عید قربان، عشق خداوند میں سب کچھ قربان کر دینے کا دن
عربی زبان میں قربانی کو ، اضیحہ ، کہتے ہیں۔(المعجم الفارسی الکبیر ، ج 3 ، ص 2085،)
لفظ قربانی کے ذیل میں، لہذا 10 ذی الحجہ کو جس میں قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عید الاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو عید الاضحی (بقر عید کے روز) بارہویں یا تیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یا نحر کرتے ہیں۔(الحدائق الناضرة، ج 17، ص 199۔جواہر الکلام ، ج 19 ، ص 219)
اگرچہ بعض علماء نے قربانی کے معنی میں مستحب ہونے کی قید کو بھی ذکر کیا ہے ، تا کہ واجب قربانی کو شامل نہ ہو سکے۔(الموسوعة الفقہیة المیسرة ، ج 3، ص 420)
قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تو اس کے معنی اس معنی سے بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں جو معنی ہم نے ذکر کیے ہیں ، اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ، اسی طرح حج کے زمانہ ، منا اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کیلئے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں۔
قرآن کریم میں ان تمام معانی کو بدن، بھیمة الانعام، قلائد، منسک ، ھدی اور نحر وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں۔
قربانی کی تاریخ:
خداوند عالم نے آدم کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میں ہمیں بہت سے عبرت آموز ، فائدہ مند سبق حاصل ہوتے ہیں ” اور پیغمبر آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا قصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے، خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔
فَتُقُبِّلَ قُرْبَانُ هَابِیلَ وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ قُرْبَانُ قَابِیلَ،
ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی اور قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی۔(سورہ مائدہ ، آیت 27)
خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لیے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ خارج و حقیقت میں بھی واقع ہوا ہے اور حضرت آدم کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے۔
اگرچہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے، لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے۔(مجمع البیان ، طبرسی ، ج 3 و 4 ، ص 283۔روح المعانی ، ج 4، و 6 ، ص 163)
خداوند عالم نے قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قابیل بے تقوی تھا ، جیسا کہ ہابیل کی قربانی کے قبول کی وجہ ان کا تقوی تھا۔
اگرچہ قربانی کرنا حضرت آدم کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے ، مثال کے طور پر یہ آیات جن کو گذشتہ امتوں میں اعمال کے طور پر انجام دیا جاتا تھا ، قرآن کریم نے سورہ حج کی 34 ویں اور 67 ویں آیت میں ذکر کیا ہے کہ:
اور ہم نے ہر قوم کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کر دیا ہے تا کہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو ۔(سورہ حج ، آیت 34)
اور ہر امّت کے لیے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کر رہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں۔(سورہ حج، آیت 67)
جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں، منسک سے مراد قربانی ہے ۔(مجمع البیان ، ج 7و 8 ، ص 150۔معالم التنزیل ، بغوی، ج 3 ، ص 350)
سورہ حج کی 34 ویں آیت بھی اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رایج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔
قرآن کریم کے بقول بعض قومیں اپنے بچوں کو ذبح اور قربان کیا کرتیں تھیں اور حضرت ابراہیم (ع) اس عمل کو منسوخ کرنے کیلئے اپنے بیٹے اسماعیل (ع) کو ذبح کرنے کیلئے بڑھے اور پھر اسماعیل کی بجائے دنبہ کو ذبح کر دیتے ہیں۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ:
پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ، پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا ، اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیتے ہیں ، بیشک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے ، اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے ۔(سورہ صافات ، آیت 102 تا 107۔تفسیر کبیر ، فخر رازی ، ج 13 ، ص 138)
قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے بعد جاہلیت کے زمانہ میں بھی قربانی رائج تھی اور یہ لوگ اپنی قربانیوں کو بتوں کے سامنے پیش کیا کرتے تھے ۔(سورہ حج ، آیت 40۔المیزان ، ج 14 ، ص 372)
جب کہ حضرت ابراہیم نے حج کے اعمال میں جو قربانی قائم کی تھی وہ خداوند عالم کے لیے تھی،
اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و پاکیزہ بنا دو ، اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کر دو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو کر آئیں گے ، تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کیے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ۔(سورہ حج ، آیت 26 تا 28)
جاہلیت اور صدر اسلام میں قربانی کے جانور کے گلے میں ایک نشانی ڈالتے تھے جو اس زمانہ کی رسم تھی:
ایمان والو ! خبردار خدا کی نشانیوں کی حرمت کو ضائع نہ کرنا اور نہ محترم مہینے کی، قربانی کے جانور اور جن جانوروں کے گلے میں پٹے باندھ دیئے گئے ہیں اور جو لوگ خانہ خدا کا ارادہ کرنے والے ہیں اور فرض پروردگار اور رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں ان کی حرمت کی خلاف ورزی کرنا۔(سورہ مائدہ ، آیت 2 و 87)
اس طرح اپنی قربانی پر علامت لگاتے تھے تا کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے ۔ ان کی اجتماعی زندگی میں اس عمل کا کردار اس حد تک زیادہ تھا کہ جس جانور کے گلے میں قربانی کی علامت ہوتی تھی اس کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اس جانور کی بے احترامی کریں۔(سورہ مائدہ ، آیت 2)
اور یہ سخت گیری اس حدتک تھی کہ جس جانور کے گلے میں قربانی کی نشانی ڈالدیتے تھے اس جانور سے اپنے فائدوں کے لئے استفادہ نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے بعد یہ ممنوعیت ختم ہو گئی اور خداوند عالم نے قربانی کے لیے معین شدہ جانوروں سے ذبح کے وقت تک استفادہ کرنے کی اجازت دیدی۔(سورہ حج ، آیت 27 تا 32)
اس بناء پر حاجیوں کو قربانی کے لیے معین شدہ جانوروں سے سامان اٹھانے، ان پر سوار ہونے اور ان کا دودھ استعمال کرنے کی اجازت مل گئی ۔ البتہ ان سے فائدہ اٹھانے کے معنی یہ نہیں تھے کہ ان کی بے احترامی کی جائے بلکہ معین شدہ جانوروں کا احترام قربانی کے وقت تک کرنا ضروری تھا۔(سورہ حج، آیت 32 تا 36۔سورہ مائدہ ، آیت 2)
جاہلیت کے زمانہ میں کچھ دوسرے باطل عقاید و افکار بھی تھے جیسے قربانی کا گوشت حج کرنے والے کے لیے حرام تھا جس کو خداوند عالم نے صرف جائز ہی قرار نہیں دیا بلکہ اس کو مستحب قرار دیا ہے کہ قربانی کے گوشت کے ایک حصہ کو اپنے سے مخصوص کر لیں اور اسے کھائیں۔
خداوند عالم نے کچھ آیتوں میں انصاب (سورہ مائدہ، آیت 3 و 90) ، اور بتوں (سورہ انعام، آیت 137) کیلئے قربانی کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو نادرست اور ناجائز رفتار کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ یہ لوگ اس باطل اور ناجائز سنت کو انجام دینے کیلئے اس حد تک آگے بڑھ جاتے تھے کہ اپنے بچوں کو بتوں کے لیے قربان کر دیتے تھے اور اس عمل کو بتوں سے قریب ہونا بتاتے تھے۔ (تفسیر المیزان، ج 7 ، ص 361)
قرآن اور احادیث میں عید قربان کا مقام:
عید الاضحی وہ عید ہے جو اہل معرفت لوگوں کو ابراہیمی قربانی کی یاد دلاتی ہے ۔ وہ قربانی کہ جس سے فرزندان آدم ، اصفیا اور اولیاء کو درس ایثار اور جہاد ملتا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّی * وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّی،
بتحقیق جس نے پاکیزگی اختیار کی وہ فلاح پا گیا، اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔(سورہ الأعلی آیت 14، 15)
وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّی اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ:
« قال: صلوة الفطر و الأضحی »،
اس سے مراد عید قربان اور عید فطر ہے۔(بحار الانوار، ج 87، ص 348)
قرآن کی ایک اور آیت جو عید الاضحی کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ،
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ،
پس آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔(سورہ کوثر آیت 2)
یہاں پر نماز سے مراد عید الاضحی کی نماز ہے اور اسی بات پر پیغمبر اسلام کی حدیث اور مفسرین کے اقوال بھی موجود ہیں ۔ (بحار الانوار، ج 78، ص 349)
عطا و بخشش کا دن:
پیغمبر اسلام (ص) نے اس بارے میں ارشاد فرمایا:
إنّ الملائکة یقومون یوم العید علی أفواه السکّة و یقولون: أغدوا إلی ربّ کریم، یعطی الجزیل و یغفر العظیم ،
ملائکہ عید کے دن چپ رہنے والے انسانوں کے لبوں پر آ جاتے ہیں اور یا لوگوں کے راستے میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں :
علی الصبح پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ کیونکہ وہ بہت زیادہ دینے والا اور نہایت ہی بخشنے والا ہے۔(مستدرک الوسائل، ج 6، ص 154)
صحیفہ سجادیہ میں عید الاضحی کا بیان:
امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں:
اَللَّهُمَّ هذا یَوْمٌ مُبارَکٌ مَیْمُونٌ، وَالْمُسْلِمُونَ فیهِ مُجْتَمِعُونَ فی اَقْطارِ اَرْضِکَ، یَشْهَدُ السَّآئِلُ مِنْهُمْ وَالطَّالِبُ وَالرَّاغِبُ وَالرَّاهِبُ، وَاَنْتَ النَّاظِرُ فی حَوآئِجِهِمْ، فَاَسْئَلُکَ بِجُودِکَ وَ کَرَمِکَ وَهَوانِ ماسَئَلْتُکَ عَلَیْکَ، اَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَالِهِ ،
ترجمہ : بار الہا ! یہ دن کتنا بابرکت اور مبارک ہے اور اس دن مسلمان تیری زمین میں جگہ جگہ جمع ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ کوئی تجھ سے سوال کر رہے ہیں تو کوئی طالب حاجت ہیں ، کوئی امید لگائے بیٹھے ہیں تو کوئی تیرے خوف میں مبتلا ہیں اور تو ان سب کی حاجتوں کا مشاہدہ کر رہا ہے پس میں تجھ سے تیرے جود و کرم کے صدقے سوال کرتا ہوں اور جو سوال کرتا ہوں اس کا جواب تجھ پر ہی ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ محمد و آل محمد پردرود بھیج ۔
قربانی کا فلسفہ اور اس کی تاثیر:
حج اسلام کا ایک رکن ہے، اسی وجہ سے عبادت اور معاشرے میں اس کا کردار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ ہے ، اجتماعی اور دنیوی مسائل میں حج کا کردار اس قدر پر اہمیت اور تاثیر گذار ہے ، جس قدر خود سازی معنوی میں عبادت کا کردار بہت زیادہ موثر ہے ۔ مناسک حج کے بہت سے اعمال ہیں جن میں سے ایک قربانی ہے ، جیسا کہ قربانی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ،خداوند عالم سے نزدیک اور تقرب حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔
تمام امتوں کے لیے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لا شریک کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت، ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے۔
ذبح کے احکام:
قربانی کے ہدف اور فلسفہ کے واقع ہونے کے لیے خداوند عالم نے ذبح اور قربانی کے احکام بیان کیے ہیں ، ان میں سے کچھ احکام مندرجہ ذیل ہیں :
1- ذبح یا نحر کرتے وقت خداوند عالم کے اسماء حسنی میں سے کوئی ایک نام لیا جائے:
لِيَشْھدُوا مَنافِعَ لَہُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّہِ فی اٴَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلی ما رَزَقَھمْ مِنْ بَہیمَةِ الْاٴَنْعامِ فَكُلُوا مِنْہا وَ اٴَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقیرَ ۔
تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کیے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ۔
2- قربانی کرتے وقت ہر طرح کے شرک سے اجتناب کیا جائے:
وَ اٴَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاٴْتُوكَ رِجالاً وَ عَلی كُلِّ ضامِرٍ يَاٴْتینَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمیقٍ ، لِيَشْھدُوا مَنافِعَ لَھُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّہِ فی اٴَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلی ما رَزَقَھُمْ مِنْ بَھیمَةِ الْاٴَنْعامِ فَكُلُوا مِنْھا وَ اٴَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقیرَ ، ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَھُمْ وَ لْيُوفُوا نُذُورَھُمْ وَ لْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتیقِ ، ذلِكَ وَ مَنْ يُعَظِّمْ حُرُماتِ اللَّہِ فَھُوَ خَيْرٌ لَہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَ اٴُحِلَّتْ لَكُمُ الْاٴَنْعامُ إِلاَّ ما يُتْلی عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاٴَوْثانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ، حُنَفاء لِلَّہِ غَيْرَ مُشْرِکینَ بِہِ وَ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّہِ فَكَاٴَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماء فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اٴَوْ تَھُوی بِہِ الرِّیحُ فی مَکانٍ سَحیقٍ ، ذٰلِكَ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّـٰهِ فَاِنَّـهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ،
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں۔
تا کہ اپنے فائدوں کے لیے آ موجود ہوں اور تا کہ جو چار پائے اللہ نے انہیں دیے ہیں ان پر مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد (قربانی) کریں، پھر ان میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیر کو بھی کھلاؤ۔
پھر چاہیے کہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر کا طواف کریں۔
یہی حکم ہے اور جو اللہ کی معزز چیزوں کی تعظیم کرے گا سو یہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے، اور تمہارے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں مگر وہ جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، پھر بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرو۔
خاص اللہ کے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔
بات یہی ہے اور جو شخص اللہ کی نامزد چیزوں کی تعظیم کرتا ہے سو یہ دل کی پرہیزگاری ہے۔(سورہ حج آیات 27 تا 32)
3- قربانی کرتے وقت خداوند عالم کی تعظیم کیلئے اللہ اکبر کہنا،
لِتُكَبِّرُوا اللَّہَ عَلی ما ھداكُم۔
خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو۔
4- شرک کے طریقہ پر جو جانور ذبح کیے گئے ہیں ان کے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
قرآن کریم کی نظر میں صرف وہ قربانی قابل قبول ہے جو صرف خداوند عالم کے لیے کی گئی ہو اور اس شخص نے صرف خداوند عالم سے تقرب حاصل کرنے کیلئے قربانی کی ہو۔(سورہ مائدہ ، آیت 27۔سورہ حج ، آیت 36 و 37)
قربانی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے ، ایک حصہ حج کرنے والے کیلئے ، دوسرا حصہ مؤمنین کے لیے اور تیسرا حصہ فقراء کو دیا جاتا ہے۔(سورہ حج ، آیت 36)
بہتر ہے کہ یہ قربانی کھانے کی صورت میں لوگوں کو دی جائے اور قربانی کرنے والا بھی اس میں سے کھائے۔
گائے، بھیڑ و بکری اور اونٹ کی قربانی کی جا سکتی ہے ۔ اس بناء پر گائے اور بھیڑ، بکری کو ذبح کیا جاتا ہے اور اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے ، حج میں بھیڑ کی قربانی کو سب سے آسان اور سب سے کم شمار کیا گیا ہے۔
حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے تمام کرو اب اگر گرفتار ہو جاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دے دو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔ اب جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے تو وہ روزہ یا صدقہ یا قربانی دے پھر جب اطمینان ہو جائے تو جس نے عمرہ سے حج تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح دس پورے ہو جائیں۔ یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اہلِ مسجد الحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ یاد رکھو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔(سورہ بقرہ، آیت 196۔عیون اخبار الرضا، ج 3، ص 120)
قربانی اسلام میں ہر عمل کیلئے مستحب ہے جیسے بچوں کا عقیقہ، گھر کی خریداری اور سفر پر جانے کیلئے زیاده تاکید کی گئی ہے اور حج کے زمانہ میں مستحب ہے کہ اگر انسان قرض لے کر بھی قربانی کر سکتا ہو تو قربانی کرے۔
آئمہ معصومین (ع) کے کلام میں ملتا ہے کہ اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کیلئے پیسہ نہ ہو تو وہ قرض لے کر قربانی کرے اور اس سنت کو انجام دے ۔
امام علی (ع) نے فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کتنے فوائد ہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کرتے ۔ قربانی کا جو پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے اس پہلے قطرہ کی وجہ سے انسان کو بخش دیا جاتا ہے۔(وسائل الشیعہ، ج 14 ، ص 210)
کتاب المراقبات میں عید قربان کے روز قربانی کی فضیلت کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ :
اس دن کے بہترین اعمال میں سے ایک قربانی ہے جس کو انجام دینے میں بندگی کے قوانین اور ادب کی رعایت کرنا چاہیے، یاد رہے کہ اس دن قربانی نہ کرنا اور خدا کی راہ میں تھوڑا سے مال ایثار نہ کرنا خسارہ اور نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
قربانی کی برکتیں:
گذشتہ مطالب میں قربانی کے بعض آثار اور برکتیں بیان ہوئی ہیں لیکن یاد رہے کہ قربانی کی اور دوسری برکتیں بھی ہیں جس میں سے بعض برکتیں مندرجہ ذیل ہیں :
1- خداوند عالم کی راحمت واسعہ :
جس کو سورہ مائدہ کی 96 ویں اور 97 ویں آیت میں بیان کیا ہے:
تمہارے لیے دریائی جانور کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے کہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ کا ذریعہ ہے اور تمہارے لیے خشکی کا شکار حرام کر دیا گیا ہے جب تک حالت احرام میں رہو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے، اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اور محترم مہینے کو اور قربانی کے عام جانوروں کو اور جن جانوروں کے گلے میں پٹا ڈال دیا گیا ہے، سب کو لوگوں کے قیام و صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے تا کہ تمہیں یہ معلوم رہے کہ اللہ زمین و آسمان کی ہر شے سے باخبر ہے اور وہ کائنات کی ہر شے کا جاننے والا ہے۔(سورہ مائدہ، آیت 96 ۔ 97)
2- نیک اور احسان کرنے والوں میں شامل ہونا :
خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو ۔(سورہ حج ، آیت 37)
3- مغفرت الہی سے استفادہ کرنا :
اٴُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَ طَعامُہُ مَتاعاً لَكُمْ وَ لِلسَّيَّارَةِ وَ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ ما دُمْتُمْ حُرُماً وَ اتَّقُوا اللَّہَ الَّذی إِلَيْہِ تُحْشَرُون ۔(سورہ مائدہ ، آیت 97)
خداوند عالم نے قربانی کو معاشرہ کے اتحاد اور اتفاق کے عنوان سے پیش کیا ہے تا کہ امتوں اور قوموں کے درمیان اتحاد و انسجام قائم ہو جائے اور معاشرے کے افراد مختلف شکلوں میں ایک دوسرے سے متصل ہو جائیں ۔ خصوصا تمام افراد اس قربانی سے استفادہ کریں اور اس کا گوشت تناول فرمائیں اور اس کے ذریعہ امتوں اور قوموں میں مہر و محبت زیادہ ہو جائے۔
لفظ قربانی قرب سے ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ انسان کا اپنی جان، مال، اولاد یا کسی حلال جانور کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کر دینا، یہی قربانی کا مقصد و منشا ہے۔ کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا اس وقت شروع ہوا جب سے حضرت آدم اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی۔ سب سے پہلے قربانی حضرت آدم کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل نے دی۔ جب کہ دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی۔
قربانی ایک عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر وہ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ اسی طرح آج تک دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے، جو بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں۔ سورۃ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہو سکتی اسی طرح قربانی بھی اسی کے نام پر ہونی چاہیے۔
رسول اکرم (ص) نے ہجرت کے بعد دس سال تک مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور ہر سال پابندی سے قربانی فرماتے تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر شخص پر، ہر شہر میں شرائط کے بعد واجب ہے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
وہ جانور جن کی قربانی جائز ہے:
٭ قربانی کے جانور اونٹ، گائے، دنبہ، بھیڑ ، بکرا، بھینس، گائے مذکر و مونث دونوں جائز ہیں، ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
عید قربان کا پیغام جسے ہم فراموش کر بیٹھے ہیں:
خداوند نے ایک بار پھر ہمیں عید قربان کی سعادت عطا فرمائی جب دنیا بھر کے مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے عید مناتے ہیں۔ کیوںکہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ جس سے خوش ہوتا ہے اسے دین کی سمجھ اور اپنے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
ان دونوں انتہائی خوش آئند خبروں کے باوجود گزشتہ کچھ سالوں جو ایک بہت تلخ حقیقت ہمارے سامنے آئی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں کہ:
اب یہ بات اکثر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ قربانی میں نمائش کا عنصر بہت زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے کبھی ان جانوروں کے عجیب و غریب نام رکھ کر اور کبھی ان کی اونچی قیمتوں کی تشہیر کر کے اس عظیم جذبے میں ریا کاری کا زہر شامل کر کے اس کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، بلکہ اس طرح ثواب کی بجائے اپنے ہاتھوں گناہ خریدا جاتا ہے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بندہ ایک خطیر رقم خرچ کر کے ایک جانور خریدتا ہے مگر محض ریا کاری کے باعث اس عظیم ثواب سے محروم ہو جاتا ہے جس کا اللہ نے ہم سے وعدہ کیا ہوتا ہے۔
ایک اور بہت بُری چیز جو ہم میں اب سرائیت کر گئی ہے وہ قربانی کے گوشت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، وقت کیساتھ ساتھ اب ہم نے قربانی کا گوشت خود گھر گھر جا کر تقسیم کرنے کی روائت ہم میں بہت کم رہ گئی ہے بلکہ اب یہ ہوتا ہے قربانی کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے چند ایک لوگوں کو گوشت دینے کے بعد باقی کا سارا گوشت اپنے فریزر میں محفوظ کر لیا جائے، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکم کے مطابق گوشت کے تین حصے کیے جائیں ایک عزیزوں و دوستوں میں دوسرا غرباء میں تقسیم کیا جائے جبکہ تیسرا حصہ خود رکھا جائے ۔
اس کیساتھ ساتھ عید قربان کا اصل پیغام جسے ہم فراموش کیے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی عزیز ترین چیز یعنی اپنا بیٹا تک قربان کر ڈالا، اسی طرح ہم بھی اس دن یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی میں ہر حال میں اور ہر لمحہ اپنے خالق و مالک کی رضا کو ہی ایک نمبر پر رکھیں گے چاہے اس کیلئے ہمیں کتنی ہی بڑی قربانی دینا پڑے اور نہ صرف یہ عہد کریں بلکہ عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ بھی کرتے رہیں، تب ہی جا کر ہمیں قربانی کا وہ صلہ و انعام مل سکتا ہے جو خداوند نے اس عظیم عبادت یعنی قربانی کیلئے مقرر کر رکھا ہے ہاں البتہ اس سے ہٹ کر وہ قادرِ مطلق اور مالک و مختار ہے وہ چاہے تو ہماری تمام تر خطاوٴں اور لغزشوں کے باوجود ہماری ان ٹوٹی پھوٹی عبادات کو بھی سند قبولیت بخش دے اسے کون پوچھنے والا ہے۔
عید الاضحی: مقصد اور پیغام:
قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔َ
ترجمہ: کہو، میری نماز، میری تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرناسب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔(سورہ انعام: آیت 162)
رسول خدا (ص) نے مسلمانوں کی عید کے دو ہی دن پسند فرمائے ہیں:
ایک عید الفطر جو رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے، جب لوگ ایک مہینے کے روزے رکھ کر فارغ ہوتے ہیں۔
دوسری عید الاضحی جو حج کے اگلے دن منائی جاتی ہے، جب سارے حاجی منیٰ میں قربانی کرتے ہیں، اور اس سے ایک دن پہلے عرفات کے میدان میں جمع ہو کر اپنے حج کو مکمل کرتے ہیں۔
تہوار اور عید کسی قوم کے لیے جشن اور خوشی کا دن اس لیے ہوتا ہے کہ اس دن ان کی زندگی یا قوم کی تاریخ میں کوئی ایسا دن آیا ہوتا ہے جس کے ساتھ ان کی قوم کا، تاریخ کا، اللہ کے احسانات کا رشتہ بندھا ہوا ہوتا ہے۔مثلاً عیسائی لوگ کرسمس عید کے طور پر مناتے ہیں وہ اس لیے کہ حضرت عیسی کی پیدائش کا دن تصور کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس دن حضرت عیسی نے صلیب پر چڑھ کر اپنے ماننے والوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا کیا، حضرت عیسی پر ایمان لانے سے ان کی بخشش اور نجات ہو گی۔
اسی طرح یہودی اُن کے عقیدے کے مطابق اس دن عید مناتے ہیں جس دن اللہ نے ان کو فرعون سے نجات دی، دریائے نیل کو پھاڑ دیا، ان کی قومی زندگی میں یہ دن اللہ کی بشارت اور اللہ کے انعامات اور اللہ کے احسان کا یادگار دن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عید کے دونوں دنوں کو قرآن مجید اور ہدایت کی نعمت کے ساتھ وابستہ کیا ہے، رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔
شَہْرُ رَمْضَانَ الَّذِیَ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن۔ُ
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔(سورہ بقرہ: آیت 185)
جس میں روشنی بھی ہے، رہنمائی بھی، اور سارے انسانوں کے لیے ہدایت بھی ہے۔ عید الفطر کا دن نزول قرآن کی سالگرہ کا جشن ہے۔ اس عید کے دن اللہ تعالیٰ کے احسان پر شکر کی ادائیگی بھی شامل ہے کہ اس نے ہمارے اوپر دین کو مکمل فرمایا، ہدایت کی نعمت، اپنی سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا فرمائی اور ہمارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند فرمایا۔
دونوں عیدوں کا خدا کی نعمتوں سے گہرا تعلق ہے۔ رمضان سے تقویٰ، صبر، ہمدردی، ڈسپلن، ضبط نفس پیدا ہوتا ہے اور عید قربان اپنے آپ کو منانے، اپنے دین پر مکمل عمل کرنے، اور قربانیاں دینے کے لیے تیار کرتی ہے۔
ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں، لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں کہ اس دن کو قیامت تک کے لیے یادگار قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم کی وہ ایثار و قربانی اور حصولِ رضائے الٰہی کا وہ جذبہ ہی تھا، جس کی بنیاد پر ابراہیم ؑ نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور ننھے سے دودھ پیتے بچے کو بے آب و گیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے، یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لختِ جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل کی۔ اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے جس کی مثال آج تک کوئی قوم پیش نہیں کر سکی، اسی لیے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو قیامت تک کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی، تا کہ عید قربان کی تاریخی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہوئے بندہ مؤمن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ قربان کر دے جو میسر ہو، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس کے تقاضے کو سمجھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس کا خون چاہیے بلکہ مؤمن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔
حضرت ابراہیم (ع) کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔اگر کوئی انسان محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے، تو وہ ایک ناحق جاندار کا خون بہاتا ہے۔
دور جاہلیت میں لوگ قربانی کر کے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ خدا کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں:
لَن یَنَالَ اللَّهَ لحُومُهَا وَ لَا دِمَاؤُهَا وَ لَكِن یَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ،
نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(سورہ حج ایت نمبر 37)
خدا کو گوشت اور خون کی کوئی حاجت نہیں وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو انسان کلمہ لا اِلٰہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندہ حق بن کر رہے۔
عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی جاتی ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے جانوروں کو جب ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو اپنے اس ایمان کو تازہ کر لیتے ہیں کہ ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ اللہ کا ہے، اور وقت آنے پر ہم اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
نماز عيد قربان کے قنوت میں پڑھتے ہیں کہ:
” اللهم اهل الكبرياء و العظمة و اهل الجود و الجبروت و اهل العفو و الرحمة و اهل التقوى و المغفرة اسالك بحق هذا اليوم الذى جعلته للمسلمين عيدا و لمحمد صلى الله عليه و آله ذخرا و شرفا و كرامة و مزيدا ان تصلى على محمد و آل محمد و ان تدخلنى فى كل خير ادخلت فيه محمدا و آل محمد و ان تخرجنى من كل سوء اخرجت منه محمدا و آل محمد صلواتك عليه و عليهم اللهم انى اسالك خير ما سالك به عبادك الصالحون و اعوذ بك مما استعاذ منه عبادك المخلصون “.
مفہوم و معنی قربانی:
معنی لغوی کے لحاظ سے لفظ قربانی کو لفظ قربان سے لیا گیا ہے، یعنی ہر وہ چیز جو خداوند سے نزدیک ہونے کا وسیلہ و سبب بنتی ہے، اسے قربانی کہتے ہیں، وہ چیز حیوان کو ذبح کرنا ہو، صدقہ دینا ہو یا خداوند کی خوشنودی کے لیے کوئی بھی کام انجام دینا ہو۔
بعض علماء نے ہر نیک کام کو کہ جو خداوند کی رحمت کا باعث بنے، اسے قربانی کہتے ہیں۔ جیسے رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:
«الصَّلَاةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِی» ،
یعنی نماز ہر پرہیز گار کو خداوند کے نزدیک کرتی ہے۔(اصول کافی ج 3 ص 265)
اہل بیت (ع) سے لیے گئے، شیعہ عقائد کی روشنی میں خداوند سے نزدیک ہونے سے مراد، مکان و زمانے کے لحاظ سے نزدیک ہونا مراد نہیں ہے، بلکہ اطاعت و عمل صالح انجام دینے سے انسان کے اندر خداوند کے کرم و رحمت کے نزدیک ہونے کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔
البتہ عام عوامی فہم میں اس حیوان کو قربانی کہا جاتا ہے کہ جسکو خداوند کی رضا حاصل کرنے کے لیے عید الاضحی کے موقع پر قربان کیا جاتا ہے۔
قربانی کے موقع پر جانور کو ذبح کرنے سے، انسان کے نفس امارہ کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ یہ وہ نفس حیوانی ہے کہ جو ہر وقت انسان کو خداوند کی نافرمانی اور معصیت کا حکم دیتا رہتا ہے۔ اسی لیے حج اپنی تمام عظمت کے ساتھ جہاد اصغر ہے اور نفس امارہ کو ذبح کرنا، جہاد اکبر ہے۔
روایات میں ہے کہ: قربانی کرتے وقت جب خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو، صاحب قربانی کے گناہوں کو خداوند بخش دیتا ہے۔
بے نظیر تاریخی واقعہ:
تمام انبیاء کی زندگی اور سیرت خداوند کی راہ میں جہاد و قربانی سے بھری پڑی ہے، لیکن خلیل خدا حضرت ابراہیم ابو الانبیاء کی مجاہدت سے بھری زندگی خود ایک مکمل تاریخ ہے کہ جو قیامت تک باقی رہے گی۔
صاحب اولاد ہونے کی دعا:
حضرت ابراہیم ساری زندگی صاحب اولاد ہونے کے انتظار میں رہے۔ 80 سال کی عمر میں امید و انتظار کی حالت میں دعا کی:
« رب هب لی من الصالحین »
خداوندا مجھے اپنے نیک بندوں میں سے نیک اولاد نصیب عطا فرما۔
خداوند نے بھی اپنے خلیل کی دعا کو قبول فرمایا اور حضرت اسماعیل کے مبارک وجود کی خوشخبری سنائی۔
« فبشرناه بغلام حلیم »
پس ہم نے اسکو ایک بردبار و صابر نوجوان کی خوشخبری دی۔
بیٹے کی قربانی:
قرآن میں اس طرح سے ذکر ہوا ہے کہ:
فَلَمَّا بَلَـغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يَا بُنَىَّ اِنِّـىٓ اَرٰى فِى الْمَنَامِ اَنِّـىٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَـرٰى ۚ قَالَ يَآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِـىٓ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ مِنَ الصَّابِـرِيْنَ ،
پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے، کہا اے ابا! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے، آپ مجھے ان شا اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔(سورہ صافات آیت 102)
بعض مفسرین نے اس وقت اسکی عمر 13 سال لکھی ہے۔
اس موقع پر غیب سے خداوند نے نداء دی:
وَنَادَيْنَاهُ اَنْ يَّـآ اِبْـرَاهِـيْمُ ٭ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ٭ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْبَلَآءُ الْمُبِيْنُ ٭ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْـحٍ عَظِـيْمٍ ٭ وَتَـرَكْنَا عَلَيْهِ فِى الْاٰخِرِيْنَ ٭ سَلَامٌ عَلٰٓى اِبْـرَاهِـيْمَ ٭ كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ٭ اِنَّهٝ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ٭
اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم! تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ البتہ یہ صریح آزمائش ہے۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی۔ ابراہیم پر سلام ہو۔ اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے۔(سورہ صافات آیات 104 تا 111)
عید قربان:
اگر عملی طور پر بھی حضرت اسماعیل (ع) قربانی کر دئیے جاتے تو پھر اس خلیل خدا کی پیروی کرتے ہوئے اور اس عظیم قربانی کی یاد تازہ و زندہ رکھنے کے لیے گلی کوچوں میں اپنی اولاد کا خون بہانا پڑنا تھا، لیکن رحمت خداوندی شامل حال ہوئی اور بیٹے کی جگہ جنت سے ایک جانور لایا گیا اور حکم خدا مطابق ذبح کر دیا گیا۔ اب 10 ذی الحجہ کو عید قربان کے موقع پر حجاج کرام اور تمام مسلمانان اسی قربانی کی یاد میں قربانی کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم (ع) سے یہ قربانی کی رسم رسول خدا (ص) کو ارث میں ملی، کیونکہ وہ حضرت ابراہیم کے برحق جانشین تھے۔ اسی لیے رسول خدا (ص) فخر سے فرمایا کرتے تھے:
«أنا دعوة جدی ابراهیم»
میں اپنے جدّ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں۔
حضرت ابراہیم نے یہ دعا خانا کعبہ کو تعمیر کرتے ہوئے فرمائی کہ:
«ربنا و بعث فیهم رسولا منهم…»
خداوندا ان کے لیے ایک رسول کو مبعوث فرما۔
قربانی کے بارے میں جب رسول خدا (ص) سے سوال کیا جاتا تھا کہ:
«ما هذه الاضاحی؟» یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
تو وہ جواب دیتے:
«سنة ابیکم ابراهیم علیه اسلام»
یہ آپکے والد گرامی حضرت ابراہیم کی یادگار سنت ہے۔
اصحاب نے پوچھا:
«فما لنا فیها یا رسول الله»
اے رسول خدا ہمیں اس قربانی سے کیا ملے گا ؟
آنحضرت نے جواب فرمایا:
«بکل شعرة حسنة…»
ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔
ام المؤمنین ام سلمہ رسول خدا (ص) کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ عید اضحی آ گئی ہے اور قربانی کرنے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں، کیا میں قرض لے کر قربانی کر سکتی ہوں ؟
رسول خدا نے جواب فرمایا: ہاں، قرض لے کر قربانی کرو، کیونکہ یہ ایسا قرض ہے کہ جو خود خداوند ادا کرتا ہے۔
قربانی واجب و مستحب:
وہ مسلمان جو حج کے لیے مکہ میں موجود ہوں، ان پر 10 ذی الحجہ تک قربانی کرنا، واجب ہے۔ لیکن وہ مسلمان جو مکہ میں نہیں ہیں، انکے بارے میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:
عید قربان والے دن کوئی بھی عمل قربانی کرنے سے افضل نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے گوشت سے کھانا:
روایت میں امام باقر (ع) نے فرمایا ہے کہ: امیر المؤمنین علی (ع) کا یہ معمول تھا کہ عید قربان والے دن کچھ بھی کھانے سے پہلے، قربانی کا گوشت کھاتے تھے۔(من لا یحضره الفقیه – ترجمه، ج2، ص: 214)
امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا ہے کہ: جب قربانی کرو تو اس گوشت میں سے خود بھی کھاؤ ، دوسروں کو بھی ہدیہ دو اور خداوند کا اس گوشت والی نعمت پر شکر ادا کرو۔(من لا یحضره الفقیه – ترجمه، ج2، ص: 214)
عید قربان، خواہشات نفس پر کامیابی کی عید بندگی:
خداوند کی مخلوقات تین قسم کی ہیں:
1- بعض میں فقط ذاتی طور پر غریزہ (شہوت) پائی جاتی ہے، جیسے حیوانات،
2- بعض میں ذاتی طور پر صرف اپنے فرض کو انجام دینا رکھا گیا ہے، جیسے ملائکہ،
3- بعض کبھی غریزے اور کبھی انجام فرض کے پیچھے جاتے ہیں، جیسے انسان،
اب جب بھی انسان کے سامنے دو راہیں ہوں، ایک غریزے و شہوات کی طرف جاتی ہو، اور ایک انجام فرض کی طرف جاتی ہو تو اگر انسان اپنے اختیار سے غریزے کی راہ کو انتخاب کر لے، تو ایسا انسان حیوانات میں سے شمار ہونے لگتا ہے، بلکہ ان سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔
(اولئك كالانعام بل هم اضل)
لیکن اگر یہی انسان اپنے اختیار سے فرض کے انجام دینے والے راستے کو اختیار کرے تو ایسے انسان کا شمار ملائکہ میں سے ہونے لگتا ہے بلکہ ان سے بھی بالا تر ہو جاتا ہے۔
قربانی کرتے وقت کی دعا:
کتب احادیث میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع) قربانی کرتے وقت یہ دعا کرتے تھے:
« بسم اللَّه وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ حَنِیفاً مسلماً وَ ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، إِنَّ صَلاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحْیایَ وَ مَماتِی لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ، اللّهمّ منک و لک »
یعنی خداوند کا نام لے کر اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف کرتا ہوں کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا ہے، اس حالت میں کہ میں اپنے خالص و مسلمان ہوں، اور مشرکین میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز، تمام عبادت، میرا زندہ رہنا، میری موت سب کا سب رب العالمین کے لیے ہے۔ خداوندا یہ قربانی تیری طرف سے اور تیرے ہی لیے ہے۔
اور اس دعا کو پڑھ کر پھر جانور کو ذبح کیا کرتے تھے۔
٭ آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
٭ غنیمت جان لو رل مل کر بیٹھ جانے کو
جدائی کی گھڑی ہر وقت سر پر کھڑی ہے
٭ ہمارا سلام ہو اس ابراہیم بت شکن پر کہ جسکی قربانی،
٭ کربلا کی قربانی کے لیے مقدمہ بنی،
٭ اور ہمارا سلام ہو امام حسین پر کہ
جو وارث ابراہیم خلیل خدا بن کر ذبح عظیم ثابت ہوا،
٭ ہمارا سلام ہو اس بہن پر کہ
جس نے ذبح عظیم کو صبر عظیم کے ساتھ ،
رہتی دنیا تک باقی رکھا،
٭ اور ہمارا سلام ہو اس بھائی پر کہ
جس نے ذبح عظیم کو عظیم وفا کے ساتھ
دشمنوں سے محفوظ رکھا۔