کرداروں سے متاثر ہو کر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ والدین اس وقت بچوں کی روزمرہ ضروریات جیسے بچوں کو واش روم ٹریننگ دینا یا معمولی تعلیمی مسائل میں مصروف ہیں، اور وہ اس بات پر کم توجہ دے پاتے ہیں کہ بچوں کے ذہنوں پر کون سے کردار اور نظریات نقش ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس اور ویڈیوز جیسے "پانچ طریقے ذہین بچوں کی پرورش کے لیے” یا "اپنے بچے کو اگلا آئنسٹائن کیسے بنائیں؟” خاصی مقبول ہو رہی ہیں۔ اس رجحان کے نتیجے میں والدین نفسیات کے ماہرین کی باتوں پر اندھا اعتماد کرنے لگے ہیں، جبکہ بچوں کی تربیت صرف مہارت سکھانے یا ذہانت بڑھانے تک محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہرائی کی متقاضی ہے۔
اسی دوران مغربی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پوری قوت سے سرگرم ہے۔ وہ بچوں کے لیے اسپائیڈر مین، باربی، ہیری پوٹر اور بیٹ مین جیسے کرداروں پر مبنی گیمز، کارٹونز اور فلمیں تیار کر رہی ہے، جو آہستہ آہستہ بچوں کے آئیڈیلز میں حقیقی سائنس دانوں اور محققین کی جگہ لے رہے ہیں.
عباسی ولدی کے مطابق، یہ عمل صرف بچوں تک محدود نہیں بلکہ والدین کو بھی ذہنی طور پر روزمرہ کی مصروفیات میں الجھا کر رکھا جا رہا ہے تاکہ وہ بڑے تربیتی مسائل کی طرف توجہ نہ دے سکیں۔ اس طرح مغرب اپنے مخصوص تربیتی اہداف کو بغیر کسی ظاہری اعلان یا تشہیر کے خاموشی سے آگے بڑھا رہا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ والدین، اساتذہ، اور دینی و تعلیمی ادارے اس خاموش جنگ کو سنجیدگی سے لیں اور بچوں کی فکری، اخلاقی اور شخصی تربیت کے لیے مقامی، اسلامی اور سائنسی نمونوں کو فروغ دینے پر توجہ دیں۔








