پیام کربلا

تحریر: سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

راہ حق پرچلنے والے جانتے ہیں کہ نماز عشق کا وضو خون سے ہوتاہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے،تاریخ کے حافظے سے بڑے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال ،شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتاہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی ،بلکہ کبھی کبھی تو جب صدیاں کروٹیں لیتی ہیں اور تاریخ کسی نازک موڑ پر پہونچتی ہے تو خون کی سچائی پھر آواز دیتی ہے اور اس کی چمک میں پھر معنویت پیدا ہوجاتی ہے۔لیکن یہ انوکھی آواز اسی وقت کانوں سے ٹکراتی ہے یا اس کربناک آواز کا خصوصی پیام اسی وقت مشعل راہ بنتاہے جب قوموں کا ضمیر بیدار ہوتاہے ۔

پیکر صبر و رضا ،سید اہل وفا ،نور دیدۂ مرتضیٰ ،شاہزادۂ بتول ،جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت امام حسین مظلوم نے کربلا کے المناک اور وحشت ناک روز وشب میں اپنے قیمتی لہو سے عالم انسانیت کے لئے بہت سے پیغامات تحریر کئے ہیں جن میں علم ،حلم ،اخلاق ،اخوت ،صداقت ،طہارت ،عبادت ،شرافت ،ایثار وقربانی ،فداکاری ،محبت ،مروت ،دینداری ،اعلان حق اور انکار باطل سر فہرست ہیں جو رہتی کائنات تک ہر فرد بشر کو حقیقی زندگی کا احساس دلاتے رہیں گے ،لیکن آپ نے ایک پیام خصوصیت سے عالم اسلام کے لئے چھوڑاہے اور وہ ہے ”قرآن سے خصوصی تعلق اور بے پناہ مظالم میں اس سے خصوصی تمسک ”۔

روایت میں ہے کہ نویں محرم کو عمر سعد نے عصر کے وقت اپنے سپاہیوں میں اعلان کیا : اے سپاہیو! محاصرہ تنگ کرو ، اپنے کو خیام حسینی کے قریب پہنچاؤ۔جب فوج اشقیاء قریب آئی تو امام علیہ السلام نے اپنے بھائی جناب عباس سے فرمایا : اے میرے بھائی ! میری طرف سے اس قوم سے جاکر پوچھو کہ کس لئے آئے ہیں ،ان کا ارادہ کیاہے ؟

حضرت عباس بیس سواروں کو لے کر فوج اشقیاء کے قریب پہونچے اور پوچھا کہ تمہارا مقصد کیاہے اور کیوں آئے ہو ؟

دشمن نے کہا کہ امیر کا فرمان صادر ہوا ہے کہ یاتو بات مانو یا پھر ہم تم سے جنگ کریں گے ۔ حضرت عباس نے واپس آکر امام کی خدمت میں سارا ماجرا سنا دیا ۔ اس وقت امام علیہ السلام نے مثالی نمونہ قائم کرتے ہوئے جناب عباس سے فرمایا :بنفسی انت یااخی …”اے میرے بھائی ! میری جان تم پر قربان ،دشمن کی طرف جائو اور کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دو تاکہ ہم آج رات نماز ، استغفاراور مناجات الہی بجا لاسکیں”۔

پھر آپ نے فرمایا :وھو یعلم انّی احب الصلوة و تلاوة الکتابة و کثرة الدعاوالاستغفار”اور خدا جانتاہے کہ میں نماز ،تلاوت قرآن ،کثرت دعا اور استغفار کو پسند کرتاہوں”۔ (١)

مہلت کے بعد صرف امام نے تلاوت نہیں کی بلکہ ہر خیمہ میں عبادت و ریاضت کا عجیب و غریب سماں تھا ،اس تلاوت کی وجہ سے ایسی نورانی فضا قائم ہوئی کہ ارض کربلا سے آسمان تک نور کا یہ انوکھا سلسلہ پوری رات جاری رہا۔روایت میں ہے کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب دعا ، تلاوت قرآن اور نماز و مناجات میں اس طرح مشغول رہے کہ : و لھم دوی کدوی النحل مابین راکع و ساجد و قائم و قاعد ” ان کا زمزمہ ایسا تھا جیسے شہد کے چھتے میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے ، بعض رکوع میں تھے ، بعض سجدے میں ، بعض قیام اور بعض قعود کی حالت میں تھے ”۔(٢)

آپ نے قرآن دوستی اور تمسک بالقرآن کا یہ خصوصی پیام صرف اپنی زندگی میں نہیں دیا بلکہ جب عصر عاشور آپ کے سروتن میں جدائی کی گئی اور آپ کے سر اقدس کو نوک نیزہ پر بلند کیا گیا توآپ نے سورۂ کہف کی معجزانہ انداز میں تلاوت کرتے ہوئے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا دردناک سفر طئے کیا اور اپنی تلاوت کے ذریعہ آنے والی تمام نسلوں کو باور کرایا کہ دیکھو ”اہل بیت اور قرآن میں کتنا گہرا ارتباط ہے”۔

بلند نیزے پہ قرآں سنا رہے ہیں حسین

یہ ربط عترت و قرآں بتا رہے ہیں حسین

(شعور گوپال پوری مرحوم)

 

متعدد روایتوں میں ہے کہ امام حسین کے سر مقدس نے کوفہ میں قرآنی آیات کی تلاوت کی ، چنانچہ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ابن زیاد نے حکم دیا کہ امام حسین کے سرمقدس کو کوفہ کی گلیوں اور کوچوں میں پھرایا جائے ۔ زید بن ارقم کا بیان ہے : میں نے دیکھا کہ امام کا سر نوک نیزہ پر ہے اور وہ اس آیت کی تلاوت کررہاہے : (اَمْ حَسِبْتَ َانَّ َصْحَابَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا)”کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ کہف و رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز نشانی تھے”۔(٣)

میں نے گھبرا کر آواز دی : راسک یابن رسول اللہ اعجب و اعجب ” اے فرزند رسول !آپ کا سر اس سے کہیں زیادہ تعجب انگیز ہے ”۔(٤)

یہ بھی منقول ہے کہ سر مقدس کو ایک لکڑی پر آویزاں کردیاگیاتھا ، اطراف کے بہت سے لوگ وہاں جمع ہوگئے ، انہوںنے ایک نور دیکھا جو زمین سے آسمان تک ساطع تھا اور سنا کہ سر مقدس اس آیت کی تلاوت کررہاہے :(و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون)۔(٥)

امام مظلوم نے اتنے شدید مظالم اور سخت ترین مصیبتوں کے درمیان تمسک بالقرآن کا خصوصی پیام ہمارے لئے چھوڑاہے کہ جب زندگی کی راہیںتنگ ہوجائیں،مصائب ومتاعب کا چاروں طرف سے حملہ ہو تو ایسے میں قرآن کے ابدی نور کے ذریعہ تنگ راستوں کو عبور کرنا اور مصیبت و پریشانی سے نجات کا ذریعہ اسی قرآن کو قرار دینا ۔

لیکن ذرا نگاہ اٹھا کر گھروں کا جائزہ لیجئے تو احساس ہوگا کہ جس پیام کو امام نے اپنے رنگین قیمتی خون سے تحریر کیا اور جسے پہونچانے میں اپنی بے پناہ شدت احساس کا مظاہرہ فرمایا،ہم نے اسے حاصل کرنے میں اتنی ہی سستی دکھائی،گھروں میں قرآن ہے لیکن طاقوں کی زینت بنا ہوا ایک قاری کی تلاش میںسرگرداں ہے مہینوںبعد اگر کسی کو احساس ہو جاتاہے تو اٹھاکر اس کے گردوغبار کو صاف کرکے پھر اسی مقام پر رکھ دیتاہے ،گویا یہ قرآن کا حقیقی احترام ہے جو ایک مسلمان اپنی زندگی میں پیش کررہاہے ۔

افسوس تو یہ ہے کہ ہم خود کو اہل بیت کا حقیقی چاہنے والا کہتے ہیں ،قرآ ن کااصلی پیرو کار مانتے ہیں لیکن ان سے تمسک کاانداز انتہائی عامیانہ ہے اور اسی عامیانہ تمسک نے پورے عالم اسلام کو خصوصاً عالم تشیع کو گرداب مصائب میں پھنسا دیاہے ۔

آج جب کہ ہر طرف ظلم و جور کا بازار گرم ہے،مصائب و آلام اپناپھن پھیلائے ڈسنے کو تیار ہیں اور جور و جفا کا تاریک سایہ چہارسو پھیلا ہوا ہے تو ضروری ہے کہ عاشور اکے اس پیام کو جسے شہید راہ حق نے اپنے خون سے تحریر کیاہے پھر سے زندہ کیاجائے اور قرآن دوستی کا بہترین اور حقیقی ثبوت پیش کیاجائے …..ورنہ ایک دن وہ آئے گا جب …ہاں! جب اسلام تو زندہ رہے گا لیکن اسلام کے ماننے والے آہستہ آہستہ صفحۂ ہستی سے ختم ہوتے جائیں گے ۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ

_________________

حوالہ جات:

١۔ نفس المہموم ص ١١٣؛ تاریخ طبری ج٦ ص ٣٣٧

٢۔ بحار الانوار ج٤٤ ص ٣٩٤؛ نفس المہموم ص ١١٨

٣۔ سورۂ کہف ٩

٤۔ مناقب ابن شہر آشوب ج٢ ص ١٨٨

٥۔ مناقب ابن شہر آشوب ج٢ ص ١٨٨ ؛ مزید تفصیل ملاحظہ ہو: مقتل الحسین ، مقرم ص ٤١٢

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے