قومی مرکز برائے جوابات شکوک و شبہات کے ماہر حجتالاسلام علیاکبر عبادینیک کے مطابق، قرآن کی مندرجہ ذیل تعلیمات عزاداری کے مفہوم اور مشروعیت پر روشنی ڈالتی ہیں:
1. مودّتِ اہل بیت (ع) : قرآن کی صریح ہدایت
قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ (سورہ شوریٰ، آیت 23)
یہ آیہ، محبت اہل بیت علیہمالسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا واحد اجر قرار دیتی ہے۔ عزاداری، امام حسین علیہالسلام سے محبت اور ان کے مظلومانہ قیام پر اظہارِ غم، اسی مودت کا عملی مظہر ہے۔
2. تولّی و تبرّی : خدا کے دوستوں سے محبت اور دشمنوں سے بیزاری
شیعہ عقیدے کا بنیادی ستون ہے۔ امام حسین علیہالسلام کی عزاداری درحقیقت تولی یعنی خدا و اہل بیت کے دوستوں سے محبت اور تبرّی یعنی ان کے دشمنوں سے نفرت کا عملی اعلان ہے، جو قرآن کی عمومی ہدایات جیسے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ … وَأَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (سورہ فتح، آیت 29) کے عین مطابق ہے۔
3. تعظیم شعائر اللہ :شعائر کی تعظیم کا حکم
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ (سورہ حج، آیت 32)
امام حسین علیہالسلام اور ان کا قیام شعائر اللہ میں سے ہے کیونکہ وہ دینِ خدا کی بقاء و سربلندی کے لیے اٹھے۔ ان کی یاد منانا، ان پر رونا، ان کی قربانیوں کو زندہ رکھنا، شعائر الٰہی کی تعظیم شمار ہوتا ہے۔
4. گریہ و حزن : ایک فطری، قرآنی عمل اور سنت ِنبوی
قرآن میں متعدد مقامات پر مؤمنین اور انبیاء کے گریہ کا ذکر ملتا ہے جیسے: وَخَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا (سورہ مریم، آیت 58)
یہ آیت، خدا کے نیک بندوں کے رونے کو ایک پسندیدہ عمل کے طور پر بیان کرتی ہے۔ امام حسین علیہالسلام پر گریہ، ظلم کے خلاف فریاد اور حق کے لیے درد دل کی علامت ہے۔
پس عزاداری کے مفہوم اور اس کے روح کو قرآن کریم میں محبت اہل بیت، تولی و تبری، تعظیم شعائر اور گریہ بر مظلوم جیسے اصولوں سے مکمل ہم آہنگی حاصل ہے۔ اگرچہ "عزاداری” کا لفظ صراحتاً قرآن میں نہیں آیا، لیکن اس کا جوہر، قرآن کی متعدد آیات میں موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اہل بیت علیہمالسلام کی سیرت اور شیعہ روایات میں اس عمل کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اسے نسل در نسل، ایک زندہ شعور اور فکری مقاومت کے نشان کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔