قرآن کریم یا قرآن (عربی: القرآن الکریم)، دین اسلام کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ وحی، جبرائیل کے ذریعے حضرت محمدؐ پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن کی آیتیں کو حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑوں پر پراکندہ طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد اکٹھا کرکے کتاب کی شکل دے دی گئی۔

قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو 114 سورتوں، تقریبا چھ ہزار آیتوں، تیس سپاروں اور 120 احزاب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

چوتھی صدی ہجری تک مسلمانوں کے درمیان قرآن کی مختلف قرائتیں رائج تھیں جس کی اصل وجہ قرآن کے مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مراحل میں ہونا اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقہ تھی۔ چوتھی صدی میں مختلف قرائتوں میں سے صرف سات قرائتوں (قراء سبعہ) کا انتخاب کیا گیا۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت سب سے زیادہ مشہور اور رائج قرائت، قرائت عاصم بمطابق روایت حفص ہے۔

قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس کی وجہ سے غیر عرب مسلمان اسے آسانی سے سمجھ نہیں سکتے اس بنا پر دنیا کی تقریبا تمام زندہ زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ ہر مسلمان اسے با آسانی سمجھ سکے۔ ترجمہ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کی قدمت صدر اسلام تک جا پہنچتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن کے پہلے مترجم سلمان فارسی تھے جنہوں نے چوتھی صدی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فارسی میں ترجمہ کیا اور چھٹی صدی میں قرآن کا لاتینی زبان میں ترجمہ ہوا۔

اس وقت قرآن سے متعلق مختلف علوم مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں جن میں تفسیر قرآن، تاریخ قرآن، علم لغات قرآن، علم اِعراب و بلاغت قرآن، قصص القرآن اور اعجاز القرآن وغیرہ شامل ہیں۔

ختم قرآن پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا شب قدر کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خدا، قرآن اور معصومین ؑ کا واسطہ دے کر، خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔

کلام خداوند

مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔[1] تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔[2]

قرآن پہلی بار غار حراء میں پیغمبر اکرمؐ پر وحی ہوا۔[3] کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی آیات سورہ علق کی ابتدائی آیات تھیں اور پہلی بار مکمل طور پر نازل ہونے والا سوره، سورہ فاتحہ ہے۔[4] مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام آخری نبی اور قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔[5]

کیفیت دریافت

قرآن میں انبیاء پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔[6] بعض سورہ بقرہ کی آیت قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ (ترجمہ: اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔)[7] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف “جبرئیل” کے ذریعے انجام پایا ہے؛[8] لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمدؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔[9]

کیفیت نزول

قرآن کی بعض آیات کے مطابق قرآن، رمضان المبارک کے مہینے میں شب قدر کو نازل ہوا ہے۔[10] اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا قرآن دفعتا(ایک ہی دفعہ) نازل ہوا ہے یا تدریجا(موقع محل اور حالات کی نزاکت کے مطابق کم کم ہوتے ہوئے) نازل ہوا ہے۔ [11] بعض کہتے ہیں: قرآن دفعی طور پر بھی نازل ہوا ہے اور تدریجی طور پر بھی؛[12] اسی طرح بعض کا عقیدہ ہے کہ ہر سال جس مقدار میں نازل ہونا تھا وہ اسی سال شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوتا تھا؛[13] جبکہ اس کے مقابلے میں بعض یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف اور صرف تدریجی طور پر نازل ہوا ہے جس کا آغاز رمضان اور شب قدر میں ہوا تھا۔[14]

مشہور اسامی

قرآن کے بہت سارے اسماء ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے قرآن، فرقان،[15] الکتاب[16] اور مُصحَف سب سے مشہور نام ہیں۔[17]مصحف کا نام ابوبکر نے رکھا ہے؛ لیکن دوسرے نام قرآن مجید ہی میں ذکر ہوئے ہیں۔[18] سب سے مشہور نام قرآن ہے جس کا معنی پڑھی جانے والی ہے اور یہ لفظ الف اور لام کے ساتھ قرآن میں 50 مرتبہ ذکر ہوا ہے اور ان تمام استعمالات میں اس کا معنی قرآن مجید کی کتاب ہے؛ اسی طرح الف لام کے بغیر 20 مرتبہ ذکر ہوا ہے جن میں سے 13 جگہوں پر قرآن مجید کی کتاب کے معنی میں آیا ہے۔[19]

مقام و منزلت

قرآن مسلمانوں کا فکری منبع اور اسلامی فکری منابع جیسے حدیث اور سنت کی طرح ایک اور معیار ہے؛ یعنی اسلامی دیگر منابع سے جو معارف ملتے ہیں اگر وہ قرآنی تعلیمات کے مخالف ہوں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔[20]پیغمبر اکرمؐ اور شیعہ ائمہ کی احادیث کے مطابق احادیث کو قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے اور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوں تو ان کو جعلی اور غیر معتبر قرار دیا جائے۔[21]
مثال کے طور پر پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں کہا گیا ہے: جو بھی بات مجھ سے منقول ہوجائے، اگر وہ قرآن کے مطابق ہو تو وہ میری بات ہوگی اور اگر قرآن کے منافی ہو تو وہ میرا کلام نہیں ہوگا۔[22] امام صادقؑ سے بھی ایک حدیث آئی ہے کہ جو بھی حدیث قرآن سے منافی ہو تو وہ جھوٹی ہے۔[23]

قرآن کی تاریخ
کتابت اور تدوین

پیغمبر اسلامؐ قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ بعثت کے ابتدائی سالوں میں پڑھے لکھے افراد کی کمی اور کتابت کی سہولیات با آسانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مبادا قرآن میں کوئی کلمہ بھول جائے یا اسے غلط محفوظ کیا جائے، قرآن کی آیات کو صحیح حفظ اور قرائت کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔[24] آپؐ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو کاتبان وحی کو بلا کر یہ آیت ان کے سامنے تلاوت فرماتے اور اسے لکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔[25] قرآن کی آیتیں مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد صحابہ نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ [26]

پیغمبر اکرمؐ خود قرآن کی کتابت کی نگرانی فرماتے تھے۔ آپؐ کاتبان وحی کے سامنے آیتوں کی تلاوت فرمانے اور لکھنے کے بعد ان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ لکھنے میں کوئی غلطی یا اشتباہ ہوئی ہو تو اسے رفع کیا جا سکے۔[27] سیوطی لکھتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن اکھٹے اور سوروں کی ترتیب وغیرہ مشخص نہیں تھا۔ [28]

پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ کتاب التمہید کے مطابق آپؐ کے زمانے میں قرآن کی آیات اور سورتوں کا نام آپؐ کے توسط سے ہی معین ہوئے تھے لیکن اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دینا اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ آپؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کی صوابدید پر انجام پایا ہے۔ [29] اس کتاب کے مطابق پہلی شخصیت جس نے قرآن کی تدوین کی، امام علیؑ تھے۔ آپؑ نے قرآن کی سورتوں کو ان کی تاریخ نزول کے مطابق ترتیب دے کر قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔[30]

مختلف نسخوں کو یکساں کرنا

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد آپ کے نامور اصحاب میں سے ہر ایک نے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا یوں قرآن کے مختلف نسخے مختلف قرائت اور سورتوں کی مختلف ترتیب کے ساتھ تدوین ہوئے۔[31] اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے سے متعلق نسخے کو صحیح اور دوسرے نسخوں کو غلط اور اشتباہ سمجھنے لگا۔[32]

اس صورتحال کے پیش نظر حذیفۃ بن یمان کی تجویز پر عثمان نے قرآن کے مختلف نسخوں کو یکساں کرنے کیلئے ایک گروہ تشکیل دیا۔[33] اس مقصد کیلئے اس نے مختلف گوشہ و کنار سے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کرکے انہیں یکساں کرنے کے بعد بقیہ نسخوں کو محو کرنے کا حکم دیا۔[34] کتاب التمہید کے مطابق احتمال غالب یہ ہے کہ قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے کا کام سنہ 25 ہجری میں انجام پایا۔[35]

ائمہ معصومین اور موجودہ قرآنی نسخہ

احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ائمہ معصومین قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے اور پوری اسلامی حکومت میں قرآن کے ایک ہی نسخے کو ترویج دینے کے ساتھ موافق تھے۔ سیوطی نے امام علی ؑ سے نقل کیا ہے کہ عثمان نے اس حوالے سے آپؑ سے مشورہ کیا جس پر آپؑ نے اپنی مواففت کا اعلان فرمایا۔[36] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام صادقؑ نے آپ کے سامنے موجودہ قرآن کے برخلاف قرائت کرنے پر ایک شخص کو منع کیا۔[37] کتاب التمہید کے مطابق تمام شیعہ قرآن کے موجودہ نسخے کو صحیح اور کامل ماننتے ہیں۔[38]

قرآن کی مختلف قرائتیں

چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں۔[39] ان مختلف قرائتوں کے مختلف علل و اسباب تھے جن میں سے زیادہ اہم اسباب یہ ہیں: قرآن کی مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مرحلے میں ہونا، عربی حروف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا، مختلف لہجوں کی موجودگی اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونا۔[40]

چوتھی صدی ہجری میں بغداد کے قاریوں کے استاد ابن مجاہد نے مختلف قرائتوں میں سے سات قرائتوں کو انتخاب کیا۔ ان سات قرائتوں کے قاریوں کو قراء سبعہ (سات قراء) کہا جانے لگا۔ چونکہ ان سات قرائتوں میں سے ہر ایک دو طریقوں سے نقل ہوئی ہیں اس بنا پر مسلمانوں کے درمیاں چودہ قرائتیں رائج ہوئیں۔[41]

اہل سنت معتقد ہیں کہ قرآنی الفاظ کے مختلف ابعاد ہیں اس بنا پر ان جہات میں سے ہر ایک جہت کے مطابق قرآن کو پڑھا جا سکتا ہے۔[42] لیکن شیعہ علماء کہتے ہیں: قرآن صرف ایک قرائت کے ساتھ نازل ہوا ہے اور ائمہ معصومین نے قرآن کی تلاوت میں آسانی کی خاطر مختلف قرائتوں کی اجازت دی ہیں۔[43]

مسلمانوں کے درمیان اس وقت عاصم کی قرائت حفص کی روایت کے مطابق، سب سے زیادہ رائج ہے۔ شیعہ معاصر محققین کی ایک گروہ ان سات قرائتوں میں سے صرف اسی قرائت کو صحیح اور متواتر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:‌ دوسری قرائتیں پیغمبر اکرم سے نہیں لی گئی بلکہ متعلقہ قراء کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں یہ قرائتیں وجود میں آئی ہیں۔[44]

اعراب‌ گذاری

عربی زبان میں معنی سمجھنے میں اعراب کا بہت بڑا کردار ہے اس لئے اعراب کی طرف توجہ دینا زیادہ اہم ہے؛ کیونکہ اعراب کی شناخت میں غلطی معنی میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور کبھی تو اللہ تعالی کی مراد کے مخالف معنی دیتا ہے۔[45] کاتبان وحی شروع میں قرآنی الفاظ کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھتے تھے اور یہ کام جو لوگ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں بستے تھے ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا لیکن بعد کی نسلیں خاص کر غیر عرب (عجم) کے لیے بعض اوقات مختلف قرائتوں اور معنی میں تبدیلی کا باعث بنتا تھا۔ اسی لیے اختلافات، قرآن کے معنی میں تحریف اور تغییر کے خاتمے کے لیے اعراب لگانا بہت ضروری تھا۔[46]

تاریخی روایات کے مطابق سب سے پہلے اعراب اور نقطے اور ان کے لگانے والے کے بارے میں اختلاف نظر ہے۔ اکثر ابو الاسود دُوئِلی (م 69 ھ) کو اعراب کے موجد قرار دیتے ہیں جنہوں نے یحیی بن یعمر کی تعاون سے یہ کام انجام دیا۔[47] شروع میں اعراب اس طرح سے تھے: ہر لفظ کے آخری حرف پر نقطہ زبر (نصب) کے لیے، نیچے نقطہ زیر (جر اور کسرہ) کے لیے جبکہ آخری حرف کے بعد نقطہ پیش (رفع اور ضمہ) کے لیے۔[48]ایک صدی کے بعد، خلیل بن احمد فراہیدی (175ھ) نے نقطوں کے بدلے خاص شکل قرار دیا: نصب کے لیے حرف پر مستطیل اور جر اور کسرہ کے لیے حرف کے نیچے مستطیل اور رفع کے لیے حرف کے اوپر چھوٹا سا واو اور تنوین کے لیے انہی شکلوں کو دوبار قرار دیا جبکہ تشدید کے لیے «س» کے تینوں دانت اور جزم یا ساکن کے لیے «ص» کا اگلا حصہ قرار دیا۔[49]دوسری صدی کے دوسرے حصے میں نحو کے مکاتب؛ بصرہ میں سیبویہ کی قیادت میں، کوفہ میں کسائی کی سرپرستی میں جبکہ تیسری صدی ہجری کے اواسط میں بغدا میں بھی نحو کا مکتب ظہور کر گیا اور قرآن مجید کے اعراب لگانے میں کافی ترقی ہوگئی۔[50]

قرآن کا ترجمہ

قرآن کا ترجمہ بہت پرانے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس کی تاریخ صدر اسلام تک پہنچتی ہے۔[51] قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ فارسی زبان میں چوتھی صدی ہجری میں انجام پایا ہے۔[52] کہا جاتا ہے کہ قرآن کا پہلے مترجم سلمان فارسی تھے جنہوں نے بسم الله الرحمن الرحیم کا فارسی میں ترجمہ کیا۔[53]

لاتینی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شروع شروع میں عیسایی راہبوں کے ذریعہ سے انجام پایا۔ یہ لوگ کلامی مباحث میں اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے قرآن کے مختلف حصوں کا ترجمہ کرتے تھے۔[54] لاتینی زبان میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ چھٹی صدی ہجری میں منظر عام پر آیا۔[55]

قرآن کی طباعت

قرآن سنہ 950 ہجری(1543ء) میں پہلی دفعہ اٹلی میں شایع ہوا۔ قرآن کی یہ طباعت کلیسا کے حکام کے حکم سے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1104 ہجری، پھر 1108 ہجری کو یورپ میں قرآن کو شایع کیا گیا۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ سنہ 1200 ہجری میں قرآن کو شایع کیا اور یہ کام مولاعثمان نے سن پیترزبورگ روس میں انجام دیا۔

پہلا اسلامی ملک جس نے قرآن کو شایع کیا ایران ہے۔ ایران نے سنہ1243ھ اور 1248ھ، میں قرآن کا دو خوبصورت لتھوگرافی نسخے شایع کیا۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ملکوں جیسے ترکی، مصر اور عراق وغیرہ میں قرآن کے مختلف نسخے شایع ہوئے۔[56]

مصر میں میں سنہ 1342ھ میں الازہر یونیورسٹی کے پروفیسروں کی نگرانی میں حفص کی روایت میں عاصم کی قرائت کے مطابق قرآن شایع ہوا جو پورے عالم اسلامی میں مورد قبول ٹھہرا۔ آجکل جو قرآن عثمان طہ کے نام سے معروف ہے وہ شام کے ایک خوشنویس کے ہاتھوں لکھا گیا ہے جس کا نام عثمان طہ تھا۔ یہ قرآن اکثر اسلامی ممالک میں شایع ہوتا ہے۔ اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر صفحہ کسی آیت کے آغاز سے شروع اور کسی آیت کے اختتام پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کے مختلف حصوں جیسے احزاب اور پاروں کی منظم تقسیم بھی اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے ہے۔[57]

آجکل قرآن کی طباعت متعلقہ وزارتوں کی زیرنگرانی مخصوص قوانین و شرائط کے تحت انجام پاتی ہے۔[58] ایران میں سازمان دارالقرآن الکریم، قرآن کی تصحیح اور اس کی طباعت کا ذمہ دار ہے۔[59]

قرآن کریم کی ساخت

قرآن 114 سورتوں اور تقریبا چھ ہزار آیتوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کی آیتوں کی دقیق تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے امام علیؑ سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی 6236 آیت ہیں۔[60] قرآن 30 پاروں اور 120 احزاب میں تقسیم ہوا ہے۔[61]

سورہ

قرآن کی تقسیم میں ایک اکائی کا نام “سورة” (یا سورت یا سورہ) ہے۔ سورہ کے معنی لغت میں “منقطع شدہ” (کٹا ہوا) کے ہیں اور اصطلاح میں آیات کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص مواد اور مضمون پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سورتوں کی تعداد 114 ہے اور سوائے سورہ توبہ کے سب کا آغاز بسم الله الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔[62]

قرآن کا آغاز سورہ حمد سے اور اختتام سورہ ناس پر ہوتا ہے۔ قرآن کی سورتوں کو ان کے نازل ہونے کے زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے مکی اور مدنی میں تقسیم کیا جاتا ہے: اس طرح وہ سورتیں جو ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی ہیں انہیں مکی اور وہ سورتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں کو مدنی کہا جاتا ہے۔[63]

آیت

قرآن کریم کے کلمات اور جملوں کو آیت کہا جاتا ہے اور مختلف آیات کے مجموعے سے سوره وجود میں آتا ہے۔[64] آیات حجم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 282 قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جبکہ سورہ رحمان کی آیت نمبر 64 “مُدهامَّتان”، سورہ ضحی کی آیت نمبر 1 “والضُّحی” اور سورہ فجر کی آیت نمبر 1 “والفَجر” کو قرآن کی سب سے چھوٹی آیت قرار دیا جاتا ہے۔[65]

قرآن کی آیتیں معنی کی وضاحت کے اعتبار سے محکم اور متشابہ میں تقسیم ہوتی ہیں۔ محکمات ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کے معنی اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان میں کسی قسم کی شک اور تردید کی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں بعض آیات ہیں جن کے معنی کے بارے میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں ان آیات کو متشابہ کہا جاتا ہے۔[66] یہ تقسیم بندی خود قرآن میں ہی موجود ہے۔[67]

آیات کی ایک اور تقسیم بندی بھی ہے جس کے مطابق قرآن کی وہ آیت جو کسی اور آیت میں موجود حکم کو باطل قرار دے، ناسخ اور جس آیت کا حکم باطل قرار دیا گیا ہے کو منسوخ کہا جاتا ہے۔[68]

حزب اور پارہ

حزب اور پارہ بھی قرآن کی تقسیم بندی کے دو معیار ہیں جو مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ احتمال دیا جاتا ہے کہ اس کام کو مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور اسے حفظ کرنے میں آسانی کی خاطر انجام دئے ہیں۔ اس طرح کی تقسیمات فردی سلیقوں کی بنیاد پر انجام دیجاتی تھی اس بنا پر ہر زمانے میں ان کی کمیت اور کیفیت میں تبدیلی نظر آتی ہیں۔[69] مثلا کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں قرآن سات احزاب پر مشتمل تھا اور ہر حزب کئی سوروں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں قرآن کو دو یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قرآن کو تیس پاروں اور ہر پارے کو چار احزاب میں تقسیم کرنا رائج اور مرسوم ہے۔[70]

قرآن کے مضامین

قرآن میں مختلف موضوعات جیسے اعتقادات، اخلاق، احکام، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: توحید، معاد، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرمؐ کے غزوات، قصص القرآن، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور شرک و نفاق سے منع وغیرہ۔ [71]

تحریف ناپزیری قرآن

جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی ہے۔ آیت الله خوئی لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[72] آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔[73]

قرآن کا چیلنج

قرآن کی مختلف آیتوں میں پیغمبر اکرمؐ کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرمؐ کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔[74] مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔[75] مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرمؐ کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔[76] اعجاز القرآن، قرآنی علوم کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔[77]

اعجاز القرآن

قرآن کا بے مثل ہونا اسلامی اصطلاح میں اعجاز القرآن کہلاتا ہے۔ اور قرآن کے معجزہ ہونے کو کئی اعتبار سے بیان کیا جا سکتا ہے:

• بے مثل فصاحت و بلاغت، جس کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر [= زبانی اعجاز کا نظریہ]۔

• موسیقیائی اور صوتیاتی انفرادیت۔

• معارف و تعلیمات کے لحاظ سے انفرادیت۔

• قرآنی تشریعات اور قانون سازی فطرت اور عقل سلیم کے عین مطابق اور دو جہانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہیں۔

• قرآنی دلائل و براہین قاطع اور فصل الخطاب ہیں۔

• قرآن ماضی اور مستقبل دونوں اعتبار سے غیبی خبروں پر مشتمل ہیں۔

• اسرار خلقت کے سلسلے میں علمی [سائنسی] اشارات پر مشتمل ہے۔

• قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات کے تناظر میں نازل ہوا ہے۔

• یہ قول کہ “خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے۔ (نظریہ صرفہ)

سابقہ انبیاء کے معجزات زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو اسلام اور رسول اللہؐ کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ ہمارے پیغمبرؐ کے زمان ےمیں قوم عرب کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے آپؐ کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔[78]

قرآن سے مرتبط علوم

قرآن مسلمانوں کے درمیان مختلف علوم کے وجود میں آنے کا باعث بنا ہے۔ تفسیر اور علوم قرآن انہی علوم میں سے ہیں۔

تفسیر

تفسیر سے مراد وہ علم ہے جس میں قرآن کی آیات کی شرح و تبیین ہوتی ہے۔[79] قرآن کی تفسیر پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے خود آپؐ کے توسط سے ہی شروع ہوا ہے۔[80] امام علیؑ، ابن عباس، عبدالله بن مسعود اور اُبیّ بن کعب پیغمبر اکرمؐ کے بعد سب سے پہلے مفسرین شمار ہوتے ہیں۔[81] قرآن کی مختلف طریقوں اور روشوں سے تفسیر ہوئی ہے۔ تفسیر کی بعض روشیں کچھ یوں ہیں: تفسیر موضوعی، تفسیر ترتیبی، قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر، تفسیر روایی، تفسیر علمی، تفسیر فقہی، تفسیر فلسفی اور تفسیر عرفانی۔[82]

علوم قرآن

قرآن کے بارے میں مختلف جہات سے بحث کی جا سکتی ہے ایسے علوم کو جو مختلف جہات سے قرآن کے بارے میں بحث کرتے ہیں، علوم قرآن کہا جاتا ہے۔ تاریخ قرآن، آیات الأحکام، علم لغات قرآن، علم اِعراب و بلاغت قرآن، اسباب النزول، قصص القرآن، اعجاز القرآن، علم قرائات، علم مکی و مدنی، علم محکم و متشابہ اور علم ناسخ و منسوخ علوم قرآن کی شاخوں میں سے ہیں۔ [83]

علوم قرآن کے بعض اہم مآخذ درج ذیل ہیں:

• التبیان (مقدمہ کتاب) بقلم شیخ طوسی (456ھ)

• مجمع البیان (مقدمہ کتاب) بقلم شیخ طبرسی (548ھ)

• إملاءُ ما مَنَّ بِه الرحمن ابو البقاء عکبری (616ھ)

• البرہان فی علوم القرآن (زرکشی) (794ھ)

• الاتقان فی علوم القرآن (جلال‌ الدین سیوطی) (911ھ)

• آلاء الرحمان (مقدمہ کتاب) بقلم محمد جواد بلاغی (1352ھ)

• البیان فی تفسیر القرآن (سید ابو القاسم خوئی) (1371شمسی ہجری)

• قرآن در اسلام (سید محمد حسین طباطبائی) (1360شمسی ہجری)

• التمہید فی علوم القرآن (محمد ہادی معرفت) (1385شمسی ہجری)[84]

مرتبط رسومات

قرآن مسلمانوں کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی اجتماعی زندگی میں بھی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ختم قرآن کی عمومی محفلیں مختلف مساجد اور دیگر مذہبی مقامات جیسے امام بارگاہوں، ائمہ معصومین اور امام زادگان کے حرم حتی مختلف افراد اپنے گھروں میں بھی ختم قرآن کی نشستیں منعقد کرتے ہیں۔[85]

قرآن سروں پر اٹھانا شب قدر کے ایام میں شیعوں کی مراسم میں سے ایک ہے۔ اس رسم میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خدا کو اس کی عزت و جلال اور چودہ معصومین کا واسطہ دے کر اپنی گناہوں سے مغفرت طلب کی جاتی ہے۔[86]

مسلمانوں کے اکثر رسمی مراسم جیسے تقاریر، اور اجماعی مراسم جیسے شادی بیاہ اور مجالس و محافل وغیرہ کا آغاز بھی قرآن کی کچھ آیات کی تلاوت کے ذریعے ہوتا ہے۔[87]

قرآن اور ہنر

مسلمانوں کے ہنر میں قرآن مجید کو بڑی پذیرائی ملی ہے۔ اکثر خوشنویسی، تذہیب، تجلید (جلد کرنا) ادبیات اور معماری میں جلوہ نما ہے۔اور چونکہ قرآن کو نسخہ نویسی کے ذریعے سے حفظ اور نشر کیا جاتا تھا تو خوشنویسی مسلمانوں کے درمیان بہت ترقی گر گئی[88]اور آہستہ آہستہ قرآن مختلف رسم الخط جیسے؛ نَسخ، کوفی، ثلث، شکستہ اور نستعلیق میں لکھا گیا۔[89]قرآن آیات عربی، فارسی اور اردو ادبیات میں بھی بہت کار آمد ثابت ہوئی ہیں اور نثر و شعر دونوں میں قرآنی آیات کے مضامین فراوان استعمال ہوئے ہیں۔[90]

اسلامی معماری میں بھی ہنر، قرآنی آیات سے متاثر رہی ہے۔ اسلام مختلف تاریخی عمارتوں جیسے مساجد اور قصروں پر قرآنی آیات لکھی نظر آتی ہیں؛ اسی طرح بعض قرآن مضامین جیسے قرآن میں مذکور بہشت اور جہنم کی صفات بھی عمارتوں کی معماری میں استعمال ہوئی ہیں۔[91] بیت المقدس میں موجود قبۃ الصخرہ پر درج شدہ قرآنی آیات کے طرز کو عمارتوں پر سب سے اچھا استعمال قرار دیا گیا ہے۔اس عمارت کے کتیبے جو 71ھ (691ء) کو بنائے گئے ہیں، جن پر اسلامی بنیادی عقائد اور سورہ نساء، آل عمران اور سورہ مریم کی بعض آیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔[92]

قرآن مستشرقین کی نظر میں

بہت سارے غیر مسلم دانشورں نے قرآن کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بعض مستشرقین قرآن کو پیغمبر اکرمؐ کا کلام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کے مطالب کو یہودیوں اور عیسائیوں کے مآخذ اور زمان جاہلیت کے اشعار سے اقتباس کیا ہے۔ بعض محققین اگرچہ صراحت کے ساتھ قرآن کو وحی نہیں مانتے لیکن اسے انسانی کلام سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔[93]

ریجارڈ بل قرآن کے ادبیات میں تکرار اور تشبیہ کے طریقہ کار کو یہودیوں اور عیسائیوں کے “حُنَفاء” نامی رسم سے اقتباس شدہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں نولدکھ قرآن کی سورتوں خاص کر مکی سورتوں کو ادبی لحاظ سے معجز نما قرار دیتے ہوئے قرآنی آیات کو فرشتوں کی نغمہ سرایی قرار دیتے ہیں جو مؤمن کو وجد میں لاتی ہیں۔ موریس بوکای، اعجاز علمی قرآن کو مد نظر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن کی بعض آیات جدید سائنسی ایجادات سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ آخرکار وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن منشأ الہی کا حامل ہے۔[94]

______________________

حوالہ جات

  1. • مصباح یزدی، قرآن‌ شناسی، 1389، ج1، ص115-122.
  2. • میر محمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1363ش، ص44؛ مصباح یزدی، قرآن‌ شناسی، 1389، ج1، ص123.
  3. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص124-127.
  4. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص127.
  5. • مطہری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، 153.
  6. • قرآن، سورہ شورا، آیت51.
  7. • قرآن، بقره، 97.
  8. • میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1363ش، ص7.
  9. • یوسفی غروی، علوم قرآنی، 1393ش، ص46؛ معرفت، التمہید، 1412ق، ص55و56.
  10. • قرآن، بقرہ، 185؛ قدر، 1.
  11. • اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص41.
  12. • مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، 1389، ج1، ص139؛ اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص41.
  13. • اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص42.
  14. • اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص42و49.
  15. • سورہ فرقان،آیت 1۔
  16. • سورہ بقره، آیت 2؛ حجر، آیت 1۔
  17. • یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۲۸.
  18. • یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۲۸.
  19. • مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۴۳.
  20. • مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۹۰ش، ج۲۶، ص۲۵و۲۶.
  21. • مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۹۰ش، ج۲۶، ص۲۶.
  22. • کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۶۹.
  23. • کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۶۹.
  24. • رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص221و222.
  25. • رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص257.
  26. • معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص280و281.
  27. • رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص260.
  28. • سیوطی، الإتقان، 1363ش، ج1، ص202؛ سیوطی، ترجمہ الأتقان، ج1، ص201.
  29. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص272-282.
  30. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص281.
  31. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص334.
  32. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص334-337.
  33. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص338و339.
  34. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص346.
  35. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص343-346.
  36. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص341.
  37. • حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ق، ج4، ص821.
  38. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص342.
  39. • ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص195.
  40. • معرفت، التمہید، 1411ق، ج2، ص10، 12، 16، 25.
  41. • ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص195-197.
  42. • ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص198.
  43. • ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص199.
  44. • ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص199، 200.
  45. • محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۲.
  46. • محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۴.
  47. • محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.
  48. • محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.
  49. • محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.
  50. • محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۶و۳۱۷.
  51. • رامیار، تاریخ قرآن،1369ش، ص653.
  52. • آذرنوش، «ترجمہ قرآن بہ فارسی»، ص79.
  53. • رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص653.
  54. • رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، 1382ش، ص84.
  55. • رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، 1382ش، ص84.
  56. • معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.
  57. • معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.
  58. • «نظارت بر چاپ و‌ نشر قرآن کريم»، سایت تلاوت.
  59. • «تاريخچہ و وظايف و اہداف»، سایت تلاوت۔
  60. • یوسفی غروی، علوم قرآنی، 1393ش، ص32.
  61. • مستفید، «جزء»، ص229، 230.
  62. • جمعی از محققان، «آیہ بسملہ»، ص120.
  63. • معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص130.
  64. • مجتہد شبستری، آیت، 1370ش، ص276.
  65. • مجتہد شبستری، «آیت»، ص276.
  66. • طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج3، ص21؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص433.
  67. • سوره آل عمران، آیت 7.
  68. • معرفت، التمIید، 1411ق، ج2، ص294.
  69. • مستفید، «جزء»، ص228، 229.
  70. • مستفید، «جزء»، ص229، 230.
  71. • خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص1631، 1632.
  72. • خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، 1430ق، ص200.
  73. • خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، 1430ق، ص201.
  74. • سورہ اسراء، آیت 88؛ سورہ ہود، آیت 13؛ سورہ یونس، آیت 38.
  75. • معموری، تحدی، 1385ش، ص599.
  76. • سورہ طور، آیت 34.
  77. • معرفت، اعجاز القرآن، 1379ش، ج9، ص363.
  78. • خرمشاہی، دانشنامہ قرآن…، ج2، ص1638-1639۔
  79. • عباسی، تفسیر، 1382ش، ج7، ص619.
  80. • معرفت، التفسیر والمفسرون، 1418ق، ج1، ص174.
  81. • معرفت، التفسیر والمفسرون، 1418ق، ج1، ص210و211.
  82. • معرفت، التفسیر والمفسرون، 1419ق، ج2، ص14تا20، 22، 25، 354، 443، 526.
  83. • اسکندرلو، علوم قرآن، 1379ش، ص12.
  84. •  ہاشم‌زادہ، «کتاب شناسی علوم قرآن»، ص395، 396، 397، 401، 408؛ معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص11-19.
  85. • «آداب ختم قرآن در ماہ رمضان»، گلستان قرآن، ص36.
  86. • «مراسم قرآن بہ سر گرفتن»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ.
  87. •  موسوی آملی، قرآن در رسوم ايرانی، 1384، ص47.
  88. • محمودزاده، «هنر خط و تذهیب قرآنی»، ص۳.
  89. •  مثال کے طور پر ملاحظہ کریں: جباری راد، «نورنگاران معاصر»، ص۶۶.
  90. • ملاحظہ کریں: راستگو، «تجلی قرآن در ادب فا رسی»، ص۵۶؛ جعفری، «تأثير قرآن در شعر فارسی»، ص۵۴؛ ترابی، «تأثير قرآن در شعر و ادب فارسی»، ص۵۲.
  91. • گرابار، «هنر، معماری و قرآن»، ص۶۹.
  92. • گرابار، «هنر، معماری و قرآن»، ص۷۱و۷۲.
  93. • کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص35.
  94. •  کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص35.
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے