حجت‌ الاسلام و المسلمین ماندگاری نے اپنی ایک اہم تقریر میں "گھریلو تربیت کے تصویری انداز” پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی تربیت میں "عملی نمونہ” سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کے عمل میں دیکھتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ گھر بچے کی پہلی تصویری درسگاہ ہے۔ جب باپ خوشبو لگاتا ہے، تو بچہ بھی اسی عمل کو دہراتا ہے۔ بچے فطری طور پر گھر کے ماحول اور ماں باپ کے طور طریقے کی نقل کرتے ہیں۔ اگر باپ ٹرک ڈرائیور ہے تو بچہ بھی ٹرک اور اوزاروں والے کھلونے کی طرف مائل ہوتا ہے۔

حجت الاسلام نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا: "میں ایک جاننے والے کے گھر گیا جن کے والد ٹرک چلاتے تھے، ان کا بچہ ایک بڑا کھلونا ٹرک لے آیا اور بچوں کے کھیل والا پانا (رینچ) لے کر اس کی مرمت کر رہا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ تو معصومیت سے بولا: ‘بابا کو دیکھا تھا وہ نیچے لیٹ کر گاڑی ٹھیک کرتے ہیں، میں بھی ویسا ہی کر رہا ہوں۔”

انہوں نے ماں کی تربیتی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ "اگر ماں چادر پہن کر آئینے میں خود کو درست کرتی ہے تو بچی بھی یہی سیکھے گی۔ لیکن اگر ماں میک اپ میں مصروف ہو، تو پھر بچی سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ چادر اوڑھے گی، کیونکہ اس نے کچھ اور سیکھا ہے۔”

انہوں نے کہا: "ایک شخص شکایت کرنے آیا کہ اس کا بچہ نماز توجہ سے نہیں پڑھتا۔ میں نے پوچھا: ‘آپ خود نماز کیسے پڑھتے ہیں؟’ اس نے جواب دیا: ‘ہم بھی صحیح طریقے سے نہیں پڑھتے۔’ میں نے کہا: ‘مسئلہ یہیں ہے۔”

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا:”جیسے اگر کوئی دوست مزے سے کھا رہا ہو تو دوسرے کو بھی بھوک لگ جاتی ہے، ویسے ہی اگر ماں باپ شوق سے عبادت کریں تو بچوں کو بھی جذبہ پیدا ہوتا ہے۔”

انہوں نے آیت‌الله بهجتؒ کی مثال دی جو رمضان میں عشق و محبت سے دعا کرتے تھے، اور ان کی اولاد صرف دیکھ کر سیکھتی تھی۔ حجت‌الاسلام نے والدین کو مشورہ دیا کہ روزانہ کچھ وقت عبادت، تلاوت اور مناجات کے لیے مختص کریں، تاکہ بچے دل سے دین کی طرف مائل ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تربیت صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتی ہے۔ اگر والد گھر میں آ کر سب سے محبت سے سلام کرے، بیوی کی زحمت کا شکریہ ادا کرے، تو بچے بھی یہ اخلاق سیکھیں گے۔ لیکن اگر والد گھر آ کر بغیر سلام کے صرف آرڈر دے، تو بچہ بھی یہی رویہ اپنائے گا۔

انہوں نے کہا: "اگر گھر میں شکر گزاری سکھائی جائے تو بچہ بھی ہر کسی کا شکریہ ادا کرے گا۔ لیکن اگر صرف مانگنے کا مزاج سکھایا جائے تو بچہ طلبگار بن جائے گا، شکرگزار نہیں۔”

آخر میں انہوں نے والدین سے درخواست کی کہ: "آیئے ہم گھر میں تصویری تربیت کو اپنائیں، کیونکہ بچے سنتے کم اور دیکھتے زیادہ ہیں۔ اگر ہم خود بہتر کردار ادا کریں گے تو بچے خود بخود بہتر تربیت پائیں گے۔”

والدین کے کردار، گفتار اور عمل ہی بچے کی شخصیت سازی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہم خود عمل کے ذریعے انہیں نیکی، محبت، شکرگزاری اور عبادت سکھائیں۔ کیونکہ بچے ہر وقت ہمیں ایک اداکار کی طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں، اور ہم جو کچھ کرتے ہیں، وہی اُن کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے