مقالہ نگار: علی منتظری
مقدمہ

مقام و عظمت انسان، یہ ایک ایسا موضوع ہے جو بظاہر آسان دکھتا ہے لیکن اس پہ اختلاف نظر اس حد تک عمیق ہے کہ شاید عبور کرنا ہر عام و خاص کی بس کی بات نہ ہو کیونکہ انسان کے مقام و عظمت کے متعلق دنیا میں مختلف قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ مادہ پرست لوگوں کا ہوتا ہے اور دوسرا خدا پرستوں کا نظریہ ہوتا ہے۔ اسلام کے ماننے والے خدا پرستوں کی الگ سوچ ہوتی ہے وہ انسان کے لئے الگ عظمت کے قائل ہوتے ہیں تو وہی پر مغربی لوگ، مغرب پسند، مادہ پرست لوگ انسان کے لئے ایک الگ عظمت کے قائل ہیں۔ دو گہرے متضاد اورباریک راستے ہیں۔ ایک مغربی تہذیب اور دوسرا اسلامی تہذیب کے ترجمان ہیں۔مغرب دین اسلام سے اس قدر متنفر ہے کہ وہ اسلام مخالف نظریات اور آزادی کے گمراہ کن نعروں کا وسیلہ بنا کر اپنی قوم کو لے کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، گمراہ ہو رہے ہیں اور کوئی سہارا بھی نہیں ہے۔دوسری طرف اسلام کے سنہرے اور نایاب نظریات و تعلیمات جو اس انسان کو مقام و احترام بخشتے ہیں، اسکی عظمت و وقار کے قائل ہیں، حیات بخش اور امن بخش ہیں، جو انسان کو سعادت و کمال کی راہ میں گامزن رکھتے ہیں۔
ظاہر ہے انسان کا مقام و احترام کا پتہ اس کے اعمال و نظریات اور حقوق و فرائض سے چلتا ہے۔ نظریات جس قدر عظیم ہوں مقام اتنا ہی بلند ہوتا ہے۔ نظریات جتنے شفاف ہوں شخصیت نکھر جاتی ہے اور جس قدر اسکے حقوق و فرائض بلند ہوں گے اتنا ہی اسکا درجہ بھی بلند ہوگا۔ وہ با عظمت بنے گا اور دونوں جہاں میں سرخروئی اس کا مقدر ہوگا۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیے دیا گیا ہے کہ انسان پر جو عائد ذمہ داریاں ہیں وہ اسے عروج بخشتی ہیں جب وہ ان عائد ذمہ داریوں کو پوری کرے گا تو وہ اس شرف کا مستحق کہلا سکتا ہے وگر نہ انسان کا مقام جانوروں سے بھی بدترین ہوگا جب وہ اپنے فرائض اور حقوق سے خود کو مبراسمجھے۔
اسی عنوان پر یہاں ان دونوں نظریات کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔

  1. مغربی نظریہ
  2.  اسلامی نظریہ

اسلامی نقطہ نظر سے اپنے موضوع کے تناظر میں مولا ئےکائنات کے زرین اقوال کی طرف زور دیا گیا ہے۔ یہ اس لئے بھی کہ ہر موضوع کلام امیرالمومنین علیہ السلام کے بغیر تام نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ہم ہی اقلیم سخن کے فرمان رواں ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت انسان کا مقام و رتبہ بہت بلند و ارفع ہے۔ آپ علیہ السلام کا ہی فرمان مبارک ہے کہ انسان کی کم سے کم قیمت جنت ہےاس سے کم پر سودا کرنا حق نہیں بنتا ہے۔ اسی سے ہی صاحبان عقل و خرد کے لئے مقام انسان واضح ہوتا ہے۔اسی طرح ہر دیندارو خدا پرست انسان کے لیے ضابطہ حیات موجود ہوتا ہے تو وہ راستے سے بھٹک نہیں سکتا ہے۔ وہ مغرب کی رنگینیوں سے دھوکہ نہیں کھا سکتا کیونکہ اس کی منزل واضح ہے اور اس کے رہنما سچے ہیں جو اسے کبھی بھی گمراہ نہیں کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں ان سے جڑے رکھے اور ہمیں ان کے ساتھ محشور فرمائیں۔

با عظمت انسان کو پہچاننے کا معیار

اسلام کے نقطہ نگاہ کے مطابق کامل انسان کو پہچاننے کے دو طریقے ہیں۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں قرآن اور سنت نے اپنے بیانات میں کامل انسان کی تعریف کیسے کی ہے۔قرآن میں کامل مسلمان اور کامل مومن کا ذکر آیا ہے لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ کامل مسلمان کے معنی ایک ایسے انسان کے ہیں جو اسلام میں کمال کو پہنچا ہو اور کامل مومن سے مراد وہ انسان ہے جو ایمان کی بدولت کمال کو پہنچا ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہےکہ ہم ان انسانوں میں سے معیاری افراد کو پہچاننے اور انہیں اپنے لیے نمونہ بنائے ہیں۔ان افراد کو جن کے بارے میں ہمیں اطمینان ہو کہ وہ درجہ کمال پر پہنچ چکے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو اسی انداز میں ڈھالا ہے جیسے خدا چاہتا ہے اور جیسا اسلام چاہتا ہے۔
اسلام کا مطلوبہ کامل انسان فقط ایک تصوراتی خیالی اور ذہنی انسان نہیں کہ جس کا کوئی ظاہری وجود نہ ہو ایسا اس لیے نہیں کہ بہت سے افراد ایسے گزرے ہیں جو انسانیت کے بلند ترین مدارج پر فائز ہوئے یا اس سے ایک یا دو درجے نیچے تک پہنچے۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسلام انسان کامل کا ایک نمونہ ہے اور امام علی علیہ السلام کامل انسان کا ایک اور نمونہ ہے۔اس لیے علی ؑکی پہچان کامل انسان کی پہچان ہے لیکن یہ علی کی پہچان ہونی چاہیے نہ کہ ان کے نام و نسب سے ان کی رسمی پہچان ہو کیونکہ علیؑ کی پہچان کے مانی ان کے شخص کی پہچان نہیں بلکہ ان کی شخصیت کی پہچان ہےجو اپنےآپ کو اس نمونے کے طرز پر ڈالے تو پھر ہم اس انسان کامل کے شیعہ کہلا سکتے ہیں۔ بقول شہید ثانی شیعہ وہ ہے جو امام علی کی مشایعت کرے۔
امیر المومنین کی شخصیت ایک کامل ترین انسان کی شخصیت ہے جس کی عظمت کا اعتراف دوست و دشمن سبھی نے کیا ہے۔ غیر شیعہ کی غیر مسلم مصنفین نے بھی آپ پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اسی طرح شعراء کرام نے اپنی مختلف شاعری میں علیؑ کی عظمت کو پیش کیا ہے۔ میر انیس فرماتے ہیں۔
جب نام علی منہ سے نکل جاتا ہے
گرتا ہوا انسان سنبھل جاتا ہے
کیا نام ہے اس نام کے قربان انیس
گر کوہ مصیبت ہو تو ٹل جاتا ہے
امیر المومنینؑ کی شخصیت ایک کامل ترین انسان کی شخصیت ہے۔
اگرچہ ہم سب اس بات کے معتقد اور معترف ہیں کہ علیؑ کا سا جہاں نہ ہو سکا ہے اور نہ ہوگا۔
طول تاریخ میں یہی دیکھا گیا ہے کہ آپ دنیا کے بڑے بڑے مفکرین چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان کو دیکھیں وہ لوگ امیر المومنینؑ کی نسبت اظہار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے وہ بزرگ جنہوں نے اپنی قوم و ملت کے حق کو حاصل کرنے کے لیے پرچم بغاوت بلند کیا۔ ان سب کی نگاہوں میں امیر المومنینؑ معزز ہیں۔شعراء، ادباء، فنکار اور انسان دوست حضرات کو دیکھے تو وہ بھی آپ کو کلمہ پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔المختصر وہ جوان ہو یا بوڑھا عالم ہو یا جاہل، اگر تاریخ اسلام سے آشنا ہے یا امیر المومنین ؑ کا نام اس کے کانوں سے ٹکرایا ہے اور آپ کی حالت زندگی سے واقفیت رکھتا ہے تو وہ آپ سے محبت اور مودت کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔امیر المومنین ؑ کی ذات ایک بحر بیکراں ہے۔ جس طرف سے بھی وارد ہوئے فضائل و مناقب کا ایک سمندر ہے اس لیے کوئی مختصر جامع تصور مخاطب کے حوالے نہیں کیا جا سکتا کہ کہاں جائے یہ ہیں امیر المومنینؑ، البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ کے مختلف پہلوؤں کو اپنی فکر و ہمت کے مطابق پیش کر سکتے ہیں۔
بہرحال آپ ایک کامل مومن تھے یعنی ایک فکر ایک عقیدہ اور ایک ایمان یہ آپ کے وجود مبارک میں راسخ تھا اب ذرا آپ خود یہ بتائیں کہ آخر کس کے ایمان سے حضرت علی ؑ کے ایمان کا موازنہ کیا جائے کہ عظمت ایمان امیر المومنینؑ کا اندازہ لگایا جا سکے جبکہ وہ خود وہ فرماتے ہیں اگر غیب کے سارے پردے ہٹا دیئے جائیں یعنی ذات مقدس خداوند فرشتہ گان الہٰی، جہنم اور تمام باتیں جنہیں دین لانے والے بعنوان غیب بتا چکے ہیں اور میں اپنی انہی انکھوں سے ان کا مطالعہ کروں تو میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
گویا آپ کا یقین اس کے یقین کے مانند ہیں کہ جس نے ان ساری چیزوں کو اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا ہو۔ یہ ہے آپ کا ایمان اور اس کا رتبہ و مقام کے متعلق ایک عرب شاعر کہتا ہے اگرچہ ساری مخلوقات کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور ایمان علی کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو پھر بھی علی کے ایمان کو تولنا ممکن نہیں ہے۔

انسان اپنی حقیقت اور ماہیت سے غافل

اے انسان تو سمجھتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جبکہ تیرے اندر عالم اکبر سمایا ہوا ہے۔ مولائے متقیان امام علیؑ کا یہ مختصر جملہ مگر پرمغز جملہ اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ یقیناً انسان اپنی خودی کی شناخت سے غافل ہے وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے جانداروں کی طرح محض وہ بھی ایک جاندار ہے اور بس، یعنی پیدا ہوتا، ہے بڑا ہوتا ہے، کھاتا پیتا ہے، ازدواج کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے اور بالآخر ایک دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتا ہے۔اس وقت دنیا میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو دنیاوی زندگی کو ہی اپنا مقصد حیات تصور کرتے ہیں۔درحقیقت اس طرح کے نظریات و افکار انسان کا دین اور ایمان سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر انسانی زندگی سے ایمان کو نکال دیا جائے تو وہ محض مٹی کا ایک جانور رہ جائے گا کہ جو اپنےشخصی فائدے کے خاطر دوسرے ہزاروں انسانوں کا خون بہاتے ہیں، بستیوں کو ویران کرتے ہیں اور نخلستانوں کو صحراؤں میں بدلتے ہیں لیکن یہ ایمان کی طاقت ہی ہے کہ جو انسان کو کچھ حدود و قیود کا پابند کرتی ہے انسانی زندگی اور انسانی معاشرے کو ضبط عطا کرتے ہیں۔
مقام و احترام انسان کے متعلق پاۓ جانے والے دو عالمی متضاد نظریے
1۔ مغربی نظریہ
2۔ اسلامی نظریہ

انسان کے مقام و عظمت مغربی نظریات کی روشنی میں
انسان کےمعانی

ان کے ہاں Humanity کا تصور ’حقیقی انسانیت‘ کے تصور کی تردید ہے، ان معنوں میں کہ Human being عبدیت اور تخلیقیت کا اُصولاً اور عملاً انکار ہے۔جرمن مفکر عمانویل کانٹ Kant (م 1804ء)کے مطابق Human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل "Autonomy” یعنی ’خود ارادیت‘ اور’خود مختاریت‘ ہے۔
چنانچہ ’ہیومن بینگ‘ وہ تصورِ انفرادیت ہے جس کے مطابق فرد ایک self-determined and self governed being (قائم بالذات اور خود مختار ہستی) ہے۔اس انفرادیت کا بنیادی ایمان و احساس ’عبدیت‘ نہیں بلکہ ’آزادی‘ یعنی بغاوت ہے۔ انسان اپنے ربّ کی ہدایات اور رہنمائی کا مطیع ہوتا ہے جبکہ human being خود اپنا ربّ ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہےاسے کر گزرنے کا مکلف سمجھتا ہے لہٰذا ہیومن کا درست ترجمہ ’انسان ‘ نہیں بلکہ ’شیطان‘ ہے (Human is actually Demon) کیونکہ ہیومن بالکل اسی طرح اپنے ربّ کا باغی ہے جس طرح ابلیس شیطان۔ معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس کا معنی ’انسانی حقوق‘ نہیں بلکہ ’شیطانی حقوق‘ ہے۔( 1)
اس بات کا پتہ آپ کو ان کے نظریات سے چلے گا، بہترین عکاسی کرتے ہیں، آپ ان کے نظریات ملاحظہ فرمائیے ظاہر ہے انسان کی عظمت کا پتہ اس کو ملنے والے حقوق اور فرائض سے ہی اس کی عظمت کا ہم پتہ لگا سکتے ہیں اس کی اس پر عائد ذمہ داریوں کو جان کر ہی ہم اس کی عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ہمیں ملاحظہ ہوتا ہے کہ یہ مغربی نظریہ حقوق میں کس طرح مادر پدر آزادی کا محافظ ہے اور اعلی حضرت کے ذریعے یہ قوانین فروغ دیے جاتے ہیں۔

1۔ انسانی حقوق:ہم جنس پرستی اور لواطت کے محافظ

ستمبر 2018ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ کسی فرد کا جنسی رجحان اس کا انفرادی اور فطری معاملہ ہے اور ’جنسی رجحان کی بنیاد پر کسی سے تفریق برتنا اس شخص کے اظہارِ آزادی کے حق کی خلاف ورزی‘ ہے۔ ‏عدالت نے مزید کہا کہ فرد کے انتخاب کا احترام آزادی کی روح ہے۔ ہم جنس پرست برادری کو ملک کے دیگر شہریوں کی طرح آئین کے تحت برابر کا حق حاصل ہے۔ دفعہ 377 کی شقوں کے تحت مرد اور مرد یا عورت اور عورت کے درمیان سیکس کو جرم قرار دیا گیا تھا جو کہ فرد کی آزادی اظہار ہے جو کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ہمیشہ سے خالق کائنات نے انسان سمیت دیگر حیوانات میں مذکر ومؤنث کا جوڑا بنایا ہے اور یہی فطری رجحان ہمیشہ سے بھارت میں چلا آرہا تھا۔ لیکن مادر پدر آزادی کا خوگر مغربی انسان، دراصل وحی الٰہی کی رہنمائی کو فکری غلامی اور دقیانوسیت سے تعبیر کرتا ہے اور اپنی فرعونیت نواز آزادی کو روشن خیالی کا نام دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فطرت، مذہب اورالہام کی ہر شکل دقیانوسیت ہے اور تعقل و تجربیت کی ہر صورت روشن خیالی ہے۔
ہم جنس پرستی، دراصل اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور نظامِ فطرت کا کھلا انکار ہےجس میں اللہ تعالیٰ نے ایک مردو عورت کو جوڑا بنایا اور ان کے ذریعے نسل انسانی کا سلسلہ آگے چلایا۔ دنیا کے 117 ممالک میں اس وقت ہم جنس پرستی کو قانونی جواز عطا ہوچکا ہے اور ان میں ترکی، بوسنیا، مالدیپ اور بعض وسط ایشیائی سابقہ روسی ممالک بھی شامل ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد بھارت بھی ان ممالک کی فہرست میں تازہ اضافہ ہے۔
ہم جنس پرستی دراصل انسانیت پرستی کا اظہار اور اُلوہیت وتوحید کی نفی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی یورپی کے جن ممالک میں خدابیزاری کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہےوہ ہم جنس پرستی میں بھی سب سے آگے ہیں۔ ان کے بعد مشرقی یورپ کے (ایشیا کے قریب تر) ممالک میں ہم جنس پرستی کی شرح کمتر دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ میں اس بدفعل کی مقبولیت اس سے بھی کمتر درجے میں ہے۔تاہم مسلم ممالک جو دنیا کے مرکز میں ایک مسلسل زنجیر کی طرح ملے ہوئے ہیں، اس سنگین جرم کے متعلق حساسیت کا یہ عالم ہے کہ وہاں ان کے بارے میں اعداد وشمار جمع کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
دو بالغوں کے درمیان جنسی تعلق بشرطیکہ اس میں دونوں کی مرضی شامل ہو، جرم نہیں مانا جائے گا، چاہے وہ دونوں شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ عورت کو مرد کی ملکیت نہیں مانا جاسکتا اور آج کے دور میں اس طرح کے فرسودہ قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

 2۔ انسانی حقوق:قحبہ گری اور جسم فروشی کے دعویدار

شیطانی شہوات اور نفسانی خواہشات کے لئے پائے جانے والے انسانی حقوق کا مغربی راگ، ایک انسان کی عقل کو مفلوج کردیتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے ان مسلمہ جرائم کی ایسی حیاباختہ توجیہات کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے جس سے انسانیت شرمندہ ہوکررہ جاتی ہے۔ ان دنوں دہریت اور اسلام دشمنی کے مرکز ہالینڈ کے دار الحکومت ایمسٹرڈیم میں عورت کی جسم فروشی پر پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو اس فحاشی کا سب سے بڑا عالمی مرکز ہےاوریہاں کا ریڈ لائٹ ایریا بنتِ حوا کی ارزانیت کا مظہر ہے۔ عورت کو دیکھنے کو ’گھورنا‘، اس کی مرضی کے خلاف چھونے کو ’ہراساں کرنا‘، اس کے استحصال پر’می ٹو ‘Me Too کے نام سے مزاحمانہ جدوجہد کرنے والا حقوق پرست، اس عورت کی جسم فروشی کو اس کا انسانی حق قرار دیتا ہے۔(2)
1970 ء میں ان سے رقم کے عوض بدکاری کو عورت کا حق قرار دینے والے ہالینڈ میں 46 ہزار دستخطوں کی مدد سے ایسا عوامی بل پیش کرکے قومی بحث کا آغاز کیا گیا ہے جس میں یہ کہہ کر اس حرام کاری کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’اگر یہ آپ کی بہن ہوتی‘‘ اور یہ کہ ’’بدکاری عورت کا بدترین استحصال ہے، ا س سے جرائم اور بیماریوں کو فروغ ملتا ہے۔‘‘ اس کے مقابلے میں انسانی حقوق کے دعویدار کبھی اسے ’کام کے تحفظ کا حق ‘، ’میرا جسم، میری زندگی‘ کے حقوق لے آتے ہیں اور کبھی ایسے بہانے پیش کرتے ہیں کہ اس طرح بدکار عورت کو پولیس اور نگران اداروں کو بھی فیس دینا پڑے گی جس سے ان کے کمائی کے حق میں خلل آئے گا۔(3)

3۔ ربّ ذو الجلال اور والدین پر اعتراض کا حق

نفس پرست انسان اپنے انسانی حقوق کے بارے میں یہاں تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ اپنے خالق پر اعتراض کرتا، والدین کو نشانہ بناتا اور انسانیت کے خاتمے کی بات کرتا ہے چنانچہ بھارت میں ایک شخص نے اپنے والدین پر یہ کیس دائر کردیا کہ مجھے کیوں پیدا کیا؟
انڈیا کے 27 سالہ نوجوان نے اپنے والدین کے خلاف اسے بغیر اجازت پیدا کرنے پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ممبئی سے تعلق رکھنے والے رافیل سیموئیل نے کہا کہ والدین کا بچے پیدا کرنے کا عمل بالکل غلط ہے کیونکہ پھر ان بچوں کو زندگی بھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس نے کہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے پیدا کرنے کی اجازت تو نہیں لی جا سکتی لیکن پھر بھی وہ مصر ہےکہ ’پیدا ہونے کا فیصلہ ہمارا نہیں تھا۔ ‘ اور کیونکہ ہم اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہوئے ہیں تو ہمیں زندگی گزارنے کے لیے پیسے دیے جائیں۔وہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی کا اگر خاتمہ ہو جائے تو یہ زمین کے لیے بہت سودمند ثابت ہوگا۔’انسانی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اتنے لوگ تکلیف میں ہیں۔ اگر ہم یہاں نہ ہوں تو زمین کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ جانور خوش ہوں گے اور کیونکہ کوئی انسان ہی نہیں ہوگا تو کسی کو تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ یہ اس آزادی اور انسانی حق کی معراج، جو انسان کو اس تباہ کن سوچ تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ والدین پر اعتراض کرتا اور انسانیت کے خاتمے کی بات کہنا بھی اپنا حق سمجھتا ہے۔(4)

مغربی نظریات پر تنقید

انسان اور اسکی عظمت کے بارے میں مغرب کس حد تک انسان کی عظمت اور تکریم انسانیت کا داعی ہے۔ مغرب کے مادہ پرست لوگ انسان کے کسی قسم کی بھی عظمت کے قائل نہیں ہے۔ ان کی باتوں سے یہ لگتا ہے ان کے نظریات سے یہ لگتا ہے کہ وہ انسان کو ایک ادنٰی قسم کی مخلوقات سمجھتا ہے جب بھی وہ انسان کے لیے اس قسم کے حقوق و فرائض معین کیے ہیں۔ ایسی ایسی ذمہ داریاں معین کیے ہیں جن سے انسانیت کی توہین اور ہتک حرمت شمار ہوتی ہےگویا انھوں نے حرمت انسانیت کو پامال کیا ہے، انکا مستقبل دن بدن ذوال کا شکار ہے، عنقریب ڈول جائے۔
مغرب کی اس مادہ پرست تہذیب کا اقبال نے حق ادا کر دیا انہیں فرنگ کہہ کے کیا خوب کہا ہے۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صنائی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اسلام کیا کہتا ہے؟

اسلام نے عظمت و شرف کے لئے آفاقی اصول دیئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان با شرف اور با وقار بنتا ہے۔غرض اسلام نے انسان کی عظمت و بلندی بتانے کے ساتھ یہ بات بھی بتادی ہے کہ اسے یہ بلندی صرف اس وقت مل سکتی ہے جب وہ اس کے لیے کوشش کرے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہے بلکہ ان طاقتوں، صلاحیتوں اور وسیلوں کو کام میں لائے جو اﷲ نے اسے عطا کیے ہیں۔
مزید فرمایا گیا:’’انسان کو صرف وہی ملے گا جس کی سعی و کوشش کرے گا۔‘‘ (5)
اسلام انسان کی قدر و قیمت اور شخصیت پیدا کرتا ہے۔ آج کل ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا نام انسانی قدریں ہیں۔ وہ تمام چیزیں جو انسان کو قدر و قیمت اور شخصیت عطا کرتے ہیں اور اگر وہ نہ ہوتی تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہ رہتا وہ انسانی قدر کہلاتی ہیں۔
اس کے نزدیک انسان کو اس کا صحیح مقام اور مرتبہ صرف اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرے۔
اسلام نے یہ بھی بتادیا ہے کہ انسان کو اس کا اصل مقام اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ اﷲ کے دیے ہوئے وسیلوں اور قوتوں کو صحیح طریقے پر استعمال بھی کرے اور اپنے مقام اور مرتبے کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرے۔ اس کے پاس وسیلے ہیں، قوت و طاقت ہے تو اس کے گرد مشکلات کا ایک زبردست طوفان بھی ہے مگر صحیح معنیٰ میں انسان وہی ہے جو مشکلات کو دور کرکے اپنی منزل کا راستہ تلاش کرلے اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے لیے رکاوٹ نہ بن سکے۔ ارشاد فرمایا گیا:ہم نے انسان کو بڑی مشقت کے لیے پیدا کیا ہے۔(6)
لیکن جب بھی ہم اسلام کے نقطے نظر سے دیکھتے ہیں تو اسلام نے انسان کے لیے ایسی ذمہ داریاں معین کی ہیں۔ ایسے حقوق و فرائض دیے ہیں جن کی وجہ سے انسان کی راہ سعادت کی راہ پہ گامزن ہوتا ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں مقام و عظمت انسان

جب اپنی ذات، صفات اور اپنے کمالات میں کامل ترین شخصیت کسی کا تعارف کر رہا ہے، کسی کا مقام دنیا کے سامنے پیش کرے، اس سے بھی بڑھ کر ایک معصوم صفت ایک معصوم شخص جب کسی کا تعارف کرنے لگ جائے، ایک معصوم شخص جب کسی کے مقام و احترام کو بیان کرنا چاہے تو ممکن نہیں بلکہ یہ محال اور ناممکن ہے کہ وہ حق ادا نہ کرے تو آئیے ہم اسی ذات سے ہی پوچھتے ہیں، اسی شخصیت سے ہی پوچھتے ہیں کہ اس کی نظر میں مقام و احترام انسان کیا ہے کیونکہ وہ جب کسی کا تعارف کروا رہا ہے تو محال ہے کہ وہ مبالغہ آرائی کرے، محال ہے کہ وہ حد سے تجاوز کرے اور محال ہے کہ وہ انسان کا صحیح تعارف پیش نہ کر سکے صحیح مرتبہ و احترام پیش نہ کر سکے، صحیح عظمت دنیا کے سامنے نہ لا سکےچونکہ ہم بتا چکے ہیں کہ امیر المومنین ؑ کی شخصیت ایک کامل ترین انسانی شخصیت ہے۔
آئیے ہم علی ؑکی تعلیمات کی روشنی میں اس کے فرمودات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ مقام و عظمت انسان کیا ہے چونکہ عظمت و مقام کا تعلق اس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور حقوق و فرائض سے ہوتا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ ایک انسان کے کیا کیا حقوق و فرائض ہیں، کیا کیا ذمہ داریاں ہیں کہ انسان جن کو نبا کر سعادت و کمال کی چوٹی پر پہنچ جائے،اانسان عظمت کی بلند ترین چوٹی پر پہنچ جائے، انسان باشرف اور باعظمت بن جائے۔یہ ذمہ داریاں ایسی ہیں جو انسان کو سعادت اور کمال کی راہ پر گامزن کرتی ہیں جو انسان کو دنیا میں بھی کامیاب و کامران اور آخرت میں بھی انسان کو سرخرو کرتے ہیں۔جن کی بجا آوری سے انسان باعظمت اور باشرف بن جاتا ہے اس قدر بلند ہوتا ہے کہ خدا فخر کرتا ہے۔ اپنے بندے پر کبھی اس کو اشرف المخلوقات سے یاد کرتا ہے تو کبھی اس کی تخلیق پر احسن تقویم کہہ کر سرور محسوس کرتا ہے۔ تعلیمات علیؑ کی نظر میں ایک با عظمت انسان کی صحیح پہچان جن چیزوں سے ہوتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

توفیق الہٰی

قال امیر المومنین : لَا يَنْفَعُ اجتِهادٌ بغَيرِ تَوفيقٍ۔
اس دنیا میں ہر انسان کاموں کی انجام دہی کیلئے رب العالمین کی نظر عنایت اور توفیق الٰہی کا محتاج ہے۔ توفیق الٰہی کے بغیر کوشش بے کار ہے۔ (7)
دوسری طرف سے ہر انسان کو اپنے اہداف تک پہنچنے کیلئے راہنما کی ضرورت ہے۔ قال امیرالمومنین : لا قائِدَ خَيْرٌ مِنَ التَّوْفيقِ، توفیق سے بہتر کوئی قائد و رہبر نہیں ہے۔سفراءالٰہی، نما ئندگانِ حق، انبیاء کرام بھی خود کو توفیق الٰہی سے بے نیاز نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت شعیب ؑ کا قول ہے قرآن میں؛ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللّٰهِ

دینداری و تقویٰ

قال علی علیہ السلام: اِنَّ تَقْوَى اللّٰهِ مِفْتَاحُ سَدَاد، وَ ذَخِیرَةُ مَعَاد، وَ عِتْقٌ مِنْ کُلِّ مَلَکَة، وَ نَجَاةٌ مِنْ کُلِّ هَلَکَة. بِهَا یَنْجَحُ الطَّالِبُ، وَ یَنْجُو الْهَارِبُ، وَ تُنَالُ الرَّغائِبُ۔ (8)
بے شک اللہ کا خوف ہدایت کی کلید ہے اور آخرت کا ذخیرہ، ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے، اس کے ذریعے طلب گار منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور سختیوں سے بھاگنے والا نجات پاتا ہے اور مطلوبہ چیزوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
مولا امیر المومنینؑ کی دعا ہے: و نَسْاَلُهُ المُعَافَاةَ فِی الْاَدْيَانِ، كَمَا نَسْاَلُهُ المُعَافَاةَ فِی الْاَبْدَانِ
ہم اس (کریم رب) سے دین کی سلامتی کا سوال اسی طرح کرتے ہیں جس طرح بدن کی سلامتی کی دعا کرتےہیں۔

استفادہ از فرصت

ہر انسان کی زندگی میں فرصت کے کچھ لمحات آتے ہیں جنہیں جہالت اور لا علمی کی وجہ سے وہ ضائع کر بیٹھتا ہے اور ان سے استفادہ نہیں کرپاتا۔
قال علی علیہ السلام: اِغتَنِمُوْا فرص الخَیْرِ فَاِنَّها تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔
فرصت کے لمحات کو غنیمت سمجھو بادلوں کی طرح آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں
ضرب المثل مشہور ہے ؛ فیِ التاخیر آفات
تاخیر میں آفتیں ہیں۔
مولا امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔
كُلُّ مُعَاجَلٍ يَسْأَلُ الْإِنْظَارَ وَ كُلُّ مُؤَجَّلٍ يَتَعَلَّلُ بِالتَّسْوِيفِ۔ (9)
جسے جلدی موت آتی ہے وہ مہلت کا خواہاں اور طلب گار ہے اور جس کو مہلت دی گئی ہے وہ ٹال مٹول اور کوتاہی کرتا ہے پس جو شخص کامیاب زندگی چاہتا ہے اس کو چاہیےکہ ایک تیز بین اور زبردست شکاری کی طرح فرصت کے لمحے لمحے کو شکار کرے۔
قال علی علیہ السلام
فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُ مِنْكُمْ فِیْۤ اَیَّامِ مَهَلِهٖ، قَبْلَ اِرْهَاقِ اَجَلِهٖ۔ (10)
قبل اس کے کہ موت آ جائے عمل کرنے والے کو چاہیےایام مہلت میں عمل کرے۔واقعاً اگر انسان فرصت سے فائدہ اٹھائے تو ایک عمر بلکہ زندگی بھر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا۔
سعدیا دی رفت، فردا ھم چان موجود نیست
در میان این و آن، فرصت شمار امروز را
قال امیر المومنین: وَ بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ، عُمُراً نَاكِساً، أَوْ مَرَضاً حَابِساً، أَوْ مَوْتاً خَالِساً۔
نیک اعمال کی طرف جلدی سے آؤ قبل اس کے تمھاری زندگی ختم ہو جائے یا بیماری مانع ہو جائے یا تیر مرگ تمھیں اپنا ہدف بنا لے۔

صلہ رحمی

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: عزیز و اقارب اوررشتے دار پروں کی مانند ہیں جن کے ذریعے انسان پرواز کر کے عالی اہداف تک پہنچتا ہے۔ قطع تعلقی اور قطع رحمی کی صورت میں معین اہداف تک پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
قال علی علیہ السلام
اكْرِمْ عَشِيرَتَكَ فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِهِ تَطِيرُ وَأَصْلُكَ الَّذِي إِلَيْهِ تَصِيرُ وَيَدُكَ الَّتِي بِهَا تَصُولُ۔
اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی عزت کرو اس لئے کہ وہ تمھارے پروبال ہیں جن کے ذریعے تم پرواز کرتے ہو۔وہ تمہاری جڑ اور بنیاد ہیں جن کے ذریعےتم پھلتے پھولتے ہو اور وہ تمھارے ہاتھ اور تمہاری طاقت ہیں جن کے ذریعے تم حملہ کرتے ہو۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ لَا یَسْتَغْنِی الرَّجُلُ وَ اِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، وَ دِفَاعِهِمْ عَنْهُ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ هُمْ اَعْظَمُ النَّاسِ حِیْطَةً مِّنْ وَّرَآئِهٖ وَ اَلَمُّهُمْ لِشَعَثِهٖ، وَ اَعْطَفُهُمْ عَلَیْهِ عِنْدَ نَازِلَةٍ اِذَا نَزَلَتْ بِهٖ۔ (11)

تلاش و کوشش

مشکلات کے مقابلہ کے لئے پختہ اور آہنی ارادہ چاہیے تاکہ اپنی خفتہ صلاحیتوں سے بہترین فائدہ اٹھائے۔
قال امیرالمومنین: فعلیکم بالجدّ۔
تمہارےلئے کوشش ضروری ہے۔
و قال علی علیہ السلام: لا یدرک الحق الا بالجد۔
حق تلاش اور کوشش کے بغیر نہیں ملتا۔
امام حسن مجتبیٰؑ کو وصیت فرمائی: فاسع فی کدحک۔
اپنی زندگی میں انتہائی کوشش جاری رکھو۔
قال علی علیہ السلام: من طلب شیئا نالہ او بعضہ۔
جو انسان کسی چیز کے لئے کوشش کرتا ہے ساری نہیں تو کچھ تو پا لیتا ہے۔
مولا امیر المومنینؑ نے بندوں کے لئے چیونٹی کی مثال بیان کی ہے:
قال علی علیہ السلام:
انظروا الی النملة فی صغر جثتها۔۔۔ کیف دبت علی ارضها وصبت علی رزقها تنقل الحبة الی حجرها وتعدها فی مستقرها، تجمع فی حرها لبردها وفی وردها لصدرها۔
ذرا اس چیونٹی کی طرف تو دیکھو مختصر جسم۔۔ ۔ کیونکر زمین پر رینگتی پھرتی ہے اور اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے اور دانے کو اپنے بل کی طرف لے جاتی ہے اسے اپنے قیام گاہ میں مہیا رکھتی ہے۔ گرمیوں میں سردیوں کے لئےجمع کرتی ہے۔
امام مجتبیٰؑ سے فرمایا: و جاھدفی اللّٰہ حق جھادہ ولا تأخذك فی اللّٰہ لومة لائم۔
راہ خدا میں اپنی مقدور بھر کوشش کرو ملامت کرنے والوں کی ملامت تمھیں راہ خدا میں کوشش سے نہ روکے۔

تجربات سے فائدہ اٹھانا

قال علی علیہ السلام: و كُلُّ مَعونةٍ تَحتاجُ إلى التَّجارِبِ
ہر مشکل معاملہ میں تجربہ کی مدد چاہیے۔
قال امیرالمومنین علیہ السلام: مَن غَنِيَ عَنِ التَّجارِبِ عَمِيَ عنِ العَواقِبِ۔
جو شخص خود کو تجربات سے بے نیاز سمجھتا ہے وہ نتائج اور عواقب سے اندھا ہوتا ہے۔
قال علی علیہ السلام: فَإِنَّ اَلشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ نَفْعَ مَا أُوتِيَ مِنَ اَلْعَقْلِ وَ اَلتَّجْرِبَةِ
شقی وہ ہے جو عقل اور تجربہ کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہوتا۔

مشورہ

صاحبان عقل و شعور، صاحبان علم و ہنر اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ انسان کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔
قال علی علیہ السلام: وَ لَا ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ۔ (12)
مشورہ جیسا کوئی مدد گار اور پشت پناہ نہیں ہے۔
قال علی علیہ السلام: منِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِهِ هَلَكَ، وَ مَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا۔
جس نے اپنی رائے کو ہی حتماً صحیح سمجھا وہ ہلاک ہو گیا اور جس نے لوگوں کے ساتھ مشورہ کیا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو گیا۔

تعیین ہدف و مقصد

سعادت مندانہ اور کامیاب زندگی کے لئے ہدف کی تعیین ضروری ہے تاکہ سرگردان نہ رہے۔ تمام مخلوقات چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ایک مقصد کے لئے خلق ہوئی ہیں۔
قال امیرالمومنین علیہ السلام: فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً۔
کوئی بھی بدون ہدف، عبث خلق نہیں ہوا۔
پھر اس مختصر زندگی میں تمام اہداف کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا سب سے اہم اور قابل ارزش ہدف کو منتخب کرے اور اس کے حصول کی کوشش کرے۔
قال علی علیہ السلام: مَنْ أَوْمَأَ إِلَى مُتَفَاوِتٍ خَذَلَتْهُ الْحِیَل۔(13)
جو مختلف چیزوں کا طلب گار رہتا ہے اس کی ساریں تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں اسی لئے کہتے ہیں۔ طَلَبُ الکُلِّ فَوتُ الکُلِّ۔
قال علی علیہ السلام: مَنِ اشْتَغَلَ بِغَيْرِ الْمُهِمِّ ضَيَّعَ الْأَهَمَّ۔ (14)
جو غیر اہم کام میں مشغول ہوگا وہ مھم مسائل کو بھی ضائع کر دے گا۔
قال الاما م علی: اِنَّ رَأيَكَ لا يَتَّسِعُ لِكُلِّ شَئٍ فَفَرِّغْهُ لِلْمُهِمَّ
تمھاری فکر اتنی وسعت نہیں رکھتی کہ تمام امور کا احاطہ کر لے لہٰذا اپنی فکر کو اہم امور کے لئے فارغ رکھو۔

بلند ہمت اور قوی ارادہ

ان دو چیزوں سے انسان اپنی بہت ساری روحانی جسمانی مشکلات کا معالجہ کر سکتا ہے اور یہ دونوں چیزیں مومن کی صفات سے ہیں۔
قال علی علیہ السلام: بَعِيدٌ هَمُّهُ ؛ مومن بلند ہمت ہوتا ہے۔ (15)
قال علی علیہ السلام: قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ هِمَّتِهِ۔
مومن کی قدر و منزلت اس کی ہمت کے مطابق ہے۔انسان کامل مولا متقیان امام علی علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ ہر انسان کی قدروقیمت اس کے ارادے میں ہے جتنا ارادہ اس کا قوی ہوگا اتنا قیمت بھی بلند ہے جس قدر ارادہ بلند ہوگا اس قدر اس کی قیمت بھی بلند ہے۔
قال علی علیہ السلام: فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ، وَاطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ، لَا تَجْتَمِعُ عَزِيمَةٌ وَوَلِيمَةٌ۔ (16)
کمریں مضبوطی سے کس لو، دامن سمیٹ لو، کمربند کس لو اسلئےکہ بلند ہمتی اور دعوتوں کی خواہش ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔

اچھا دوست

انسان ایک ایسا موجود ہے جو دوسروں کا محتاج ہے انسان کی زندگی میں دوست بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
دوست کی اہمیت کا اندازہ مولا علی علیہ السلام کے ایک فرمان سے لگایا جا سکتا ہے۔
قال علی علیہ السلام: فَإِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصَاحِبِهِ
حارث ہمدانی کے نام خط میں لکھا، آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے۔
قال امیر المومنین:أَعْجَزُ النّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اکْتِسَابِ الْإِخْوانِ، وَأَعْجَزُ مِنْهُ مَنْ ضَیَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِهِ مِنْهُمْ۔ ( حکمت ۱۲)
عاجز ترین انسان وہ ہے جو بھائی نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز وہ ہے جو بھائی بنا کے ضائع کر دے۔

نظم و ضبط

قال علی علیہ السلام: أُوصِیکُم بِتَقْوَى اللّٰهِ وَ نَظْمِ‏ أَمْرِکُمْ
میں تمہیں تقویٰ الٰہی اور تمام معاملات میں نظم و ضبط کی وصیت کرتا ہوں۔
‏ قال علی علیہ السلام: للْمُؤْمِنِ ثَلاَثُ سَاعَات،فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّهُ، وَسَاعَةٌ يَرُمُّ۔مَعَاشَهُ، وَسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِهِ وَبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيَما يَحِلُّ وَيَجْمُلُ۔
مومن کے اوقات تین ساعتوں پر منقسم ہوتے ہیں:
1۔جس وقت اپنے پروردگار سے فاز و نیاز کرتا ہے
2۔ اپنے معاش کا سرو سامان کرتا ہے
3۔ جس میں حلال و پاکیزہ لذتوں میں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔
المختصر یہ وہ معیارات ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان دونوں جہانوں میں اس کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے۔با شرف و با عظمت بنتا ہے۔ اس کا احترام و عزت بڑھ جا تاہے۔
دوسری جگہ ملتا ہے کہ ہر انسان کے قدر و قیمت اتنی ہے جتنا وہ جانتا ہے جتنا وہ علم کرتا ہے جس قدر بلند علم وہ رکھتا ہے اتنا ہی اس کا مرتبہ بھی بلند ہے۔
ایک اور مقام پر آپ علیہ السلام سے ایک حدیث میں آیا ہوا ہے کہ آپ جتنے باہمت ہوں گے اتنی ہی اپ کی قیمت ہے۔ہم جس قدر اپنی ہمت بڑھائیں گے اس قدر ہماری قیمت بھی بڑھے گی بالکل اسی طرح جس طرح نیت جتنی قیمتی ہوگی عمل بھی اتنا قیمتی ہوگا۔
پھر ایک اور مقام پر ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کی کم سے کم قیمت جنت ہے اس سے کم پر سودا کرنا حق نہیں بنتا ہے۔
ان مبارک اور ذیشان ارشادات سے پتا چلتا ہے کہ علی علیہ سلام انسان کے لئے ایک ایسا مقام چاہتے ہیں کہ جس کی بدولت معراج و سعادت کی بلند قدروں کا مالک بنے اور دونوں جہانوں میں سعادت مند قرار پائیں۔

مفکر پاکستان اقبال کا نظریہ کیا ہے؟

اسی ضمن میں مفکر پاکستان اقبال کا نظریہ کیا ہے؟ اقبال کس حد تک انسانیت کو مقام دیتے ہیں؟ اقبال کا تصور و سوچ فکر کیا ہے؟ انسان کی عظمت کے بارے میں اقبال کے نزدیک جو انسان کا احترام نہیں کرتا وہ انسان دوست نہیں ہے وہ خدا پرستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا، مخلوق سے محبت ہی خالق کی محبت ہے۔ اُن کی نظر میں ستارے انسان کے مقام کا اندازہ کر کے سہم جاتے ہیں۔
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
علامہ اقبالؒ کے نزدیک انسان ہی سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق ہے۔ اسی کی وجہ سے کائنات وجود میں آئی۔ ہر شے کی حقیقت انسان ہے۔
اقبال انسانی تہذیب کی روح و رواں اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ انسان کا احترام کیا جائے۔ انہوں نے کہا:
برتراز گردوں مقام ادم است
اصل تہذیب احترام ادم است

خلاصہ کلام

انسان کا مقام و احترام دوسروں سے بڑھ کر ہے چونکہ انسان کی ذمہ داریاں بڑی ہے کیونکہ انسان کو اللہ نے جو ذمہ داریاں دیئے ہیں ان ذمہ داریوں کی وجہ سے اس کا مقام بلند ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے معین کردہ ان ذمہ داریوں کو انجام نہیں دیتا ہے تو وہ انسان کے لیے خدا کے ہاں کوئی مقام و احترام نہیں۔ یہ اس کی کوئی منزلت نہیں ہے اس کا کوئی شرف نہیں ہے بلکہ وہ دنیا میں رسوا ہے، آخرت میں بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی جانوروں سے بھی بدتر زندگی کاٹے گا۔ چونکہ مقام اور احترام بھی ایک کامل انسان کی ہی ہو سکتی ہے۔ مقام و احترام بھی ایک ایسے شخص کی ہو سکتی ہے جو کسی کامل کی پیروی کرے جو کسی کام ان کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائے جو کسی کامل کے بتائے ہوئے فرمودات کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں ورنہ تو مقام و احترام اس انسان کے لیے وہ ہی نہیں سکتا جو اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتا ہو جو اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے حقوق اور فرائض سے بری الذمہ سمجھتا ہو تو اس کا تو کوئی مقام و شرف بنتا ہی نہیں ہے۔
آخر میں دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقام و شرف کو درک کرتے ہوئے ایک با معرفت زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

حوالہ جات

1۔کانٹ کا نظریہ ،جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ ‘از ڈاکٹر زاہد صدیق مغل: شائع شدہ ’محدث‘ نومبر 2009ء ۔
2۔ تعارف تہذیبِ مغرب اور فلسفہ جدید ‘ از پروفیسر محمد احمد، مکتبہ اسلامیہ ،لاہور،جنوری ۲۰۱۴، ص ۱۰۳۔۱۰۴
3۔ اگست 1990ء میں منعقدہ قاہرہ کانفرنس میں ’اسلامی انسانی حقوق‘ کے 25 نکاتی چارٹر Cairo Declaration on Human Rights in Islam (CDHRI)میں پیش کرکے،رکن ممالک سے دستخط لئے گئے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا متبادل ہے۔
4۔قرآن مجید
5۔ (سورۃ النجم آیت93)
6۔ (سورۃ البلد آیت4)

7۔ نہج البلاغہ
8۔ خطبہ 227 ،نہج البلاغہ،مترجم: مفتی جعفر حسین
9۔ حکمت 285
10۔ خطبہ84
11۔ خطبہ 23
12۔ حکمت 54
13۔حکمت ۴۰۲
14۔حکمت 47
15۔آخری خطبہ نہج البلاغہ
16۔ بحارالانوار

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے