مقدمہ
تربیت کے لغوی معنی:
تربیت لغت میں پرورش کرنے کو کہتے ہیں ۔اسے رَبَوَ سے اخذ کیا گیا ہے۔ جیسے (ربہ الوالد :ای غذاہ وجعلہ یربوا) اورکبھی اس کامعنی ”مہذب بنانا”اور کسی کو آلودگیوں سے پاک کرنے کو کہا گیا ہے۔راغب اصفہانی ”مفردات راغب” میں ” ربّ” کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ” تربیت ،کمال کی طرف ایک تدریجی حرکت کا نام ہے ”۔ اصطلاح میں تربیت کا کوئی خاص اورایک معنی نہیں ہے ۔لیکن تربیت کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس انسان کو جو کچھہ سکھایا گیا ہے اور جس چیز کی تعلیم دی گئی ہے ،اسے اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائے۔تربیت ایک ایسا ضروری اور لازم امر ہے جس پر انسان کی نیک بختی اور بد بختی کادار ومدار ہوتا ہے ۔ اگر انسان کی تربیت اچھی ہو تو انسان اسی کے بل بوتے پرمعاشر ہ میں تکامل اور بلند مقام حاصل کرسکتا ہے لیکن اگر تربیت صحیح نہ ہو تو انسان پستی کے تمام مراحل طے کرتا ہے۔ اسی تربیت کی بنا پر انسان اپنے اچھے اعمال کے ذریعے فرشتوں سے بالاتر مقام بھی حاصل کر سکتا ہے اور اشرف المخلوقات کا خطاب انعام میں حاصل کرتا ہے۔ اوراگرتربیت صحیح نہ ہو تو یہی انسان اپنے برے اعمال کی وجہ سے اسفل السافلین کی طرف جاتا ہے اور حیوانوں سے بھی بد تر ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید ایسے شخص کو یوں یاد کرتا ہے اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ہم الغافلون (اعراف،١٧٩) ان ہم الّا کالانعام بل ہم اضل سبیلاً (الفرقان،٤٤) یہ لوگ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ چونکہ حیوانات کی غرض تخلیق انسان کے لئے ان کا مسخر ہونا ہے اور یہ غرض حیوانات سے انجام پاتی ہے ۔ جبکہ سرکش انسان اپنی غرض تخلیق کے منافی عمل کرتا ہے اس لئے انسان جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہے ۔ ( قرآن کریم ،ترجمہ وحاشیہ شیخ محسن علی نجفی) انسان جب شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا ہر قسم کی خصوصیت سے عاری ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: واللّٰہ اخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیئا (النحل،٧٨)اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کی پیٹ سے اس طرح نکالا کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ لیکن خدا نے اس انسان کے اندر گوناں گوں صلاحیتیں رکھی ہیں ۔ یہ اس انسان کے والدین اور عزیزوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اچھی تربیت کرکے اس کو خوش بخت بنائیں یا اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دیتے ہوئے اس کی بری تربیت کرکے اس کو بد بخت بنائیں۔ تربیت کرنے کے لئے بھی سیرت اور نمونہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس نمونہ عمل کو سامنے رکھ کر اور اس کی روش وفرامین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کی تربیت کرسکے ۔ خدا کے فضل سے مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے خدا نے نمونہ کی نشاندہی کر دی ہے لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ(احزب ٢١) تمہارے لئے رسول اللہؐ بہترین نمونہ عمل ہیں ۔رسولؐ نے جن کی تربیت کی ہے ان شخصیات کو دیکھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ آپؐ نے کتنی بہترین تربیت کی ہے اور ان کی تربیت کی مثا ل دنیامیں نہیں ملتی۔ امام حسینؑ کی تربیت رسول خداؐ اور رسول خدا ؐ کے تربیت کردہ افراد کے دامن میں ہوئی ہے ۔ ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک کے لئے تربیت کے سنہری اصول بتا دئےے ہیں اگر انسان ان اصولوں پر عمل کرے تو کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔ خصوصاً کربلا کا زندہ وجاوید واقعہ انسان کو جنجوڑ کر تربیت کا پیغام دیتا ہے ۔ اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے تربیتی پیغامات کو ہرسال لوگوں تک پہنچاتا ہے تاکہ بنی نوع انسان ان نیک پیغامات پر عمل کریں اور اپنے لئے سعادت اور خوش بختی کی راہ کو اختیار کریں۔اور جو اس راہ کو اپنا چکے ہیں وہ اس راہ پر اھدنا الصراط المستقیم کی دعا کا ورد کرتے ہوئے گامزن رہیں اور تکامل انسانی کے اعلیٰ مرتبہ کو حاصل کریں۔
زیر نظر مقالہ میں ہم کوشش کریں گے کہ کربلا کے زندہ وجاوید دروس کی طرف اشارہ کریں۔تربیت کی اقسام:
تربیت کی دو قسمیں ہیں (١)اچھی تربیت(٢) بری تربیت
تاریخ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو بنی ہاشم اور بنی امیہ کو ان دو تربیتوں کے حامل پاتے ہیں ۔ بنی ہاشم اچھی تربیت کے مالک ہیں جس کے حسین ؐوارث ہیں جبکہ یزید بنی امیہ کا وارث ہے جو بری تربیت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں:” کان بنی ہاشم یعملون فی الرأاسۃ الدینیۃ ، وبنوعبد الشمس یعملون فی التجارۃ او الرأاسۃ وھما ما ھما فی الجاھلیۃ من الربا والمماکسۃ والغبن والتطفیف والتزییف ، فلا عجب ان یختلفا ھذا الاختلاف بین اخلاق الصراحۃ واخلاق المساومۃ وبین وسائل الایمان ووسائل الحیلۃ علی النجاح ۔ بنی ہاشم ریاست دینی کا کام کرتے تھے اور عبد شمس(بنی امیہ)تجارت اور ریاست سیاسی کا کام کرتے تھے ۔تجارت اور سیاست جاہلیت کے دور میں عبارت تھیں ربا، دھوکہ دہی ، قیمتوں میں کمی کرنا،کم فروشی اور معیوب چیزوں کو فروخت کرنے سے۔لہذا کوئی مضائقہ نہیں کہ اتنا واضح اختلاف ہو اچھے وخالص اور برے وبازاری اخلاق کے درمیان اور وسائل ایمان ووسائل حیلہ گری کے درمیان جو اپنے ہر مقصد تک پہنچنے کے لئے کی جاتی ہے۔”(حماسہ حسینی ج ٢ ص٨٤ )
اس سے بھی واضح الفاظ میں تاریخ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ : وھذا التنافس بینھما (حسین ویزید) یرجع الی کل سبب یوجب النفرۃ بیں رجلین من العصبۃ الی التراث الموروثۃ ، الی السیاسۃ، الی العاطفۃ الشخصیۃ ، الی اختلاف الخلیقۃ والتفکیر۔حسین ؑاور یزید کی جنگ کی بازگشت ان اسباب کی طرف ہوتی ہے جو عصبیت اور حمایت اپنے گذشتگان اور بزرگان کے آثار ، سیاست اور عوطف شخصی،اخلاق ،تربیت ، رشد اور تفکیر میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔”(حماسہ حسینی ج ٢ص٨٠ )
ہمارا مقصود بحث حسین ابن علی ؑ ہے جو اخلاق وتربیت حسنہ کے مالک ہیں اور ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں خصوصاً آپؑ اور آپ کے اصحاب نے معرکہ کربلا میں ہمیں کس طرح تربیت کا درس دیاہے۔جیسا کہ ا مام حسین ؑ کا ارشاد ہے ولکم فیّ اسوۃ۔ میری زندگی تمہارے لئے نمونہ عمل ہے۔(تایخ طبری ج٣،ص ٣٠٧) ۔کربلا کے انسان ساز معرکے میں ہمیں اپنی تربیت کے لئے بہت سارے پیغامات نظر آتے ہےں ۔ لیکن ہم صرف بعض کی طرف اشارہ کریں گے۔امام حسین ؑکے تربیتی پیغامات:
خدا پر ایمان :
سب سے پہلے امام حسینؑ ہمیں توحید اور ایمان کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ اسی توحید کے اندر دوسرے تمام اوصاف خداوندی پوشیدہ ہیں ۔ امام ؑ مکہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ”اے میرے خدا !میں غنا کی حالت میں تیری طرف محتاج ہوں پس کس طرح حالت فقر میں تیری طرف محتاج نہ ہوں۔دانائی کی حالت میں نادان ہوں پس کس طرح نادانی کی حالت میں نادان نہ رہوں۔ اے خدا جس کے محاسن اور خوبیاں بد ہوں کس طرح اس کی برائیاں بد نہ ہوں۔ جس کی حقیقت بری ہو اس کے دعوے کس طرح باطل نہ ہوں”(مفاتیح الجنان دعا عرفہ)آپ میدان کربلا میں مصائب پر صبر کرتے ہیں اور وقت شہادت جتنا نزدیک ہوتا ہے امام کا چہرہ اتنا ہی تابناک ہوتا ہے اور فرماتے ہیں”یہ تمام رنج و مصائب میرے نزدیک کم ہیں کیونکہ خدا کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔”
امام ؑ کاسامناجب حر کے لشکر سے ہوتا ہے اس وقت امام ؑ خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور خطبہ کے درمیان فرماتے ہیں کہ:”میری تکیہ گاہ خدا ہے اور مجھے تم سے بے نیاز کرتا ہے ۔” (العوالم ،الامام الحسین ص٢٣٣)
اور صبح عاشور لشکر ابن سعد شور وغل اور طبل بجاتے ہوئے امام کے خیمہ کی طرف آتا ہے تو امام نے فرمایا :”خدایا !ہر گرفتاری اور مشکل میں تو میری پناہ گاہ اور امید ہے اور ہر حادثہ میں جو مجھے پیش آتا ہے تو میرا مدد گار ہے۔”(الارشاد ج٢ ص٩٤)
جب ہم ان تمام فرامین پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ہر مشکل وقت میں اپنے پروردگار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ یہی خدا پر مضبوط ایمان کی دلیل ہے۔رسالت پر اعتقاد :
رسول اسلام کے بعد ملت اسلامیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ایک گروہ ضلالت کی طرف چلا گیا اور دوسرا رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر ثابت قدم رہا۔ اس گروہ میں اہلبیت پیغمبرسب سے آگے نظر آتے ہیں ۔رسولؐ کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور رسولؐ سے پیوستگی کو اپنے لئے باعث فخروشرافت سمجھتے ہیں۔امام حسینؑ مدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس سے پوچھتے ہیں :”آپ کا کیا نظریہ ہے ان لوگوں کے بارے میں جو دختر رسولؐ کے فرزند کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر جانے پر مجبور کررہے ہیں ، دشت وبیابان میں آوارہ کر رہے ہیں ، ان کو قتل اور ان کا خون بہانے کے درپے ہیں ۔ حالانکہ رسول خدا کے اس فرزند نے نہ کسی کو خدا کاشریک ٹھہرایا ہے ، نہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور نہ رسولؐ کے آئین سے ہٹ کر کوئی فعل انجام دیا ہے۔” ابن عباس جواب میں عرض کرتے ہیں :”میں ان لوگوں کے بارے میں اس قرآنی آیت کے سوا کچھ نہیں کہوں گاکہ(یہ لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کی نسبت کافر ہو گئے ہیں) ۔” اس کے بعد امام حسین ؑ نے فرمایا:” خدایا! تو گواہ رہنا ،ابن عباس نے صراحتاً ان لوگوں کے کافر ہونے کی گواہی دی ہے ۔(کلمات امام حسینؑ ص٣٠٦)میدان کربلا ہو یا اس کے بعد کا مرحلہ ،امام ؑ اور آپ کے خاندان نے رسول ؐاسلام کے ساتھ اپنی پیوستگی کا ہرمقام پر اعلان کیا ۔ امام ؑ نے میدان کربلا میں لشکر ابن سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا: انشدکم اللّٰہ ھل تعرفونی ،قالوااللھم نعم انت ابن رسول اللّٰہ وسبطہ۔ قال انشدکم اللّٰہ ھل تعلمون ان جدّی رسول اللّٰہ قالوا اللھم نعم۔میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو۔کہا کہ ہاں آپ رسول اللہ کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ میرا نانا رسول خدا ہے۔”(لھوف ص ١٢٠)
آپ کے اہل حرم نے بھی رسول خدا سے وابستگی کا ہر مقام پر اعلان کیا۔ حضرت زینبؑ نے دربارابن زیاد میں فخر سے یہ جملہ ادا کیا :”الحمد للّٰہ الذی اکرمنا بنبیہ محمدؐ۔تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد(ص) کے ذریعے کرامت بخشی۔”(الاراشاد ج٢ ص١١٥)
توکل :
امام حسین ؑ کے کلمات اور افعال وکردار سے یہ نمایاں اور واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کس قدر خدا پر توکل کرتے تھے ۔ آپ نے مدینہ سے جب سفر کاآغاز کیا تو خدا پر ہی توکل کر کے، اور جتنا بھی راستہ طے کیا خدا پر توکل کی وجہ سے طے کیا ۔امام ؑ مکہ سے نکلتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :”فمن کان باذلاً فینا مھجتہ موطناً علی لقاء اللّٰہ نفسہ فلیرحل معنا فانی راحل مصبحاً ان شاء اللّٰہ۔جو بھی اپنے خون کو ہماری راہ میں بہانا چاہتا ہے اور خدا سے ملاقات کا مشتاق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔میں کل صبح سفر پر نکل رہا ہوں۔(بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦)
آپ ؑنے کبھی بھی اپنے اصحاب و ساتھیوں پر توکل نہیں کیا ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ:”فمن احبّ منکم الانصراف فلینصرف ۔ جو واپس جاناچاہتا ہے وہ واپس چلا جائے ”(الارشاد ج٢ص٧٥)اور شب عاشور چراغ بجھا کر فرمایا کہ” جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے ۔” مدینہ سے نکلتے ہوئے جس نے بھی آپ کو کوئی رائے پیش کی کہ آپ کوفہ کی طرف تشریف نہ لے جا ئیں بلکہ حجاز یا کسی اورمقام کی طرف ہجرت کریں تو آپ نے خدا پر توکل کیا اور کوفہ کا سفر اختیار کیا ۔ مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرمایا :” ما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب۔ میری توفیق خدا سے ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی میری پناہ گاہ ہے” (بحار الانوار ج ٤٤ ص٣٢٩)
وہ تمام خطبات جو روز عاشور آپ نے دئےے ان میں یہ جملہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ:”انی توکلت علی اللّٰہ ربی وربکم۔ میں خدا پر توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔”صبر :
امام حسین ؑاور آپ کے ا صحاب صبر اور تحمل میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں ۔ امام ہمیشہ اپنے اصحاب اور اقرباء کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ”صبر اور مقاومت سے کام لو اے بزرگ زادگان ۔ کیونکہ موت تمہیں غم اور سختی سے عبور کراتی ہے اور وسیع بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔(بحار الانوار ج٤٤ ص٢٩٧)
کربلا کے میدان میں ہمیں ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے صبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسی وجہ سے ان کا نامام المصائب پڑ گیا ۔ حضرت زینب وہ شخصیت ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ۔اور شہادت کے بعد خیمے جلے پھر بھی صبر سے کام لیا ، سروں سے چادرں چھینی گئیں صبر کیا اور جب حضرت امام حسین ؑ کو اس حالت میں دیکھا کہ سر کٹا ہوا ہے اور ظلم وستم کی انتہا کر دی گئی ہے اس وقت بارگاہ خداوندی میں فرماتی ہیں :” اللھم تقبل منا ھذا القربان القلیل۔ اے خدا ہماری یہ قلیل قربانی اپنی باگاہ میں قبول کر لے۔”
امام حسین ؑ شب عاشور اپنے اہل حرم کو جمع کرکے فرماتے ہیں :”یہ قوم میرے قتل کے بغیر راضی نہیں ہو گی ۔ لیکن میں آپ لوگوں کو تقوی الہٰی اور بلا پر صبر اور مصیبت میں تحمل کی وصیت کرتا ہوں۔ ” (کلمات الامام الحسین ص٤٠٠)اخلاص :
امام حسین ؑ نے خروج نہ حکومت کے لئے کیاتھا نہ جاہ طلبی ومال کے لئے ۔بلکہ امام ؑ خالصتاًللہ مدینہ سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے تھے۔امام ؑنے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا کہ نی لم اخرج اشرا ً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً بل خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول اللّٰہ ارید ان أمر بالمعروف وانھی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی۔ میں اس وجہ سے خروج نہیں کر رہا ہوں کہ تاکہ فسادپھیلاؤں اور ظلم کروں بلکہ میں اس وجہ سے خروج کررہاہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ اور میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں ۔ اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔”(بحارالانوار ج ٤٤ ص ٣٢٩،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٧)
امام ؑ کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا بلکہ خدا کے مقصد کو اپنا مقصد بنایا یعنی لوگوں کو گمراہی سے بچانا۔جو لوگ طالب مال ودنیا تھے انہوں نے امام ؑکا ساتھ نہیں دیا اور کئی لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے بھی گئے۔امام ؑ کے ساتھ فقط وہی لوگ تھے جو مخلص تھے اور مال ومتاع کی غرض نہیں رکھتے تھے ۔امام ؑکے اصحاب میں سے حضرت عابس نے رجز پڑھتے ہوئے فرمایا کہ :”میں اپنی تلوار سے تمہارے ساتھ جنگ اور جہاد کروں گا یہاں تک کہ خدا کی بارگاہ میں چلاجاؤں اور اس کے بدلے میں خدا سے جزا کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ۔”(العوالم ٢٧٢)
بدعت کا خاتمہ :
جب دین میں بدعت رواج پا جائے اور دین کا چہرہ مسخ کیا جائے تو صاحبان علم کا کیا وظیفہ بنتا ہے ، اس بارے میں روایت موجود ہے
:”اذا ظہر البدع فلیظہر العالم علمہ وان لا تفعل فلعنۃ اللّٰہ علیہ ۔ جب بدعت ظاہر ہوجائے تو عالم کا وظیفہ یہ بنتا ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور بدعت کا خاتمہ کرے اگر ایسا نہ کرے تو اس پرخدا کی لعنت ہو گی۔(اصول کافی ج ١ ص ٥٤، وسائل الشیعہ ج ١٦ ص ٢٦٩)
رسول اسلام ؐ کے بعد بدعتوں کا رواج پانا شروع ہوا۔ امام حسین ؑکے زمانے میں اس حد تک بدعتیں رواج پا چکی تھیں کہ دین محمدیؐ کا چہرہ مسخ کردیا گیا تھا۔ اس وقت روئے زمین پر آپ سے زیادہ کوئی عالم شخص موجود نہیں تھا ۔ امام کا یہ وظیفہ بنتا تھا کہ آپ اس بدعت کے خاتمہ کے لئے قیام کریں۔ اور امام ؑ نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دی۔امام ؑ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ :” ادعوکم الی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ فان السنۃ قد امیتت فان تجیبوا دعوتی وتطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد۔میں تمہیں کتاب خدا اور سنت نبی ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ بتحقیق سنت کو ختم کیا گیا ہے اگر تم میری دعوت کوقبول اورمیری اطاعت کرو تو میں راہ رشد کی طرف تمہاری ہدایت کروں گا۔” ( بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٤٠، مثیر الاحزان ج١ ص ٢٧)امام حسین ؑ نے حر کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا: ایھاالناس! من رأی سلطاناً جائرا مستحلاًلحرام اللّٰہ ، ناکثاًلعھداللّٰہ ،مستأثراً لفَیء اللّٰہ،معتدیاًلحدوداللّٰہ ،فلم یغیر بقول ولا فعل کان حقاً علی اللّٰہ ان یدخلہ مدخلہ ۔ الا وان ھؤلاء القوم قد احلوا حرام اللّٰہ وحرموا حلالہ واستأثروا فَی ءَ اللّٰہ ۔ امام ؑ نے یہاں پر ایک صغری اور کبری ذکر کیا ہے۔ ابتداء میں کبری بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ایھاالناس۔۔۔۔” اے لوگو!رسول خدا نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظالم وجابر کو دیکھے کہ وہ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرتا ہے ، بیت المال کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، خدا کے قانون میں تبدیلی کرتا ہے ، اور وہ شخص اس حالت میں خاموش بیٹھا رہے تو خدا کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اس ظالم کا ساتھی قرار دے۔ اس کے بعد امام ؑ صغری بیان فرماتے ہیں ”ان ھؤلاء القوم۔۔۔۔” یہ قوم (بنی امیہ )جو آج حکومت کر رہی ہے اسی طرح حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہی ہے۔ بیت المال کو ذاتی مقاصد کے لئے خرچ کر رہی ہے ۔ آخر میں فرماتے ہیں : انا احق من غیرلقربتی من رسول اللّٰہ” میں اپنے نانا کے فرمان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں ۔ (بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٨٢،حماسہ حسینی ج١ص٢٧١)
عشق خدا :
امام ؑاور آپ کے اصحاب ہمیشہ عشق خدا میں سرشار نظر آتے ہیں ۔یہاں تک کہ انہیں موت سے خوف ہے نہ جنگ سے ڈر۔ بلکہ وہ موت کو خدا سے ملاقات کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ حضرت بریر ہمدا نی ؑروز عاشور بہت خوش نظر آرہے تھے اوردوسروں سے مذاق کررہے تھے۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اے بریرؑ کیا یہ ہنسنے اور مذاق کرنے کا وقت ہے ، تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں اسی لئے تو خوش ہو رہا ہوں کیونکہ تھوڑی دیر بعد شہادت نصیب ہو گی۔(لہوف ص١٣٤)خدا سے محبت ہی کی خاطر امام ؑنے ایک شب کی مہلت مانگی تاکہ خدا کے حضور زیادہ سے زیادہ مناجات کا موقع مل جائے۔ہر عاشق اپنے محبوب کی پسند سے محبت رکھتا ہے اور خدا کو یہ فعل زیادہ پسند ہے کہ اس کے بندے اس کی بارگاہ میں رازونیاز اور عبادت واستغفار کریں۔امام ؑ ارشاد فرماتے ہیں : نصلی لربنا اللیلۃ وندعوہ ونستغفرہ ، فھو یعلم انی قد احب الصلوۃ وتلاوۃ کتابہ والدعاء والاستغفار۔آج کی رات ہم اپنے پروردگار کی عبادت کریں اور اس کی بارگاہ میں دعا واستغفار کریں۔ وہ جانتا ہے کہ میں نماز ،اس کی کتاب کی تلاوت ، دعا اور استغفار کو پسند کرتا ہوں۔ (الارشاد ج٢ ص٩٠)
تسلیم ورضا :
امام ؑاپنے تمام افعال میں تسلیم ورضا کا درس دیتے ہیں ۔ آپ ؑسے جب عبداللہ ابن مطیع نے کوفہ کے لوگوں کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا: یقضی اللّٰہ ما احبّ۔ خدا جس چیز سے محبت کرتا ہے اسے مقدر کرتا ہے۔(الاخبار الطوال ص٢٢٩)
مرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ رضا وتسلیم کی چار اقسام میں سے ایک یہ ہے کہ کام کسی اور کے ہاتھ میں ہو یعنی خدا کے فرمان اور امر سے ہو۔ شخصی اور خواہش نفس کی پیروی میں نہ ہو۔(حماسہ حسینی ج٢ ص٥١)
امام ؑکے اقوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ رضائے الٰہی میں انجام دیتے ہیں ۔ امام ؑ اپنی آخری دعا میں فرماتے ہیں :”صبراً علٰی قضائک یا ربّ لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین ، مالی رب سواک ولا معبود غیرک ، صبراً علیٰ حکمک۔ پروردگا ر!آپ کی قضا پر صبر کرتا ہوں ۔ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اے فریاد کرنے والوں کی فریاد سننے والا ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں۔” (کلمات امام حسین ؑ ص٥١٠ )وفاداری :
معرکہ کربلا وفاداری سے بھرا ہوا نظر آتاہے ۔ہر مقام پر وفا کی ایک تصویر دکھائی دیتی ہے ۔اسی وفا داری کو دیکھ کر اباعبداللہ ؑ ارشاد فرماتے ہیں : فانی لا اعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی۔ میں نے اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اچھے اصحاب نہیں دیکھے۔” (الارشاد ج٢ص٩١)خصوصاً حضرت عباس کی وفا مشہور ہے ۔ آپ اس طرح وفا کے حامل تھے کہ اب وفا کا نام سنتے ہی حضرت عباس ذہن میں آتے ہیں ۔ شیخ مفید کتاب ارشاد میں لکھتے ہیں کہ جب شمر ملعون آیا اور کہا کہ : انتم یا بنی اختی آمنون ۔اے میری بہن کے فرزندو!تم امان میں ہو۔”توحضرت عباس اور آپ کے بھائیوں نے جواب میں فرمایا کہ : ”لعنک اللّٰہ ولعن امانک اتؤمننا وابن رسول اللّٰہ لا امان لہ۔تم اور تمہارے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو، کیا تو ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسول خدا ؐ کے فرزند کیلئے امان نہیں ہے۔”(الارشاد ج٢ ص ٨٩)
کتاب”اعیان الشیعہ ”میں حضرت عباس ؑ کا جواب اس طرح سے موجود ہےتبت یداک ولعن ما جئتنا بہ من امانک یا عدواللّٰہ اتأمرنا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاظمہ وندخل فی طاعۃ اللعناء ۔ اے دشمن خدا وای ہو تجھ پر ، لعنت ہو تمہارے امان پر ۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی وآقا حسین ؑابن فاطمہؑ کو چھوڑ دیں اور لعینوں کی اطاعت کریں۔(اعیان الشیعہ ج١١ص٤٧٧)دریا ئے فرات پر جب آپ کا قبضہ ہوااس وقت آپ تین دن سے پیاسے تھے اور پانی آپ کی دسترس میں تھا لیکن آپ فرماتے ہیں کہ: واللّٰہ لا اذق الماء وسیدی الحسین عطشاناً۔ خدا کی قسم میں پانی کو نہیں چکھوں کا کیونکہ میرا آقا حسین پیا ساہے۔(سوگنامہ آل محمدص٣٠٤)
عباس کی وفا ایسی تھی کہ دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔جب وہ علم جسے حضرت عباس نے اٹھایا ہوا تھا یزید کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے تو یزید دیکھتا ہے کہ اس پرچم میں کوئی جگہ سالم نہیں ہے اور پوچھتا ہے کہ اس علم کوکس نے اٹھارکھاتھا ۔ جواب ملا عباس ابن علی ؑ،تو کہنے لگا:ھکذا یکون وفا الاخ لاخیہ۔بھائی کی وفاداری بھائی سے اس طرح ہونی چاہیے۔”(سوگنامہ آل محمد ص٣٠٠)
امام ؑ کے عزیزوں کے علاوہ آپ ؑ کے اصحاب بھی وفا کے پیکر تھے ۔ حضرت مسلم ابن عوسجہ فرماتے ہیں کہ : واللّٰہ لو علمت انی اقتل ثم احیا ثم احرق ثم احیا ثم اذری یفعل بی ذالک سبعین مرۃ ما فارقتک۔ خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور جلاکر راکھ کیا جائے پھر اسے ہوا میں اڑایا جائے گا، اسی طرح ستر بار یہ عمل دہرایا جائے تب بھی میں آپ کوچھوڑوں کر نہیں جاؤں گا۔”(الارشاد ج ٢ض٩٢ )بڑے تو بڑے ہیں کربلا میں ہمیں بچے بھی وفا کے علمبردارنظر آتے ہیں ۔ شام غریبان میں جب حضرت سکینہ کو پانی دیا گیا تو آپ پانی کو لے کر مقتل کی طرف جانے لگتی ہیں تاکہ اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر کو پانی پلائے جبکہ حضرت سکینہ تین دن سے پیاسی ہیں۔
غیرت :
امام حسین ؑ اورآپ کے اصحاب غیرت کے پیکر تھے ۔ امام نے یہ کبھی گوارا نہیں کیا کہ جیتے جی کوئی اہل حرم کے خیموں کی طرف جائے یا اہل حرم خیموں سے باہر آئیں ۔حتی اس وقت بھی جب آپ ؑ زخمی حالت میں تھے اور حضرت زینب ؑ آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی تو فرمایا بہن زینب واپس خیمہ میں جاؤ میں ابھی زندہ ہوں۔اول سفر سے ہی حضرت عباس رات کو خیموں کی حفاظت کے لئے خیموں کے گرد چکر لگاتے تھے تاکہ خواتین وبچے بے خوف وہراس سو جائیں۔ حضرت امام حسینؑ جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تھے تو دشمن کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں اور کسی میں یہ جرأت بھی نہیں تھی کہ آپ کے سامنے جائے ۔ شمر ملعون کہنے لگا کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حسینؑ زندہ ہےں یا نہیں تو خیموں پر حملہ کردو۔ امام نے جب یہ سنا تو کہنی کے بل کھڑے ہو کر فرمایا :” ویلکم یا شیعۃ آل ابی سفیان ! ان لم یکن لکم دین وکنتم لا تخوفون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم ھذہ۔اے پیروان ابوسفیان ! اگر تم میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد رہو۔ (لہوف ص١٦٢، حماسہ حسینی ج ١ ص ٢٠٨)یعنی کم از کم حیا دار بنو ،خواتین اور بچوں سے تمہاری کیا دشمنی ہے ۔کوئی پوچھتا ہے :ماتقول یابن فاطمہ؟ اے فرزند فاطمہ ؑ کیا کہہ رہے ہو۔امام ؑ نے فرمایا:انا اقاتلکم وانتم تقاتلونی والنساء لیس علیھن حرج ۔میں تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے ۔عورتوں نے کیا بگاڑا ہے (حماسہ حسینی ج ١ ص ٢٠٨)
شجاعت :
امام ؑ اور اصحاب امام ؑ شجاعت کے میدان میں ہر ایک کے لئے نمونہ ہیں ۔ آپ کی طرح شجاعت کسی نے نہیں دکھائی ۔ آپ میں سے ہر ایک کو یہ معلوم تھا کہ اگر امام ؑ کے ساتھ رہے تو زندہ نہیں بچیں گے ۔ جبکہ امام ؑ نے جانے کی اجازت بھی دی تھی۔ اس کے باوجود کسی نے امام ؑ کو چھوڑ کر جانے کی کوشش نہیں کی۔کیونکہ آپ ؑ کے اصحاب میں عشق وجذبہ شہادت موجود تھا۔ اور کبھی بھی دشمن کو پیٹ نہیں دکھائی۔ آپ لوگوں کی شجاعت ہی کی وجہ سے لشکر ابن سعد دُوبہ دُو ہو کر لڑنے سے گریزکرتا تھااور سب مل کر حملہ کرتے تھے۔امام حسین ؑ کی شجاعت کو دیکھ کرحمید ابن مسلم کہتا ہے: فواللّٰہ ما رأیت مکثوراًقط قد قتل ولدہ واہل بیتہ واصحابہ اربط جأشاً ولا امضی جناناً منہ علیہ السلام۔خدا کی قسم! میں نے کسی ایسے کو نہیں دیکھاجو اتنے لوگوں کے گھیرے میں ہو اور اس کا بیٹا ، خاندان کے افراد اور اصحاب کو قتل کیا گیا ہو اور حسین ابن علی ؑ کی طرح مضبوط دل اور شجاع ہو۔ ”(الارشاد ج٢ ص١١١۔لھوف ص ١٦٢)احیاء دین :
جس دین کو رسول اسلام ؐ نے زحمتوں کے ساتھ پروان چڑھایا تھا وہ دین ظالموں اور فاسقوں کے نرغے میں آچکا تھا۔ جس طرح ان کے ضمیر مردہ ہوچکے تھے اسی طرح اسلام کی شکل بھی مسخ کر کے اسے لوگوں کے سامنے پیش کررہے تھے اور لوگ اس تحریف شدہ اور مسخ شدہ اسلام کو دین حقیقی سمجھنے لگے تھے۔امام حسین ؑ نے اس دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے نہ فقط اپنی قربانی پیش کی بلکہ اپنے اقرباء کے خون کا نذرانہ بھی اسلام کو عطا کیا۔ امام ؑ نے روز عاشوریہ مشہور جملہ ادا کیا ہے:”
لو کان دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیا سیوف خذینی
اگر دین محمدؐ میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آؤ مجھ پر ٹوٹ پڑو۔( معالم المدرستین ج٣ ص٣٠٣ )
یعنی اسلام کے احیاء کے لئے اگر حسین ؑ کے خون کی ضرورت ہے تو میں اس قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
اسی طرح حضرت عباسؑ کا یہ شعر جب آپ کا دایاں ہاتھ جدا کیا گیاتو آپ نے فرمایا:”
واللّٰہ ان قطعتم یمینی انی احامی ابداً عن دینی
خدا کی قسم! اگر چہ تم نے میرا دایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین کی حمایت کروں گا۔” ( مناقب آل ابی طالب ؑ ص٢٥٦ )نتیجہ :
عاشوراایک ایسا مکتب ہے جو انسان سازی کرتا ہے۔ اس مکتب میں امام حسین ؑ ایک انسان ساز کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عاشورا ایک حادثہ نہیں جو واقع ہونے کے بعد اس کے آثار ختم ہوگئے، بلکہ ایک ایسا مکتب ہے جس میں ایمان، صبر ورضا،شجاعت وشہادت،ایثار ووفااور غیرت وجہادکا درس اب بھی موجود ہے۔ عاشورا اگرچہ ایک دن میں واقع ہوا اور اس میں لوگوں کی ایک قلیل تعداد موجود تھی لیکن واقع میں ہر وہ شخص موجود تھا جس کے اندر انسانیت کا درد موجود ہے۔ کربلا میں اگرچہ ظاہراً شکست ہوئی لیکن واقع میں دنیا کے ہر اس ظالم کو شکست دی جو اس قصد سے آگے بڑھتا ہے کہ حق کو ختم کر دے گااور باطل کا پرچار کرے گا۔
اسلام دین حق ہے اور اس دین حق کو حسین ؑ نے بلند کیا اور باطل کو سرنگون کردیا اور رہتی دنیا تک کو یہ بتا دیا کہ رسول اسلامؐ کا یہ فرمان سچا ہے:الاسلام یعلو ولا یعلی علیہمنابع
١)قرآن مجید،ترجمہ وحاشیہ شیخ محسن علی نجفی
٢)بحار الانوار
٣)احتجاج طبرسی
٤)الارشاد
٥)لہوف
٦)تاریخ طبری
٧)ا لعوالم
٨)مفاتیح الجنان
٩)کلمات الامام الحسین ؑ
١٠)حماسہ حسینی
١١)اعیان الشیعۃ
١٢)سوگنامہ آل محمدؐ
١٣)مصارع الشھداء ومقاتل السعدائ
١٤)وسائل الشیعہ
١٥)مثیر الاحزان
١٦)اصول کافی
١٧)مناقب آل ابی طالب
١٨)مقتل الحسین ؑ
١٩)حیاۃ الامام الحسین ؑبن علی ؑ
٢٠)اخبار الطوال
