آج اس سے پہلے کہ مدینہ چادر شب اوڑھتا، اس کا وجود اندھیروں میں چھپ گیا، اس لیے کہ آج وہ چراغ بجھ گیا جس سے مدینہ کی فضا منور تھی۔
چراغ بجھنے سے پہلے
ایک آہ بلند ہوئی
اور زمین ہچکولے لینے لگی
چشم فلک نے دیکھا
وہ گھر
جہاں کبھی جبریل سلام کہنے آتے تھے،
آج وہاں رندھے ہوئے گلے کی آہوں کی مدھم و لرزاں آواز سنائی دے رہی ہے
فاطمہؑ کی سانسیں،
اس طرح جیسے کوئی چراغ
آخری بار جلنے کی کوشش کر رہا ہو۔
در و دیوار خاموش تھے،
حسنؑ کے آنسو پلکوں پر آتے اور پھر ہتھیلیوں میں سمٹ جاتے
حسینؑ کی نگاہوں میں
معصومانہ سوال !
“بابا اماں رخصت ہو گئیں تو حسین علیہ السّلام کیسے جئیے گا ؟”
اور علیؑ…
دروازے کے پاس بیٹھے،
سر گھٹنوں میں لیے،
ایک بے نام سا طوفان اپنے اندر سمیٹے ہوئے—
کسے پکاریں؟
کون سمجھے؟
وہ جن کے لیے نبیؐ نے کہا تھا
“علی حق کے ساتھ ہیں”—
آج اسی علی ع کے در سے فاطمہ ع رخصت ہوا چاہتی ہیں
فاطمہؑ نے کمزور ہاتھ اٹھایا،
اور علیؑ کے چہرےکی طرف دیکھا
“اے ابو الحسن!
اب میں جا رہی ہوں…
لیکن تم تنہا نہیں ہو
میری آواز تمہارے ساتھ رہے گی، جب تم مسجد میں جا وگے منبر رسول کے قریب بیٹھو گے، جب تم تنہا راتوں میں بچوں کو سینے سے لگاؤ گے، جب تم یاد کرو گے وہ در…
جو جلایا گیا تھا…”
میری آواز آئے گی "صبت علی مصائب ۔۔۔
علیؑ نے کچھ کہنا چاہا،
مگر الفاظ ساتھ نہ دے سکے
صرف ایک آنسو گرا
اور زمین نے گواہی دی،
کہ یہ آنسو،
شرافت بشریت کا سب سے مقدس قطرہ ہے۔
پھر خاموشی چھا گئی—
ایسی خاموشی کہ فرشتوں کے پر بھی ساکت ہو گئے۔
ایک صدا فضا میں بکھر گئی
“یا علی، ادرکنی…”
اور بس…
کائنات کی تسبیح بکھر گئی
علیؑ اٹھے
لرزاں قدم
کپکپاتے ہوئے ہاتھ
کچھ تلاش کیا
گھر کے صحن میں ایک کونا چنا،
سرکو اپنے گھٹنوں میں دیا
اور بلک بلک کر رو دئیے
زینب و ام کلثوم نزدیک آ گئیں تو علی ع سے رہا نہ گیا
آنسووں کو پوچھا
بچوں کو صبر کی تلقین کی
رات کے پردے میں دفن کر دیا
نبیؐ کی امانت کو،
کسی کو خبر نہ ہونے دی،
کہ زہراؑ کہاں سوئی ہیں۔
اور جب مٹی ڈال کر پلٹے،
تو مدینہ خاموش تھا—
کسی نے سلام نہ کیا،
کسی نے تعزیت نہ کہی۔
بس ہوا میں ایک صدا گونجی:
"السلام علیکِ یا بنت رسول اللہ…”
علیؑ کے آنسووں کو زبان مل گئی
“اے فاطمہؑ!
اب جب بھی کوئی دنیا میں کوئی دروازہ جلے گا
سب سے پہلے تمہارا جلا ہوا دروازہ سامنے آئے گا
جب بھی کسی کا حق مارا جائے گا
تمہارا چھینا ہوا حق دنیا ئے عدل و انصاف کے سامنے ہوگا
کوئی بولے نہ بولے ہر زندہ ضمیر پکارے گا ” فاطمہ ع” آپ رخصت ہو گئی مگر میں اب بھی وہیں کھڑا ہوں جہاں وہ دروازہ جلا تھا جس سے چھننے والی روشنی نے دنیا کو اقدار کے ساتھ جینا سکھایا۔
آنسووں نے کچھ دیر علی ع سے گفتگو کی پھر خاموشی نے علیؑ کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
برسوں بیت گئے، لیکن دختر رسول ع کا غم علی ع کی تنہائی کی طرح اب تازہ و گہرا ہے اور زمین نے چودہ سو کروٹیں بدل لیں ۔
لیکن آج بھی جب راتیں طویل ہو جاتی ہیں تو پھر کسی وادی میں، کسی محراب کے سائے میں ایک مردِ تنہا روتا ہے۔
اس کے لبوں پر نامِ زہراؑ ہے اور آنکھوں میں دنیا کی سب سے بڑی تنہائی۔
تاریخ حیران ہے شکستہ پہلو فاطمہ ع کا غم بڑا ہے یا اس علی کا ع جو صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی "تنہا” ہے۔
تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی








