دو برس قبل، سات اکتوبر 2023 کی صبح دنیا نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی اور عسکری حقیقتوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ ’’آپریشن طوفان الاقصی‘‘ کے نام سے معروف یہ کارروائی فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے غزہ سے شروع کی گئی، جس نے اسرائیل کے سکیورٹی نظام کو ہلا کر رکھ دیا اور صہیونی ریاست کے وجودی بحران کو بے نقاب کر دیا۔
شہید سید حسن نصراللہ نے اپنے تاریخی خطاب میں اس کارروائی کو ایک ’’شجاعانہ، خلاقانہ اور غیرمعمولی‘‘ اقدام قرار دیا تھا۔ ان کے بقول، ’’یہ واقعہ ایک ایسے زلزلے کے مترادف تھا جس نے اسرائیلی نظامِ سیاست، فوج اور نفسیات کی بنیادیں ہلا دیں۔‘‘ نصراللہ نے کہا تھا کہ دشمن چاہے جتنی بھی کوشش کرے، طوفان الاقصی کے اسٹریٹجک اثرات کو کبھی مٹا نہیں سکتا۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر محمد صادق خرسند کے مطابق، غزہ میں انسانی المیہ اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت ہے، مگر اس سانحے کے پسِ پردہ اسرائیلی حکومت کے طاقتور تصور پر جو کاری ضرب لگی، اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’’یہ ضربہ اس قدر عمیق اور ہمہ جہت تھا کہ اسرائیل کی سکیورٹی، انٹیلیجنس اور عسکری برتری کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں۔‘‘
ڈاکٹر خرسند کے مطابق، اسرائیل جو خود کو دنیا کا سب سے مضبوط حفاظتی نظام رکھنے والی ریاست کے طور پر پیش کرتا تھا، سات اکتوبر کے حملے سے مکمل طور پر بے نقاب ہوگیا۔ ’’حماس کے مجاہدین نے زمین، سمندر اور ہوا تینوں راستوں سے نفوذ کرکے اسرائیل کے دفاعی حصاروں کو توڑ ڈالا۔ یہ صرف ایک فوجی شکست نہیں بلکہ موساد اور شاباک کے لیے تاریخی ذلت تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد حزب اللہ لبنان اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے بھی اسرائیل پر دباؤ بڑھایا، جس کے نتیجے میں تل ابیب حکومت کو شمالی سرحد کے کئی علاقے خالی کرنے پڑے ،شکست ہاتھ لگی اور وہ ایک طویل فرسایشی جنگ میں الجھ گئی۔
خرسند کے مطابق، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دو بڑے اہداف — حماس کی مکمل تباہی اور تمام قیدیوں کی رہائی — آج بھی محض خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ ’’غزہ کی تباہی کے باوجود حماس اپنی تنظیمی صلاحیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور شہری جنگ کے حربوں سے دشمن کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔‘‘
معروف صحافی و تجزیہ کار علی مدرسی کے مطابق، ’’طوفان الاقصی‘‘ دراصل ایک ردِعمل نہیں بلکہ ایک تاریخی ضرورت تھی۔ ’’پندرہ سالہ ناکہ بندی، معاشی بدحالی اور بین الاقوامی خاموشی نے غزہ کو ایک بڑی جیل بنا دیا تھا۔ امریکہ کی پشت پناہی سے چلنے والا ’پیمانِ ابراہیم‘ فلسطین کے مسئلے کو عرب ایجنڈے سے خارج کر رہا تھا۔ ایسے میں طوفان الاقصی نے نہ صرف اس ساز باز کو توڑا بلکہ فلسطین کے مسئلے کو دوبارہ دنیا کے مرکزِ توجہ پر لا کھڑا کیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں عالمی سطح پر عوامی بیداری کی نئی لہر اٹھی۔ ’’یورپ اور امریکہ کے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد نے فلسطینیوں کے حق میں جلوس نکالے۔ کاروانِ صمود جیسی عوامی تحریکوں نے ثابت کر دیا کہ فلسطین اب خاموش نہیں رہے گا۔‘‘
اقتصادی ماہرین کے مطابق، جنگ غزہ کے مالی اثرات بھی اسرائیل کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ دفاعی اخراجات کے نتیجے میں درجنوں ارب ڈالر کا خسارہ، تین لاکھ سے زائد ریزرو فوجیوں کی بھرتی، اور غیرملکی سرمایہ کاری کے انخلا نے اسرائیلی معیشت کو بحران میں ڈال دیا ہے۔
دو سال بعد، ’’طوفان الاقصی‘‘ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ ایک نئی حقیقت بن چکا ہے ، ایک ایسا موڑ جس نے فلسطینی عزم، اسرائیلی کمزوری، اور عالمی ضمیر کی بیداری کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بنا دیا۔