مجلسِ عزاء اہل بیتؑ کے گھرانے کی سنّت

شہادت امام حسینؑ ایک دردناک واقعہ ہے. سن 61 ہجری میں ماہ محرّم کی دسویں تاریخ کو فرزند علیؑ و بتولؑ نے اپنے خاندان بنی ہاشم کے 18 جوانوں اور اصحاب باوفا کے ہمراہ راہ خدا میں اپنی بیش قیمتی جان نثار کردی. یہ واقعہ تاریخ اسلام کا واحد واقعہ نہیں ہے جس میں موحّدین اور عاشقان خدا نے توحید کی بقاء کے لییے اپنی جان دی ہو. خود قرآن میں ان قربانیوں کا ذکر ملتا ہے. اصحاب اخدود کی داستان, سورہ یٰس میں ایک مرد موءمن کی روداد اور جنابِ آسیہ(زوجہ فرعون) کی شہادت کا واقعہ- سب قرآن میں موجود ہے.مگر ان سب کے باوجود واقعہ کربلا کی اپنی انفرادیّت ہے.اس واقعہ کی اہمیّت کے لییے یہی کافی ہے کہ ائمہؑ معصومین نے اس کی یاد کو بدستور مجلس عزا زندہ رکھّا ہے. یہ مجلس عزا برائے سیّد الشہداء کی نیو شام میں بنی ہاشم کی عورتوں نے رکھّی. یزید سے پروانہ آزادی ملنے کے بعد اہل حرم نے شام میں رک کر تین دن تک مسلسل گریہ و زاری کر کے شہداء کربلا لا غم منایا ہے. انہوں نے اپنی اس عزاداری میں شام کی عورتوں کو بھی شامل کیا.

(بحار الانوار جلد 45)

شام سے واپسی میں اہل حرم کا قافلہ جب کربلا پہنچا تو وہاں بھی کچھ روز شہداء کربلا پر گریہ وماتم ہوا. اپنے وطن مدینہ پہنچ کر بنی ہاشم کی عورتیں دن و رات اپنے سیّد و سردار امام حسینؑ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے اصحاب کا ماتم کرتی رہیں.

فرزند امام سجّادؑ کا بیان ہے:” …امام حسینؑ کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کی عورتیں کالے لباس پہن کر عزادری کرتی تھیں انھیں نہ گرمی کی پرواہ ہوتی اور نہ سردی کی شدّت کا احساس ہوتا اور (خود) امام سجّادؑ اُن کے لئے غذا تیّار کرتے تھے. المحاسن جلد ٢ صفہ ٤٢٠

اس روایت میں دو باتوں کا صراحت سے ذکر ہے-ایک عورتوں کا کالا لباس پہننا اور دوسرے امام سجّادؑ کا خود ان کے لییے غزا کا انتظام کرنا. یہ دونوں باتیں اس مجلس سیّدؑ الشہداء کی علامت بن گئ ہیں. زیادہ تر مجالس میں لوگ کالا لباس پہن کر شامل ہوتے ہیں. دوسرے عزادارانِ امامؑ مظلوم کے لییے غزا کا یا تبرّک کا بڑے پیمانے پر اہتمام ہوتا ہے.

اتنا ہی نہیں بلکہ خود امام سجّادؑ اپنے جدِّمظلوم کے غم میں ساری زندگی روتے رہے. اسی طرح ان کے بعد کے ائمہؑ نے اس رسم عزا کو جاری رکّھّا اور دوسروں کو خصوصاً شعراء کو امامؑ مظلوم کے لییے اشعار کہنے کی ترغیب دی.

امام صادقؑ فرماتے ہیں جو بھی میرے جد (امام) حسینؑ پر ایک شعر پڑھ کر خود روۓ یا دوسروں کو رولاے اس پر جنّت واجب ہے ۔ رجال طوسی صفہ ١٨٩

اتنا ہی نہیں امام رضاؑ جو اپنے وطن سے اور اپنوں سے دور تھے,آپؑ مشہور شاعر جناب دعبل کو بلاکر مجلس عزا سیّد اشہداء برپا کرتے تھے.

آپؑ نے اپنے قریبی اصحاب کو اس غم اور اس عزا کی اہمیّت بتلائ ہے.

اپنے صحابی ریّان بن شبیب سے امام رضاؑ کا ایک طولانی بیان ہے جس میں آپؑ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اے فرزند شبیب ,جب کسی پر غم طاری ہو تو اسے حسینؑ پر رونا چاہیے کیونکہ اُن پر رونا گناہوں کو دھو دیتا ہے. ,بحار الانوار جلد ٩٤ صفہ ١٨٤

 

شیخ صدوق رح کی آمالی سے یہ روایت علّامہ مجلسی رح نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیا ہے:

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ لِي يَا أَبَا عُمَارَةَ أَنْشِدْنِي فِي الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ فَأَنْشَدْتُهُ فَبَكَى ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ فَبَكَى قَالَ فَوَ اللَّهِ مَا زِلْتُ أُنْشِدُهُ وَ يَبْكِي حَتَّى سَمِعْتُ الْبُكَاءَ مِنَ الدَّارِ قَالَ فَقَالَ يَا بَا عُمَارَةَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ شِعْراً فَأَبْكَى خَمْسِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى ثَلَاثِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى عِشْرِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى عَشَرَةً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى وَاحِداً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَبَكَى فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَتَبَاكَى فَلَهُ الْجَنَّةُ

ابو عمارہ نقل کرتے ہیں کہ مجھے امام صادقؑ نے امام حسینؑ کا مرثیہ پڑھنے کا حکم دیا. جب میں نے اشعار پڑھے تو امامؑ نے بھی گریہ کیا اور ان کے اہل خانہ نے بھی گریہ کیا. وہ کہتے ہیں کہ امامؑ نے ان سے فرمایا: اے ابا عمارہ جو امام حسینؑ کے لییے ایک شعر کہے اور اس سے خود روءے اور پچاس لوگوں کو رلاءے تو اس کے لییے جنّت ہے. پھر فرمایا…جو اس شعر کے ذریعہ تیس لوگوں کو رلاءے اس کے لییے بھی جنّت ہے….جو اس شعر سے بیس افراد کو رلاءے اس کے لییےبھی جنّت ہے….جو اس شعر سے دس افراد کو رلاءے اس کے لییے بھی جنّت ہے….جو صرف ایک کو رلاءے اس کے لییے بھی جنّت ہے. پھر آپؑ نے مزید فرمایا جو ایک شعر امامؑ مظلوم کی مصیبت پر کہے پھر ان پر خود روءے یا کسی ایک کو رلاءے یا بس رونے کی کوشش کرے اس کے لییے بھی جنّت ہے.

ان واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ائمہ معصومینؑ باقاعدہ اپنی نشستوں میں مجالس عزا برپا کیا کرتے تھے. ان مجالس میں گھر کی خواتین کو بھی شامل کیا جاتا تھا. مستورات پس پردہ بیٹھ کر مرثیہ سنتیں اور اپنے جد مظلوم پر گریہ کرتیں.

ائمہؑ معصومین نےاپنے شیعوں کو نہ صرف یہ کہ امام حسینؑ پر خود رونے کا ثواب بتایا ہے بلکہ دوسروں کو اس مجلس میں شامل کر کے رلانے کی بھی ترغیب دلائ ہے.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے