ماں، راحت بشر کی امین
تحریر: سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک بہت سے غیر معصوم کردار اُفق کائنات پر جلوہ گر ہوئے اور بہت سی ہستیاں اپنی بے پناہ جاذبیت کی ساتھ عالم فانی میں رونق افروز ہوئیں، لیکن جن کرداروں کو دوام ملا ، یا جو ہستیاں اپنے اخلاقی نقوش کی وجہ سے دنیا میں انفرادی اور امتیازی حیثیت کی حامل ہوئیں، ان میں ماں کا کردار سر فہرست نظر آتا ہے۔
اللہ جانے اس مختصر سے لفظ ”ماں” کے عمیق سمندر میں کتنی لطافت زندگی،چاشنی ٔ حیات،کردار کے آفاقی نقوش اور قربانی و فداکاری کی لہریں موجزن ہیں کہ اب تک ذہن بشر اس کے تمام صفات و کمالات کے ادراک سے قاصر و عاجر ہے ،ہاں! جیسے جیسے اس کی زندگی کے خوبصورت صفحات کھلتے ہیں تواس کے صفات بھی معجزاتی طور پرسامنے آتے رہتے ہیں ۔
اگر غائرانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی ماں محبتوں کی معراج،عشق اول کا زریں زینہ،بوستان لطافت کی حسین باغباںاور عہد بہاران انسانیت کی فراہمی کا سامان ہے ، جس کے طریقہ ٔمہربانی اور انداز عطوفت کی وسعت کے سامنے آسمان کی بے کراں وسعتیں کم محسوس ہیں،جس کا وجود نازنین،اطمینان و سکون اور راحت بشر کا مکمل امین ہے ….!بلکہ کردار ماں کا سب سے عظیم پہلویہ ہے کہ خدا وند متعال نے قرآن جیسی آبد آثار کتاب میں اپنی پیروی و اطاعت کے ساتھ اس کے حق میں نیک برتائو اور اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔(۱)اور اس کی فضیلت کا ادنیٰ نمونہ یہ ہے کہ رسول اسلا م نے حصول جنت کو ماں کے مقدس قدموں میں قرار دیا ہے یعنی ماں کی اطاعت،حصول جنت کا ضامن ہے:”الجنة تحت اقدام الامھات”۔(۲)
مقدم کون …ماں یا باپ؟
نظام خانوادگی میں ماں اور باپ دونوں کا کردار بنیادی اور اساسی حیثیت کا حامل ہے، دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر نہ اولاد کی اچھی تربیت ہو سکتی ہے اور نہ خانوادہ کا نظام ہی قابل قدر ہو سکتا ہے ،اسی لیئے قرآن مجید نے دونوں کا احترام اور ان کے ساتھ نیک برتائو کو لازم و ضروری قراردیاہے” با لوالدین احساناً”(۳)
لیکن آیات اور احادیث سے جوچیزمستفاد ہے وہ یہ کہ ماں کا حق،باپ پر مقدم ہے، کیوں؟ اس لئے کہ یہ بات نصف النہار کی طرح روشن ہے کہ اولاد کی پیدائش اور تربیت میں ماں جتنی زحمتیں ہنس ہنس کر برداشت کرلیتی ہے عطوفت پدری اس کے تحمل کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔
قرآن کی آیتوں نے خصوصیت سے ماں کی ان خصوصی زحمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ،ارشاد ہوا”حملتہ امہ وھناً علی وھن و فصالہ فی عامین”(۴)اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کی دودھ بڑھائی کی ،دوسری جگہ اسی تعبیر کو دوسرے پیرائے میں پیش کیا ،ارشاد ہوا:حملتہ امّہ کرھاً و وضعتہ کرھاً و حملہ و فصالہ ثلاثون شہراً۔(۵)”اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اورتکلیف کے ساتھ پیدا کیا اور اس کے حمل اور دودھ بڑھائی کی مدت ٣٠ مہینہ ہوئی”۔
اصل میں زحمتوں کی بھی کئی صورتیں ہوتی ہیں ،بعض وہ ہیں جن سے بہت سے لوگ دوچار ہوتے ہیں اور تقریباً ہر فرد بشر ان میں مشترک ہے لیکن کچھ ایسی زحمتیں ہیں جو مخصوص حیثیت کی حامل ہیں ،اولاد کی پیدائش کے اولین و آخرین مراحل میں پیش آنے والی زحمتیں صرف ماں سے مخصوص ہیں جن میں کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا۔
امام چہارم نے بھی ان زحمتوں کوپیش نگاہ رکھتے ہوئے ماں کے حقوق کو باپ پر فوقیت دی ہے ، آپ فرماتے ہیں:ماں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم جانو!اس نے چند شرائط کے ساتھ شکم میں تمہاری پرورش کی ،اپنی قوت دودھ کی شکل میں دے کر تمہیںزندگی دی،یہ ایسی زحمتیں ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے،اس نے اپنے تمام وجود کے ساتھ تمہاری نگہداری کی ،تمہاری احتیاج کو اپنی بھوک اور پیاس کے ذریعہ دور کیا اور صرف اس لیئے کہ تمہیں گرمی ،سردی اور آفتاب سے محفوظ رکھے شب بیداری کی اور ہزار مصیبتیں برداشت کی،تم ماں کے حقوق کی ادائیگی ہرگز نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا کی توفیقات شامل حال ہوں،لیکن باپ کا حق یہ ہے کہ تم جانو!تمہاری پیدائس کا اصل محرک وہی ہے اور تم اس کے وجود کی ایک شاخ ہو ۔(۶)مذکورہ روایت میں امام نے ماں کو پیش آنے والی مخصوص زحمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح اندازمیں بیان کر دیا کہ صحن ہستی میں کوئی دوسرا ایسا نہیں جو ان زحمتوں متحمل ہو سکے۔
ایک دوسری حدیث میںماں کے حقوق کے تقدیم کی واضح نشاندہی موجود ہے ،حکم ابن خرام نے رسول سے دریافت کیا :اے اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر، اس نے پھر پوچھا:پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟ پھر وہی جواب ملا”ماں کے ساتھ بھلائی کر”اس نے پھر جرات کی ، اس کے بعد کون حسن سلوک کا مستحق ہے؟ جواب ملا”تیری ماں مستحق ہے” چوتھی مرتبہ پھر پوچھا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟آنحضورنے فرمایا”اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر”یا رسول اللہ من أبر؟ امک ،ثممن ؟امک،ثم من؟امک،ثم من ؟اباک۔(۷)
مذکورہ حدیث کااندازبالکل واضح اور حتمی ہے کہ باپ کی زندگی کے تمام تر اہم گوشوں اور انداز تربیت کے باوجود جب ماں کی جانثاری اور قربانی پر نگاہ جاتی ہے اور ماںکے حقوق کا خیال آتا ہے تو باپ ماں سے تین زینہ نیچے نظر آتاہے۔
ماں کی ان خصوصی زحمتوں کے پیش نظر رسول اسلام نے اسے صرف باپ پر فوقیت نہیں دی بلکہ تمام عالم بشر پر اس کے حقوق کو مقدم قرار دیا ہے: ”اعظم الناس حقاً علی الرجول امہ”۔(۸)
اس کے علاوہ ماں کی عظمت کا سب سے عظیم پہلو یہ ہے کہ خداوند عالم نے ماں کی رضا کو اپنی خوشنودی اور رضایت کا پہلا زینہ قرار دیا ہے،یعنی ایک بندہ ناچیز خداوند عالم کی خوشنودی اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی ماں کو خوش نہ کر لے،چنانچہ مشہور روایت ہے”رسول اسلام ایک ایسے جوان کے یہاں تشریف لے گئے جو حالت احتضار میں تھا اور جانکنی کا یہ عالم اس کے لیئے انتھائی دشوار اور مشکل تھا،آنحضرت نے اس سے فرمایا:کیا دیکھ رہے ہو؟جوان نے کہا:میرے سامنے دو روسیاہ کھڑے ہیں،جن کی وجہ سے میں سخت وحشت زدہ اور پریشان ہوں،آنحضرت نے فوراً فرمایا:کیا اس جوان کی ماں موجود ہے؟ اس کی ماں وہاں موجود تھی ،اس نے کہا :جی ہاں میں اس کی ماں یہاں موجود ہوں،آپ نے فرمایا: کیا تو اس سے راضی ہے ؟اس نے کہا:یا رسول اللہ ؐپہلے تو راضی نہ تھی، لیکن آپ کی خاطر اب راضی ہوں ،اسی وقت جوان ہوش میں آیا ،آنحضرت نے پوچھا:اب کیا دیکھ رہے ہو؟اس نے کہا:وہ دو روسیاہ چلے گئے اب میں دو خوبصورت سفید چہرے والوں کو دیکھ رہا ہوں،جن کی وجہ سے میں کافی خوشحال ہوں،اس کے بعد وہ اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔(۹)
آپ نے دیکھا جو شخص کافی دیر سے عذاب الہی میں مبتلا تھا وہ ماں کی خوشنودی اور رضایت کی وجہ سے فوراً عذاب سے بری ہو گیا،اس کے علاو ہ بھی رسول اسلام نے ماں کی فضیلت کی بہت سی تعبیریں اپنی احادیث میں پیش کی ہیں تاکہ انسان ماں کی پیروی اوراس کے ساتھ نیک برتاو کرتا رہے،اس لیئے کہ صرف ماں کی اطاعت وپیروی انسان کو بہت سے اچھے صفات کا حامل بنا سکتی ہے۔
ماں پیکر محبت:
محبت انسان کی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے،محبت کے بغیر انسان کی خوشیاں اور مسرتیں کیف آگیں جذبات سے قطعی عا ری ہوتی ہیں،اولادکی تربیت میں بھی محبت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر معاشرہ کے اچھے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی پرورش محبتوں کے سایہ میں ہوتی ہے،بدبخت ،شریر،مجرم اور خطرناک معمولاً وہ افراد ہوتے ہیں جس کی زندگی محبت و الفت اور چاہتوں کی حقیقی روشنی سے خالی ہوتی ہے۔
ائمہ معصومین نے اولاد پر محبت کی بے پناہ تاکید کی ہے،چنانچہ اما م جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :”انَّ اللہ عزوجلَّ یرحم الرجل لشدة حبہ لولدہ”(۱۰)پردگار عالم انسان پر اس کی اپنے بچوں سے شدت ِ محبت کی بنیاد پر رحم کرتا ہے۔
دوسری حدیث میں مزید وسعت دی گئی ،آپ نے فرمایا:”احبوا الصبیان و الرحمھم و اذا وعدتموہم ففوالھم فانھم لا یرون الا انکم ترزقونھم”بچوں سے محبت کرو اور ان پر رحم کرو اور جب بھی ان سے کوئی وعدہ کرو تو اسے پورا کرو کیونکہ وہ تم کو اپنا رزق دینے والا سمجھتے ہیں۔(۱۱)
احادیث میں محبت و الفت کے سلسلہ میں اس قدر تاکید اس لیئے کی گئی ہے کیونکہ محبت کے بغیر انسان کو وہ کیف و سرور نہیں ملتا جس کا وہ خواہش مند ہوتا ہے اور تجربات کی بنیاد پر یہ بات واضح ہے کہ محبت کی وجہ سے تربیت کے بہت سے نقائص دور ہوتے ہیں،چنانچہ ڈاکٹر زان پیزا کہتا ہے: اگر بچے کو کافی حد تک محبت ملے تو وہ ڈراونے خوابوں ،اضطراب اور پریشانی سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ ڈراونے خواب دیکھنے کا سب سے مہم سبب پیار و محبت کی کمی ہے۔(۱۲)
لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی کی اس اہم ترین ضرورت کو کون پورا کرے ،معصوم بچوں کی زندگی کو محبت و الفت کے حقیقی قمقموں سے کون روشن کرے؟اگر کائنات کے گوش و کنار کا جائزہ لیں اور اصناف بشر کا دقیق نظری سے مطالعہ کریں تو احساس ہوگا کہ صنف نازک میں ”ماں”ایک ایسی فردہے جو بچے کو محبتوں سے ہم کنار کر کے معاشرہ کا ایک عظیم فرد بناتی ہے۔
اور یہ بھی طئے ہے کہ کائنات کی کوئی اور شخصیت اس کا بدل نہیں بن سکتی، اس لیئے کہ ماں اس وقت اپنی محبتیں نچھاور کرتی ہے جب انسان کلی طور پر اس کی نظرِ التفات کا محتاج ہوتا ہے،آپ دیکھیں کہ انسان اپنی زندگی کے اولین مراحل میں محبت کا محتاج ہوتا ہے،ایک بچہ جو اپنی زندگی کی شروعات کر رہا ہے وہ اپنی زندگی میں کسی چیز کی اتنی احتیاج محسوس نہیں کرتا ،جتنا محبت و چاہت اور نظر التفات کا محتاج ہوتا ہے،وہ بچہ محبتوں کا متقاضی ہوتا ہے اگر محبت کے تقاضوں کو احسن طریقہ سے پورا کر دیا جائے تو روتا بلکتا ایک معصوم بچہ انہونی طریقہ سے خوشیوں اور مسرتوں کی آغوش میں چلا جاتا ہے،کیوں؟اس لیئے کہ ابتداء حیات میں محبت ہی اس کی غذا ،محبت ہی اس کی نیند،محبت ہی اس کا سکون و اطمینان بلکہ محبت ہی اس کی عین زندگی ہوتی ہے…!اس کائنات میں کون ہے جو اپنی واجب مشغولیتوںکو ترک کرنے کے بعد ایک بچہ کو اس کی عین زندگی سے ہم کنار کرے،یعنی اس کے دامن حیات میں محبت و چاہت کے پھول بکھیر دے،اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر بچہ کی ضرورتیں پوری کرے،اپنی نظرِ التفات کے سائے میں اس کو خوشیاں اور مسرتیں دے،اس پوری کائنات میں کوئی نہیں جو ہر آن بچہ پر نگاہ رکھ سکے .. ہاں …کائینات کی واحد فرد’ ‘ماں” ہے،جو اپنی اولین ضرورتوںسے چشم پوشی کرتے ہوئے بچہ کی ضرورت کا خیال رکھتی ہے،اپنا سکون و اطمینان بچہ کی تسکین کے لیئے قربان کردیتی ہے، اپنی ذات کو مصائب و آلام سے قریب کرلیتی ہے لیکن حتی المقدور یہ کوشش کرتی ہے کہ بچہ کے قریب مصیبت کی ایک آنچ بھی نہ انے پائے۔
اوڑھتی ہے حسرتوں کا خود تو بوسیدہ کفن
چاہتوں کا پیرہن بچہ کو پہناتی ہے ماں
(رضا سرسوی)
ماں کے مقدس پیکر میں محبتوں کا اس قدر انبار ہے کہ خود اس کا وجود ہی عین محبت و الفت نظر آتا ہے ،اس لیئے کہ زندگی کا کوئی ایسا پہر نہیں جب ماں اپنے بچہ سے غافل ہوتی ہو،دن کی روشنی تو دور رات کی تاریکی اور خاموشی میں جب مخلوق خدا خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے تو ایک ماں معراج محبت پر پہنچ کر معصوم بچہ پر ممتا کے حسین پھول نچھاور کرتی ہے… آپ دیکھیں کہ ایک پرسکون رات میں جب بچہ محوخواب ہوتا ہے تو ایک مہربان دل ماں اپنی نیند صرف اور صرف اس کے سکون اور اطمینان کے لیئے اسی کے سپرد ر دیتی ہے اور خود آنکھوں میں نیند لیئے جاگتی رہتی ہے کہ کب کون سی ضرورت پڑجائے،ورنہ اگر پرسکون نیند لے رہی ہوتی تو بچہ کی ایک ہلکی اور معصوم جنبش پر آدھی رات کو بیدار ہوکر اس کی نگہداری نہ کرتی۔
کب ضرورت ہو، میرے بچہ کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
ماں کی یہ محبت و الفت صرف ابتدائے حیات تک محدود نہیں رہتی بلکہ جیسے جیسے انسان عروج و کمال کی طرف قدم رکھتا ہے ویسے ویسے اس کی ممتا اور محبت کے انداز بھی بدلتے اورموثر ہوتے رہتے ہیں…چنانچہ جب باپ سرپرست خانوادہ کی حیثیت سے بچہ کی خطا اور لغزش پر سرزنش کرتا ہے اور اسے مارنا چاہتا ہے تو وہ بچہ ماں کی آغوش محبت میں پناہ گزیں ہوتا ہے، کیا … باپ کے اس تربیتی اقدام کے دربیان ماں کی محبت سازگار اور سودآور ہے؟ماہرین نفسیات نے تربیت کے تمام جنبوں کا مطالعہ کرنے کے بعد غیر جانبدارانہ فیصلہ سنایا کہ باپ کی تند مزاجی اور بچہ کے لیئے دھمکی بھراانداز اہم ہے لیکن ماں کا اپنی ممتا سے مجبور ہو کر بچہ کو بچا لینا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے ،اس لیئے کہ اگر بچہ کی ابتدائی زندگی میں صرف دھمکیاں اور تندمزاجی شامل رہیں ، تو وہ آہستہ آہستہ دھمکیوں کا عادی ہو تا جائے گا ،جو اس کی آئندہ زندگی میں بہت خطرناک صورتحال اختیار کر جائے گی،اس کی زندگی کو معتدل ااور خوشگوار بنانے لے لیئے دھمکیوں کی دھوپ کے ساتھ ساتھ ممتا کا راحت بخش سایہ بہت ضروری ہے جو ایک ماں احسن طریقہ سے پورا کرتی ہے۔
آغوش مادر ؛اولین تربیت گاہ بشر
ماں کی آغوش صرف لوریوں کی جائے گا ہ نہیں ،بلکہ موثر ترین تربیت گاہ اور انوکھا مدرسہ بھی ہے،جس طرح بچہ کی موہوم زبان ماں بہتر انداز میں سمجھ کر اس کی ضرورتیں پوری کرتی ہے اسی طرح بچہ بھی ماں کے انداز و اطوار کو دیکھ کر اسے اپنی زندگی کے لیئے آئینہ بناتا ہے،بچہ کے لیئے ماں کی زبان استاد کی زبان سے قطعی مختلف ہوتی ہے،ایک بچہ باپ یا استاد کی بہ نسبت ماں کی گود میں بہتر تربیت پاتا ہے۔کیوں….؟ماہرین نفسیات نے اس کی بہتر توجیہ پیش کی ہے،اصل میں تعلیم و تربیت کے لیئے انس و محبت بے حد ضروری ہے،اچھے استاد کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مطالب کو ہنستے کھلاتے طلاب کے ذہن میں اتار دے،اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ابتداء میں بے پناہ مہربانی اور انسیت کا مظاہرہ کرے ۔
چونکہ بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ماں سے بہت زیادہ مانوس ہوتا ہے ،اس لیئے ماں ایام طفلی میں انگلیاں پکڑ کر جو کچھ بچہ کو سکھاتی ہے وہ آخری عمر میں بھی اس کے ذہن سے زائل نہیں ہوتا۔
تیری آغوش محبت درس گاہ قوم ہے
سینچ دیں مائیں وطن، ہمت اگر ہاریں نہیں
(صوفی عبدالرب)
تربیت کا یہ انداز صرف زندگی کے ابتدائی ایام تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کی تربیت کے نقوش انسان کی پوری زندگی پر محیط ہیں،ایک کمزور و ناتواں انسان ماں کی عظیم نعمت کا کتنا محتاج ہے اسے قید تحریر و تقریر میں نہیں لایا جاسکتا…آپ اسے یوں دیکھیں کہ ایک ایسی زندگی جو تباہ کن پہلواختیار کر لیتی ہے ، بدنام اور ادھوری منزل کی طرف بڑھتی ہے تو ایسی ناکام زندگی کو خوش رنگ لباس پہناکر خوشگوار لمحات عطا کرنے میں ماں پیش ہیش نظر آتی ہے…سماجی الجھنیں ،سماج کے نشیب و فراز، ذہنی کیفیات،سماج کی بے اعتدالیاں ،سماج کے من گھڑت طور طریقہ… جن کے زیر اثر انسانی زندگی کے چند نازک لمحات دم توڑتے رہ جاتے ہیں،جن میں نہ کوئی انصاف ہے اور نہ کوئی انسانی رشتہ…تو ایسے میں ماں اپنی ممتا کے وسیع آغوش میں اس دردمند اور کمزور انسان کو لیکر ان الجھنوں سے نجات دلاتی ہے،سماج کے نشیب و فراز سے آشنا کرتی ہے اور ان رشتوں سے قریب کرتی ہے جن سے منہ موڑکر انسان آخر میں تاریکیوں کی فرد بن جاتا ہے۔
فلسفی حیران رہ جاتے ہیں دانشور خموش
زندگی کی گتھیاں کچھ ایسے سلجھاتی ہے ماں
(رضا سرسوی)
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم
(علامہ اقبال)
اصل میں ماں کی نصیحتوں سے کسب فیض کا طریقہ و سلیقہ چاہیے،معرفت کے ساتھ کسب فیض کیا جائے تو سود آور اور مفید ہوتا ہے،انسان ماں کو وہ درجہ و مرتبہ نہیں دیتا جس کی وہ مستحق ہے اور چاہتا ہے کہ زندگی میں کام آنے والی نصیحتوں کے تمام شگفتہ پھول اس کی جھولی میں ڈال دیئے جائیں،ظاہر ہے ایسی صورت میں وہ تہی داماں ،حیران و پریشان شاہراہ حیات پر پھرتا رہے گا اورکوئی چیز ہاتھ بھی نہ آے گی،ہاں! ماں کی حقیقی معرفت کے ساتھ کسب فیض کیا جائے تو پھر اس کی نصیحتیں زندگی کے کسی ایک مرحلے سے مخصوص نہیں ہونگی بلکہ ہر دور میں اس کے انوکھے مشورے انسان کے ذہنی انتشار کو دور کرتے رہیں گے۔
زندگانی کے سفر میں ،گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں
ایک ماں کہنے سے ملتا ہے مجھے کتنا سکوں
دور ہوجاتے ہیں دنیا بھر کے افکار زبوں
(حفیظ جالندھری)
_____________
حوالے :
۱۔ بنی اسرائیل٢٣
۲۔نہج الفصاحت،بحار الانوار
۳۔ بنی اسرائیل/٢٣
۴۔لقمان ١٤
۵۔ احقاف آیت ١٥
۶۔ تفسیر نورالثقلین ج٣ ص١٥١،حقوق از دیدگاہ اسلام ٦٧
۷۔ الکافی ج٢ ص١٥١،بحار الانوارج ٧٤ ص ٤٩
۸۔ نہج الفصاحت ٦٨
۹۔ ترجمہ از انوار النعمانیہ،نعمت اللہ جزائری
۱۰۔ بحار الانوارج ١٠٤ ص ٩٥
۱۱۔ من لا یحضر الفقیہ ج٣ ص٣٠١،اصول کافی ج٢ص ٨٢
۱۲۔ تربیت ،راہ سعادت انسان