ہم اور ہماری عید
تحریر : صابر حسین ایثار
خدا وند تعالیٰ بھی اپنے بندے کے ساتھ کتنی محبت کرتا ہے۔اسے اسکی فکر کس قدر ستاتی ہے کہ اس کو زمین پر بسانے سے پہلے روئے زمین کو گونا گوں نعمتوں اوردلکش مناظر سے مالا مال کر دیا۔ اللہ عزوجل نے یہیں بس نہیں کیا بلکہ اسکی شخصیت میں اخلاقی و روحانی نکھار لانے کی غرض سے وقت وقت پر وہ اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہا تا کہ اس کے بندے رشد و ہدایت کا خزینہ پا سکیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان نامی گرامی پیغمبروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے پہنچاتے بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ آج جو ہم عید قربان منا رہے ہیں ہم انہی کی سنت کی تقلید کر رہے ہیں ۔ عید کے موقعے پر جانوروں کی قربانی پیش کرکے ہم اصل میں اس بات کا عہد دہراتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کی خاطر کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ ہاں بالکل صحیح ہے کہ10ذی الحجہ ایک ایسا مبارک دن ہے جو ایثار و قربانی کے جذبے سے ہمارے وجود کو سر شار کر دیتا ہے۔ ہمارے اندر اللہ کی خوشنودی کی خاطرمر مٹنے کا جنون بھر دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو جوان بیٹے کی قد و قامت،اسکی خوبروئی اور اسکی محبت پر اللہ کی رضا غالب آ گئی۔ خود اپنے بیٹے کے ہاتھ پاؤں رسیوں میں جکڑ لئے اور اللہ کے تئیں عقیدت بھری محبت کا اظہار کرتے ہوئے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کے حلق پر چھری چلا دی۔اللہ کو ابراہیم سے امتحان لینا مقصود تھا اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔جس طرح نار نمرود ابراہیم علیہ السلام کو جلا نہ سکی اسی طرح اللہ کے حکم سے اسمٰعیل علیہ السلام کے گلے پر چل رہی چھری اس کے جسم سے لہو کا ایک قطرہ بھی بہا نہ سکی۔جنت سے جانور منگایا گیا جسے حضرت اسمٰعیل کی جگہ ذبح کرکے خون بہایا گیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ امت مسلمہ کے فرزند ہر سال 10ذی الحجہ کو کسی جانور کی قربانی پیش کرکے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ یہ پست حوصلہ تیرا کیا ساتھ دیں گے ادھر آ زندگی تجھے ہم جی لیں گے _
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قربانی پیش کرنے کے اس واقعہ کواب صدیاں بیت چکی ہیں۔ تب سے لیکر آج تک انسان کافی بدل چکا ہے۔اسکے رہن سہن اور عادات و اطوار میں زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ اس کے پاس اب دولت کی فراونی ہے۔ وہ سرمایہ دار ہے۔وہ جائداد کا مالک ہے اور وہ یہ گمان کر بیٹھا ہے کہ اپنی دولت اور مال و زر کے بل بوتے پر وہ دین کو اپنے لئے آسان بنا دے گا۔ سورج طلوع ہو جاتا ہے تو اس کی شعاعوں میں شدت کم ہو تی ہے۔ نصف النھار تک پہنچتے پہنچتے اس کی تپش اور تمازت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کے لئے نا قابل بر داشت بن جاتی ہے۔مگر آہستہ آہستہ سورج ڈھلنے لگتا ہے اور اسکی شعاعوں میں ترچھاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔اس کی وہ شعلہ فشاں کرنیں سست پڑ جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بادلوں اور فلک بوس کوہساروں کی اوٹ میں غائب ہو جاتا ہے۔اسی طرح انسان بھی پیغمبروں اور اولیاء کی قربت میں رہ کر ایمان کی دولت سے مالا مال تھا مگر آہستہ آہستہ ڈھلتے سورج کی طرح وہ ایمانی دیوالیہ پن کا شکار ہوتا گیا۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس نے اپنے رہن سہن میں نامعقول تبدیلیاں لائیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھ جائے گا کہ مذہب کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس کو انسان کی ذہنی اختراع نے متاثر نہ کیا ہو۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر بدعت کو ہم مذہبی رنگ دینے کی حماقت بھی کرتے ہیں۔ ہم عید منا رہے ہیں۔ یقیناً یہ خوشی اور شادمانی کا موقع ہے مگر خوشی یا جشن منانے کا ہمارے پاس ایک احسن طریقہ موجود ہے۔ عید کے پر مسرت موقع پرجس طریقے سے ہم جشن مناتے ہیں وہ ہم نے نہ جانے کہاں سے اپنا لیا ہے۔ پٹاخوں اور آتش بازیوں کا نام ہم نے عید رکھا ہے۔ بچوں کے اندر غلط کارانہ خصائل پیدا کرنے کی خاطر ہم اپنی جیبیں لٹا دیتے ہیں۔ بچے اپنی جگہ اور بچوں کی ضد بھی اپنی جگہ مگر کیا یہ ہماری اخلاقی ذمہ دا ری نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرا لیں کہ پٹاخے پھوڑنا اور آتش بازیوں سے کھیلنا تو ہندوؤں کی رسم ہے ہم کیوں اپنی متبرک عید کو اسے داغدار کریں۔ آج عید کے اس مبارک موقع پر اگر ہم اپنے گریباں میں جھانک کر اور اپنے من کو ٹٹول کر یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ عید الاضحیٰ کے حوالے سے پیش کی جا رہی جانوروں کی قربانیاں کیا ہمارے لئے باعث نجات ہوں گی تو صرف مایوسی ہاتھ آئے گی۔ شاید ہم نے دین کی اصل جڑ سے جڑے نہ رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم تو دین کو چبھاتے چیونگم کی طرح اپنی مرضی کے مطابق کھینچ کر لمبا یا چھوٹا کرتے ہیں۔ کوئی مذہبی رسم نبھانے کی نوبت آتی ہے تو ہم دنیوی نمود و نمائش کے حوالے سے کہاں پیچھے رہنے والے ہیں۔ نکاح کی مجلس ہو تو اظہارِ محبت کے بجائے دولت کی نمائش کی جاتی ہے۔ایام تعزیت ہوں تو ہمدردی اور غمگساری کے بجائے دولت بانٹی جاتی ہے۔
اپنا کلیجہ کھو دینے والی ماں کا کلیجہ سونے چاندی کے زیورات سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسجدوں یا درسگاہوں کی تعمیر کا مسئلہ ہو تو اپنی ثروت دکھانے کے لئے ہم کیا کیا نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم عید منانے کی بات کریں تو ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تئیں محبت کے اظہار کے طور پر ہم قربانی کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمیں سماج پر اپنا دبدبہ قائم کرنے کا بس موقع ہاتھ آنا چاہیے اور کیا خوب کہ اگر بہانہ مذہب کے ساتھ جڑا ہو۔ کہانی ہماری اپنی ہوتی ہے، کردار ہمارے اپنے ہوتے ہیں مگر عنوان ہم خدا یا اس کے رسول کا دیتے ہیں.
بقول عامر عثمانی پری وشوں سے چاہ تھی بتوں سے رسم و راہ تھی خدا کا نام لے لیا بطور زیبِ داستاں ہم قربانی کا جانور خرید کر لاتے ہیں اسے ذبح کرتے ہیں اور پھر اسے تقسیم کرتے ہیں اورہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ بس ہم سے خدا راضی ہو گیا اور جنت ہمارے نام ہو گئی۔ کبھی لمحہ بھر کے لئے ہم نے یہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ جانوروں کی قربانی کرنا ہی ادئیگی فرض نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دو اہم شرائط ہیں جن کو پورا کئے بغیر قربانی کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتی ہے۔ اول یہ کہ قربانی کرنے کے بعد ہماری سیرت اور ہمارا کردار سنور جانا چاہیے۔ ہمارا دل جذبہ ایثار اور درد الفت سے سر شار ہو جانا چاہیے اور دوم یہ کہ قربانی دین اسلام کے وضع کردہ رہنما اصولوں کے عین مطابق ہونی چاہیے۔ ہمارے سماج میں پچھلے کئی برسوں سے یہ روایت پروان چڑھ رہی ہے کہ کچھ بھی ہو قربانی کا جانور ہمارے آنگن بھی کھونٹے سے بندھا ہونا چاہیے ۔ جو شخص مقروض ہے اس کی قربانی کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جس شخص کے پاس مال حرام کے ذخائر ہیں اس کی قربانی اس کے لئے کیا رنگ لائے گی؟ جس کا ہمسایہ سوکھی روٹی اور پانی پربھی گذارا نہیں کر سکتا ہو کیا ہزاروں روپے خرچ کرکے قربانی کرنا اسے زیب دیتا ہے؟ کیا حرام کی دولت کما کر قربانی کرکے ہم اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا پھر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کارنامہ تو ہمارا ہے کہ ہم برسہا برس سے قربانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ قربانی کا گوشت ہم سینکڑوں میل دور تک تقسیم کرتے ہیں اور ساتھ میں ہیرے جواہرات بھی رکھ دیتے ہیں. بہرحال جو بھی ہو موجودہ حالات کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دین کے حوالے سے ہم نے اپنی طرح اور طرف دونوں بدل دیے ہیں۔ عیدقربان کاافسوس ناک مرحلہ تب آتا ہے جب گوشت تقسیم کرنے کی باری آ جاتی ہے۔
ہمیں قرآن و سنت سے واضح ہدایات ہیں کہ قربانی کا گوشت کن لوگوں میں اور کس طرح تقسیم کرنا چاہیے مگر ہم نے یہاں بھی اب اپنے من پسند طریقے رائج کئے ہیں۔ گوشت تقسیم کرتے وقت ہمارے ذہن میں بستی کے با اثر لوگ پہلے آتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی ہم خاص طور پر یاد رکھتے ہیں جن کے ساتھ ہمارے مراسم اچھے ہوتے ہیں یا جن کے ساتھ ہمارے مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی خدمت میں ہم گوشت کے بڑے بڑے حصے پیش کرتے ہیں اور بچے کھچے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہمسایوں اور غریبوں میں بانٹتے ہیں۔ ہم اپنی جہالت کا حیران کن مظاہرہ اس وقت کرتے ہیں جب ہم اپنے کسی نئے سمبندھی یا دوسرے رشتہ دار کے ہاں گوشت کی پوری ران بھیج دیتے ہیں جس کے ساتھ سونے چاندی کے زیورات بھی ہوتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہم پکائے ہوئے گوشت کی دیگیں عالیشان گاڑیوں لاد کر سمبندھی کے گھر روانہ کرتے ہیں تاکہ ان پر ہماری آسودہ حالی کی ہیبت طاری ہو جائے ۔ یہ ہماری خام خیالی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رشتے گوشت کی ران یا ہیرے جوہرات سے جڑے رہتے ہیں اور ہم شاید یہ آس بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہمیں فلاحِ آخرت کی ضمانت بھی ملے گی۔ کیا ہمارا ضمیر ہم سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ آخر کونسی چیز ہمیں ایسا کرنے پر اکساتی ہے اور ہم کیوں قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس پر صرف اور صرف شیطان ہی ہماری پیٹھ تھپ تھپا سکتا ہے اور خدا بھی ناراض اور رسول بھی دل ملول۔ واہ قربانی ہو تو ایسی ہو۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا اور رسول کو راضی کرنا ہی ہر عبادت کا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر عبادت یا دوسرا کوئی دینی کام جسے انجام کو پہنچا کرشیطان خوشیاں منائے اور ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم افسردہ ہو جائیں وہ عبادت کوئی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت کے نام پر ایک مذاق ہے ۔ اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کیا خسارہ ہو گا کہ ہم عبادت کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں مگر ہمیں اللہ کی رضا حاصل نہ ہو جائے۔ ایسی عبادت کرتے کرتے ہم اپنے معبود کو بھی شرمندہ کرتے ہیں اور ہمیں حقیقت کا یہ کڑوا گھونٹ اپنے حلق سے اتارنا ہی ہو گا کہ ہم درا صل عبادت کے نام پر غلط کاریاں پھیلا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید ہم کسی دوسری امت کے لوگوں میں شامل ہیں ۔ یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا ہم امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے جس نے وہ سارا کچھ کرنے کا عہد کیا ہے جسے پیغمبرانہ مشن کو بس تکلیف پہنچتی ہے۔ کیا ہماری زندگیوں میں کبھی ایسی عید بھی آئے گی جب ہم جانوروں کو قربان کرنے کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ کی رضا کی خاطر قربان کر دیں گے۔ عزیمت کی مثال دیکھیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہوئی ۔ اسے پال پوس کر جوان کیا تو حکم ملا کہ یہ میں نے دیا ہے اسے ذبح کرکے مجھے واپس لوٹا دو۔ ایثار دیکھئے اور اللہ کے سامنے خود سپردگی کا جذبہ دیکھئے کہ عجب بشاش تھے دونوں رضائے رب عزت پر تاؤمل یا تذبذب کچھ نہ تھا دونوں کی صورت پر ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی رضا کی خاطر اپنے جوان بیٹے کی گردن کاٹ رہا ہے اور ادھر غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہم مسلمان نہ جھوٹ اور بے ایمانی چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ مال وزر کی حرص قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہم تو عید پر کسی بکرے کو قربان کرتے ہیں اور ہمارے اندر جو شیطان پل رہا ہے اور جو ہمارے روح کی پاکیزگی کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے اس کا گلہ کاٹنے کی ہم کبھی سوچتے بھی نہیں ہیں اور اگر کبھی سوچ بھی لیا تو کیا ہو گا کیونکہ ہمارے ایمان کی چھری اتنی کند پڑ چکی ہے کہ اس کا ایک رونگٹھا بھی کٹنے نہیں پائے گا۔ عید پر قربانی کرنے کا پیغام یہی ہے کہ یہ قربانی سنت حضرت ابراھیم ہے جسے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور بکرے کی قربانی سے پہلے ہمیں اپنے نفس کو قربان کرنا ہے تب جاکے جو جانور ہم قربان کریں گے وہ پھر اللہ کے دربار میں قدرو قیمت میں جانور سے بڑھ کر کوئی اور ہی چیز ہوگی۔
دسو یں ذی الحجہ کی رات
یہ بڑی عظمت وبرکت والی رات ہے اوریہ چار راتوں میں سے ہے جن میں شب بیداری مستحب ہے آج کی رات آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اس شب میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے اوردعا ” یا دائم الفضل علی البریۃ ۔۔۔کا پڑھنا بھی بہتر ہے جس کاذکرشب جمعہ کے اعمال میں ہوچکاہے
دسو یں ذی الحجہ کا دن
یہ روز عید قربان اور بڑی عظمت و بزرگی والا دن ہے اس میں کئی ایک اعمال ہیں :
۱۔ غسل : آج کے دن غسل کرنا سنت موکدہ ہے اوربعض علماء تو اس کے واجب ہونے کے قائل بھی ہیں ۔
۲۔ نمازعید آج کے دن بھی نماز عید کے بعد قربانی کے گوشت سے استعمال کرے ۔
۳۔ نمازعید سے قبل وبعد منقولہ دعائیں پڑھے
۴۔ دعا ندبہ پڑھے
۵۔ قر بانی : قربانی کرنا سنت موکدہ ہے قربانی کی کھالیں دینی اور رفاحی اداروں کو دیں ۔
۶۔ تکبیرات : جو شخص منی میں ہو وہ روز عید کی نماز ظہر سے تیر ھویں ذی الحجہ کی نماز فجر تک پندرہ نماز وں کے بعد تکبیریں پڑھے اور دیگر شہروں کے لوگ روز عید کی نماز ظہر سے بارہویں ذی الحجہ کی نماز فجر تک
دس نمازوں کے بعد تکبیریں پڑھیں ۔کافی کی صیحح روایت کے مطابق وہ تکبیریں یہ ہیں ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر علی ما ہدینا اللہ اکبر علی ما رزقنامن بہمۃ الانعام والحمدللہ علی ما ابلانا
اللہ بزرگ تر ہے اللہ بزرگ تر ہے نہیں کوئی سو ائے اللہ کے اللہ بزرگ تر ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے اللہ بز رگ تر ہے کہ اس نے ہمیں ہدا یت دی اللہ بز رگ تر ہے کہ اس نے ہمیں روز ی دی بے زبان چو پا یو ں میں سے اور حمد ہے اللہ کے لیے کہ ا س نے ہماری آزمائش کی ۔
یہ تکبیریں مذکورہ نمازوں کے بعد حتی الامکان باربار پڑھنامستحب ہے بلکہ نوافل کے بعد بھی پڑھے۔
2 Responses
تعالیٰ بھی اپنے بندے کے ساتھ کتنی محبت کرتا ہے۔اسے اسکی فکر کس قدر ستاتی ہے کہ اس کو زمین پر بسانے سے پہلے روئے زمین کو گونا گوں نعمتوں اوردلکش مناظر سے مالا مال کر دیا۔ اللہ عزوجل نے یہیں بس نہیں کیا بلکہ اسکی شخصیت میں اخلاقی و روحانی نکھار لانے کی غرض سے وقت وقت پر وہ اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہا تا کہ اس کے بندے رشد و ہدایت کا خزینہ پا سکیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان نامی گرامی پیغمبروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے پہنچاتے بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ آج جو ہم عید قربان منا رہے ہیں ہم انہی کی سنت کی تقلید کر رہے ہیں ۔ عید کے موقعے پر جانوروں کی قربانی پیش کرکے ہم اصل میں اس بات کا عہد دہراتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کی خاطر کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ ہاں بالکل صحیح ہے کہ10ذی الحجہ ایک ایسا مبارک دن ہے جو ایثار و قربانی کے جذبے سے ہمارے وجود کو سر شار کر دیتا ہے۔ ہمارے اندر اللہ کی خوشنودی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قربانی پیش کرنے کے اس واقعہ کواب صدیاں بیت چکی ہیں۔ تب سے لیکر آج تک انسان کافی بدل چکا ہے۔اسکے رہن سہن اور عادات و اطوار میں زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ اس کے پاس اب دولت کی فراونی ہے۔ وہ سرمایہ دار ہے۔وہ جائداد کا مالک ہے اور وہ یہ گمان کر بیٹھا ہے کہ اپنی دولت اور مال و زر کے بل بوتے پر وہ دین کو اپنے لئے آسان بنا دے گا۔ سورج طلوع ہو جاتا ہے تو اس کی شعاعوں میں شدت کم ہو تی ہے۔ نصف النھار تک پہنچتے پہنچتے اس کی تپش اور تمازت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کے لئے نا قابل بر داشت بن جاتی ہے۔مگر آہستہ آہستہ سورج ڈھلنے لگتا ہے اور اسکی شعاعو