تحریر: سیدہ فاطمہ شیرازی

جب عقل اور دین کی بات کی جائے تو عموماً عقل کو دین کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ایک طرف ایسے مکاتب فکر ہیں جو انسانی عقل کو کامل سمجھتے ہیں اور دین و ایمان کی نفی کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ مکاتب فکر عقل کو اچھے برے کی تمیز سے قاصر جانتے ہیں اور دین میں عقل کو استعمال کرنے سے پرہیز کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی عقل دینی تعلیمات سے بالاتر ہے یا دین تعقل کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ دیگر مکاتب فکر اور تخریب شدہ ادیان الہٰی سے صرف نظر، اگر دین ناب محمدی کی طرف نظر کی جائے تو دین اسلام عقل اور دین دونوں کو خدا کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت شمار کرتا ہے اور ان دونوں کی مدد سے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

قرآن میں تعقل و تفکر
قرآن کتاب ہدایت ہے، جس میں خدا وند متعال ہر مقام پر بنی نوع انسان کو تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے۔ کہیں انبیاء اور اولیاء الہٰی کے پیش کیے گئے عقلی دلائل کو نقل کرتا ہے، تو کہیں عقل سے کام نہ لینے والے لوگوں کو بدترین جانوروں سے تشبیہ دیتا نظر آتا ہے، "إِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِندَ اللّٰهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ” (سورہ انفال آیت:55)۔ اسی طرح جب خداوند متعال سورہ انبیاء کی آیت 22 میں، "لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا "اپنے وحدہ لا شریک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو ساتھ ہی عقلی دلیل پیش کرتا ہے تاکہ انسان اپنی عقل کی مدد سے خدا کی وحدانیت کا قائل ہو جائے۔ قرآن نے ایمان کی بنیاد ہی عقل کو قرار دیا۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان اپنے عقل و فہم کے ذریعے خدا کو پہچاننے کی کوشش کرے یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بار بار دوسروں کی اندھی تقلید سے منع فرمایا گیا۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں کچھ ایسے مکاتب فکر نے جنم لیا جن کی نظر میں عقل کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور امامت

یوں تو تمام ائمہ اطہار علیہم السلام کی زندگی دین اسلام کی ترویج اور درست تفہیم کے لیے وقف تھی اور سب نے اپنے اپنے زمانے اور حالات کے مطابق دین محمدی کی حفاظت کا عظیم فریضہ سرانجام دیا مگر امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کو اسلام کا سنہری دور شمار کیا جاتا ہے۔ آپ ؑ کی عمر مبارک اور امامت کی مدت باقی تمام ائمہ علیہم السلام سے طولانی تھی، بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان قدرت کی جنگ کے باعث سیاسی حوالے سے بھی حالات سازگار تھے یہی وجہ تھی کہ آپؑ کے زمانے میں تبلیغ کے بیشتر مواقع مہیا تھے۔ آپؑ نے فقہ اسلامی کو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ، قرآن و حدیث کی حفاظت اور ترویج میں اپنا کردار ادا کیا۔ قرآن کریم کی قرات میں اختلاف اور اسی طرح قرآن و حدیث کی تفسیر اور بعض فقہی مسائل میں اختلاف کے نتیجے میں بہت سے باطل عقائد وجود میں آئے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے بانی فقہ اسلامی امام جعفر صادق علیہ السلام نے نہ صرف علمی دروس کا سلسلہ شروع کیا بلکہ قرات، تفسیر، فقہ، کلام اور دیگر علوم میں ایسے شاگرد تیار کیے تاریخ میں جن کی مثال نہیں ملتی۔

عقل کی اہمیت
امام جعفر صادق علیہ السلام کے مطابق خدا نے عقل سے افضل مخلوق خلق نہیں کی،"إن اللّٰه ما خلق خلقاً افضل من العقل”(عاملي، 1428ق، ج1، ص 406)۔ آپ ؑنے خدائے حکیم و دانا کی افضل ترین مخلوق عقل کو قرار دیا۔قرآن مجید میں خدا نے بارہا انسان کو تفکر کی دعوت دی تاکہ وہ خدا کے اس عطا کردہ عظیم الشان نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو جائے۔ یہی عقل ہے جو انسان کو فرشتوں سے بالاتر درجات پر فائز کرتی ہے اور اس عقل سے فائدہ نہ اٹھانے کے نتیجے میں انسان چوپایوں سے بھی بدتر قرار پاتا ہے۔عبداللہ بن سنان امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی:ملائکہ افضل ہیں یا انسان؟ آپؑ نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: بے شک! خداوند متعال نے فرشتوں کو عقل عطا کی شہوت سے دور رکھا، جبکہ حیوانات کو شہوت عطا کی اور عقل سے دور رکھا، جبکہ انسان کے وجود میں عقل اور شہوت دونوں کو قرار دیا، بس جس انسان کی عقل اس کی شہوت پر غلبہ پا لے وہ ملائکہ سے برتر ہے اور جس کی شہوت اس کی عقل پر غلبہ پا جائے وہ حیوانات سے بھی پست تر ہے۔ (بحارالانوار، جلد60، باب 39 روايت 5، صفحه 299)

عقل اور شناخت خدا
کچھ دانشور عقل اور ایمان کے باہمی رابطے کے قائل نہیں بلکہ ایمان کو عقل سے برتر جانتے ہیں۔ یعنی ایمان مقدم ہے، پہلے انسان خدا پر ایمان لائے اور پھر خدا کو سمجھنے کی کوشش کرے جبکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے مطابق عقل ایمان پر مقدم ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: "فبالعقل عرف العباد خالقهم” (کليني، 1383، ج1، ص29)۔انسان عقل ہی کے ذریعے اپنے خالق کی شناخت حاصل کرتا ہے۔ خود قرآن مجید میں خالق ہستی کی شناخت کے لیے دنیا میں موجوداس کی کچھ نشانیوں پرغور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔

خوب و بد کی تشخیص
اسلام میں کچھ مکاتب فکر ایسے بھی ہیں جو دین میں عقل کو استعمال کرنے کی ممانعت کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں خوب و بد کی تشخیص فقط شریعت کے ذریعے ممکن ہے اور عقل اچھے برے کی تمیز سے قاصر ہے جبکہ امام صادق علیہ السلام کے نزدیک عقل، خوب و بد کی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جس طرح انسان اپنی عقل کے ذریعے خالق کو پہچانتا ہے اسی طرح عقل کے ذریعے اچھے اور برے کی شناخت حاصل کرتا ہے، فبالعقل عرف العباد خالقهم (کليني، 1383، ج1، ص29) و عرفوا به الحسن من القبيح (کليني، 1383، ج1، ص29) یہی وجہ ہے کہ اصول دین کی بنیاد عقل و فہم پر رکھی گئی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی علمی اور عملی سیرت کے ذریعے اس طرح کے باطل عقائد کا جواب دیا کیونکہ اس طرح کے غلط افکار اسلام کی ترویج اور درست تفہیم میں رکاوٹ نظر آتے ہیں۔ اگر عقل کو دین و ایمان سے جدا کر دیا جائے تو نتیجتاً اسلام کے عقائد کا اثبات ممکن نہ ہوگا۔ آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ اس نظریے کے انکار کے نتیجے میں معارف الٰہی میں سے کسی بھی اصل کو ثابت کرنا ممکن نہیں۔
(تفاوت‌های بنیادی عقاید امامیه با مکتب‌های معتزله و اشاعره 4،آیت اللّٰه جعفر سبحانی، خرداد 1390 مجله مکتب اسلام)
اسی طرح قرآن و سنت کی صحیح تفسیر میں بھی عقل ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بعض اوقات قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ آیات ایک دوسرے کے مخالف ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں، اگر تدبر و تفکر سے کام لیا جائے تو انسان ان آیات کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔ جس طرح حدیث غدیر میں اگر عقل سے کام لیا جائے تو لفظ مولا کا معنی واضح ہو جائے گا۔

عقل اور دینداری
آج ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ عقل کو دین کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں اور عقل کو دین سے برتر شمار کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں جب عقل موجود ہے تو انسان کی زندگی میں دین کی کوئی ضرورت نہیں جس طرح کہا جاتا ہے:
ہم ایسے اہل نظر کو قبول حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
دینی تعلیمات اور عقل کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ انسان زندگی گزارنے کے لیے بہترین راہ کا انتخاب کرے۔ آپ علیہ السلام کے مطابق عقل مومن کا رہنما ہے جو اسے فلاح دنیا و آخرت کی طرف لے جاتی ہے، اس کے ایمان کو محکم بناتی ہے اور بہشت کے دروازے کھول دیتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا کہ جبرائیل حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: اے آدم! خدا کے دستور کے مطابق تم مختار ہو کہ ان تین چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرو۔ آدمؑ نے اس سے کہا: اے جبرائیل! وہ تین چیزیں کیا ہیں؟ جبرائیل نے جواب دیا: عقل، حیا اور دین۔آدم ؑنے کہا کہ میں نے عقل کا انتخاب کیا،پھر جبرائیل نے حیا اور دین سے کہا کہ اس سے دور ہو جاؤ مگر وہ دونوں گویا ہوئیں: اے جبرائیل! ہمیں خدا کی طرف سے حکم ہے کہ جہاں عقل ہو وہاں رہیں۔ (برقي، بي تا، ج1، ص 191)
چنانچہ ثابت ہوتا ہے کہ عقل اور دین ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ دین ہمیشہ عقل کی تائید کرتا نظر آتا ہے جبکہ عقل دین کی تائید کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی نظر میں انسان کے اعمال کی سزا و جزا اس کی عقل کے مطابق ہوگی۔إن الثواب علي قدر العقل (حر عاملي، 1414ق، ج1، ص10)

اسلام میں علوم عقلی کی بنیاد
امام جعفر صادق علیہ السلام نے نہ صرف خود عقلی دلائل کے ذریعے دین اسلام سے متعلق غلط افکار کا مقابلہ کیا، بلکہ ایسے شاگردوں کی تربیت کی جو علم کلام میں بے نظیر تھے۔ آپؑ کے ایک ممتاز شاگرد ہشام بن حکم تھے جوفقہ، حدیث یا تفسیر نہیں بلکہ عقلی مسائل میں بے نظیر تھے، علم کلام کے ماہر تھے۔ امام علیہ السلام ہمیشہ ہشام بن حکم کو دوسرے شاگردوں پر فوقیت دیا کرتے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام عقلی مسائل کو کس قدر اہمیت کا حامل سمجھتے تھے۔ محققین کی نظر میں آپؑ نے دینی مسائل میں علوم عقلی کی بنیاد رکھی۔ صادق آل محمد علیہ السلام نے اپنے زمانے میں علوم عقلی کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا اور اس سے متعلق اپنے اجداد امیر المومنین علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث کو روایت کیا۔ اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ جب ہم اہل سنت کی احادیث کی کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نماز روزہ وضو اور ان چیزوں سے متعلق احکام نظر آتے ہیں جبکہ شیعہ حدیث کی22 کتب میں پہلا باب عقل و جہل اور دوسرا باب توحید ہے جو عقلی مباحث پر مشتمل ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ مکتب جعفریہ میں شرعی احکام کے استنباط اورمکتب اہل حدیث کے برخلاف قرآن و حدیث کی تفہیم میں عقل خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ علم اصول فقہ کے مطابق عقل احکام شرعی کے منابع میں سے ایک ہے اور اس جہت سے کتاب و سنت کے ہمراہ ہے۔ کل ما حکم به العقل حکم به الشرع۔ (درآمدی بر کلام جدید، علی ربانی گلپایگانی، مرکز نشر ہاجر، 1401، ص155)
یہی وجہ ہے کہ احمد زکی صالح، ایک مصری رسالےا”لرسالۃ المصریہ” میں لکھتا ہے کہ شیعہ وہ پہلا اسلامی مذہب تھا کہ جہاں دینی مسائل کی بنیاد فکر اور عقل پہ رکھی گئی۔ (سیری در سیرہ آئمہ اطہار، انتشارات صدرا، 1402،ص 137)

تبلیغ دین میں عقل کا کردار
اگر امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور عملی سیرت پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے ہر مقام پہ عقلی دلائل کے ذریعے اسلام کی حقیقت کو ثابت کیا اور دین و شریعت کا دفاع کیا۔ خلفائے عباسی کے زمانے میں زنادیق کا گروہ وجود میں آیا جو مکمل طور پہ دین کے مخالف تھے۔ تاریخ میں امام صادق علیہ السلام کے عظیم الشان مناظرے اور مباحثے موجود ہیں، جہاں امام علیہ السلام نے بہت خوبصورت انداز میں عقلی دلائل کے ذریعے خالق ہستی کو ثابت کیا۔ یہ وہ گروہ تھا جو نہ صرف خود دین سے انکار کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی دین سے منحرف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ آج بھی اس طرح کے لوگ موجود ہیں، جو اپنے کمزور عقائد کے باعث اسلامی تعلیمات کا انکار کرتےیا کلی طور پر دین کے منکر ہیں۔ امام علیہ السلام کی اس سیرت کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ نہ صرف خود اپنے عقائد کو منطق اور عقل کے ذریعے محکم بنائیں بلکہ اسلام کی ترویج اور تبلیغ میں امامؑ کے اس طرز عمل کو اپنانے کی کوشش کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔

اختتامیہ
صادق آل محمد علیہ السلام کی علمی اور عملی سیرت کی روشنی میں عقل اور دین ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ ان کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ عقل انسان پر خدا کی حجت ہے اور خالق کی شناخت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔مگر یاد رہے کہ اہل بیت علیہم السلام عقل اور دین کے معاملے میں اعتدال کے قائل تھے نہ یہ کہ بغیر تحقیق اور سوچے سمجھے اصول دین پر ایمان لایا جائے اور نہ ہی انسانی عقل پر اس قدر اکتفا کیا جائے کہ دین کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ انسانی عقل محدود ہے اور بعض مقامات پر شریعت کی طرف سے تائید لازم ہے۔ جس طرح امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کیلئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے۔( نہج البلاغہ خطبہ 49) ہمیں چاہیے کہ ہم سیرت امام جعفر صادق علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے خدا کی اس ودیعت کردہ نعمت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور تبلیغ و دفاع دین کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

منابع و مآخذ
1۔قرآن مجید
2۔بحار الانوار، علامہ محمد باقر مجلسیؒ
3۔وسائل الشیعہ،علامہ حر عاملیؒ، 1428ق
4۔الکافی،محمد بن یعقوب کلینیؒ،1383ھ
5۔سیری در سیرہ آئمہ اطہار، انتشارات صدرا، 1402ھ
6۔درآمدی بر کلام جدید، علی ربانی گلپایگانی، مرکز نشر ہاجر، 1401ھ
7۔نہج البلاغہ، سید رضیؒ
8۔محاسن برقی،بی تا
9۔تفاوت‌ہای بنیادی عقاید امامیہ با مکتب‌ہای معتزلہ و اشاعرہ، آیت اللہ جعفر سبحانی، خرداد 1390، مجلہ مکتب اسلام

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے