قیامت اسلامی تعلیمات میں اس دن کو کہا جاتا ہے جس میں تمام انسان دنیا میں انجام دئے گئے اعمال کے حساب و کتاب کے لئے اللہ کے حکم سے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونگے۔ قیامت سے پہلے مختلف واقعات رونما ہونگے جنہیں اشراط الساعہ کہا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ قیامت کے وقوع کے بارے میں خدا کے سوا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔
انسان کے اعمال کے حساب و کتاب کے لئے جہاں اس کے اعمال مُجَسَّم ہو کر اس کے سامنے پیش ہونگے، وہاں نامہ اعمال بھی اسے دئے جائیں گے جس میں انسان کے تمام اعمال ضبط ہونگے۔ جس شخص کے نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دئے جائیں گے وہ اہل دوزخ اور جس شخص کے نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دئے جائیں گے وہ اہل بہشت اور فلاح پانے والا ہوگا۔ قیامت کے دن انسان کے نامہ اعمال کے ساتھ کچھ گواہ بھی پیش ہونگے جو اس کے اعمال کی گواہی دین گے۔
قیامت کے دن انسان کے اعمال کو اس کے دینی پیشواؤں (پیغمبر اکرمؐ، ائمہ اور صالحین) کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا جس شخص کے اعمال جتنا ان ہستیوں کے اعمال کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھے گا اتنا ہی یہ شخص نیک اور سعادتمند ہو گا۔
اہمیت:
عقیدۂ قیامت انفرادی اور اجتماعی دو لحاظ سے انسانی زندگی میں مؤثر ہے:
• انفردای زندگی:
زندگی کی تمام مصروفیات کا انگیزہ زندگی کی ضرورتیں اور خواہشات کی تکمیل کرنے کا نہائی مقصد سعادت اور نہائی کمال حاصل کرنا ہے۔ مذکورہ مقاصد حاصل کرنے کے راستے اور انکی کیفیت کا انتخاب انسان کی زندگی کے اہداف سے وابستہ ہے۔ انسانی زندگی کے نہائی ہدف تک رسائی کی پہچان اور شناخت انسانی زندگی کی مصروفیات کو ترتیب دینے میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو شخص اپنی زندگی کے ہدف کو مادی لذتوں اور ان سے فوائد حاصل کرنے میں منحصر سمجھتا ہے وہ اسی ہدف کے تحت اپنی زندگی کو ترتیب دیتا ہے لہذا ایسا شخص اپنی تمام تر توانائیاں اسی مقصد کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے۔ لیکن جو شخص اس کے مقابلے میں زندگی کی حقیقت کو مادی اور دنیاوی لذتوں سے بالا تر اس مادی زندگی اور موت کو نکتۂ اختتام نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس زندگی کو سعادت اور کمال تک پہنچنے کا ایک وسیلہ سمجھتا ہے لہذا ایسا شخص اپنی زندگی کو اس طرح ترتیب دیتا ہے اور اس طرح گزارتا ہے کہ وہ اس کی ابدی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہو۔
• اجتماعی زندگی:
انسانی زندگی کے مقصد کی شناخت اور پہچان صرف اس کی انفرادی زندگی میں ہی مؤثر نہیں بلکہ وہ انسان کی اجتماعی زندگی یعنی دوسرے انسانوں کے مقابلے میں انسان کی گفتار و رفتار میں بھی مؤثر ہوتی ہے۔ دوسروں کے حقوق کی پاسداری، احساس اور حاجت مندوں کی نسبت ایثار کے جذبے کے مقابل اخروی زندگی اور جزا و سزا کا اعتقاد اساسی کردار ادا کرتا ہے۔ جس معاشرے میں ایسا اعتقاد زندہ ہو وہاں عادلانہ قواعد اور قوانین کے اجرا، ظلم و بربریت اور دوسرں کے حقوق پر تجاوز کو روکنے کیلئے زبردستی اور دباؤ کی کم ضرورت پیش آتی ہے اور اگر یہی اعتقاد عالمی سطح پر رائج ہو جائے تو بین الاقوامی مشکلات میں خاطر خواہ حد تک کمی واقع ہو جانا طبیعی ہے۔ پس ان نکات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر عقیدۂ قیامت کے بغیر صرف عقیدہ توحید انسان کو زندگی کے مطلوبہ مقاصد تک پہچانے کیلئے کافی نہیں ہے۔ نیز اسی سے قرانی صحیفوں میں اس اصل قیامت پر اتنی تاکید کی اہمیت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔[1]
ضروت:
حکما اور متکلمین نے قیامت اور موت کے بعد کی زندگی کی ضرورت اور اثبات کیلئے مختلف اقسام کے دلائل بیان کیے ہیں۔ ان تمام دلائل کا حقیقی مرجع اور مصدر کلام الہی ہے۔
• اللہ تعالی حق مطلق ہے اسی طرح اس کا ہر فعل بھی حق مطلق ہے اور وہ ہر باطل اور لغو سے خالی ہے۔ ہمیشگی کی زندگی کے بغیر انسان کی خلقت عبث اور لغو ہے جیسا کہ اللہ تعالی سورہ مومنون 115 میں فرماتا ہے:أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ترجمہ:کیاتم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے۔
• عدل الہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جزا دیتے وقت نیک صالح اور بد کار افراد کے ساتھ ایک ہی طرح سے برتاؤ نہ کیا جائے۔ دوسری طرف دنیاوی زندگی میں عدالت کی بنا پر ثواب اور عذاب دینا ممکن نہیں ہے کیونکہ دنیاوی زندگی میں دونوں فریق ایک دوسرے کی جگہ اس طرح قرار پاتے ہیں کہ ان کے درمیان تفکیک کرنا ممکن نہیں ہے۔ تیسری جانب بعض اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا موجودہ عالم میں دینا ممکن نہیں ہے۔ پس اس وجہ سے اس جہان کے علاوہ ایک اور ایسے عالم کا ہونا ضروری ہے جہاں بے شمار ختم نہ ہونے والے امکانات کے تحت عدالت الہی قائم ہو جیسا کہ سورہ ص 28أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ ترجمہ: کیا ہم نے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد کرنے والوں کی مانند قرار دیا یا متقین کو فجار کی مانند قرار دیا۔
میں اسکی طرف اشارہ موجود ہے۔
اور سورہ یونس کی آیت نمبر 4 میں بھی اسی کے بارے میں ارشاد ہے: إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ ترجمہ: تم سب کی بازگشت اس کی طرف ہے اور اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ کرے گا تا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دی جائے اور جو کافر ہوئے انہیں انکی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا اور انہیں دردناک عذاب بھگتنا ہو گا۔
• اس جہان میں انسان ابتدائی طور پر معمولی سے نطفے سے خلق ہوا پھر مختلف مراحل میں اس نے جسمی کمال کے مراحل طے کئے یہانتک کہ اس میں روح پھونکی گئی۔ قرآن میں “احسن الخالقین” کی صفت اسی خلقت کے مراحل کی طرف ناظر ہے۔ موت کے وسیلے سے دنیاوی زندگی سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہوتا ہے دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کیلئے کمال شمار ہوتا ہے۔ اس معنی کی طرف مومنون کی 14 اور 16 نمبر آیات میں اشارہ موجود ہے:
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقينَ …ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ تُبْعَثُونَ… ترجمہ: پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔ … پھر قیامت کے دن تمہیں یقینااٹھایا جائے گا۔[2]
• ہر انسان جانتا ہے کہ اچھا اور برا انسان برابر نہیں ہے، اچھی صفات جیسے سخاوت اور کرم کا مالک اور بری خصلتوں جیسے حسد اور کنجوسی کا مالک برابر نہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو ان صفات کے مناسب جزا و سزا نہ دینا ظلم ہے۔
دوسری طرف ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ برے اور اچھے اخلاق کے لوگ جزا اور سزا اس دنیا میں حاصل نہیں کرتے ہیں۔ پس جب تک ایک ایسا عالم موجود نہ ہو جہاں لوگوں کو انہیں ان کے عقائد کے مطابق جزا اور سزا نہ دی جائے تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہے اور عدالت الہی کی جانب سے ضروری ہے کہ وہ بعث، حساب و کتاب اور ثواب و عقاب کا بندو بست کرے۔
• زمین پر بسر ہونے والی زندگی کی نسبت انسان کی زندگی وسیع تر ہے۔ حاشا و کلا اللہ سے کبھی لغو اور عبث فعل سرزد نہیں ہوتا ہے۔ لہذا اسنے انسان کو صرف مادی ضروریات سے متعلق قُوی سے مزین نہیں کیا بلکہ اسے دوسرے ایسے قُوی سے بھی مزین کیا ہے جن کی بدولت وہ علمی اور عملی تکامل کی منازل طے کرتا ہے نیز ان کمالات کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ جس قدر وہ علم و قدرت کے مرتبے کو حاصل کرتا ہے انسان میں اس سے بعد والے مرتبے کے حصول کی تشنگی پیدا ہو جاتی ہے۔انبیاء کو اسی فطرت کی تربیت کیلئے مبعوث کیا جاتا رہا تا کہ وہ اسے غیر متناہی سلسلے کی طرف ہدایت کریں۔ اگر ایسی فطرت کے ہوتے ہوئے انسان کی زندگی کو اسی دنیا میں محدود کیا جائے تو لغویت اور ایسی فطرت کی ہدایت کیلئے انبیاء کے بھیجے جانے کا کوئی مقصد نہیں ہوگا۔ پس خدا کی حکمت ضروری قرار دیتی ہے کہ انسان کی زندگی اس مادی اور حیوانی زندگی میں محدود اور ختم نہ ہو اور انسان کی زندگی کمال مقصود حاصل کرنے کیلئے جاری و ساری رہے۔
• خداوند متعال کی حکمت چاہتی ہے کہ اس کے مقصد تخلیق تک پہنچنے کے وسیلے کو فراہم کرے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ سعادت کا موجب بننے والی چیزوں کو انجام دینے کا حکم دیا جائے اور شقاوت کا موجب بننے والی چیزوں سے منع کیا جائے۔ سر کش آدمی کی خواہشات نفسانی کے مخالف احکامات الہی کا اجرا خوف اور رجاء کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ خوف اور رجاء بشارت اور انذار (خوشخبری اور ڈرانے) کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ بشارت اور انذار ثواب و عقاب کو مستلزم ہے۔نقمت اور نعمت کا وجود اس زندگی کے بعد ہی ممکن ہے وگرنہ بشارت اور انذار جھوٹا ہو گا۔ جھوٹ قبیح ہے اور خداوند متعال ہر قبیح سے پاک و پاکیزہ ہے۔[3]
قیامت اور روح کا باہمی تعلق:
قیامت اور اس کے بعد کی زندگی کا صحیح تصور اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب روح اور بدن کے باہمی تعلق کو سمجھا جائے۔ اس کے مطابق روح بدن کے علاوہ ایک موجود چیز کا نام ہے۔ روح کے بارے میں چند نکات کا ذکر کرنا ضروری ہے :
• روح کی موجودیت کا قائل ہونا۔
• روح بدن کو لاحق (اعراض) ہونے والی اشیاء میں سے نہیں بلکہ خود ایک جوہر ہے۔
• روح بدن سے جدا ایک مستقل چیز ہے اور وہ بدن کی نابودی کے بعد باقی رہتی ہے۔
• انسان روح اور بدن کے ایک ایسے مجموعے (مرکب) کا نام ہے جس کے ایک جزو کے ختم ہونے سے دوسرا جزو بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ یوں کہا جائے کہ روح انسان کا ایک حقیقی حصہ ہے جبتک یہ باقی ہے انسان باقی ہے اور انسان کی انسانیت اور شخصیت باقی رہے گی۔
یہی وجہ ہے انسانی جسم کے سیلز کے تبدیل ہونے کے باوجود انسان کی وحدت شخصی کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا ہے کیونکہ انسان کی حقیقت وہی روح ہے اور روح ہی موت کے وقت ملک الموت کے ذریعے قبض ہوتی ہے جبکہ انسان جسم وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بوسیدہ اور ختم ہو جاتا ہے ۔[4]
منکرینِ قیامت کے اس بیان “انسانی بدن کے ختم ہو جانے کے بعد کس طرح اس میں نئی زندگی پیدا ہو جائے گی” کے جواب میں قرآن کریم نے اس کی حقیقت کی جانب یوں اشارہ کیا ہے : قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ تُرْجَعُون ترجمہ: آپ کہہ دیجیئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔[5]
مختلف نظریات:
علم کلام کے ماہرین نے قیامت کے روز انسان کے دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں جنہیں اجمالی طور پر ذکر کرتے ہیں :
• قدیم علم کلام کے ماہرین کے مطابق “انسان کی موت ” انسان کے مکمل طور پر خاتمے کا نام ہے۔ پس ان کی نگاہ میں تمام آسمانی مذہب میں جب بھی قیامت کا تذکرہ ہوا ہے تو اس کا معنی اعادہ معدوم ہے۔ اس وجہ سے ان کی نگاہ میں ضروری ہے کہ ہم “اعادۂ معدوم محال ہے یا اعادۂ معدوم محال نہیں ہے۔” کے قائل ہوں۔[6]
اس نظریے کو ماننے والوں نے قیامت اور اس کے بعد کی زندگی کی تصویر درج ذیل صورت میں بیان کی ہے :
• اسلامی فلسفیوں میں مشائین عقلی اعتراضات کی بناء پر قیامت کے موقع پر جسمانی قیامت کے نظریے کو قابل اثبات نہیں سمجھتے ہیں۔ پس ان کے نزدیک قیامت انسانی بدن کے بغیر صرف روح کی بازگشت کا نام ہے۔ انسان کا جسم مرنے کے بعد بالکل نابود ہو کر خاک بن جاتا ہے اور صرف روح باقی رہتی ہے۔ مشائین میں سے بو علی سینا اگرچہ قائل ہے کہ دلائلی عقلی کے ذریعے جسم کی بازگشت قابل اثبات نہیں ہے لیکن چونکہ ختمی مرتبت ص نے اس کی خبر دی ہے لہذا یہ ہمارے لئے حجت ہے اور ہمیں اسی کااعتقاد رکھنا چاہئے۔[7]
• اس نظرئے کے مطابق انسان کا بدن ہی انسان کی تمام حقیقت ہے مرنے کے بعد وہی بکھرا ہوا ہوگا اور قیامت کے موقع پر خداوند کے علم و قدرت کی بنا پر بکھرا ہوا جسم دوبارہ زندہ کیا جائیگا۔ اس نظرئے میں روح کی بازگشت کا کوئی تصور نہیں ہے۔[8]
• اس اعتقاد کے مطابق قیامت کے روز انسان کے جسم اور روح دونوں کو دوبارہ پلٹایا جائے گا۔ اس نظرئے کے ماننے والے تین حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں :
• دنیاوی جسم میں روح کو دوبارہ پلٹایا جائیگا: اس نظریے کے معتقد متکلمین آیات کے ظاہری معنی اور روایات کی وجہ سے قائل ہیں کہ انسان کو اسی دنیا والے یا اس کی مانند کسی اور جسم کے ساتھ دورہ قیامت کے روز پلٹایا جائیگا۔[9]
• روح کا مثالی جسم میں آنا: ملا صدرا کو دو نکات کا سامنا تھا۔ آیات اور روایات کا ظاہری معنی اسی کو بیان کرتا ہے کہ انسان کا جسم دوبارہ زندہ کیا جائیگا اور شبہ آکل و ماکول جیسے اعتراضات کی وجہ سے قیامت کے روز دنیا والے جسم کا زندہ کیا جانا عقلی لحاظ سے ایک نا ممکن امر ہے۔ انہی دو نکات کے پیش نظر ملا صدرا قائل ہوئے کہ قیامت کے روز روح کو جسم مثالی کے ساتھ دوبارہ پلٹایا جائے گا۔ گویا اس طرح ملا صدرا نے جسم اور روح کے نظریے کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظریے کی بنیاد پر انسانی نفس اس دنیا میں اس مادی جسم سے جدا ہونے کے بعد عالم برزخ اور قیامت میں انسانی نفس دنیا والے مادی جسم کی مانند ایک نیا جسم بناتا ہے۔ یہ جسم نہ تو ایسا ہے کہ جسے وہی جسم کہا جائے اگرچہ اسی مادی جسم کی خصوصیات لئے ہوئے ہے۔[10]
• جسم کا روح مجرد کی طرف جانا: حکمت متعالیہ ہی کے بعض دانشور ملا صدرا کے نظرئے کے برعکس اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ موجودہ جسم نفس سے جدا ہونے کے بعد اپنی حرکت اور تکامل ہونے کے عمل کو جاری رکھتا ہے۔ یہ حرکت جوہری اس حد تک جاری رہتی ہے کہ نفس سے جدا شدہ جسم دوبارہ آخرت میں اس نفس کو دوبارہ سمونے کی قدرت اور صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔[11]
قرآنی تعلیمات میں قیامت کا تصور:
قرآنی آیات میں اگر قیامت کے موضوع کو دیکھنا چاہیں تو ہم قیامت سے متعلق آیات قرآنی کو چند گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
• آخرت پر ایمان لانے کی ضرورت کو بیان کرنے والی آیات [12]
• انکار قیامت کے نتائج اور اس پر مترتب ہونے والے برے آثار کو بیان کرنے والی آیات۔[13]
• بہشت کی نعمتوں کی جانب اشارہ کرنے والی آیات۔[14]
• جہنم کے ہمیشگی کے عذاب کی جانب اشارہ کرنے والی آیات ۔[15]
• قیامت کے روز اچھے اور برے اعمال کے نتائج بیان کرنے والی آیات ۔
• منکران قیامت کے شبہات اور سوالات کے جواب بیان کرنے والی آیات
• تباہی و بربادی اور کجروی کا سبب قیامت یا یوم حساب کے بھول جانے کو قرار دینے والی آیات ۔[16]
قیامت کے انکار کے اسباب:
قرآن نے قیامت کے انکار کے چند اسباب اور عوامل ذکر کئے ہیں :
• کسی بھی غیبی اور غیر محسوس چیز کا انکار کرنا ایک سبب ہے۔ مادیت پرستی کی نگاہ میں ہر غیر مادی چیز کا انکار کیا جاتا ہے۔
• ایک نفسیاتی مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ اپنے فرائض سے چشم پوشی اور ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا اور راحت طلبی ہے۔ کیونکہ عملی زندگی میں پابندیوں کو قبول کرنے، ظلم و تجاوز اور گناہ سے بچنا اور احساس مسئولیت کیلئے ایک نہایت مضبوط پشتوانہ قیامت اور اعمال کے محاسبے کا اعتقاد ہے نیز اس کے انکار سے ہوس رانی اور شہوت پرستیوں کا راستہ کھل جاتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَهُ﴿۳﴾بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ﴿۴﴾بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَه﴿۵﴾[17] ترجمہ: کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کریں گے؛ ہاں (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کے پور بنانے پر بھی قادر ہیں؛ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ آگے بھی برائی کرتا جائے۔
• قیامت کے متحقق ہونے کی کیفیت، کچھ عقلی ابحاث اور اس کے بارے میں خارجی ابہام بھی انکار قیامت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔
چند شبہات اور ان کے جوابات:
قیامت کے بارے میں بہت سے شہبات ذکر کئے جاتے رہے اور طول تاریخ میں علمائے دین نے ان شبہات کے مختلف جوابات دیئے۔ ان میں سے بعض شبہات کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ یہاں بھی چند مشہور شبہات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
شبہ آکل اور ماکول:
شبہ آکل اور ماکول کا شبہ قدیمی ترین شبہات میں سے ہے جس کے ذریعے جسمانی قیامت کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔ اس شبہ کو مختلف انداز اور مخف بیانات میں کیا جاتا رہا۔ ابتدائی طور پر اسے یوں بیان کیا گیا: اگر مؤمن کے بدن کا کچھ حصہ کسی بھی طرح کسی کافر کے بدن کا حصہ بن جائے تو وہ قطعی طور پر بدن کافر کا حصہ قرار پائے گا۔ اس بنا پر اگر قیامت کے دن ابدان کو دوبارہ لوٹایا جائے تو ان دو مؤمن اور کافر کے بدنوں میں سے ایک کا بدن ناقص ہوگا۔ اگر مومن کا بدن ناقص ہو تو کافر کے بدن کا ساتھ مومن کے بدن کا حصہ جہنم میں جائے گا اور اسی طرح اگر کافر کے بدن کا حصہ ناقص ہو تو مؤمن کے بدن کے ساتھ کافر کے بدن کا حصہ جنت میں جائے گا۔ یہ عدالت خداوندی کے مخالف ہے لہذا اس وجہ سے قیامت کے دن ابدان کی واپسی ممکن نہیں ہے۔
اسے وسیع تر صورت میں یوں بیان کیا گیا: اگر انسان کا جسم مختلف حیوانوں یا پرندوں یا سمندری جانوروں کے جسم کا حصہ بن جائے تو قیامت کے روز کسی طرح ایک بدن کے پراگندہ اجزا کو ایک جگہ کسی کمی یا زیادتی کے بغیر جمع کرنا ممکن ہے؟
جواب:
علم کلام کے مسلمان ماہرین نے اس کے یوں جواب دئے ہیں: بدن کے اجزاء کی دو اقسام اجزائے اصلی اور اجزائے اضافی ہیں۔ خداوند انسانی بدن کے اجزائے اصلی کی حفاظت کرتا ہے اور یہ اجزائے اصلی کسی حال میں اپنی اصلی حالت کو نہیں کھوتے ہیں۔ انسان کے اجزائے اضافی مختف حالتیں اختیار کرتے ہیں۔ لہذا اجزائے اصلی کے ہر حال میں باقی اور محفوظ رہنے سے کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا ہے۔
وہ اجزائے اصلی کون سے ہیں کہ جو باقی رہیں گے۔ اس میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے :
انسانی سیلز کے درمیان پایا جانے والے “جینز” انسان کے اجزائے اصلی میں سے ہے جو کسی حال میں ختم نہیں ہوتے ہیں۔
انسان کی آخری ہڈی ہے۔
اس کی حقیقت سے ہم آشنا نہیں ہے لیکن جانتے ہیں کہ وہ کبھی ختم نہیں ہوتے اور کسی دوسرے انسان کے بدن کا حصہ نہیں بنتے ہیں۔
اعتراض کا بہتر جواب:
• ہمارا بدن بدن میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر زندگی میں چند دفعہ مکمل طور پر تبدیل ہوتا ہے ہمیں اس تبدیلی کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا ہے۔
• بدن کی اس تبدیلی میں پہلے والے بدن کی تمام صفات اسی طرح دوسرے بدن میں منتقل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے انسان کے پہلے بدن کے تمام مشخصات اسی طرح باقی رہتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پہلے والے تمام سیل اپنے تمام خواص کو نئے سیلوں کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے انسان کا آخری بدن خواص اور خصوصیات کے لحاظ سے وہی پہلے والا بدن ہے۔
• قرآنی آیات کی روشنی میں واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قیامت کے دن اس آخری بدن کہ جسے قبر میں دفن کیا تھا اور وہ بعد خاک کی صورت میں تبدیل ہوا اسے ہی زندہ کیا جائے گا۔ جیسے کہ ارشاد ہے :فَاِذَا هُمْ مِنَ الاَجْدَاثِ اِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (يس، 51)[18] – يَخْرُجُونَ مِنَ الاجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَاد مُنْتَشِر (قمر، 8)[19] – يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الاَجْدَاثِ سِرَاعاً (معارج، 43).[20]
البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ انسان کو دفن کیا جائے لیکن اگر وہ جل کر خاک ہو جائے یا پانی میں غرق ہوجائے تو بھی اس کے بدن کے آخری اجزاء ہی کو دوبارہ لوٹایا جائے گا۔
• ہر لحاظ سے دو بدنوں میں سے ایک بدن دوسرے بدن کا ایک جزو تو بن سکتا ہے کل نہیں ہو سکتا ہے مقصود یہ ہے کہ ایک شخص مکمل دوسرا شخص نہیں ہو سکتا ہے۔
• ہمارے بدن کے سیلز میں سے ہر ایک سیل ہماری شخصیات کو لیے ہوئے ہے کہ اگر یہ نشو و نما کرے تو یہ ہمارے بدن کو بنائے گا یعنی بدن کے ہر سیل میں ہمارے بدن کی تمام خصوصیات پوشیدہ ہیں اور ہر سیل کی اگر پوروش کی جائے تو اس میں یہ صلاحیت موجود ہے وہ ایک نیا بدن بنا لے۔ جیسسا علمی طور پر بعض حیوانات میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انہیں اگر قطعہ قطعہ کیا جائے تو ان میں سے ہر ایک قطعہ سے ایک نیا جاندار پیدا ہو جاتا ہے۔ پس اصولی طور پر یہ بات غیر ممکن نہیں ہے کہ انسان کے ہر سیل سے ایک نیا انسان بنایا جا سکتا ہے جو خصوصیات کے لحاظ سے بالکل ایسا ہی ہو۔
• ہماری شخصیت زندگی کے مختلف ادوار (بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا) میں جسمانی تبدیلیوں کے باوجود وہی رہتی ہے ۔یعنی زندگی کے ان تمام مراحل میں بدن کی مختلف تبدیلیوں کے باوجود ایک ہی وجود ہے۔
ان مقدمات کی وضاحت کے بعد کیا شبہ آکل اور ماکول کسی قسم کی مشکل پیدا کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ قیامت کے روز جسم کا دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی قسم کی مشکل پیدا نہیں ہوتی ہے کیونکہ قیامت کے روز جب انسان کو دوبارہ اٹھایا جائے گا تو انسان کے اندر جو دوسرے بدن کے اجزا موجود ہونگے وہ واپس اپنے اصلی بدن میں لوٹ جائیں گے اور صرف اس مربوطہ انسان کے اجزا ہی باقی رہیں گے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ ایک بدن کسی صورت میں دوسرے کا تمام بدن نہیں بنے گا بلکہ اس بدن کا ایک جز بنے گا جو بالآخر قیامت کے روز واپس اپنے اصلی بدن میں چلا جائے گا۔ یہ بھی مسلم ہے کہ جس بدن سے یہ اجزا جدا ہو کر واپس اپنے اصلی بدن میں چلے جائیں گے تو اس سے اُس بدن میں کمی تو آئے گی لیکن ہر سیل میں چونکہ ایک نیا بدن کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ لہذا وہ اس ایک سیل سے بھی بدن بنا سکتا ہے اور جو اس ایک سیل سے نیا بدن بنے گا وہ اپنی تمام خصوصیات، صفات، مشخصات کے لحاظ سے اس پہلے بدن جیسا ہی ہو گا۔ پس اس بنا پر قیامت کے روز انسانی بدن کے دوبارہ لوٹائے جانے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ہے۔ البتہ یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اس بیان کے مطابق اجزائے اصلی اور اجزائے غیر اصلی کا مفروضہ قابل تصور نہیں ہے کیونکہ ایک بدن کے تمام اجزا اصلی ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے بدن میں قابل جذب بھی ہیں۔
شبۂ اعادۂ معدوم:
قیامت کے متعلق مشہور ترین شبہات میں سے ایک شبہ اعادۂ معدوم کے نام سے معروف ہے۔ حقیقت میں یہ شبہ قواعد عقلائی کی بالا دستی کے قائلین کی جانب سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس اعتراض کو بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے :
اس میں شک نہیں انسان کے مرنے کے بعد اس کا بدنی ڈھانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب ہو جائے گا اور آہستہ آہستہ ذرات میں تبدیل ہو کر منتشر اور معدوم ہو جائے گا۔ اب کس طرح ممکن ہے کہ ایک صفحۂ ہستی وجود سے مٹ جانے کے بعد دوبارہ وجود حاصل کرے اور اپنی پہلی حالت اختیار حاصل کر لے۔ خداوند متعال کی قدرت کے ذریعے بھی یہ مشکل حل نہیں ہو سکتی کیونکہ تمام کائنات کے موجودات طبعی علیت کے نظام پر قائم ہے۔ نیز قدرت خدا محالات کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی ہے۔[21]
جواب:
جنہوں یہ اشکال کیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے وہ مباحث فلسفی سے آشنا نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اعادۂ معدوم کہ جس کے متعلق فلسفے میں گفتگو کی جاتی ہے وہ یہی ایک عامیانہ اور سطحی قسم کا مفہوم ہے جبکہ ایسا نہیں بلکہ اعادۂ معدوم کے محال ہونے سے یہ مراد ہے کہ ایک معدوم چیز کا زمانی اور مکانی خصوصیات نیز اپنی تمام کمیت اور کیفیت کے محفوظ ہونے کے ساتھ لوٹنا اعادۂ معدوم کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی بازگشت ناممکن اور محال ہے کیونکہ ایک موجود جو ایک مخصوص زمانے میں موجود تھا ممکن نہیں کہ اسے دوبارہ پلٹایا جا سکے یہانتک کہ اسکی پہلے زمانے کی حرکت کو دوبارہ عینا اسی مشخصات کے ساتھ لوٹایا جاسکے چونکہ حرکت زمان واپس نہیں ہوسکتی ہے۔ گزرے ہوئے لمحات کی واپسی ممکن نہیں چونکہ جو بھی زمان و لمحہ پیدا ہو گا وہ نیا زمان ہو گا نہ کہ وہ پہلے والا زمان ہو گا۔ قیامت کے مدعیان نے کبھی ایسا ادعا نہیں کیا ہے۔انسان کے پراگندا اجزا کی واپسی کے قائل ہیں۔ جب آپ کسی جڑی بوٹی یا گوشت کو جلاتے ہیں تو وہ جل کر درست ہے خاکستر ہو جاتا ہے اسکی صورت تبدیل ہوئی ہے لیکن اسکا مادہ دونوں حالتوں میں باقی رہتا ہے۔[22][23]
لوگوں کی کثرت اور زمین کا کم ہونا:
ایک جانب کرۂ زمین کا ایک محدود رقبہ ہے اور دوسری جانب ہر روز کثیر تعداد میں لوگ اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں اگر پہلے انسان کی خلقت سے قیامت تک کے لوگوں کا حساب کیا جائے تو انسانوں کی اس قدر تعداد کو اس زمین کے موجود مادے کے ساتھ تشکیل دینا ممکن نہیں ہے۔
جواب
اعداد و ارقام کی روشنی میں اس اعتراض کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو ہم بہتر طریقے سے جواب دے سکتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک انسانی بدن میں 65 سے لے کر 70 فیصد تک پامی پایا جاتا پے۔ پس اس لحاظ سے ایک بدن کا ایک حصہ خاک پر مشتمل ہے اور باقی پانی پر مشتمل ہے۔ پس اس لحاظ سے اگر ایک انسان کا وزن 60 کلو ہو تو ایسا انسان تقریبا 20 کلو خاک اور باقی پانی کا مجموعہ ہے۔ اگر ایک میٹر مکعب خاک ہو اور اس میں دو گنا پانی بڑھائیں تو ایک میٹر مکعب خاک کا وزن دو ہزار کلو گرام ہو گا۔ تو یہ خاک چالیس سے زیادہ افراد کے جسم کی تشکیل کیلئے کافی ہے۔ اس حساب سے ایک کلومیٹر (یعنی طول عمق عرض ایک ہزار میٹر ہو) مکعب خاک موجودہ آبادی کے آٹھ گنا افراد کیلئے کافی ہے۔ اب اگر اس کرہ زمین میں انسان کی طول عمر کا حساب کیا جائے تودو ملین پانچ سو سال بنتی ہے تو لحاظ سے اس ساری جمعیت کیلئے دو ہزار کلو میٹر زمین کافی ہے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل کتنی مدت بعد آتی ہے تو اوسطا پچاس سال کا عرصہ لگتا ہے۔ ایک کلو میٹر خاک تقریبا آٹھ نسلوں کیلئے کافی ہے۔ اس لحاظ سے زمین کی کمی کا اعتراض کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔[24]
__________________
حوالہ جات:
- آموزش عقائد،ص 339 و 340، مصباح یزدی۔
- العقائد الاسلامیہ، ص 226 ، جعفر سبحانی ۔
- توضیح المسائل، شیخ وحید خراسانی 99 تا 101۔
- آموزش عقائد ،مصباح یزدی،ص
- سورہ سجدہ 11
- فخر الدین رازی ،ج2 ص 29۔
- ابن سینا ص 423؛ فخرالدین رازی ج2 ص 55۔
- خوش صحبت ص 38۔
- النافع یوم الحشر فی شرح الباب الحادی عشر، علامہ حلی ،ص120۔
- الاسفار ،ملا صدرا ،ج9 ص187 تا 200۔
- کدیور ج2 ص93
- مانند سوره بقره، آیہ ۴؛ سوره نمل، آیہ ۳
- مانند سوره اسراء، آیہ ۱۰؛ سوره فرقان، آیہ ۱۱؛ سوره صبا،آیہ ۸؛ سوره مؤمنون، آیہ ۷۴
- مانند سوره الرحمن، آیہ ۴۶ تا آخر؛ سوره الواقعہ، آیہ۱۵-۳۸؛ سوره الدهر آیہ ۱۱-۲۱
- مانند سوره الحاقہ، آیہ ۲۰-۲۷؛ سوره الملک، آیہ ۶-۱۱؛ سوره الواقعہ، آیہ ۴۲، ۵۶
- مانند سوره ص، آیہ ۲۶؛ سوره سجده، آیہ ۱۴۰
- سورہ قیامت 3 تا 5۔
- اور جب (دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف تیز تیز چلنے لگیں گے۔
- اور جب (دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف تیز تیز چلنے لگیں گے۔
- جس دن وہ قبروں سے اس طرح جلدی جلدی نکلیں گے گویا (اپنے بتوں کے) استھانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں۔
- دیکھیں:
- معاد پس از مرگ ،ناصر مکارم شیرازی ،ص ۔35
- http://ketaab.iec-md.org/MA-AAD/maad_negaah_aql_deen_shariati-sabzevaari_11.html
- پیام قرآن ، ناصر مکارم شیرازی،ج 3 ص 383/382 ،