حجت الاسلام و المسلمین محمدرضا زیبائی نژاد، جو کہ خواتین و خاندانی مطالعہ جات کے ادارے کے سربراہ ہیں، نے "باپ کا اپنے پدرانہ کردار سے آگاہ ہونا” کے موضوع پر سوال و جواب کی صورت میں اظہار خیال کیا ہے، جو اہلِ علم و دانش کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال:
کچھ مرد حضرات اپنے بنیادی فرائض سے کیوں ناآشنا ہوتے ہیں؟
جواب:
باپ کے کردار کو صحیح طور پر ادا کرنے کے لیے، ماحول اور نظام میں کئی عناصر کا مؤثر ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے: "نظامِ تعلیم و تربیت میں خاندان اور جنسیت کا مقام”۔
میری اس کتاب میں یہ دعویٰ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، خاندانی ادارے کو کوئی خاص مقام نہیں دیتا؛ بلکہ میں اتنی جسارت سے کہتا ہوں کہ بعض مواقع پر یہ نظام خاندان دشمنی پر مبنی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے۔ کیوں؟
اس لیے کہ یہ نظام نہ لڑکوں کو مرد بننے کے لیے تربیت دیتا ہے اور نہ لڑکیوں کو عورت بننے کی تعلیم دیتا ہے۔
یعنی نہ لڑکوں میں مردانہ صفات کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور نہ لڑکیوں میں زنانہ خصوصیات کو تقویت دی جاتی ہے۔
اسی وجہ سے جب یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کر کے مشترکہ زندگی میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ اپنی جنس کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور کردار سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
لڑکی نہیں جانتی کہ ایک عورت کے طور پر اسے کیسا ہونا چاہیے اور اپنے زنانہ وجود پر فخر کیسے کرے؛ اور لڑکا بھی اپنی مردانگی کو نہیں پہچانتا، اور اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں جانتا۔
یوں دونوں اپنی فطری راہ سے ہٹ جاتے ہیں، اور یہ خلا دراصل نظام تعلیم و تربیت سے شروع ہوتا ہے۔
آج کی بہت سی لڑکیاں شادی کے ابتدائی مرحلے میں اس فرق کو سمجھ ہی نہیں پاتیں، اور جب وہ بہو یا بیوی کے طور پر خاندان میں داخل ہوتی ہیں تو یہ نہیں سمجھتیں کہ بعض امور کی ذمہ داری مرد یعنی شوہر یا باپ کی ہے، اور وہ یہ گمان کرتی ہیں کہ انہیں ہر معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے۔
دوسری طرف، لڑکے بھی اپنی ذمہ داریوں سے بے خبر ہوتے ہیں، اور اگر کسی حد تک آگاہ ہوں بھی، تو ان کے پاس نہ وہ مہارت ہوتی ہے اور نہ ہی علم جو ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے درکار ہے۔
معاشرے میں اگر کوئی شخص کسی منصب پر فائز ہو، چاہے وہ کمزور کارکردگی ہی کیوں نہ رکھتا ہو، تو اسے گرنے نہیں دینا چاہیے بلکہ سہارا دینا چاہیے تاکہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔
مثلاً اگر ایک صدر مملکت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو تو اگرچہ اس کی کارکردگی کا نمبر تیرہ ہو، پھر بھی ہمیں چاہیے کہ اس کی مدد کریں تاکہ وہ چودہ یا پندرہ تک پہنچے۔
اسی طرح خاندان میں اگر کوئی مرد اپنے کردار میں کمزوری دکھائے، تو اس کا مذاق نہ اڑایا جائے، اس کے کردار کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ بیوی کو چاہیے کہ اس کی جگہ لینے کے بجائے، اس کی مدد کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو، ان کو قبول کرے اور اپنی روحانیت کو دوبارہ حاصل کرے۔
عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی ذہنی و نفسیاتی تقویت کرے، اسے یہ احساس دلائے کہ وہ ایک قابلِ فخر مرد ہے۔
مثلاً اگر شوہر بے روزگار ہو جائے، تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اس سے کہے: "مجھے تم پر فخر ہے کہ تم میرے گھر کے مرد ہو”۔ اس طرح کے جملے مرد کو دوبارہ زندگی کے میدان میں واپس لے آتے ہیں اور خاندانی نظام کو سنبھالنے کے قابل بناتے ہیں۔
بہت سے مرد جو نشے اور تباہی کی راہ پر چل نکلتے ہیں، بلاشبہ وہ خود بھی اس کے ذمہ دار ہیں؛ لیکن جب ہم ان کی زندگیوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صورتوں میں ان کی بیویاں بھی ان کی مدد نہ کر کے اس زوال میں شریک رہیں۔
یعنی ایسے نازک لمحات جیسے کہ بیروزگاری یا ملازمت سے برطرفی کے وقت، عورت نے بجائے اس کے کہ مرد کا حوصلہ بڑھاتی، اس پر مزید دباؤ ڈال دیا۔
ایسی عورتیں اپنے شوہروں کو بار بار تحقیر کر کے، ان کی روح پر رگڑ ڈالتی ہیں جیسے کسی کھردرے کپڑے سے نرم شیشے کو صاف کرنا:
وہ مسلسل کہتی ہیں: "تم ناکارہ ہو”، "تم کسی کام کے نہیں ہو”۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرد گھر سے دور بھاگتا ہے اور بُرے دوستوں یا گمراہی کی راہوں کا شکار ہو جاتا ہے۔








