امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کی ولادتِ باسعادت سات صفر ١٢٨ ہجری کو سرزمین "ابوا” (مدینہ کے اطراف میں ایک دیہات) پر ہوئی۔

بعض کے نزدیک ذی الحجہ میں جب حضرت امام جعفر صادقؑ اپنی زوجہ حمیدہ خاتون کے ہمراہ حج سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ تاہم بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپؑ 129ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ ایران کے سرکاری کیلنڈر میں ساتویں امام کی ولادت 20 ذی الحجہ درج ہوئی ہے۔ بعض مآخذ میں امام کاظمؑ سے امام صادقؑ کی شدید محبت کا ذکر آیا ہے۔ احمد برقی کی روایت کے مطابق امام کاظمؑ کی ولادت کے بعد امام صادقؑ نے تین دن تک لوگوں کو کھانا کھلایا۔

۲۰ سال کی عمر میں سن ۱۴۸ھ میں امامت ملی۔ تقریباً ۲۲ سال تک ۴ عباسی خلفاء منصور، مہدی، ہادی اور ہارون جیسے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم سے گزرنے کے بعد، ہارون ہی کے زمانے میں اسی کے ظالمانہ حکم سے بغداد میں مختلف زندانوں میں رہنے کے بعد ۲۵ رجب ۱۸۳ھ میں ۵۵ سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

منصب امامت کا آغاز اور داخلی اختلافات:

امام موسی کاظم (ع) تقریبا پینتیس سال منصب امامت پر رہتے ہیں۔ امام موسی کاظم (ع) کی امامت کے آغاز میں ہی داخلی طور پر شیعہ مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک فرقہ نے امام صادق (ع) کی مہدویت کا اعلان کردیا اور مشہور کیا کہ امام صادق پیغمبر اکرم (ص) کے آخری جانشین اور قائم آل محمد ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جس نے حضرت اسماعیل کی موت کا انکار کر دیا اور ان کی مہدویت کا قائل ہوا۔ تیسرا گروہ وہ ہے جس نے حضرت اسماعیل کی وفات کا تو یقین کر لیا لیکن ان کے بیٹے محمد کی امامت کے قائل ہو گئے۔ چوتھا گروہ وہ ہے کہ جس نے امام صادق کے ایک اور بیٹے عبداللہ بن جعفر کو کہ جو افطح مشہور تھے امام جانا اور یہ گروہ اسی بنیاد پر فتحیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ پانچواں گروہ وہ ہے کہ جس نے بھی امام صادق کے ایک اور بیٹے کہ جو محمد دیباج کے نام سے مشہور تھے ان کو اپنا امام مان لیا۔ چھٹا گروہ کہ جس کی اکثریت تھی انہوں نے امام موسی کاظم (ع) ہی کو اپنا امام مانا اور ان کی امامت کے قائل ہوئے۔ امام موسی کاظم (ع) ان سخت ترین حالات میں منصب امامت کو سنبھالتے ہیں۔ ہشام ابن سالم کہتا ہے میں مومن طاق کے ساتھ امام صادق کی شہادت کے بعد مدینہ میں تھا کہ لوگ عبداللہ افطح کے گھر جمع ہو چکے تھے، ہم بھی اسی گھر میں داخل ہو گئے، جب بیٹھے تو عبداللہ کی علمی صلاحیت دیکھنے کے لئے ہم نے زکات اور اس کے نصاب کے بارے میں سوال کیا لیکن عبداللہ اس کا کوئی مناسب جواب نہ دے سکا۔ ہشام کہتا ہے کہ ہم پریشانی کے عالم میں باہر نکلے اور سوچنے لگے کہ ان فرقوں میں سے کس فرقہ کا انتخاب کریں کہ اچانک ایک بوڑھے شخص نے دور سے اشارہ کیا، ہم پہلے تو سمجھے کہ یہ منصور دوانقی کے جاسوسوں میں سے کوئی جاسوس ہے کہ جسے ہماری گرفتاری کے لئے معین کیا گیا ہے اور ہوتا ایسے تھا کہ جب کسی کو گرفتار کر لیا جاتا تو اکثر طور پر اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی۔ ہشام کہتا ہے کہ میں نے اپنے ساتھی سے کہا جلدی مجھ سے دور ہو جا اور اپنے آپ کو بچا لے جبکہ میں تو موت کے لئے تیار ہو چکا ہوں لیکن میرے اس گمان کے خلاف وہ شخص کہ جس نے اشارہ کیا تھا اس نے مجھے امام موسی کاظم (ع) کے گھر کی طرف راہنمائی کی۔ جب میں امام موسی کاظم کے پاس پہنچا تو امام نے مجھ سے فرمایا: لا الی المرجئۃ ولا الی القدریۃ ولا الی الزیدیۃ ولی الی الخوارج، الی الی الی.

مرجئہ، قدریہ، زیدیہ اور خوارج کی طرف نہ جائیں، بلکہ میری طرف آئیں۔

اتنی نگرانی کے باوجود بھی آپ کے دوران امامت میں بہت سے مطلب پرست بدل گئے۔

امام کاظم کے دور امامت میں فرقہ بشیریہ وجود میں آیا یہ فرقہ امام کاظم کے ایک صحابی محمد بن بشیر سے منسوب تھا۔ وہ امام کی زندگی میں امام پر جھوٹ و افترا پردازی کرتا تھا۔وہ شعبدہ بازی کا ماہر تھا۔محمد بن بشیر کہتا تھا کہ لوگ جنہیں موسی بن جعفر سے پہچانتے ہیں وہ وہی موسی بن جعفر نہیں جو امام اور حجت خدا ہیں، بلکہ اصلی موسی بن جعفر اس کے پاس ہیں اس نے امام کاظمؑ جیسا ایک چہرہ بنایا تھا جسے لوگوں کو دکھاتا تھا اور بعض لوگ اس کے دھوکے میں آگئے تھے۔ محمد بن بشیر اور اس کے ماننے والوں نے امام کاظمؑ کی شہادت سے پہلے ہی یہ افواہ پھیلائی تھی کہ امام کاظمؑ زندان نہیں گئے ہیں اور وہ زندہ ہیں ان کو موت نہیں آتی ہے۔امام کاظم محمد بن بشیر کو نجس سمجھتے اور اس پر لعنت کرتے تھے نیز اس کو قتل کرنا جائز سمجھتے تھے۔

خلفائے معاصر

منصور (۱۳۶ تا ۱۵۸ ھ )، مہدی (۱۵۸ تا ۱۶۹ ھ )، ہادی (۱۶۹ تا ۱۷۰ ھ ) اور ہارون (۱۷۰ تا ۱۸۳ ھ ) ان چاروں خلفاء عباسی کے زمانے میں امام موسٰی کاظم (ع) نے زندگی گزاری۔

آپؑ کے عیسائی اور یہودی علماء کے ساتھ مختلف مناظرات تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر ہوئے ہیں:

مسند الامام الکاظمؑ میں آپ سے منقول (3000) تین ہزار سے زائد احادیث جمع کی گئی ہیں جن میں سے بعض احادیث کو اصحاب اجماع میں سے بعض نے نقل کیا ہے۔

امام کاظمؑ نے نظام وکالت کی تشکیل کی مختلف علاقوں میں مختلف افراد کو وکیل کے عنوان سے مقرر کیا ۔

علمائے اہل سنت بھی آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں.

آپ کی ازواج کی تعداد واضح نہیں ہے لیکن منقول ہے کہ ان میں سب سے پہلی خاتون امام رضاؑ کی والدہ نجمہ خاتون ہیں۔

آپ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ امام کاظمؑ کی 37 اولاد ہیں جن میں 18 بیٹے اور 19 بیٹیاں شامل ہیں. امام کاظمؑ کی نسل موسوی سادات سے مشہور ہے۔

تحریر: مولانا علی عباس حمیدی

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے