پیغمبر اکرم (ص)اور ام فضل کے خواب کی تعبیر
ام فضل کہتی ہیں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی میں نے کل رات بہت پریشان کن خواب دیکھا ہے۔حضرت نے فرمایا :اپنا خواب میرے لیے نقل کرو! عرض کی،میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میرے دامن میں رکھ دیا گیا ہے۔حضرت نے فرمایا:بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔عنقریب فاطمہ سے ایک فرزند متولد ہوگا جو تمہارے دامن میں پروان چڑہے گا۔کچھ ہی مدت بعد امام حسینؑ متولد ہوئے اور میری آغوش میں دے دیے گئے۔ایک دن میں حسین کو لے کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی تو حضرت نے حسین کو اپنی گود میں لیا ’’فاذاً عینا رسول اللّه تهرقان من الدّموع فقلت یا نبیّ اللّه بابی انت و امّی مالک؟ قال:اتانی جبرئیل علیه السّلام فاخبرنی انّ امّتی ستقتل ابنی۔ فقلت:هذا؟ فقال:نعم و أتانی تربةً من تربةٍ حمراء‘‘اچانک حضرت کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہونے لگے۔میں نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ کیا ہوا ہے؟ارشاد فرمایا: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے فرزند حسین کو قتل کر دے گی۔میں نے عرض کی اسی فرزند حسین کو؟فرمایا:ہاں!اور پھر جبرائیل نے مجھے سرخ مٹی عنایت فرمائی اور فرمایا :یہ وہی مٹی ہے جس پر حسین کو شہید کیا جائے گا۔(۲۶)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام سلمہ کے گھر میں عزاداری
ام سلمہ کہتی ہیں کہ حسنین شریفین علیہم السلام میرے گھر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل میں مشغول تھے کہ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:’’یا محمّد انّ امّتک تقتل ابنک هذا من بعدک فأومأ بیده الی الحسین فبکی رسول اللّه و وضعه الی صدره‘‘اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی امت آپ کے فرزند حسین کو آپ کے بعد شہید کردے گی۔تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کو اپنی آغوش میں لے کر اپنے سینے سے لگا لیا اور رونے لگے۔اور مجھ سے فرمایا:یہ مٹی تمہارے پاس امانت ہے یہ کہہ کر آپ نے مٹی کو سونگھا اور فرمایا:اے ام سلمہ! جب بھی یہ مٹی خون آلود ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید ہو گیا ہے۔(۲۷)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زینب کے گھر میں عزاداری
زینب بنت جحش نقل کرتی ہیں:ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تھے۔اس وقت امام حسین علیہ السلام نے تازہ چلنا شروع کیا تھا۔جب وہ رسول خدا کے کمرے میں داخل ہونے لگے تومیں نے انھیں پکڑ لیا۔رسول خدا نے فرمایا:چھوڑ دو!میں نے چھوڑ دیا۔آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے جبکہ امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا ہوا تھا۔ جب بھی آپ رکوع میں جاتے تو امام حسین علیہ السلام کو زمین پر بٹھا دیتے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا۔میں نے عرض کی :یا رسول اللہ ! میں نے آج یہ جو منظر دیکھا اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔فرمایا:جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت اس فرزند کو شہید کر دے گی۔پھر حضرت نے حسین علیہ السلام کی تربت مجھے دیکھائی جو جبرائیل حضرت کے لیے لائے تھے۔(۲۸)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عائشہ کے گھر میں عزاداری
عائشہ کہتی ہیں:ایک دن جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے( جبکہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانوں پر سوار ہو رہے تھے اور آپ سے کھیل رہے تھے)اور آپ سے کہا:’’یا محمّد انّ امّتک ستقتل بعدک و یقتل ابنک هذا من بعدک و مدّ یده فأتاه بتربةٍ بیضاء و قال فی هذه الارض یقتل ابنک اسمها الطّف‘‘اے محمد! جلد ہی آپ کی امت اس فرزند کو آپ کے بعد شہید کر ڈالے گی۔پھر جبرائیل نے ہاتھ بڑھا کر آپ کی خدمت میں ایک سفید رنگ کی مٹی دی اور کہا : آپ کا فرزند اس زمین پر قتل کر دیا جائے گاجسے طف کہتے ہیں۔جب جبرائیل حضرت کے پاس سے رخصت ہوئے تو حضرت مٹی کو ہاتھ میں لئے رو رہے تھے کہ اسی دوران اصحاب کی ایک جماعت جن میں علیؑ،حذیفہ،عمار،ابوذروغیرہ شامل تھے آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا ؛کہ: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا یہ فرزند طف نامی سرزمین میں شہید کردیا جائے گااور پھر یہ مٹی مجھے دی ہے جس میں میرا یہ فرزند شہید ہو گا اور اس کی اسی میں قبر بنے گی۔(۲۹)۔

حضرت امام حسین علہی السلام پر حضرت سید الاوصیاء علیہ السلام کی عزاداری
ابن عباس کہتے ہیں:جنگ صفین کے دوران ہم حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ سرزمین نینوا سے گذرے،حضرت نے مجھ سے فرمایا:’’یا ابن عبّاس اتعرف هذا الموضع قلت له: ما اعرفه یا امیرالمؤمنین فقال علیہ السلام: لو عرفته کمعرفتی لم تکن تجوزه حتّی تبکی کبکائی قال فبکی طویلاً حتی اخضلّت لحیته و سالت الدّموع علی صدره و بکینا معاً‘‘اے ابن عباس!کیا اس سرزمین کو پہچانتے ہو؟میں نے عرض کیا:نہیں۔حضرت نے فرمایا:اگر میری طرح اس سرزمین کو پہچانتے تو یہاں سے اتنی آسانی سے نہ گذرتے اور میری طرح ہی روتے۔ یہ کہتے ہوئےحضرت نے رونا شروع کردیا یہاں تک کہ آنسو آپ کی داڑھی مبارک سے سینہ مبارک پر جاری ہو گئے۔ہم نے بھی حضرت کے ساتھ گریہ کیا۔’’و هو یقول اوّه اوّه مالی و لآل ابی سفیان مابی و لآل حربٍ حزب الشّیطان و اولیاء الکفر صبراً یا ابا عبداللّه…ثمّ بکی بکاءً طویلاً و بکینا معه حتّی سقط لوجهه و غشی علیه طویلا ثمّ افاق‘‘پھر علی علیہ السلام نے فرمایا:وای وای وای میں نے آل سفیان،آل حرب،اور شیطانی ٹولے کا کیا بگاڑا تھا!!یا ابا عبداللہ ! صبر اور استقامت کا دامن تھامے رکھو!اس کے بعد پھر حضرت نے اس قدر شدید گریہ فرمایا کہ منہ کے بل زمین پر گر کر بیہوش ہو گئے۔(۳۰)۔

چوتھی فصل
عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے بعد

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری حضرت کی شہادت کے لحظہ ہی سے اس دلخراش واقعہ کے عینی شاہد ین حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام اور ان کی پھوپھی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور باقی ماندگان کی جانب سے برپا ہوئی۔
بنی امیہ نے بلا جواز شرعی خود کو مسلمانوں کا حاکم مطلق قرار دیا اور اسی حاکمیت مطلق ہونے کے ناطے قصاوت و بے رحمی جو کربلا میں دکھائی اسے مدنظر رکھتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام نے سیاسی اعتبار سے خاموشی اختیار کی اور سیاسی جھگڑوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر اور امویان کے درمیان سیاسی نزاع میں دخالت نہیں فرمائی حتی کہ جب مدینہ والوں نے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کیا جس کے نتیجے میں’’واقعہ حرہ‘‘رونما ہوا حضرت نے سکوت اختیار فرمایا۔
البتہ مروان بن حکم جو اس وقت مدینہ کا حاکم تھا اسکی خواہش پر حضرت اس کے بیوی بچوں کو اپنی پناہ میں لیتے ہوئے انہیں اپنے اہل وعیال کے ہمراہ مدینہ سے باہر’’کوہ رضوی‘‘کی دائیں جانب مقام’’ینبع‘‘(یعنی چشمہ کی جگہ) لے گئے۔مروان نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے پہلے عبداللہ بن عمر سے یہ تقاضا کیا تھا جسے اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔(۳۱)۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کے قیام کی شرائط مہیا نہ ہونے کے علاوہ دوسری اہم دلیل کربلا کے واقعے کی عظمت اور عاشورا کا پیغام تھا جیسے محو ہونے سے بچانا اور لوگوں تک پہنچانااور بنی امیہ کے ظلم کو آشکار کرنا حضرت ہی کی ذمہ داری تھی۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ہر فرصت کو غنیمت قرار دیا ۔نقل ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام پانی پیتے وقت شدید گریہ فرماتے تھےاور جب آپ کے اصحاب اور محبان اسکی علت دریافت کرتے توحضرت فرماتے:کیسے گریہ نہ کروں! پرندےاور وحشی جانور پانی پینے کے لیے آزاد تھے جبکہ میرے بابا کو اس سے روک دیا گیا۔(۳۲)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے والد کی مظلومیت پر گریہ کرتے رہے جب بھی کھانے کی طرف یا پانی پینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے تو گریہ فرماتے یہاں تک کہ آپ کے ایک غلام نے آپ سے عرض کی:اے فرزند رسول صلی اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم اب کتنا گریہ کریں گے؟مجھے خوف ہے کہ اس طرح گریہ کرنےسے اپنے آپ کو نقصان(جانی نقصان) پہنچا لیں گے!!آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’قال اِنّما اَشکو بَثّی و حَزنی الی اللّه و اَعلمُ مِنَ اللّه مَا لاتَعلمون‘‘میں اپنے غم واندوہ سے حق متعال کی بارگاہ میں شکوہ کرتا ہوں اور وہ جانتا ہوں جسے تم لوگ نہیں جانتے۔(۳۳)۔
ایک اور شخص کے جواب میں جس نے آپ کے رونے پر اعتراض کیا فرمایا:وائےہو تم پر!یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے خدا نے اُن میں سے ایک کو باپ کی نظروں سے دور کیا تویعقوب اس کے فراق میں اس قدر روئے کہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گئے اور انکی کمر یوسف کے فراق میں جھک گئی (وہ جانتے تھے)کہ اُن کا بیٹا زندہ و سلامت ہے جبکہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے اپنے والد،چچا اور اپنے اہلبیت کے سترہ عزیز ترین عزیزوں کو شہید ہوتے دیکھا ہےمیں کیسے رونا چھوڑ سکتا ہوں۔(۳۴)۔
عزاداری سے متعلق قرآن مجید میں عملی مثال حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف کی جدائی میں رونا ہے۔ زمخشری کے نقل کے مطابق ستر سال حضرت یعقوب روتے رہے البتہ یہ فقط ایک باپ کا اپنے فرزند کے فراق میں رونا نہیں تھا بلکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ ایک نبی کے فراق میں رونا تھا۔
بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب یزیدلعین کی بیوی نے عبرت ناک خواب دیکھا اور یزید کے لیے نقل کیا تو یزید نے اہلبیت علیہم السلام کے اسیروں کی دلجوئی کے لیے انھیں بلایا اور اُن کی خواہشات پورا کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا تو اہلبیت علیہم السلام نے فرمایا:ہمیں امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر عزاداری کی اجازت دی جائے۔تب یزید نے ان کے لیے عزاداری کے مقدمات فراہم کیے اس طرح اہلبیت علیہم السلام سات دن تک سید الشہداء پر عزاداری کرتے رہے۔(۳۵)۔
کتاب’’سیاہ پوشی در سوگ ائمہ نور علیہم السلام‘‘کے مصنف اس بارے میں یوں لکھتے ہیں:یزید کی بیوی ہند ہ کہتی ہے میں نے عالم خواب میں دیکھا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے اور فرشتے جوق در جوق امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی جانب نازل ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:’’السلام علیک یابن رسول اللہ‘‘اسی خواب میں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو چومتےاور گریہ کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ہند ہ کہتی ہے میں پریشان حال نیند سے بیدار ہوئی تو اچانک میری آنکھیں ایسے نور پر پڑیں جو امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک سے بلند ہو رہا تھا اس ماجرا کو دیکھتے ہی میں یزید کو تلاش کرنے لگی تو اسے ایک تاریک کمرے میں غمزدہ حالت میں دیکھا جو خود سے کہہ رہا تھا’’مجھے حسین سے کیا لینا تھا؟‘‘میں نے اپنا خواب اسے سنایاتو اس نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا دیا۔
اس کتاب کا مصنف اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد یزید کو کربلا میں اپنے کیے پر پشیمان و نادم گردانتا ہے اور اسی کو یزید کی اہلبیت علیہم السلام سے ملائمت سے پیش آنے کی وجہ بیان کرتا ہے۔(۳۶)جبکہ یزید اپنے کیے پر نادم نہیں تھا وہ لوگوں میں اپنی حکومت کے خلاف احتمالی قیام سے خائف تھا اور اسی خوف کی وجہ سے اہلبیت علیہم السلام کے اسیروں سے اس طرح پیش آرہا تھا اور ان کی رضایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔کربلا کے واقعہ کے دو سال بعد حرہ کا واقعہ اور مدینہ منورہ میں یزیدی لشکر کی بے حرمتیاں اس حقیقت کی منہ بولتی دلیل ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر شہیدی لکھتے ہیں:
یزید نے مدینہ منورہ کی طرف جو لشکر بھیجاتھااس کے سردار مسلم بن عقبہ نے تین دن کے لیے مدینہ شہر کو اپنی فوج کے لیے مباح قرار دے دیا اور ان سے کہا جو چاہیں کریں جس کے نتیجہ میں کتنے ہی تہجد گزار مارے گئے،حرمتیں پائمال ہوئیں کتنی عورتوں کی عصمت دری ہوئی!خدا جانتا ہے کہ اس فاجعہ سے فقط ایک ہی حقیقت آشکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس لشکر کشی میں سپاہی سے لے کر امیر لشکر تک کسی کو بھی فقہ اسلامی کا علم نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اسےاسکی پرواہ نہ تھی۔(۳۷)۔
حضرات معصومین علیہم السلام نے عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور ہمیشہ اسکی یاد تازہ رکھنے کے لیے جن طریقوں کو اپنایا اُن میں سے ایک اچھے خطباء،شعرا اور اچھی آواز رکھنے والے افراد کی تونائیوں سے استفادہ کرنا تھا۔اَن افراد کو ‘‘منشید’’ کہتے تھے جسے ہم اپنی زبان میں ’’ذاکر‘‘کہتے ہیں۔البتہ مسلم ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام کے حضور قصیدہ خوانی،مرثیہ سرائی کرنے والے یہ ذاکرین ہر قسم کے غلو،توہین آمیز اورنادرست مطالب سے مبرا ہوا کرتے تھے۔واقعہ کربلا اس قدر دلخراش ہے کہ اس میں غلط بیانی سےاحساسات کو ابھارنے کی ضرورت نہیں جو متأسفانہ بعض ذاکر و خطیب حضرات انجام دیتے ہیں۔
اہلبیت علیہم السلام کا کاروان شام سے مدینہ کی طرف واپسی کے وقت کچھ مدت کے لیے مدینہ سے باہر رکا تو بعض اہل مدینہ نے کاروان والوں سے ملاقات کی جن میں سے ایک شخص’’بشیر بن جذلم‘‘تھا۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا:اے بشیر تمہارا باپ شاعر تھا کیا تم بھی شاعری کاذوق رکھتے ہو؟بشیر نے کہا:جی ہاں میں بھی شاعر ہوں۔حضرت نے فرمایا:کچھ اشعار کہتے ہوئے ہم سے پہلے مدینہ میں جاکرہماری مظلومانہ آمد اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کی خبر مدینہ والوں تک پہنچاؤ۔بشیر نے ان اشعار کو انشاء کیااور غمزدہ آواز میں انہیں اہل مدینہ کے درمیان پڑھ کر کاروان اہلبیت علیہم السلا م کی واپسی کی اطلاع دی:

یا اهلَ یثرب لا مُقامَ لکم بِها قُتِلَ الحسینُ و ادمعی مِدرارٌ
الجسمُ منه بکربلاءِ مفّرجٌ والرأسُ منه علیَ القناةِ یُدارُ

اے اہل مدینہ!اب مدینہ رہنے کی جگہ نہیں ،حسین علیہ السلام شہید ہو گئے اسی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہے ان کا مطہر بدن میدان کربلا میں خون میں لت پت پڑا ہے اور ان کا مقدس سر نیزہ پر سوار شہروں میں پھرایا گیا۔
ابی مخنف کے قول کے مطابق کوئی عورت بھی مدینہ میں باقی نہ بچی سب کی سب گھروں سے باہر نکل گئیں اور مردوں نےسیاہ لباس پہن لیا اور فریاد و فغاں کرنے لگے۔(۳۸)۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کی عزاداری
شیعیان حیدر کرار کے روائی منابع میں موجود اکثر احادیث و روایات فقہی مسائل سے متعلق ہوں یا اسلامی آداب و سنن سے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہی سے نقل ہوئی ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب آپ علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہو کر’’جعفری‘‘کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی امیہ کی حکومت کا سلسلہ اپنے زوال کے قریب تھا اور بنی عباس ابھی اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ۱۱۴ھ۔ق سے ۱۴۸ ھ۔ق میں مجموعاً ۳۴ سال میں سے ۱۸ سال بنی امیہ کی آخری سانس لیتی ظالم حکومت اور ۱۶ سال بنی عباس کی حکومت کے ابتدائی مراحل میں گذارے ۔حضرت صادق علیہ السلام نے موجودہ شرائط سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اسلامی شیعی تمدن کو پھیلانے میں ہرممکنہ کوشش فرمائی اور فقہ شیعہ کی بنیادکو مضبوط اور عمیق مبانی سے آراستہ کرتے ہوئے بہت سے شاگردان کی تربیت فرمائی۔
کربلا کے واقعات اور امام حسین علیہ السلام اور اُن کے باوفا اصحاب کی مظلومانہ شہادت سے متعلق بہت سی روایات حضرت ہی سے نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
شيخ جليل كامل جعفر بن قولويہ اپنی کتاب ’’كامل‘‘میں ابن خارجہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ حضرت امام حسین کا ذکر ہوا حضرت بہت روئے اور ہم نےبھی حضرت کے ساتھ رونا شروع کر دیا ۔کچھ دیر کے بعد حضرت نے اپنا سر اٹھایا اور ارشاد فرمایاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’انا قتیل العبرۃ لا یذکرنی مؤمن الا بکی‘‘(۳۹)میں ایسا شہید ہوں کہ جو مؤمن بھی میرے شہادت سے متعلق سنے گا تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گےاور اسی طرح ایک اورروایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی دن ایسا نہ تھا جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں حضرت سید الشہدا کا نام لیا جاتا اور حضرت اس دن تبسم فرماتے اور اس دن محزون حالت میں رہتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ امام حسین ہر مؤمن کےلئے رونے کا سبب ہیں۔
عبداللہ بن سنان سے روایت نقل ہوئی ہے کہ روز عاشور میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر مبارک میں شرفیاب ہوا اس وقت حضرت کے اطراف میں اصحاب بھی موجود تھے ۔حضرت کا چہرہ مبارک غمگین تھا اور گریہ بھی فرما رہے تھے۔میں نے عرض کیا:اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں گریاں ہیں؟حضرت نے فرمایا:کن سوچوں میں ہو کیا نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تھے؟(ابن سنان کہتا ہے حضرت کی اُس حالت نے حضرت کو مزید کچھ کہتے کی مجال نہ دی)حضرت کے یہ جملات سنتے ہی سب اصحاب بھی رونے لگے۔(۴۰)۔
زید الشحّام نقل کرتا ہے ایک دن حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیٹھا تھا کہ جعفر بن عثمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور امام علیہ السلام کے قریب بیٹھ گئے۔حضرت نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم امام حسین علیہ السلام سے متعلق شعر کہتے ہو۔جعفر نے کہا جی ہاں۔پھر جعفر نے امام کے حکم پر امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں اشعار پڑھے جنہیں حاضرین نے سنا اور گریہ کیا۔امام علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر بھی آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا:اے جعفر خداوند متعال کے مقرب فرشتوں نے بھی تمہارے اشعار سن کر اسی طرح گریہ کیاہے جس طرح ہم نے گریہ کیا۔پھر فرمایا:‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کے لیے شعر کہے،خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رولائے خداوندمتعال جنت کو اس پر واجب کر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔(۴۱)۔
محمد بن سہل کہتا ہےہم ایام تشریق(۴۲)میں شاعر‘‘کمیت’’کے ہمراہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حضور شرفیاب ہوئے۔’’کمیت‘‘نے حضرت سے عرض کیا اجازت ہے میں کچھ شعر پڑھوں؟حضرت نے اجازت مرحمت فرماتے ہوئےفرمایا:یہ ایام بہت بزرگ ہیں کہواور حضرت نے اپنے اہلبیت سے بھی فرمایا کہ آپ سب بھی نزدیک آجائیں اور کمیت کے اشعار سنیں۔کمیت نے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت و مصیبت میں کچھ اشعار کہے۔امام علیہ السلام نے اشعار سننے کے بعدکمیت کی بخشش اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔(۴۳)۔
شیخ فخر الدین طریحی نے اپنی کتاب‘‘منتخب’’میں روایت نقل کی ہے کہ جب بھی عاشورا کا چاند نمودار ہوتا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام غمگین ہوجایا کرتے تھے اور اپنے جد بزگوار سید الشہداء علیہ السلام پر گریہ فرمایا کرتے تھے لوگ بھی اطراف و اکناف سے حضرت کے محضر میں شرفیاب ہوتے اور حضرت کے ساتھ مل کر عزاداری کرتے اور حضرت کو اس غم میں تسلیت پیش کیا کرتے اور جب عزاداری سے فارغ ہوجاتے تو حضرت فرمایا کرتے تھے:اے لوگو!جان لو کہ امام حسین علیہ السلام اپنے پروردگار کے پاس زندہ اور مرزوق ہیں اور ہمیشہ اپنے عزاداروں کی طرف خاص توجہ فرماتے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے ناموں اور اُن کے لیے جنت میں جو مقامات آمادہ کیے گئے ہیں سب کو جانتے ہیں۔(۴۴)۔
اسی طرح حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت امام حسین علیہالسلام کی زبانی نقل فرماتے ہیں:اگرمیرے زائر اور عزادار جان لیں کہ خداوند متعال انہیں کیا اجر دے گا تو اُن کی خوشحالی ان کی عزاداری سے کہیں زیادہ ہوگی اور امام حسین علیہ السلام کا زائر اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہمیشہ مسرور حالت میں لوٹتا ہے ۔ حضرت کا عزادار اپنے مقام سے ابھی اٹھتا ہی نہیں کہ حق متعال اس کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے اوروہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسے ابھی ماں سے متولد ہوا تھا۔(۴۵)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کے زندہ شاہد و ناظر ہونے پر تاکید کرنا در واقع قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن میں شہید کی خصوصیات بیان ہوئیں ہیں ۔بطور مثال آیت مبارکہ’’ولا تحسبنَّ الذین قُتلوا فی سبیلِ اللّهِ امواتا بَل احیاء عندَ ربِّهم یُرزقون‘‘(۴۶)یہ بات اس امر کی طرف متوجہ کرا رہی ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی یہ کوشش تھی کہ بنی امیہ کی اس سازش کو ناکام بنایا جائے جو انھوں نے آئمہ شیعہ کے بارے میں مشہور کررکھی تھی۔ بنی امیہ اِن بزرگوار ہستیوں کو اسلامی حکومت کے خلاف باغی متعارف کرواتے تھے جنہوں نے نام نہاد امیرالمؤمنین پر خروج کیا ہوجبکہ امام صادق علیہ السلام اِن محافل و مجالس کے ذریعہ امام حسین کی شخصیت کے ابعاد اور اُن حقائق مخفی کو آشکار فرماتے تھے اور اس بارے میں قرآن مجید جو تمام مسلمین کا متفق علیہ مأخذ ہے اس سے متوسل ہوتے تھے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اہتمام فرمانے سے متعلق بھی روایات میں موجود ہے لیکن ہم انہی جملات پر اکتفا کرتے ہیں۔جیسے امام علیہ السلام نے فرزند ارجمند نے ذکر کیا ہے۔’’کان أبي إذا دخل شهر المحرم لا يري ضاحكا و كانت الكآبة تغلب عليه حتي يمضي منه عشرة أيام فإذا كان يوم العاشر كان ذلك اليوم يوم مصيبته وحزنه وبكائه ويقول: هو اليوم الذي قتل فيه الحسين صلي الله عليه‘‘(۴۷)جونہی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے لب مبارک سے مسکراہٹ ختم ہو جاتی کبھی بھی کسی نے آپ کہ اس ماہ ہنستے نہیں دیکھا آپ اسی طرح روز عاشور تک غمگین رہتے اور روز عاشور جو نہایت غم و اندوہ کا دن ہے حضرت فرماتے یہ وہی دن ہے جس دن میرے جد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا(۴۸)۔
حضرت امام علی ابن موسی رضا علیہ السلام سے ایک طویل روایت میں نقل ہوا ہے کہ ریّان بن شبیب نقل کرتا ہے میں پہلی محرم کے دن امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوا، آپ ارشاد فرماتے ہیں :حضرت نے مجھ سے فرمایا:شبیب کے فرزند امام حسین علیہ السلام پر اگر گریہ کرو تو جونہی تمہارے آنسو تہارے رخسار پر جاری ہوں حق متعال تمہارے وہ تمام گناہ جنہیں انجام دیتے آئے ہو معاف فرمادے گا۔پھر فرمایا اگر چاہتے ہو کہ جنت میں ہمارے درجات کی طرح ہمارے ساتھ رہو تو ہمارے غموں میں غمگین اور ہماری خوشحالی میں خوشحال رہا کرو۔

اے شبیب کے بیٹے اگر تم کسی بات پر رونا چاہتے ہو تو حسین بن علی علیہ السلام پر رویا کرو کیونکہ انھیں گوسفند کی طرح ذبح کردیا گیا اور انھیں ان کے اٹھارہ اہلبیت کے ساتھ شہید کردیا گیا جن میں سے کسی کی بھی روی زمین پر مثل و شبیہ نہیں تھی۔ان کی شہادت پر ساتوں آسمانوں اور زمینوں نے گریہ کیا،چار ہزار ملائکہ آپ کی نصرت کے لیے آسمان سے نازل ہوئے لیکن اس وقت آپ کی شھادت ہوچکی تھی پھر وہ اپنے بالوں کو پریشان کر کے اس میں مٹی ڈال کر ہمیشہ حضرت کی قبر مطہر کے پاس رہیں گے جب حضرت قائم آل محمد(عج)ظہور فرمائیں گے تو ان کے اصحاب میں سے ہوں گے اور حضرت سے لشکر میں جنگ کرتے ہوئے ان کا نعرہ یہ جملہ ہوگا:’’يا لَثاراتِ الْحُسِيْن عَلَيْهِ السَّلام‘‘اے شبیب مجھے میرے والد بزرگوار نے اپنے اجداد سے خبر دی کہ جب میرے جد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے آسمان نے خون برسایا اور زمین سرخ ہوگئی اے شبیب کے بیٹے اگر تم حسین علیہ السلام پر گریہ کرو تو اس سے پہلے کہ آنسوؤں کا پانی تمہارے چہرے پر جاری ہو حق متعال تمہارے تمام کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرمادے گا خواہ وہ کم یا زیادہ ۔اے شبیب کے بیٹے اگر خداوندمتعال سے اس حالت میں ملاقات کرنا چاہو کہ تمہاری گردن پر کسی بھی گناہ کو بوجھ نہ ہو تو حسین علیہ السلام کی زیارت کرو۔
اے شیب کے بیٹے اگر تم جنت کے عالی مکانات اور غرفوں میں رسول خدا اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرو۔اے شبیب کے بیٹے اگر شہداء کربلا کی طرح کا ثواب لینا چچاہتے ہو تو جب بھی حضرت کی مظلومیت کو یاد کرو تو اس طرح سے کہو: ’’يا لَيْتَني كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوزَ فَوْزاً عَظيماَ‘‘اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا اور اس عظیم فلاحی مقام پر فائز ہوجاتا۔
اے شبیب کے بیٹے اگر جنت کے عالی درجات میں ہمارے ساتھ ہونا چاہتے ہو تو ہمارے غم میں غمگین اور ہماری خوش میں خوشحال رہا کرو اور ہماری ولایت کے موالی رہو کیونکہ اگر کوئی شخص کسی پتھر کو پسند کرتا ہو اور اس سے محبت کرتاھوتوخداوندمتعال قیامت کے دن اسے اسی پتھر کے ساتھ محشور فرمائے گا۔ (۴۹)۔
اہلبیت علیہم السلام کا معروف مداح خوان دِعبل خُزاعی روایت کرتا ہے:عاشورا کے دن حضرت علی ابن موسیٰ رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو میں نے دیکھا حضرت اپنے اصحاب کے ہمراہ غمگین بیھٹے ہیں مجھے دیکھتے ہی حضرت نے فرمایا:مرحبا ہو تم پر اے دِعبل جو اپنے ہاتھ و زبان سے ہماری نصرت کرتے ہو۔حضرت نے مجھے نزدیک بلا کر اپنے پاس بھٹایا اور فرمایا:اے دِعبل اس دن ’’جو ہمارے لیے غم و اندوہ کا دن اور ہمارے دشمنان یعنی بنی امیہ کے لیے جشن و سرور کا دن ہے‘‘کی مناسبت سے میرے لیے کوئی شعر پڑھو۔
اے دِعبل جو بھی ہماری مصیبت اور مظالم پر
’’جسے ہمارے دشمنوں نے ہم پر ڈاھایا’’روئے اور دوسروں کو بھی رولائے تو حق متعال اسے ہمارے ساتھ ہمارے زمرہ میں محشور فرمائے گا۔پھر فرمایا : اے دعبل جو میرے جد امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر روئے خداوند متعال اس کے گناہ معاف فرمادے گا۔پھر امام اٹھے اور اپنے اہلبیت کے لیے ایک پردہ نصب کیا اور انہیں پردے کے اس طرف بھٹایا تاکہ وہ بھی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں پھر مجھ سے کہا :اے دعبل امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ پڑھو تم جب تک زندہ ہو ہمارے مداح و ناصر ہو اور اسی طرح ہماری نصرت کرتے رہو اور اس میں کوتاہی نہ کرو‘‘دِعبل کہتا ہے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں امام حسین علیہ السلام کا مرثیہ پڑھنا شروع کیا۔(۵۰)
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:محرم ایسا مہینہ ہے کہ زمان جاہلیت میں لوگ اس مہینہ جنگ کو حرام جانتے تھے لیکن اس جفاکار امت نے اس ماہ کی حرمت کا پاس نہ رکھا اور ہمارے خون کو حلال ،ہمارے احترام کو ضایع اور ہمارے اہلبیت کو اسیر کیا۔ اہلبیت کے خیام کو آگ لگادی اور اُن کے اموال کو غارت کیا۔ہماری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا پاس نہ رکھا۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے روز ہماری آنکھوں کو مجروح آنسوں کو جاری اور ہمارے عزیزوں کی بے احترامی کی گئی۔پس امام حسین علیہ السلام پر رونے والے روئیں چونکہ ان پر رونا بڑے بڑے گناہوں کو محو کردیتا ہے۔(۵۱)

حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

حضرت ولی عصرامام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزداری ان کے مصائب پر رونے کی نہایت اہمیت کے قائل ہیں اور اس بات کا اندازہ حضرت کی جانب سے نقل ہونے والی دو زیارتیں یعنی حضرت امام حسین علیہ کی زیارت اور شہداء کربلا کی زیارت ہیں جن میں حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے درد ناک مصائب ذکر فرماتے ہیں۔

حضرت امام زمان عجل الله تعالی فرجہ الشریف سے نقل ہونے والی حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں: ’’ فَلاَندُبَنَّک صَباحاًوَمسآءًوَلَأَبکِیَنَّ بَدَلَ الدُّموعِ دَماً‘‘(۵۲)اے میرے آقا !خدا کی قسم؛میں دن رات آپ کی مظلومیت و مصیبت پر عزاداری کرتا اور آنسوؤں کے بدلے خون روتا ہوں۔حضرت پہلے فقرے میں اپنی عزاداری اور دوسرے فقرے میں آنسوؤں کی جگہ خون رونے کا ذکر فرماتے ہیں۔

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا خون کے آنسورونا

محققین معتقد ہیں کہ انسان کی آنکھوں کے پیچھے خون کے تھیلے ہوتے ہیں جب انسان کے غم و حزن سے متأثر ہوتا ہے تو ان تھیلیوں کا خون پانی میں تبدیل ہو کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں جاری ہوجاتا ہے اور اگر رونے کا یہ عمل غم کی شدت کی وجہ سےطویل اور شدید ہو جائے تو خون کو پانی میں تبدیل کرنے کا عمل مختل ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون بہنے لگتا ہے۔(۵۳)حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں آپ کی مظلومیت اور مصیبت میں اس قدر عزاداری کرتا ہوں کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے بلکہ خون جاری ہوتا ہے اور کسی خاص وقت یہ عزاداری نہیں کرتا بلکہ پورا سال دن رات اپنے جد کی مظلومیت پر خون کے آنسو بہاتا ہوں۔

روایات میں ہے کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے دنیا والوں کو مخاطب قرار دے کر جو فریاد بلند کریں گے ان میں سے تین جملے حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے متعلق ہیں:’’أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الامامُ القائمُ الثانی عَشَرَ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصّمْضامُ المُنْتَقِم ،أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن قَتَلوهُ عَطْشاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْنطَرَحوهُ عُریاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن سَحَقوهُ عُدواناً ‘‘(۵۴)اے دنیا والوں! میں آپ کا وہ امام ہوں جس کے قیام کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے، میں ظالموں کے خلاف انتقام لینے والی تیز دھاری والی تلوار ہوں،اے دنیا والو!میرے جد امجد حسین کو پیاسا شہید کردیا گیا ، اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کو مطہر جسم کو عریاں خاک کربلا پر چھوڑ دیا گیا! اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کے پاک و مطہر بدن کو دشمنی کی خاطر گھوڑوں کے سموں تلے پائمال کردیا گیا۔

 

آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے مجلس منعقد کریں گے اور اپنے مظلوم جد امجد کی عزداری کریں گے اور اپنے قیام کی ابتداء کو کربلا کے قیام سے متصل کرتے ہوئے دنیا والوں کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

پانچویں فصل

حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اس قدر اہتمام سے منانے کی وجوہات

 

کیا وجہ ہے کہ ہر مناسبت پر حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے اور حضرت کی عزاداری کی اس قدر تاکید کی جاتی ہے؟ اس کی حقیقت یہی ہے کہ شیعتہ ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکتب فکر،مکتب تعلیم،مکتب تربیت کا نام ہے اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام اس مکتب کے مربی ہیں۔ ہر مناسبت سے حضرت سید الشہدا کی یاد کو زندہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ مکتب زندہ رہے، شہادت طلبی کی روح زندہ رہے اور اگر یہ زندہ ہیں تو اسلام زندہ ہے یعنی اسلام کی حیات تا روز قیامت،تا روز حشر ذکر حسین کے مرہون منت ہے ۔اگر ذکر حسین زندہ ہے تو اسلام زندہ ہے۔ حضرات معصومین علیہم السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نجات کی کشتیاں ہیں لیکن ہم سب میں حسین کی کشتی سریع اور تیز تر ہے۔

 

عزاداری امام حسین علیہ السلام پر تاکید کی وجہ

ممکن ہے بعض اذہان میں یہ سوال ابھرے کہ کیا وجہ ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام نے ہر خوشی اور غم کی مناسبت پر امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی ہی کیوں اس قدر تاکید فرمائی ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا الہٰی اقدار کی طرف رغبت دلانے والا انسان ساز مکتب جب تک زندہ ہے خون کی تلوار پر فتح و کامیابی کا یہ عملی نمونہ لوگوں کے درمیان زندہ رہے گا جس سے درس لیتے ہوئے اور مشعل راہ قرار دیتے ہوئے وہ ہر یزید زمان کے مقابلے میں آسانی سے قیام کرسکیں گے اور اس طرح قیامت تک الہٰی اقدار حسینیت کی ان مجالس کی مرہون منت رہیں گی۔ اسی وجہ سے حضرات معصومین علیہم السلام نے ہزاروں شاعروں،مصنفوں،خطیبوں کی توانائیوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس مکتب کو قیامت تک زندہ رکھنے اور اس مکتب کے چاہنے والوں کو ‘‘یا حسین’’ کے پرچم تلےوحدت و اتحاد سے جمع رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اسی لیے اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ اس عزاداری کے مقابلے میں آنے اور اس کا راستہ روکنے اور اس کی وحدت کو سبکتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔

حضرات معصومین علیہم السلام کی روش سے لوگوں کا متعارف ہونا

یہ مجالس حضرات معصومین علیہم السلام کی سیرت اور ان کے اہداف کو بیان کرنے کے لیے بہترین پٹیک فارم ہیں اور جو لوگ ان مجالس و محافل میں شرکت کرتے ہیں ان کے دل معارف اہلبیت علیہم السلام دریافت کرنے کے لیے مکمل آمادہ ہوتے ہیں۔لہٰذا کہ مجالس اسلام سے تعلق رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے اسلام کے حقیقی اور نایاب معارف حاصل کرنے کی درس گاہ ہیں اور انہی سے اسلام کا دفاع ممکن ہے۔

 

حجج الہٰی سے دلی وابستگی ایجاد ہونا

حضرت معصومین علیہم السلام نے ان مجالس کو منعقد کرنے کی بہت تاکید کی ہے اور ان مجالس کا مطلب در حقیقت معصومین علیہم السلام کے دستورات کی مکمل اطاعت کرنا ہے ۔بدیہی ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام اپنے تابعین کی اس مخلصانہ اطاعت کا ضرور جواب دیں گے یعنی ان مجالس کے شرکاء پر حضرات کی خاص عنایات ہوں گی۔

 

معاشرے میں رائج انحرافات سے آشنائی

جب عاشورا کے واقعہ میں خاندان اہلبیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم اور ان کے مد مقابل نام نہاد مسلمانوں کے عقیدتی وفکری انحرافات کو بیان کیا جائے گا تو اس طرح خلافت کے کاذب اور جھوٹے مدعیوں کے حقیقی چہروں سے نقاب ہٹ جائے گا اور اس طرح فطری طور پر لوگ اس زمانے کے حالات کا اپنے فعلی اور جاری حالات سے موازنہ کریں گے ۔اسی طرح اپنے معاشرے کی بھی انہی اقدار کے مطابق اصلاح کرنے کی کوشش کریں گے اور یزید وقت سے اظہار بیزاری کرتے رہیں گے ۔انہیں یہ یقین ہوجائے گا کہ یزیدیت کا ظلم اور اس کے انحرفات کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانے میں اور ہر معاشرے میں مؤمنین کو یزیدیت کا سامنار ہےگاباالفاظ دیگر یہ مجالس عزا لوگوں کی بصیرت اور آگاہی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور انسان کے اس کی وظیفہ سے آشنا کرواتی ہیں۔

سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا ثواب

علی بن حمزہ کے والد حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:’’انّ البکاء و الجزع مکروه للعبد فی کلّ ما جوع، ما خلا البکاء علی الحسین بن علی (ع) فانّه فیه مأجور‘‘(۵۵) حضرت امام حسین علیہ السلام پر عزاداری کے علاوہ ہر مصیبت میں رونا مکروہ ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام رونے کا ثواب ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ارشاد فرماتے ہیں:’’یا فاطمهْ!کلّ عین باکیهْ یوم القیامهْ، الاّ عین بکت علی مصاب الحسین(ع) فإنّها ضاحکهْ مستبشرهْ بنعیم الجنهْ‘‘(۵۶)قیامت کے دن ہر آنکھ روئے گی مگر وہ آنکھ جو حسین (علیہ السلام) پر روتی رہی ہو وہ قیامت کے دن وہ خوشحالی سے مسکرائے جبکہ اسے جنت کی نعمتوں کی بشارت دی جائے گی۔

۔1 – پیغمبر اکرام صلی الله علیہ و آلہ و سلم اپنی بیٹی حضرت زهرا علیانالسلام سے فرماتے ہیں:’’کل عین باکیة یوم القیامة الا عین بکت علی مصاب الحسین فانها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة‘‘(۵۷)قیامت کے دن ہر آنکھ روئے کی مگر وہ آنکھ جو حسین کے مصائب میں روئی ہو وہ قیامت کے دن خوشحال ہوگا اور جنتی نعمات سے بہرہ مند ہو گا۔

۔۲۔ یہ روایت بھی اختلاف الفاظ کے ساتھ مشہور ہے کہ حضرات معصومین علیہم ‏السلام سید الشہداء علیہ السلام پر رونے کے اجر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’۔۔۔ من بکی او أبکی مأة ضمنا له علی الله الجنة ۔۔۔‘‘۔’’۔۔۔ و من بکی او ابکی خمسین فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ثلاثین فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ابکی عشرة فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ابکی واحدا فله الجنة، و من تباکی فله الجنة‘‘(۵۸)۔

جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ سو افراد کو بھی رولائے ہم اس کی جنت کے ضامن ہیں۔

جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ پچاس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔

جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ تیس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔

جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ دس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے؛

جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ ایک شخص افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔

جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پررونے والی حالت اختیار کر لے وہ جنتی ہے۔

۔۳۔ داود ترقی کہتا ہے:میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں تھاجب حضرت نے پانی مانگا اور جب پانی پی لیا تو حضرت کی آنکھوں سےآنسو جاری ہو گئے اور فرمایا: قاتلیں حسین علیہ السلام پر لعنت

پھر فرمایا جو کوئی بھی پانی پیتے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجے ۔خداوندمتعال اس کے نامۂ عمل میں ایک لاکھ نیکیوں کا اضافہ فرمائے گا اس کے گناہ معاف فرمادے گا اس کے درجات میں ایک لاکھ درجات کا اضافہ فرمائے گا وہ اس کی مانند ہو گا جس نے راہِ خدا میں ایک لاکھ غلام آزاد کیے ہوں اور قیامت کے دن خداوندمتعال اسے اطمینان قلب کے ساتھ محشور فرمائے گا۔(۵۹)۔

 

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے گناہوں کا مٹ جانا

ایک دن مرحوم سید بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ تنہا پیدل سامراء کی زیارت کے لیے نکل پڑے اور راستے میں یہ سوچ رہے تھے کہ کیسےحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری گناہوں کو مٹا دیتی ہے؟اسی وقت متوجہ ہوئے کہ ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے ان کے پاس پہنچتا ہے۔ انھیں سلام کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ اے سید کیاسوچ رہے ہو؟اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو بتاؤ ہم بھی سنیں؟

مرحوم سید بحر العلوم فرماتے ہیں:میں یہ سوچ رہا ہوں کہ خداوندمتعال کس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اتنا بڑا ثواب ان کے زائرین اور عزادری کرنے والوں کو عنایت فرماتا ہے ؟مثلاً وہ زیارت کے سفر میں جو قدم بھی اٹھائیں ہر قدم کے بدلے میں انھیں ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ان کے نامۂ اعمال میں اضافہ فرمادیتا ہے۔۔۔ اور عزادری میں آنسو کا ایک قطرہ بہانے سے عزادار کے گناہ محو ہوجاتے ہیں۔؟

اس سوار نے فرمایا:تعجب نہیں کرو! میں اس مسئلہ کے حل کے لیے آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔

ایک بادشاہ اپنے درباریوں کے ہمراہ شکار کے لیے نکلتا ہے شکارگاہ میں وہ اپنے ساتھیوں سے گم ہو جاتا ہے اور نہایت مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے بھوک اور پیاس سے بےحال ہوجانے کے بعد ایک خیمہ کو دیکھتا ہے اور اس خیمے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس خیمہ میں ایک بوڑھی عورت کو اس کے بچے کے ساتھ دیکھتا ہے ان کے پاس خیمہ میں ایک دودھ دینے والی بھیڑ ہوتی ہے وہ لوگ اسی جانور کے دودھ سے اپنا گذر بسر کرتے تھے۔ جب سلطان ان کے خیمہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اسے نہیں پہچانتے لیکن اپنے مہمان کی خدمت کے لیے وہ اپنی تنہا جمع پونجی یعنی بھیڑکو ذبح کردیتے ہیں اور گوشت سے کباب بنا کرسلطان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔سلطان رات ان کے پاس قیام کرتا ہے اوردوسرے دن ان سے خداحافظی کرنے کے بعد جس طرح بھی ہوا اپنے ساتھیوں سے جاملتا ہے اور انھیں تمام ماجرا سے آگاہ کرتا ہے ۔ پھر ان سے دریافت کرتا ہے کہ ان سب کی نظر میں اگر میں اس بوڑھی عورت اور اس کے بیٹے کا شکریہ ادا کرنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

ایک نے کہا:انھیں سو بھیڑیں عنایت فرمائیں۔

دوسرے نے کہا:سو بھیڑوں کے ساتھ سو اشرفی بھی عنایت فرمائیں۔

تیسرے نے کہا:انھیں ایک زرعی زمین بھی ان کے ساتھ عنایت فرمائیں۔

سلطان نے کہا :میں جو کچھ بھی دوں وہ کم ہے ۔ اگر میں انھیں اپنا تاج و تخت دے دوں تو اسی وقت ان کے ساتھ مقابلہ بالمثل ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنا سب کچھ میرے اوپر قربان کردیا تھالہذا مجھے بھی اپنا سب کچھ انھیں دے دینا چاہئے تاکہ حساب برابر ہو جائے۔

پھر سوار نے سید بحر العلوم سے کہا:حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اپنا سب کچھ یعنی مال و منال، اہل و عیال،بیٹے،بھائی،بیٹی،بہن،سر،بدن سب کچھ خداوندمتعال کی راہ میں قربان کردیا۔تو پھر اگر خداوندمتعال اس مظلوم امام کے زائرین اور عزاداروں کے اس طرح کے ثواب و اجر دےتوتعجب نہیں کرنا چاہیے۔چونکہ خدا اپنی خدائی تو سید الشہداء کو نہیں دے سکتا تو پھر اپنے عالی مقام کے علاوہ جو کچھ بھی حضرت کے زائرین کو عنایت فرمائے اس کے باوجود بھی اس فداکاری کی مکمل جزا کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔

سوار ان مطالب کو کہنے کے بعد سید بحر العلوم کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔(۶۰)۔

 

نتیجۂ فکر

اس مقالہ کے اختتام پر حضرات معصومین علیہم السلام کا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری برگزار کرنے کے ہدف سے متعلق کچھ نکات ذکر کرتے ہیں:

۱۔حضرات معصومین علیہم السلام کا عزاداری کی محافل منعقد کرنے کا ہدف امام حسین علیہ السلام کی حقانیت اور یزیدی واموی دعوؤں کو جھٹلانا تھا۔یعنی اسلامی معاشرے کے عمومی اوضاع کچھ اس طرح تھے کہ حتی حضرات کے بعض اصحاب بھی اس موضوع سے غافل تھے۔(۶۱)اسی لیے حضرات معصومین علیہم السلام سے نقل ہونے والی دعاؤں،روایات میں معصومین نے اس نکتہ کی طرف مرتب اشارہ فرمایا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اسلامی احکام کی احیاء نماز اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احیاء کے لیے قیام فرمایا۔(۶۲)۔

۲۔حضرات معصومین علیہم السلام امام حسین علیہ اسلام کی عزاداری کے ذریعہ اپنے آپ کو امام حسین علیہ السلام سے منسوب فرما کر اپنی حقانیت اور اپنے زمانے کے حکمرانوں کے بطلان کو اثبات کرتے تھے۔عزاداری سید الشہداء کو مؤثر جانتے تھے ظالم حکمرانوں کے خلاف مبارزہ و جدوجہد میں امام رضا علیہ السلام جب امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو بیان فرماتے تو‘‘آپ’’کی جگہ’’ہم‘‘کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔یعنی فرماتے اِس ظالم و جفاکار امت نے ہمارے خون کو حلال اور ہمارے احترام کو پائمال کیا۔ہمارے اہلبیت کو اسیر کیا، ہمارے خیام کو آگ لگائی،ہمارے اموال کو غارت کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے حق میں احترام کا لحاظ و پاس نہ رکھا۔(۶۳)۔

مشہور ومعروف حدیث جسے حدیث ’’سلسلۃ الذہب‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،اس حدیث میں بھی حضرت امام رضا علیہ السلام نے توحید کے قلعہ میں داخل ہونے اور عذاب الہٰی سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی ولایت کی قبولی کو شرط بیان فرمایا ہے۔’’کلمة لااله الااللّه حصنی فَمن دَخلَ حصنی اَمِن مِن عذابی بشرطها و شروطها و اَنا مِن شروطها‘‘(۴۰)اس سلسلہ میں حضرات معصومین علیہم السلام قرآن مجید کی آیات سے استدلال لاتے تھے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے مورد اعتماد ہے جیسے وہ آیات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کے امت پر حقوق کو بیان کرتی ہیں۔’’ قُل لا اسألکم علیه اجرا الاّ المودةَ فِی القُربی‘‘

(۶۴)جیسے آخری روایت میں بیان ہوا ہے یا پھر ایک دوسری روایت میں قرآن مجید کی ان آیات سے تمسک کیا گیا ہے جس میں شہید راہِ حق کی خصوصیات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔(۶۵)۔

حضرات معصومین علیہم السلام کے محضر میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی کیفیت سے متعلق بھی روایات اور تاریخی شواھد میں کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ یہ مراسم اس ادعیٰ کے برعکس’’جس میں کہا ہے کہ یہ مجالس مخفیانہ منعقد ہوا کرتی تھیں‘‘حضرات معصومین علیہم السلام کی سعی و کوشش یہی ہوا کرتی تھی کہ اِن مراسم کو اپنے اصحاب کے اجتماع میں حتی اپنے اہلبیت کے حضور میں علنی طور پر منعقد کریں۔

ابن قولویہ ابن ہارون مکفوف(۶۶)سے روایت کرتے ہیں میں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا حضرت نے مجھ سے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر کوئی شعر پڑھو ابو ہارون نے اپنے انداز میں کتاب سے دیکھ کر کچھ اشعار پڑہے تو حضرت نے فرمایا:اسی طرح پڑھو جس طرح تم حضرت کی قبر اطہر پر جا کر مرثیہ خوانی کرتے ہو!یعنی سوز و حزن کے لہجے میں پڑھو۔اس نے کہا میں نے یہ اشعار پڑھے:

امر علی حدثِ الحسینِ

فقُل لاِعظُمهِ الزکیّه

یعنی امام حسین کے مزار اقدس سے گذروتو حضرت کی پاک و مطہر ہڈیوں سے کہو۔

حضرت نے رونا شروع کیا تو میں خاموش ہوگیا۔حضرت نے فرمایا:پڑہو میں نے مزید کچھ اشعار پڑھے۔پھر حضرت نے فرمایا:مزید پڑھو میں نے اِس شعر کو پڑھا۔

یا مریم قومی فانّه بی مولاک

و علی الحسینِ فاسعدیِ ببکاکِ

 

پس حضرت نے بکاء فرمایا اور حضرت کے اہلبیت کی فریادیں بھی بلند ہوئیں پھر جب خاموش ہوئے تو فرمایا:اے ہارون جو بھی حسین کی مصیبت میں شعر کہے اور دس افراد کو رولائے اس پر جنت واجب ہے۔پھر حضرت نے رونے والےافراد کی تعداد میں کمی کرنا شروع کردی یہاں تک کہ ایک شخص تک پہنچ گئے اور فرمایا:’’جو بھی حسین کی مصیبت میں شعر کہے اور ایک شخص کو رولائے اس پر جنت واجب ہے‘‘۔(۶۷)۔

اس روایت سے واضح معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام محزون و سوزناک آواز سے عزاداری کی تشویق و ترویج فرمایا کرتے تھے اور اس حالت میں عزاداری کے لیے زیادہ فضیلت و ثواب کے قائل تھے۔اور سعی وکوشش فرمایا کرتے تھے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اِن محافل میں شرکت کروائیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے شوق اور رغبت دلانے کے انداز میں فضیل بن یسار سے فرمایا:کیا ایسی مجلس کا انعقاد کرتے ہو جس میں ہمارے متعلق گفتگو ہو؟فضیل نے عرض کیا۔

 

جی ہاں!امام علیہ السلام نے فرمایا:میں اِن محافل و مجالس کو پسند کرتا ہوں لہٰذا ہمارے ہدف کو زندہ رکھو۔خداوند متعال رحمت فرمائے اس شخص پر جو ہمارے امر(مقصد) کو زندہ کرے۔اے فضیل جو بھی ہمیں یاد کرے یا اسکے پاس ہمرا ذکر ہو اور اس کی آنکھوں میں مکھی کے پُر کے برابر آنسو آجائیں خداوند متعال اس کے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔(۶۸)

اس آخری روایت سے متعلق ایک ضروری وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق اس قسم کی احادیث و روایات جن میں گناہوں کی بخشش کا ذکر ہوا ہے گناہوں کے ارتکاب و محرمات الہیٰ کے انجام دینے اور واجبات الہٰی کو ترک کرنے کا مجوزہ سرٹفکیٹ تصور کرلیتے ہیں جبکہ خود حضرت امام حسین علیہ السلام نے حرام الہٰی یعنی ظالم و فاسق حکمران کی بیعت کو ترک کرنے اور شرعی واجبات یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احیاء کے لیے قیام فرمایا تھا اور اسی ہدف میں شہید ہوئے تھے۔

 

خود روزِ عاشور نماز ظہر کو ان سخت اور دشوارحالات میں ادا کرنا،دشمن سے آخری رات قرآن مجید کی تلاوت و حق متعال سے راز و نیاز کے لیے مہلت طلب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو قرآن مجید اور نماز سے دلی وابستگی تھی لہٰذا شاید حضرات معصومین علیہم السلام کی عملی سیرت کو شاہد بنا کر اس قسم کی روایات کی اس طرح سے تفسیر کی جاسکتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اسلامی معاشرے میں امید کی ایک کرن ایجاد کرتی ہے مخصوصاً گناہگاروں کے دلوں میں کے انھوں نے جتنے بھی گناہ کیے ہوں انھیں رحمت الہٰی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے آئیں اور امام حسین علیہ السلام پر عزاداری کرکے اپنے گناہوں کی اس وسیلہ کے ذریعہ بخشش طلب کریں اور یہ عزاداری ان کی گذشتہ ناپاک زندگی سے نجات اور آئندہ کی شفاف زندگی کا باعث بنے گی لہٰذا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اُن کے گذشتہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ ضرور ہے لیکن آیندہ گناہ کرنے کا سرٹفکیٹ ہرگز نہیں بلکہ عزاداری حضرت سید الشہداء علیہ السلام تو گناہوں سے روکتی ہے اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتی ہے اور بالفاظ دیگر عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام خود سازی کا آسان ذریعہ ہے۔

_______________

حوالہ جات:

۔۲۶۔مستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابہ،ج۳ص۱۷۶

۔۲۷۔مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۶۵

۔۲۸۔کنزالعمال،ج۶،ص۲۲۳

۔۲۹۔مقتل خوازمی،ج۱ص۱۵۹

۔۳۰۔بحارالانوار،ج۴۴،ص۲۵۲و۲۵۴

۔۳۱۔محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری(تاریخ الرسل والملوک)، ترجمہ ابوالقاسم پابندہ، ۱۳۶۲،ج ۷ص۳۱۰۳۔

واقعہ حرہ جو ۶۲ھ۔ق میں ہوا(البتہ بعض مؤرخین نے اسے ۶۳ھاور بعض نے ۶۴ھلکھا ہے)عبداللہ بن حنظلہ نے اہل مدینہ کی مدد سے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اموریوں کی حکومت کے مدینہ میں نمائندے مروان بن حکم پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد حکومت اپنے ہاتھ لے لی۔

۔۳۲۔ابوالفداء(اسماعیل)ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، بیروت، مکتبہ المعارف، ۱۹۷۷م، ج۹، ص۱۰۷۔

۔۳۳۔سورۂ یوسف آیت نمبر ۸۶ رجوع فرمائیں، امالی، مجلس۲۹، ص۱۴۱۔

۔۳۴۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۵

۔۳۵۔بحار الانوار،ج۴۵،ص۱۹۶

۔۳۶۔علی ابوالحسنی(منذر)سیاھپوشی در سوگ آئمہ نور علیہم السلام،قم،الاقدی،۱۳۵۷،ص۱۲۶۔

۔۳۷۔جعفر شیدلی،تاریخ تحیلیل اسلام تا پایان امویان،تہران،مرکز نشردانشگاہی،۱۳۸۰،ص۱۹۰۔

۔۳۸۔ازدی کوفی،نصوص من تاریخ ابی مخنف،ج۱ص۵۰۳کے بعد

۔۳۹۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۳۹

۔۴۰۔شیخ صدوق،امالی،مجلس۲۷

۔۴۱۔سید شرف الدین، فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی ؑ، ترجمہ علی صحت، تہران، مرتضوی، ۳۵۱ص۶۸۔

۔۴۲۔دسویں،گیارہویں،بارہویں ذی الحجہ کو حاجی حضرات اعتکاف کی حالت میں منی میں بیتوتہ کرتے ہیں ان ایام کو ‘‘ایام تشریق’’ کہتے ہیں۔

۔۴۳۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۲

۔۴۴۔فخر الدین طریحی،المنتخب الطریحی،قم،منشورات الرضی،۱۳۶۲ش،ج۲،ص۴۸۲۔

۔۴۵۔سورۂ بقرہ،آیت نمبر۱۵۵

۔۴۶۔بحار الانوارج۴۴ص۲۸۴

۔۴۷۔منتہی الاعمال،شیخ عباس قمی

۔۴۸۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۲

۔۴۹۔امالی،مجلس ۲۷،ص۱۲۹و۱۳۰

۔۵۰۔زیارت ناحیہ

۔۵۱۔شیرازی،سید محمد صادق،قطرہ ای از اقیانوس بلا،ص۱۸،انتشارات یاس زہرا،قم،۱۳۸۴ش

۔۵۲۔بحار الانوار،ج۱۰۱،ص۳۲۰

۔۵۳۔ایضاً،ج۴۴،ص۲۹۳

۔۵۴۔سید ابن طاووس،لہوف،ص۱۱

۔۵۵۔بحار الانوار،ج۴۴ص۳۰۲

۔۵۶۔عباس موسوی مطلق،توجہات امام زمان

۵۷۔حضرت امام صادق علیہ السلام نے عبداللہ بن سنان(جو آپ کے اصحاب میں سے تھے)کے جواب میں جب اس نے آپ اور آپ کے اصحاب کے غمگین ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:کیا تم نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا۔رجوع فرمائیں،علی ربانی خلخلالی،عزاداری از دیدگاہ مرجعیت شیعہ،قم،مکتب الحسینی،۱۴۰۰ق،ص۳۰۔

۵۸۔مثال کے طور پر زیارت امین اللہ کی دعا جو حضرت امام سجاد علیہ السلام سے منسوب ہے اور زیارت عاشورہ جو حضرت امام باقر علیہ السلام سے منسوب ہے۔

۔۵۹۔امالی،مجلس۲۷،ص۱۲۸

۔۶۰۔شیخ صدوق،عیون اخبار رضا،ترجمہ محمد تقی اصفہانی،علمیہ اسلامی،ج۱ص۳۷۴

۔۶۱۔سورۂ شوری،آیت نمبر ۲۳

۔۶۲۔مکفوف نابینا کے معنی میں ہے اور ابو ہارون کے نابینا ہونے کی وجہ سے اسے مکفوف کہتے تھے۔

۔۶۳۔شیخ عباس قمی،منتہی الآمال،ص۷۰۷

۔۶۴۔سید شرف الدین،فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی،ص169۔

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے