عدل مذہب شیعہ کے اصول دین میں سے ایک اصل ہے۔ مذہب شیعہ میں اس اصل کی اہمیت کے پیش نظر اسےاصول مذہب میں سے قرار دیا گیا ہے۔ علم کلام کے گروہوں میں سے امامیہ و معتزلہ اس اصل کو قبول کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ اسلام کے تمام مذاہب کسی شخص کے مسلمان ہونے کیلئے اصول دین میں سے توحید، نبوت اور قیامت پر اعتقاد کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ شیعہ مذہب میں ان اصولوں کے ساتھ ساتھ خدا کی عدالت اور امامت کا اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ لہذا شیعہ ہونے کیلئے ان پانچ اصول دین پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔

لغوی معنی

• راغب اصفہانی کے نزدیک عدل مساوات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عدل یعنی برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا۔[1]

• فیومی کے نزدیک عدل لفظ جَوْر کا مخالف ہے۔ (جور ظلم ہے اور ظلم کسی چیز کو اس کے اپنے مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھنا ہے[2]) اور امور کے قصد کرنے میں استعمال ہوتا ہے ۔عدل بمعنی فدیہ جیسے سورہ انعام 70 اِن تَعدِل کلَّ عدل اگر وہ فدیہ(معاوضہ بدلہ) دینا چاہے….۔عدل بمعنی تعادل و تساوی۔عَدل عن کے ساتھ استعمال ہو تو انحراف ،انصراف کا معنی دیتا ہے ۔عِدل کسی چیز کا وزن اور مقدار میں مِثل اور عَدل غیر جنس سے کسی چیز کا مِثل جیسے قول خدا أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ اَوْ عَدْلُ ذلک قیاما…وہ (ساٹھ) مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا وہ اس کے برابر روزے رکھیں۔[3]

• مقاییس اللغہ میں آیا ہے کہ یہ دو متضاد اصلوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پہلی اصل میں استواء اور دوسری اصل میں ٹیڑھے ہونے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔

تحقیقی اعتبار سے عدل کا مادہ ایک ہی اصل میں استعمال ہوتا ہے جس کا معنی افراط و تفریط کا وسط اور درمیان ہے اس طرح سے کہ جس میں نہ تو کمی ہو اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی زیادتی ہو۔ اسی اصل کی مناسبت سے اقتصاد، مساوات، قسط اور استقامت کیلئے کسی ایک اضافی قید اور شرط کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جب اسی لفظ کو عن کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تو یہ اعراض اور انصراف کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اس معنی میں استعمال کی وجہ لفظ عدل کا عن کے ساتھ ہونا ہے کیونکہ کلمہ عن انصراف کے معنی کو بیان کرتا ہے۔[4]

اصطلاحی معنی

اصطلاحی اعتبار سے علم فقہ اور علم کلام میں عدل کا لفظ دو مختلف معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

علم کلام

علم کلام میں عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالی عادل ہے ظالم نہیں ہے۔ وہ فعل قبیح کو انجام نہیں دیتا مثلا ظلم کرنا اور واجب کو ترک نہیں کرتا ہے جیسے ارسال انبیاء[5] یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ظالم نہیں وہ عادل ہے۔ وہ اپنا فیصلہ کرنے اور حکم لگانے میں ظلم سے کام نہیں لیتا ہے۔ اطاعت گزاروں کو جزا اور گناہگاروں کو سزا دیتا ہے۔ انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا ہے اور ان کے استحقاق سے زیادہ ان کا مؤاخذاہ نہیں کرتا ہے۔[6]

علم فقہ

شیخ مفید نے کہا ہے: دین اور محارم الہی سے بچنے والا شخص عادل ہے۔[7] شیخ طوسی نے شرعی اعتبار سے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا: عادل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دین، احکام اور مروت میں عادل ہو۔ دین میں عادل ہونا یعنی کسی شخص میں اسباب فسق نہ پائے جاتے ہوں؛ مروت میں عادل ہونا یعنی ایسے امور سے اجتناب کرنا کہ جس کی وجہ سے اس کی مروت میں کمی آتی ہو جیسے راستے میں کھڑے ہو کر کھانا …. احکام میں عادل ہونا یعنی کسی شخص کا بالغ اور عاقل ہونا۔ جب کسی شخص میں تینوں صفات پائیں جائیں گی تو ایسے شخص کی گواہی قبول کی جائے گی۔[8]

اہمیت بحث عدل

نبوت اور قیامت اصول دین میں سے دو ایسی اصلیں ہیں جنہیں اس وقت تک ثابت نہیں کیا جا سکتا جب تک انسان خدا کے متعلق اس کے عادل ہونے کا یقین نہ رکھتا ہو۔ جب کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہوگی تو اس کے لوازمات جیسے کسی بھی نبی کی صداقت، کوئی بھی شریعت، کسی بھی آسمانی کتاب کا نزول اور اسی طرح قیامت اور اس کے لوازمات جیسے مسلمانوں کے ان کے اچھے عمل کی جزا اور مشرکین، کفار اور فاسقین وغیرہ کو ان کے برے اعمال کی سزا وغیرہ بھی ثابت نہیں ہوں گے چونکہ نبوت اور قیامت جیسے اہم اصول دین کا اثبات خداکی عدالت کے عقیدے پر موقوف ہے اسلئے مذہب تشیع میں عدالت خدا کی اصل کو اصول دین میں شمار کیا گیا ہے۔کیونکہ کسی بھی نبی کی نبوت ان دو مقدموں پر موقوف ہے:

• نبی جب اللہ کی جانب سے مبعوث ہونے کا دعوی کرتا ہے تو وہ ادعا کی تصدیق کی غرض سے معجزہ دکھاتا ہے۔

• ہر وہ شخص جس کی خدا تصدیق کر دے تو وہ اپنے دعوی میں سچا ہے۔

یہ دونوں ایسے مقدمے ہیں کہ جن کے اشاعرہ قائل نہیں ہیں:

پہلا مقدمہ کیونکہ اشاعرہ کے نزدیک اللہ کا اپنے افعال کو کسی غرض و مصلحت کے ساتھ انجام دینا ضروری نہیں ہے بلکہ ہو سکتا کہ خدا اپنے افعال کو کسی غرض، مصلحت اور حکمت کے بغیر انجام دے۔ لہذا اس بنا پر جائز نہیں کہ کہا جائے کہ خدا رسالت و نبوت کے دعویدار کے ہاتھ پر اس کی تصدیق کیلئے معجزہ ظاہر کرے۔

دوسرا مقدمہ کوینکہ وہ تمام برے افعال کو اللہ کی طرف نسبت دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں :جو شخص بھی سچی یا جھوٹی نبوت کا ادعا کرے اس کا یہ ادعا اللہ کا فعل ہے بلکہ شرک کی تمام اقسام معصیتیں اور دنیا میں موجود ضلالتیں اللہ کی جانب سے ہیں۔ ان باتوں کے اعتقاد کی موجودگی میں کس طرح پہچانا جا سکتا ہے کہ فلان شخص (نبوت کا مدعی)اپنے اس ادعا میں سچا ہے عین ممکن ہے کہ وہ شخص اپنے اس (دعوائے نبوت) میں جھوٹا ہو اور یہ گمراہی دوسری گمراہیوں کی مانند اللہ کی جانب سے ہو۔

پس اس صورت میں نبی یا رسول کے اثبات کیلئے دلیل قائم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم تصدیقِ غرض کی نیت سے انجام دئے گئے فعلِ خدا میں شک کرتے ہیں تو اس شک کی موجودگی میں نبوت کے دعویدار کی صداقت پر استدلال کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ تو ہمیں کس طرح اس بات کا یقین حاصل ہو جائے گا کہ نبی اپنے دعوائے نبوت میں سچا ہے۔ علامہ حلی اس اصل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

عدل ایک ایسی عظیم اصل ہے جس پر اسلامی قواعد کی بنیاد رکھی گئی ہے بلکہ تمام احکام کی بنیاد یہی ہے۔ اس کے بغیر ادیان مکمل نہیں ہوتے ہیں اور نہ انبیا میں سے کسی نبی کی سچائی کو جانا سکتا ہے۔ اس اصل پر اعقتاد کے بغیر سابقہ اور لاحقہ شریعتوں پر عمل کیا جانا ممکن ہے، نہ ہی اس کے بغیر کسی نبی یا ملک مقرب کی نجات کا یقین ہو سکتا ہے یا خدا کے اولیا اور اس کے مخلصین کے افعال کی پیروی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح عدل پر اعتقاد کے بغیر مشرکین، کفار، فاسقین اور گناہگاروں میں سے کسی ایک کو عذاب دیئے جانے یقین کا حاصل ہو سکتا ہے۔ جب کوئی شخص خدا کے عادل ہونے کا ایمان نہیں رکھے گا اور وہ اپنی خواہشاتِ نفسانی پیروی کے نتیجے میں ایسے برے اور باطل عقائد کا معتقد ہو گا تو ایک عاقل شخص ایسے قبیح عقائد فاسدہ اور باطلہ کے ساتھ کس طرح خدا کا سامنا کرے گا؟[9]

شیعہ نکتہ نظر

شیعہ مکتب فکر عدل کے قائلین میں سے ہے۔ علمائے شیعہ کے نزدیک عدل اللہ کی صفات کمالیہ میں سے ہے اور اس کا معنی یہ ہے: خدا اپنے فیصلوں اور احکام میں ظلم نہیں کرتا، نیک لوگوں کو جزا اور گناہگاروں کو عقاب دیتا ہے۔ نیز اپنے بندوں پر ان کی استطاعت اور توان و قدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا ہے اور ان کے استحقاق سے زیادہ انہیں سزا نہیں دیتا ہے۔ کسی مزاحم کے نہ ہوتے ہوئے اچھے فعل کو ترک کرنے کی قدرت کے باوجود، ترک نہیں کرتا اور برے فعل کو انجام دینے کی قدرت کے باوجود اسے انجام نہیں دیتا ہے۔[10] شیعہ نکتہ نظر کے مطابق عقلی دلائل نیز قرآن و حدیث بھی عدل کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

عقل

خدا کا اپنے فیصلوں اور احکام میں ظلم کرنا، اطاعت گذاروں کو سزا اور معصیت کاروں کو جزا دینا، توان و قدرت سے زیادہ ذمہ داری ڈالنا وغیرہ ظلم اور قبیح امر ہیں اور خدا قادر ہونے کے باوجود ظلم اور قبیح کو انجام نہیں دیتا ہے۔ خدا کی ذات اس سے منزہ ہے۔ کیونکہ خدا اگر ظلم یا قبیح کو انجام دے تو یہ امر درج ذیل چار صورتوں سے خالی نہیں ہے:

• وہ اس سے جاہل ہے یعنی وہ نہیں جانتا کہ یہ چیز بری ہے۔

• وہ اس کی برائی سے آگاہ ہے لیکن اسے انجام دینے پرمجبور ہے اور اسکے ترک کرنے سے عاجز ہے۔

• وہ اس کی برائی سے آگاہ ہے اور مجبور نہیں ہے لیکن اس کے انجام دینے میں محتاج ہے۔

• وہ اس کی برائی سے آگاہ ہے اور مجبور بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسے انجام دینے کی احتیاج رکھتا ہے اسکے باوجود اگر وہ اسے انجام دیتا ہے تو گویا اس نے عبث اور لغو کام کو انجام دیا ہے۔

یہ چاروں صورتیں خدا کی نسبت محال ہیں اور اس سے (اگر وہ برے فعل کو انجام دے تو) لازم آتا ہے کہ اس کی ذات میں نقص پایا جاتا ہے جبکہ ذات باری تعالی ہر قسم کے عیب سے پاک اور منزہ ہے اور محض کمال ہے۔ پس اس لئے ضروری ہے کہ ہم کہیں کہ خدا ظلم اور فعل قبیح کے انجام دینے سے منزہ ہے۔[11]

قرآن

• ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس وہ کتاب (نامۂ اعمال) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔[12]

• … اور ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔[13]

• … آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ۔۔۔ [14]

حدیث

• امام جعفر صادق ؑ: توحید اور عدل دین کی اساس ہیں۔[15]

• امام علی ؑ: توحید اور عدل کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: توحید خدا کے متعلق توہم نہ کرنا اور اللہ پر تہمت نہ لگانا عدل ہے۔[16]

مختلف مکاتب فکر

عدل کی بحث افعال کے حُسن اور قُبح کی جانب لوٹتی ہے۔ علم کلام میں معتزلہ اور امامیہ کو عدلیہ کہا جاتا ہے۔ یہ افعال کی نسبت حسن اور قبح کے ذاتی ہونے کے قائل ہیں جبکہ ان کے مخالف اشاعرہ کا گروہ ہے جنہیں حسن اور قبح کے منکرین اور غیر عدلیہ میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ عدلیہ کہتے ہیں: کسی لحاظ کے بغیر کچھ افعال عقلی اور ذاتی طور پر حُسن یا قُبح رکھتے ہیں۔[17] جیسے عدل و انصاف کرنے کے متعلق انسانی عقل اسکے اچھے اور حُسن ہونے کا حکم لگاتی ہے اور اسی طرح اس کے مقابلے میں کسی پر ظلم کرنے کے متعلق انسانی عقل اس کے قبیح اور برے ہونے کا حکم لگاتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقل کسی چیز کے حسن یا قبح کا حکم لگانے سے قاصر ہے۔ شرعی احکام کے آنے کے بعد اشیا میں حسن اور قبح پیدا ہوتا ہے۔ شریعت کے آنے سے پہلے تمام افعال حسن اور قبح سے خالی ہوتے ہیں۔[18] لیکن اس بات کیلئے وہ بھی تیار نہیں ہیں کہ انہیں منکرین عدل میں شمار کیا جائے۔[19]

معتزلہ

عدل کے متعلق معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کچھ افعال کو اپنی ذات کے لحاظ سے انجام دینا عدل ہے اور کچھ کو انجام دینا ظلم ہے مثلا اطاعت گزار کو جزا دینا اور گناہگار کو سزا دینا عدل ہے۔ خدا عادل ہے۔ یعنی اللہ مطیع کو جزا اور عاصی کو سزا دے گا۔ محال ہے کہ وہ اس کے برخلاف عمل کرے۔ مطیع کو سزا دینا اور عاصی کو جزا دینا ذاتی لحاظ سے ظلم ہے اور محال ہے کہ خدا ایسا کام انجام دے جس طرح بندے کو گناہ پر مجبور کرنا یا انسان کو قدرت کے بغیر خلق کرنا اور پھر اسکے ہاتھ پر معصیت کا جاری ہونا اور پھر اسے سزا دینا ظلم ہے (اسی طرح مطیع کو سزا دینا اور عاصی کو جزا دینا محال ہے) اور ہر گز خدا ظلم نہیں کرتا ہے۔ ظلم خدا کی نسبت قبیح ہے۔[20]

اسی وجہ سے معتزلہ توحید افعالی کے منکر ہیں۔ کہتے ہیں:

توحید افعالی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خالق یعنی موجد نہیں ہوگا بلکہ خدا اسکے افعال کا خالق ہو گا، نیز ہم جانتے ہیں کہ آخرت میں انسان کو اسکے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی۔ پس اگر خدا افعال کا خالق ہو تو وہ اسی حال میں انسانوں کو سزا وجزا دے گا جو انہوں نے نہیں کئے ہونگے بلکہ خدا نے کئے ہونگے اور یہ ظلم ہے اور عدل الہی کے خلاف ہے۔ معتزلہ توحید افعالی کو عدل کے مخالف سمجھتے ہیں۔ اس لحاظ سے معتزلہ انسان کے بارے میں آزادی اور اختیار کے قائل ہیں اور اس نظریے کا سختی سے دفاع کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ انسان کی آزادی اور اختیار کے مخالف اور منکر ہیں۔[21]

معتزلہ بحثِ عدل کے نتیجے میں ایک اس سے زیادہ وسیع تر مفہوم رکھنے والی بحث کی طرف منتقل ہوئے ہیں جسے افعال کا ذاتی حسن اور قبح کہا جاتا ہے۔ وہ انسانی عقل کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا کے بیان سے قطع نظر انسانی عقل مستقل طور پر بعض چیزوں کے حسن اور قبح کو درک کرتی ہے۔ جبکہ اشاعرہ اس کے بھی مخالف ہیں۔[22]

اشاعرہ

اشاعرہ اس کے مقابل اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ کوئی چیز ذاتی لحاظ سے عدل اور ظلم میں سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جسے خدا انجام دیتا ہے وہ عین عدل ہے۔ خدا کا اطاعت گزاروں کو جزا اور معصیت کاروں کو سزا دینا عین عدل ہے۔ اسی طرح اگر اپنے بندوں کو قدرت اور توان کے بغیر خلق کرے پھر ان کے ہاتھوں پر گناہ کو جاری کرے اور پھر انسانوں کو وہ خدا عقاب و سزا دے تو یہ ظلم نہیں ہے۔ اگر اس طرح فرض کر لیں کہ خدا ایسا کرے گا تو یہ بھی عین عدل ہی ہے۔

اس لحاظ سے اشعری نگاہ میں مشیت الہی کسی بھی ممکن چیز کے متعلق ہو سکتی ہے یہاں تک کہ جائز ہے کہ خدا قیامت کے روز بچوں کو عذاب دے اور اگر خدا ایسا کرے گا تو یہ عین عدل ہو گا چونکہ خدا کسی کے فرمان کے تحت نہیں ہے اسلئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلان چیز کا اس سے انجام پانا قبیح ہے۔ ہماری نسبت اعمال کا قبیح ہونا اسلئے ہے چونکہ خدا ہر چیز کا مالک ہے جب خدا کسی چیز سے منع کرتا ہے تو وہ قبیح ہو جاتی ہے۔[23]

مسئلہ شرور

شرور شر کی جمع ہے۔ شر عدمی چیز ہے یا وجودی چیز ہے، شر اور خیر کے درمیان جدائی امکان پذیر ہے یا نہیں، موجودہ جہان میں ان میں سے کون دوسرے کی نسبت زیادہ ہے وغیرہ۔ ان ابحاث کو اس عنوان کے تحت ذکر کیا جاتا ہے۔ عدل الہی سے متعلق اہم ترین ابحاث میں سے ایک مسئلۂ شرور ہے مختلف مسلم مکاتب فکر نے اس کے مختلف جوابات دئے ہیں۔ ان میں سے چند کے جوابات درج ذیل ہیں [24]:

• اہل ایمان عوام اور اہل حدیث: جسے ہم شرور کے نام سے تعبیر کرتے ہیں حقیقت میں یہ ایک قسم کی حکمت اور مصلحت ہے جس سے ہم آشنا نہیں ہیں صرف خدا وند متعال اس راز سے آگاہ ہے دوسرے الفاظ میں “رازِ قدر” ہے۔

• اشاعرہ: ہر وہ چیز جسے خدا انجام دیتا ہے وہ خیر ہے۔

• دیگر متکلمین اور الہیات میں محسوسات اور تجربیات کے طرفدار: کائنات کے اسرار، فوائد اور ان کی مصلحتوں کے متعلق جستجو کرنا۔

• فلاسفہ: شرور عدمی امور میں سے ہیں۔ مجعول بالذات نہیں بلکہ مجعول بالعرض ہیں۔ شرور ضروری ہیں اور خیرات سے جدا نہیں ہیں نیز شرور شر محض نہیں بلکہ ان کے آثار اور فوائد بھی ہیں۔
__________________________

حوالہ جات

  1. اصفہانی، المفردات فی القرآن ج1 صص 551،552
  2. فیومی،المصباح المنیر ص200
  3. فیومی،المصباح المنیر ص206
  4. ملخص :مصطفوی، التحقيق في كلمات القرآن الكريم، ج‏8، صص53 تا 56۔
  5. احمد فتح اللہ، معجم الفاظ الفقہ الجعفری ص286
  6. شیخ مظفر، عقائد الامامیہ، ص40۔
  7. اعداد مرکز المعجم الفقہی، المصطلحات،1708
  8. شیخ طوسی، المبسوط، ج 8 ص217۔
  9. علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق ص72۔
  10. الشیخ مظفر،عقائد الامامیہ ص
  11. شیخ مظفر،عقائد الامامیہ ص4
  12. سورہ مؤمنون 62
  13. سورہ روم 9
  14. سورہ فصلت46
  15. شیخ صدوق، التوحید، باب معنی توحید و عدل، حدیث اول
  16. نہج البلاغہ قسم الحکم:470
  17. علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق ص 72۔
  18. ایجی، المواقف، ج 3 ص 270
  19. مطہری، مجموعہ آثار ج 3 73
  20. مطہر، مجموعہ آثار ج3 صص 73و 74
  21. مطہری، مموعہ آثار ،ج 3 ص 74۔
  22. مطہری،مموعہ آثار ،ج 3 ص 74۔
  23. جہانگیری، مجموعہ مقالات ص167۔
  24. مطہری، مجموعہ آثار، ج 1، صص 112-114.
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے