سوال:

چونکہ لڑکیوں میں جنسی شناخت (ہویتِ جنسی) مختلف عمروں میں مختلف انداز سے تشکیل پاتی ہے اور ہر عمر میں اس کی شدت یا کمزوری میں فرق ہوتا ہے، تو والدین کے باہمی رویے اور تعامل (یعنی ایک دوسرے سے اُن کا سلوک) اس عمل میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟

اور یہ تعلق کس عمر کے مرحلے میں زیادہ مؤثر یا اہم ہوتا ہے؟

اگر ممکن ہو تو مختلف عمروں کی وضاحت بھی کریں اور ہر مرحلے کی خصوصیات کو بھی بیان کریں۔

جواب:

ماہرینِ نفسیات کی آرا مختلف ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ انسان کی شخصیت اور جنسی شناخت ایک خاص عمر میں بنتی ہے، لیکن دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ شخصیت ایک مسلسل عمل ہے، یعنی یہ وقت کے ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہے

میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ انسان کی شخصیت اور شناخت وقت کے ساتھ ترقی کرتی ہے، اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ جنسی شناخت بھی ایک تدریجی اور جاری عمل ہے، جو پورے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے دوران بنتی ہے۔

البتہ، کچھ خاص عمریں ایسی ہیں جو اس عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں:

1. عمر کا پہلا اہم مرحلہ: تین سے چھ سال

یہ وہ عمر ہے جب بچہ پہلی بار اپنے جسم، مرد و عورت کے فرق، خوبصورتی، اخلاقی قدروں اور "میں کون ہوں” جیسے سوالات سے واقف ہونے لگتا ہے۔ اس عمر میں بچے کے ذہن میں جنسی شناخت کی بنیاد بنتی ہے — یعنی اسے سمجھ آتی ہے کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا اور اس کیسا ہونا چاہیے۔

2. دوسرا اہم مرحلہ: بلوغت اور نوجوانی (تقریباً 12 سے 18 سال)

اس عمر میں لڑکیاں اور لڑکے پہلی بار یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اب بڑے ہو رہے ہیں اور انھیں بڑے لوگوں جیسے کردار ادا کرنے ہیں۔

یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے، کیونکہ اگر بچپن میں کوئی کمی رہ گئی ہو، تو اس عمر میں اسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اسی عمر میں بچہ اپنی شناخت کو مضبوط بھی کرتا ہے۔

3. درمیانی عمر: چھ سے بارہ سال

یہ وہ عمر ہے جب بچہ ابتدائی اسکول میں ہوتا ہے۔ عام طور پر اس عمر میں بیٹیوں کو اپنی نسوانی شناخت سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن یہ مرحلہ تربیت اور سیکھنے کے لحاظ سے بہت اہم ہوتا ہے۔

اگر اس دور میں اچھی تربیت ملے، تو بعد کے مراحل میں شناخت زیادہ پختہ ہوتی ہے۔

4. اٹھارہ سال کے بعد کا مرحلہ

اس عمر کے بعد شخصیت اور جنسی شناخت میں تبدیلی ممکن تو ہوتی ہے، لیکن بہت مشکل ہو جاتی ہے۔

اب اس کے لیے کسی خاص اور مضبوط محرک کی ضرورت ہوتی ہے — جیسے کوئی بہت گہرا جذباتی تجربہ یا کوئی ایسا واقعہ جو انسان کو جھنجھوڑ دے۔

مثال کے طور پر، میرے مشاورتی تجربے میں ایک لڑکی تھی جس کے رویوں میں لڑکوں جیسی سختی نظر آتی تھی۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ایک مرد سے دل لگا بیٹھی۔

اس مرد نے صاف کہا: "تمہارے انداز بہت مردانہ ہیں، جبکہ میں ایک نرم دل، نسوانی مزاج والی لڑکی کا خواہش مند ہوں۔”

یہ جملہ اس لڑکی پر بہت گہرا اثر کر گیا، اور رفتہ رفتہ وہ اپنے سخت لہجے اور انداز سے دور ہو کر ایک نرمی اور نسوانیت والی لڑکی بن گئی۔

لیکن یہاں ایک اہم نکتہ ہے: یہ تبدیلی اسی وقت دیرپا ہو سکتی ہے جب وہ جذباتی محرک یعنی وہ رشتہ یا شخص، مستقل موجود رہے۔ اگر وہ تعلق ختم ہو جائے، تو لڑکی کا واپس پرانی حالت میں چلے جانا ممکن ہے۔

یہی بات ذہنی سوچ یا عقیدے کی تبدیلی کے بارے میں بھی درست ہے: انسان کی سوچ کو بدلنے کے لیے صرف نصیحت کافی نہیں، بلکہ ایک گہری فکری یا روحانی تحریک درکار ہوتی ہے۔

سوال دوم:

اگر گھر میں ایک ماں اپنی بیٹی کی جنسی شناخت کے بارے میں فکرمند ہو، کیونکہ یا تو باپ جذباتی تعلق قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یا سرے سے تعلق ہی نہیں رکھتا، یا پھر میاں بیوی کے درمیان "جذباتی طلاق” ہو چکی ہے یا قانونی طور پر بھی علیحدگی ہو چکی ہے— تو ایسی صورت میں جب باپ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا، اور ماں کی کوششیں بھی بےسود رہی ہیں، تو وہ ماں کیا کر سکتی ہے تاکہ بیٹی کو پہنچنے والے نفسیاتی و شناختی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے؟

جواب:

ایسے حالات میں دو بنیادی قدم اٹھائے جا سکتے ہیں:

1. سب سے پہلا اور آسان حل: کسی اچھے مشیر (کاؤنسلر) سے مدد لی جائے۔

یہ بات بہت اہم ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ابھی بھی بچوں کے تربیتی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

جب کوئی جسمانی بیماری یا چوٹ لگتی ہے تو فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر مریض کہے کہ "مجھے کچھ نہیں ہوا”، تو بھی لوگ اصرار کرتے ہیں کہ وہ معائنہ کروائے۔

لیکن اگر کسی بچے کی شخصیت یا سوچ میں پریشانی نظر آئے، تو عموماً والدین خود کو مشیر سے رجوع کرنے کا پابند نہیں سمجھتے۔

حالانکہ طلاق، جذباتی علیحدگی یا والد کی وفات جیسے واقعات بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔

اگر ماہر مشیر کی مدد نہ لی جائے، تو یہ اثرات لمبے عرصے تک بچے کی نفسیات کو متاثر کر سکتے ہیں۔

2. دوسرا اہم نکتہ: ماں کو چاہیے کہ وہ خود ایک بہترین ماں کا کردار ادا کرے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کو اپنی نسوانی شناخت کو ہر حال میں محفوظ رکھنا چاہیے۔

حال ہی میں ایک روایت دیکھی جس میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے زیور پہنا ہوا تھا۔

جب کسی خاتون نے اس بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "میں مردوں کی طرح دکھائی نہیں دینا چاہتی۔”

یہ روایت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عورت کو حتی الامکان اپنی نسوانی پہچان کو قائم رکھنا چاہیے۔

اگر کوئی ماں اکیلے زندگی گزار رہی ہو—چاہے طلاق کی وجہ سے، یا شوہر کے انتقال کی وجہ سے—تو ضروری ہے کہ وہ بار بار یہ نہ کہے کہ

"میں ہی مرد ہوں”، "میں ہی سب کچھ سنبھال رہی ہوں”، "میں خودمختار ہوں” وغیرہ۔

ایسا کہنے سے وہ غیر ارادی طور پر مردانہ رویے اپنانے لگتی ہے اور اپنی نسوانیت کھو بیٹھتی ہے۔

بلکہ اسے چاہیے کہ اگرچہ زندگی کے کچھ ذمہ داریاں مردانہ نوعیت کی بھی نبھانی پڑیں، تب بھی وہ اپنے اندر حیا، نرمی، وقار اور خواتین کے مخصوص رویوں کو باقی رکھے۔

اگر ماں ایسا طرزِ عمل اپنائے، تو وہ اپنی بیٹی کے لیے ایک مثبت مثال بن سکتی ہے—ایک ایسی عورت کی جو مضبوط بھی ہے، خودمختار بھی ہے، اور پھر بھی نسوانی خوبیوں سے بھرپور ہے۔

ایسی ماں کو دیکھ کر بیٹی یہ سمجھتی ہے کہ "میری ماں کی زندگی میں آزمائش آئی ہے، لیکن عورت ہونا کوئی بدقسمتی نہیں ہے۔”

یہ فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ماں اس توازن کو برقرار رکھے، تو وہ بیٹی کو جذباتی اور شناختی نقصان سے بڑی حد تک بچا سکتی ہے۔

سوال سوم:

اگر کسی گھر میں ایک ہی بیٹی ہو اور اس کے اردگرد بھائی ہوں—مثلاً دو یا زیادہ بھائی—تو چونکہ اس کے بچپن کے کھیل کے ساتھی یہی بھائی ہوتے ہیں، تو کئی بار لڑکوں والے رویے اور عادتیں اس میں آجاتی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ:

1. کیا بچپن سے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے سے بیٹی کی جنسیتی شناخت پر اثر پڑ سکتا ہے؟

2. اگر ہاں، تو والدین کیا کریں کہ بیٹی کی نسوانی شناخت محفوظ رہے اور اس پر منفی اثر نہ پڑے؟

جواب:

اس سوال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ایک سادہ مثال دیکھیں:

اگر کسی جگہ پانچ لڑکیاں اور ایک لڑکا ہو، تو زیادہ امکان ہے کہ وہ سب لڑکیوں والے کھیل کھیلیں گے، جیسے گڑیا کھیلنا، خالہ خالہ کھیلنا وغیرہ، اور وہ لڑکا بھی اسی کھیل میں شامل ہو جائے گا۔

اور اگر کسی اور موقع پر زیادہ تعداد لڑکوں کی ہو، تو کھیل لڑکوں والے ہوں گے، مثلاً فٹبال، کرکٹ، یا شور شرابے والے کھیل، اور لڑکیاں بھی ان کے ساتھ ویسے ہی کھیلیں گی۔

یعنی بچوں کا کھیل اور رویہ اس ماحول سے متاثر ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں۔

اب اگر کسی گھر میں دو یا زیادہ بھائی ہوں اور ایک ہی بہن ہو، تو قدرتی طور پر وہ لڑکوں کے ساتھ بڑے ہونے کی وجہ سے اُن جیسا برتاؤ سیکھنے لگتی ہے۔ ان کے کھیل، ان کی بات چیت، اُن کا اندازِ زندگی سب اس بیٹی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

یعنی ہاں، اس ماحول کا لڑکی کی شخصیت اور جنسیتی شناخت پر اثر ہوتا ہے۔

لیکن اس کا حل کیا ہے؟ والدین کیا کریں؟

اس کا حل تین آسان مگر اہم اقدامات (یا تربیتی تدابیر) میں دیا جا سکتا ہے:

1. ماں کو بیٹی کے ساتھ مضبوط اور پیار بھرا رشتہ بنانا چاہیے۔

ایسا رشتہ جس میں ماں بیٹی کے ساتھ "لڑکیوں والے کھیل”، نرمی اور محبت سے بھرپور رویے، اور عورتوں کی خصوصیات کا اظہار کرے۔

ایسا رشتہ بیٹی کے ذہن سے "لڑکوں جیسا بننے” کا رجحان کم کرتا ہے اور اُسے بتدریج سکھاتا ہے کہ "عورت ہونا” ایک خاص پہچان اور خوبصورتی رکھتا ہے۔

2. بیٹی کو اپنے جیسے ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ دوستی کرنے کا موقع دیا جائے۔

یعنی محلے کی بچیاں، رشتہ داروں کی بیٹیاں یا اسکول کی سہیلیاں، جن کے ساتھ وہ وقت گزار سکے، کھیل سکے، اور لڑکیوں والا ماحول محسوس کر سکے۔

لیکن یہ بات ضروری ہے کہ جب وہ لڑکیوں کے ساتھ ہو، تب بھی لڑکوں والے کھیل یا انداز نہ ہو، بلکہ اصل مقصد یہ ہو کہ لڑکی، اپنے عورت ہونے پر فخر کرے اور لڑکیوں جیسا برتاؤ اپنائے۔

3. والدین کو خود لڑکوں اور لڑکیوں کے جذباتی و اخلاقی فرق کو بیٹی کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔

مثلاً ماں یا باپ کہے: "دیکھو، لڑکیاں بہت نرم دل ہوتی ہیں، تم بھی اپنے بھائی کا خیال رکھو، پانی لا دو، تم تو بہت اچھی بہن ہو”۔

ایسی محبت بھری باتوں سے بیٹی کے ذہن میں عورت ہونے کی قدر پیدا ہوتی ہے، اور وہ خود کو "مضبوط، پیاری اور نرم دل لڑکی” کے طور پر دیکھنے لگتی ہے۔

ایک اور اہم بات:

تربیت ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف ایک وجہ سے کوئی بچہ ایسا یا ویسا بن جاتا ہے۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ "صرف لڑکوں کے ساتھ کھیلنے” کی وجہ سے بیٹی کی نسوانی شناخت متاثر ہو گی۔

بہت سے دوسرے عوامل بھی ہوتے ہیں—جیسے اسکول کا ماحول، میڈیا، خاندان، ماں باپ کا رویہ وغیرہ—جو بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

بعض لڑکیاں بھائیوں کے درمیان بڑی ہو کر بھی مکمل متوازن اور نسوانی رویہ رکھتی ہیں، اور بعض لڑکوں کا برعکس ہوتا ہے۔

لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول ایسا بنائیں جس میں بیٹی کو اپنی نسوانیت پر فخر ہو، اور وہ اپنے آپ کو ایک باوقار، سمجھدار اور نرم خو لڑکی کے طور پر دیکھے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے