مقالہ نگار: اظہر علی
چکیدہ
جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کی ہدایت اوراسلامی معاشرے کی تشکیل میں تئیس سال کی زحمت برداشت کرکے وفات پاگئے اس کے بعد بہت سارے انحرافات وجود میں آئے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو تحریر کرنے سے منع کیا گیا نہ صرف یہی بلکہ خیالی اور بے بنیاد دلائل کی بنا پر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلایا گیا جسکی وجہ سے اسلامی بلکہ انسانی معاشرےکو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، چونکہ ۲۳ سالوں میں بیان کی گئیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث جو رہنمائی، ہدایت اورحکمتوں پرمشتمل خزانہ تھا، معدوم ہوگئیں۔ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے قرآن اور سنت محمدی کی بنیاد پر عمل کیا اور سنت کو زندہ کرنے کے لئے معاشرے کے قائد کے فرائض میں سے ایک پر غور کیا اور سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حفاظت کی اور تا قیامت زندہ رکھا۔مقدمہ
سنتِ نبوی، ایک ہدایتی راہ ہے جو انسانیت کو معنوی اور اخلاقی راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس ہدایتی نظام کی حفاظت میں حضرت علی علیہ السلام کی بے مثل کاوشوں نے ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔ ان کی حکومت، عدلیہ، اور انسانی حقوق کی بے نظیر خدمات نے اس سنت کو ہر زمانے میں زندہ رکھا ہے۔
موضوع: سنّت نبوی کی حفاظت میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی کاوشیں سنت کے لغوی معنی: طریقہ کار اور طرزِ عمل و دستور اصطلاح میں: دونوں فریقین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے
(1)اہل سنت کے نزدیک قول نبی، فعل نبی اور تقریر نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم
(2) اہل تشیع کے نزدیک قول معصوم، فعل معصوم اور تقریر معصوم علیہم السلام
رسولِ خدا کی وفات
پیغمبر اکرمﷺ نے 28 صفر سن 11 ہجری کو اس حالت میں اس دار فانی سے رحلت فرمائی کہ آپ کا سر اقدس علی علیہ السلام کے دامن میں تھا اور اس کے بعد پھر کبھی اہل بیت عصمت و طہارت کے آنسو خشک نہ ہوئے بلکہ اس وقت سے لیکر آج تک اہل بیت علیہ السلام اور آپ کے چاہنے والوں پر مصائب و مشکلات کا طویل عرصہ گذر گیا۔
اور جب علی علیہ السلام رسول اللہﷺ کو غسل دے رہے تھے اور دفن کرنے کے لئے تیار کررہے تھے تو فرماتے جارہے تھے:
اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کے مرنے سے تو وہ سلسلہ منقطع ہوگیا جو کسی کے مرنے سے نہیں ہوا اور وہ ہے آسمانی خبروں اور وحی کا سلسلہ۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 226 میں رسول اللہﷺ کی رحلت کے سلسلہ سے فرماتے ہیں:
وَ لَوْ لَا أَنَّکَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ وَ نَهَیْتَ عَنِ الْجَزَعِ لَأَنْفَدْنَا عَلَیْکَ مَاءَ الشُّئُونِ وَ لَکَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا وَ الْکَمَدُ مُحَالِفاً وَ قَلَّا لَکَ وَ لَکِنَّهُ مَا لَا یُمْلَکُ رَدُّهُ وَ لَا یُسْتَطَاعُ دَفْعُهُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی اذْکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ وَ اجْعَلْنَا مِنْ بَالِکَ۔(1)
اگر آپ نے مجھے صبر کی تلقین نہ کی ہوتی اور جزع فزع سے منع نہ کیا ہوتا میں اس قدر گریہ کرتا کہ میرے آنسو خشک ہوجاتے اور یہ درد رنج و حزن میرے لئے ہمیشہ تازہ اور دائمی رہتا، لیکن افسوس ہے کہ موت کو لوٹایا نہیں جاسکتا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہمیں یاد کیجئے گا اور ہمیں مت بھولئے گا۔ حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ رسول اللہﷺ کے سب سے نزدیک تھے۔ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام رسول اللہ سے اپنی قربت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ جب رسول اللہﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کے نالے سنے اور رسول اللہﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ یہ کس کے رونے کی آواز ہے؟ فرمایا: یہ شیطان کی آواز ہے جو آج مایوس ہوچکا ہے کہ اب اس کی اطاعت نہیں ہوگی لہٰذا وہ پھوٹ پھوٹ کر گریہ کررہا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی! تم وہی سنتے ہو جو میں سنتا ہوں اور وہی دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر اور میرے مددگار ہو اور کبھی خیر سے جدا نہیں ہونگے۔رسولِ خدا کی وفات کے بعد کے حالات
احادیث لکھنے پر پابندی عائد کرناالرواية الأولى: النبي يأمر بكتابة حديثه وقريش تمنعه: أخرج أبو داود بإسناده عن عبد اللّٰه بن عمرو قال: كنت أكتب كل شيء أسمعه من رسول اللّٰه بن أريد حفظه، فنهتني قريش وقالوا: أتكتب كل شيء (تسمعه)، ورسول اللّٰه بشر يتكلم في الغضب والرضى، فأمسكت عن الكتاب، فذكرت ذلك إلى رسول اللّٰه فأوما بإصبعه إلى فيه فقال: «أكتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق، (سنن أبي داود: ۳/۳۱۸/۳۶۴۶كتاب العلم)
پہلی روایت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث لکھنے کا حکم دیا، لیکن قریش نے منع کیا: ابوداؤد نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا وہ سب لکھ رہا تھا، میں نے یاد کرنا چاہا، لیکن قریش نے مجھے منع کیا اور کہا: کیا تم سب کچھ لکھتے ہو؟ تم نے سنا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں جو غصے اور اطمینان سے بولتے ہیں، اس لیے میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی منہ کی طرف کر کے فرمایا: لکھو، کیونکہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ”(2)ابوبکر نے حدیث نقل کرنے سے روکا الرواية الثانیۃ: أبو بكر يمنع تداول الحديث: قال الذهبي: ومن مراسيل ابن أبي مليكة أن الصديق – أبو بكر – جمع الناس بعد وفاة نبيهم. فقال: إنكم تحدثون عن رسول الله ﷺ أحاديث تختلفون فيها، والناس بعدكم أشد اختلافاً، فلا تحدثوا عن رسول اللّٰه شيئاً، فمن سألكم فقولوا بيننا وبينكم كتاب اللّٰه فاستحلوا حلاله وحرموا حرامه، ذہبی نے کہا: ابن ابی ملیکہ کے خطوط میں سے یہ ہے کہ صدیق – ابوبکر – نے اپنے نبی کی وفات کے بعد لوگوں کو جمع کیا۔ فرمایا: تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں احادیث بیان کرتے ہو جس میں تمہارا اختلاف ہے اور تمہارے بعد کے لوگ اس سے بھی زیادہ اختلاف کرتے ہیں، لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کچھ نہ بیان کرو۔ کوئی تم سے پوچھے تو کہو: ہمارےاور آپ کے درمیان خدا کی کتاب ہے، لہٰذا غور کیجئے کہ کیا حلال ہے۔(3)
خلیفہ ثانی کا سنت کو مٹانے کا حکم جاری کرنا الرواية الثالثۃ: عمر يخالف الصحابة ويأمر بمحو الحديث عن يحيى بن جعدة أن عمر بن الخطاب أراد أن يكتب السنة ثم بدا له أن لا يكتبها ثم كتب في الأمصار من كان عنده شيء – من السنة – فليمحه۔
تیسری روایت: عمر نے صحابہ سے اختلاف کیا اور حدیث کو مٹانے کا حکم دیا۔ اگر کسی کے پاس سنت میں سے کوئی چیز ہو تو اسے مٹا دے۔ یحییٰ بن جعدہ کی روایت ہے کہ عمر بن الخطاب نے سنت کو لکھنا چاہا تو انہیں ایسا لگا کہ وہ اسے نہ لکھیں۔ (4)احادیث کو جلانا
الرواية الرابعۃ: عمر يحرق حديث رسول اللْٰه ﷺ: وروى ابن سعد، عن عبد اللّٰه بن العلاء، قال: سألت القاسم بن محمد بن أبي بكر، أن يملي علي أحاديث، فقال: إن الأحاديث كثرت على عهد عمر بن الخطاب فأنشد الناس أن يأتوه بها فلما أتوه بها أمر بتحريفها، ثم قال: مثناة كمثناة أهل الكتاب، قال فمنعني القاسم يومئذ أن أكتب حديثاً،
چوتھی روایت: عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو جلایا۔ ابن سعد نے عبداللہ بن علاء سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے قاسم بن محمد بن ابی بکر سے کہا کہ وہ مجھ حدیثیں سنائیں، تو انہوں نےکہا: عمر بن الخطاب کے دور میں احادیث میں اضافہ ہوا تو اس نے لوگوں سے التجاء کی کہ وہ ان کو ان کے پاس لے آئیں، لیکن جب وہ ان کے پاس لے آئے تو اس نے ان کو جلانے کا حکم دیا۔(5)احادیث کو نقل کرنے سے منع کرنا
الرواية الخامسۃ: عمر يأمر الصحابة بتقليل الرواية عن رسول اللّٰه
أخرج الدارمي بإسناده عن قرظة بن كعب، قال: بعث عمر بن الخطاب، رهطاً من الأنصار إلى الكوفة فبعثني معهم فجعل يمشي معنا حتى أتى صر وصرار ماء في طريق المدينة، فجعل ينفض الغبار عن رجليه، ثم قال: إنكم تأتون الكوفة فتأتون قوماً لهم أزيز بالقرآن فيأتونكم فيقولون قدم أصحاب محمد، قدم أصحاب محمد، فيأتونكم فيسألونكم عن الحديث… – إلى أن يقول – فأقلوا الرواية عن رسول اللّٰه وأنا شريككم فيه، قال قرظة وإن كنت لأجلس في القوم فيذكرون الحديث عن رسول اللّٰه وأني لمن أحفظهم له فإذا ذكرت وصية عمر سكت۔ (سنن الدارمي: ۱/۸۵)
پانچویں روایت: عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کو کم کر دیں: دارمی نے اپنی سند کے ساتھ قرزہ بن کعب سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: عمر بن خطاب نے انصار کی ایک جماعت بھیجی۔ کوفہ کی طرف مجھے بھیجا، اور ہمارے ساتھ چلنے لگے، یہاں تک کہ مدینہ کے راستے میں پانی کی ایک سسکیاں آئی، تو اپنے پاؤں کی مٹی جھاڑنے لگے، پھر فرمایا: تم آؤ کوفہ میں۔ اور آپ ایک ایسی قوم کے پاس آتے ہیں جو قرآن کے شوقین ہیں، اور وہ آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں: محمد کےاصحاب آ گئے، محمد کے اصحاب آ گئے، تو وہ آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ سے حدیث کے بارے میں پوچھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرو، اور میں اس میں تمہارا شریک ہوں، قردہ نے کہا، خواہ میں لوگوں میں بیٹھوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بات کرنا اور یہ کہا میں ان لوگوں میں سے ہوں جو احادیث کو حفظ کرتے ہیں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی وصیت کا ذکر کیا تو وہ خاموش رہے(کہ حدیث بیان نہ کریں)۔(6)احادیث لکھنے پر صحابہ کو قید کرنا
الرواية السادسۃ: عمر يحبس الصحابة بسبب روايتهم أحاديث رسول اللّٰه ﷺ أخرج الحاكم بإسناده عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، قال: بعث عمر بن الخطاب إلى عبد اللّٰه بن مسعود، وإلى الدرداء، وإلى أبي مسعود الأنصاري، فقال: ما هذا الحديث الذي تكثرون على رسول اللّٰه؟ فحبسهم بـ«المدينة» حتى استشهد. (الكامل في ضعفاء الرجال، لابن عدي: ۱/ ۸۲والمستدرك على الصحيحين: ۱/۱۹۳)، وقال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي. أقول: وبسبب هذه السياسة المشددة في منع تدوين الحديث النبوي فضلاً عن تداوله وروايته، خشي الصحابة من العقوبات المفرطة جراء ذلك، مما حدى ببعضهم إلى محو ما كتبه رغم إظهار ندمه على فعلته،
چھٹی روایت: عمر نے صحابہ کو ان کی روایت کی بنا پر قید کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث: حاکم نے اپنی سند کے ساتھ سعد بن ابراہیم کی سند سے روایت کی ہے۔ اس کے والد نے کہا: عمر بن الخطاب نے عبداللہ بن مسعود، الدرداء، اور ابو مسعود الانصاری سے، تو انہوں نے کہا: یہ کیا حدیث ہے جو تم اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہو؟ انہیں مدینہ میں قید رکھا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔ اور حاکم نے کہا: یہ دونوںشیخوں کی شرائط کے مطابق صحیح حدیث ہے۔ ، اور الذہبی نے اس سے اتفاق کیا۔ میں کہتا ہوں: حدیث نبوی کو ریکارڈ کرنے سے روکنے کی اس سخت پالیسی کی وجہ سے، اس کی گردش اور روایت کو چھوڑ دو، صحابہ کرام کو اس کے نتیجے میں حد سے زیادہ سزاؤں کا اندیشہ تھا، جس کی وجہ سے ان میں سے بعض نے پچھتاوا ظاہر کرنےکے باوجود جو کچھ لکھا اسے مٹا دیا۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا سنت نبوی کی حفاظت کرنے کا طریقہ
الرواية السابعۃ: على اليه يبحث على كتابة الحديث علي بن أبي طالب اللّٰه تلميذ القرآن كان يسير في الطرقات ويطلب من يأتيه ليملي عليه من الحديث النبوي الشريف. فقد أخرج الخطيب البغدادي بإسناده عن المنذر بن ثعلبة علي اللّٰه قال: من يشتري مني علماً يدرهم»، قال أبو خيثمة يقول: «يشتري صحيفة بدرهم يكتب فيها العلم»، انتهى۔ (تقييد العلم، للخطيب البغدادي: صفحہ ٩٠)
ساتویں روایت: علی حدیث کی تحریر تلاش کر رہے ہیں: علی بن ابی طالب علیہ السلام جو قرآن کے طالب علم تھے سڑکوں پر گھومتے پھرتے تھے اور کسی کو اپنے پاس آنے کی درخواست کرتے تھے۔ حدیث نبوی ﷺ۔ الخطیب البغدادی نے اپنی سند کے ساتھ المنذر بن ثعلبہ علی علیہ السلام سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: جو شخص مجھ سے علم خریدے گا وہ ایک درہم کمائے گا۔(8)تدوینِ حدیث امیر المومنین
جب روایت حدیث کی اجازت ہی نہیں تھی اور جو چند ایک مجموعے تھے وہ بھی ضائع کیے جارہے تھے تو پھر تدوینِ حدیث کی مزید گنجائش کیسے نکل سکتی تھی۔ امیر المومنین جہاں تنزیل و تاویلِ قرآن پر عبور تام رکھتے تھے وہاں احادیث سے بھی پوری طرح باخبر تھے کیونکہ اقوال و ارشادات نبوی کے براہ راست سننے اور ان سے مستفید ہونے کے جتنے مواقع انہیں ملے وہ کسی اور کوئی نہیں ہوئے۔ چنانچہ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ سب سے زیادہ احادیث رسول بیان کرتے ہیں؟ فرمایا: إِنِّي كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُهُ أَنْبَأَنِي وَإِذَا سَكَتُ ابْتَدَانِي۔
میں آنحضرت سے کوئی چیز دریافت کرتا تو وہ مجھے بتاتے اور خاموش رہتا تو وہ خود مجھ سے بیان کرتے۔ (9)
اس خیال سے کہ احادیث و آثار نبوی مٹنے نہ پائیں اور یہ علم و ہدایت کا سرمایہ زندہ و پائندہ رہے۔ لوگوں کویہ تاکید کرتے تھے کہ
تَذَا كَرُوا الْحَدِيثَ فَإِنَّكُمْ إِلَّا تَفْعَلُوْا يَنْدَرِسُ۔
ایک دوسرے سے احادیث بیان کرتے رہو گر تم نے ایسا نہ کیا تو حدیث کے آثار مٹ جائیں گے۔ (10)
اس کے علاوہ انہیں ضبط تحریر میں لانا بھی ضروری سمجھتے تھے تا کہ ان کے حفظ و بقا ءکا سامان ہو سکے۔ چنانچہ قرآن مجید کی جمع آوری کے ساتھ حدیث کی ترتیب و تدوین کا بھی اہتمام کیا۔ آپ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی حدیث کی تدوین شروع کر دی تھی اور احادیث نبویہ پر مشتمل ایک صحیفہ قلمبند کیا۔
عبد اللہ ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کرنے کیلئے بھیجتے وقت فرمایا:
لَا تُخَاصِمْهُمْ بِالْقُرْاٰنِ، فَاِنَّ الْقُرْاٰنَ حَمَّالٌ ذُوْ وُجُوْهٍ، تَقُوْلُ وَ یَقُوْلُوْنَ، وَ لٰكِنْ حَاجِجْهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَاِنَّهُمْ لَنْ یَّجِدُوْا عَنْهَا مَحِیْصً۔
تم ان سے قرآن کی رو سے بحث نہ کرنا، کیونکہ قرآن بہت سے معانی کا حامل ہوتا ہے اور بہت سی وجہیں رکھتا ہے، تم اپنی کہتے رہو گے، وہ اپنی کہتے رہیں گے، بلکہ تم حدیث سے ان کے سامنے استدلال کرنا، وہ اس سے گریز کی کوئی راہ نہ پا سکیں گے۔(11)تنویع حدیث: امیر المومنین
لوگوں کو یہ ہدایت کرتے تھے کہ وہ متن حدیث کے ساتھ راوی یا رواۃ کا بھی ذکر کریں تا کہ حدیث کی صحت کو پرکھا جا سکے۔ حضرت کا ارشاد ہے۔ إِذَا حَدَّثْتُمْ بِحَدِيثٍ فَأَسْنِدُوهُ إِلَى الَّذِي حَدَّثَكُمْ فَإِنْ كَانَ حَقًّا فَلَكُمْ وَإِنْ كَانَ كَذِبًا فَعَلَيْهِ۔ جب حدیث بیان کرو تو جس نے تم سے وہ حدیث بیان کی ہے اس کی سند کا بھی ذکر کرو۔ اگر وہ صحیح ہوگی تو تمہیں فائدہ پہنچے گا اور جھوٹ ہوگی تو اس کا مظلمہ بیان کرنے والے پر ہوگا۔ (12)
حدیث کو بیان کرتے وقت یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ روای دروغ گواور غلط کارتو نہیں ہے تا کہ صحیح و غلط میں تفریق اور موضوع احادیث کے نشر کا سد باب ہو سکے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کسی حدیث کو اس کے راوی کی صدق بیانی پر اطمینان کیے بغیر قبول نہ کرتے تھے۔
امام ذہبی تحریر کرتے ہیں:
وَكَانَ عَلى كَرَّمَ اللّٰهُ وَجْهَهُ إِمَامًا مُتَحَزِيَّا فِي الْأَخْذِ بِحَيْثُ إِنَّهُ يَسْتَحْلِفُ مَنْ يُحَدِّثُهُ الْحَدِيثَ۔ (13)
حضرت علی علیہ السلام پورےاطمینان کرنے کے بعد حدیث کو قبول کرتے تھے اس طرح کہ وہ حدیث بیان کرنے والے سے قسم لے لیتے تھے۔ اس تنویع حدیث کی بنیاد بھی امیر المومنین کے ہاتھوں قائم ہوئی اور آپ نے رواۃ حدیث کے حالات و اوصاف پر ایک جامع تبصرہ فرماتے ہوئے انھیں چار قسموں پر تقسیم کیا ہے۔
ایک شخص نے آپؑ سے من گھڑت اور متعارض حدیثوں کے متعلق دریافت کیا جو (عام طور سے) لوگوں کے ہاتھوں میں پائی جاتی ہیں تو آپؑ نے فرمایا کہ:
اِنَّ فِیْۤ اَیْدِی النَّاسِ حَقًّا وَّ بَاطِلًا، وَ صِدْقًا وَّ كَذِبًا، وَ نَاسِخًا وَّ مَنْسُوْخًا، وَ عَامًّا وَّ خَاصًّا، وَ مُحْكَمًا وَّ مُتَشَابِهًا، وَ حِفْظًا وَّ وَهْمًا، وَ لَقَدْ كُذِبَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ -ﷺ عَلٰی عَهْدِهٖ، حَتّٰی قَامَ خَطِیْبًا، فَقَالَ: «مَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ»۔
لوگوں کے ہاتھوں میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ناسخ اور منسوخ، عام اور خاص، واضح اور مبہم، صحیح او رغلط، سب کچھ موجود ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ کے دور میں آپؐ پر بہتان لگائے گئے، یہاں تک کہ آپؐ کو کھڑے ہو کر خطبہ میں کہنا پڑا کہ: «جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر بہتان باندھے گا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے»۔
وَ اِنَّمَاۤ اَتَاكَ بِالْحَدِیْثِ اَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَّیْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:
تمہارے پاس چار طرح کے لوگ حدیث لانے والے ہیں کہ جن کا پانچواں نہیں۔
رَجُلٌ مُّنَافِقٌ مُّظْهِرٌ لِلْاِیْمَانِ، مُتَصَنِّـعٌۢ بِالْاِسْلَامِ، لَا یَتَاَثَّمُ وَ لَا یَتَحَرَّجُ، یَكْذِبُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ مُتَعَمِّدًا، فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ اَنَّهٗ مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَّمْ یَقْبَلُوْا مِنْهُ، وَ لَمْ یُصَدِّقُوْا قَوْلَهٗ، وَ لٰكِنَّهُمْ قَالُوْا: صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰهِﷺ رَاٰهُ، وَ سَمِـعَ مِنْهُ، وَ لَقِفَ عَنْهُ، فَیَاْخُذُوْنَ بِقَوْلِهٖ، وَ قَدْ اَخْبَرَكَ اللهُ عَنِ الْمُنَافِقِیْنَ بِمَاۤ اَخْبَرَكَ، وَ وَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِهٖ لَكَ، ثُمَّ بَقُوْا بَعْدَهٗ عَلَيْهِ وَ اٰلِهِ السَّلَامُ، فَتَقرَّبُوْۤا اِلٰۤی اَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ، وَ الدُّعَاةِ اِلَی النَّارِ بِالزُّوْرِ وَ الْبُهْتَانِ، فَوَلَّوْهُمُ الْاَعْمَالَ، وَ جَعَلُوْهُمْ حُكَّامًا عَلٰی رِقَابِ النَّاسِ، فَاَكَلُوْا بِهِمُ الدُّنْیَا، وَ اِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوْكِ وَ الدُّنْیَا، اِلَّا مَنْ عَصَمَ اللهُ، فَهٰذَاۤ اَحَدُ الْاَرْبَعَةِ۔
ایک تو وہ جس کا ظاہر کچھ اور ہے اور باطن کچھ اورہے وہ ایمان کی نمائش کرتا ہے اور مسلمانوں کی سی وضع قطع بنا لیتا ہے، نہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے اور نہ کسی افتاد میں پڑنے سے جھجکتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس سے نہ کوئی حدیث قبول کرتے اور نہ اس کی بات کی تصدیق کرتے، لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے، اس نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا بھی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنی ہیں اور آپؐ سے تحصیل علم بھی کی ہے۔ چنانچہ وہ (بے سوچے سمجھے) اس کی بات کو قبول کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقوں کے متعلق خبر دے رکھی ہے اور ان کے رنگ ڈھنگ سے بھی تمہیں آگاہ کر دیا ہے۔ پھر وہ رسول ﷺ کے بعد بھی باقی و برقرار رہے اور کذب و بہتان کے ذریعہ گمراہی کے پیشواؤں اور جہنم کا بلاوا دینے والوں کے یہاں اثر و رسوخ پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے) عہدوں پر لگایا اور حاکم بنا کر لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا اور ان کے ذریعے سے اچھی طرح دنیا کو حلق میں اتارا اور لوگوں کا تو یہ قاعدہ ہے ہی کہ وہ بادشاہوں اور دنیا (والوں)کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔ مگر سوا ان (معدودے چند) افراد کے کہ جنہیں اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ چار میں سے ایک تو یہ ہوا۔
وَ رَجُلٌ سَمِـعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ شَیْئًا لَّمْ یَحْفَظْهُ عَلٰی وَجْهِهٖ، فَوَهِمَ فِیْهِ، وَ لَمْ یَتَعَمَّدْ كَذِبًا، فَهُوَ فِیْ یَدَیْهِ، یَرْوِیْهِ وَ یَعْمَلُ بِهٖ، وَ یَقُوْلُ: اَنَا سَمِعْتُهٗ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِﷺ، فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ اَنَّهٗ وَهِمَ فِیْهِ لَمْ یَقْبَلُوْهُ مِنْهُ، وَ لَوْ عَلِمَ هُوَ اَنَّهٗ كَذٰلِكَ لَرَفَضَهٗ!۔
اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے (تھوڑا بہت) رسول اللہ ﷺ سے سنا، لیکن جوں کا توں اسے یاد نہ رکھ سکا او راس میں اسے سہو ہو گیا۔ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا، یہی کچھ اس کے دسترس میں ہے، اسے ہی دوسروں سے بیان کرتا ہے اور اسی پر خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے اور کہتا بھی یہی ہے کہ: میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہ خبر ہو جاتی کہ اس کی یادداشت میں بھول چوک ہو گئی ہے تو وہ اس کی بات کو نہ مانتے اور اگر خود بھی اسے اس کا علم ہو جاتا تو اسے چھوڑ دیتا۔
وَ رَجُلٌ ثَالِثٌ، سَمِـعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰهِﷺ شَیْئًا یَّاْمُرُ بِهٖ، ثُمَّ نَهٰی عَنْهُ وَ هُوَ لَا یَعْلَمُ، اَوْ سَمِعَهٗ یَنْهٰی عَنْ شَیْءٍ، ثُمَّ اَمَرَ بِهٖ وَ هُوَ لَایَعْلَمُ، فَحَفِظَ الْمَنْسُوْخَ، وَ لَمْ یَحْفَظِ النَّاسِخَ، فَلَوْ عَلِمَ اَنَّهٗ مَنْسُوْخٌ لَّرَفَضَهٗ، وَ لَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ اِذْ سَمِعُوْهُ مِنْهُ اَنَّهٗ مَنْسُوْخٌ لَّرَفَضُوْهُ۔
تیسرا شخص وہ ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا کہ آپؐ نے ایک چیز کے بجا لانے کا حکم دیا ہے، پھر پیغمبر ﷺ نے تو اس سے روک دیا، لیکن یہ اسے معلوم نہ ہو سکا، یا یوں کہ اس نے پیغمبر ﷺ کو ایک چیز سے منع کرتے ہوئے سنا پھر آپؐ نے اس کی اجازت دے دی، لیکن اس کے علم میں یہ چیز نہ آسکی۔ اس نے (قول) منسوخ کو یاد رکھا اور (حدیث) ناسخ کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اگر اسے خود معلوم ہو جاتا کہ یہ منسوخ ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا اور مسلمانوں کو بھی اگر اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر ہوتی تو وہ بھی اسے نظر انداز کر دیتے۔
وَ اٰخَرُ رَابِـعٌ، لَمْ یَكْذِبْ عَلَی اللّٰهِ وَ لَا عَلٰی رَسُوْلِهٖ، مُبْغِضٌ لِّلْكَذِبِ، خَوْفًا مِّنَ اللّٰهِ، وَ تَعْظِیْمًا لِّرَسُوْلِ اللّٰهِﷺ وَ لَمْ یَهِمْ، بَلْ حَفِظَ مَا سَمِعَ عَلٰی وَجْهِهٖ، فَجَآءَ بِهٖ عَلٰی مَا سَمِعَهٗ، لَمْ یَزِدْ فِیْهِ وَ لَمْ یَنْقُصْ مِنْهُ، وَ حَفِظَ النَّاسِخَ فَعَمِلَ بِهٖ، وَ حَفِظَ الْمَنْسُوْخَ فَجَنَّبَ عَنْهٗ، وَ عَرَفَ الْخَاصَّ وَ الْعَامَّ، فَوَضَعَ كُلَّ شَیْءٍ مَّوْضِعَهٗ وَ عَرَفَ الْمُتَشَابِهَ وَ مُحْكَمَهٗ۔
اور چوتھا شخص وہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔ وہ خوف خدا اور عظمت رسول اللہ ﷺ کے پیش نظر کذب سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی یاد داشت میں غلطی واقع نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح سنا اسی طرح اسے یاد رکھا اور اسی طرح اسے بیان کیا، نہ اس میں کچھ بڑھایا، نہ اس میں سے کچھ گھٹایا، حدیث ناسخ کو یاد رکھا تو اس پر عمل بھی کیا، حدیث منسوخ کو بھی اپنی نظر میں رکھا اور اس سے اجتناب برتا، وہ اس حدیث کو بھی جانتا ہے جس کا دائرہ محدود اور اسے بھی جو ہمہ گیر اور سب کو شامل ہے اور ہر حدیث کو اس کے محل و مقام پر رکھتا ہے اور یوں ہی واضح اور مبہم حدیثوں کو پہچانتا ہے۔(14)
امیر المومنین کا ارشاد ہے:
اِعْقِلُوا الْخَبَرَ اِذَا سَمِعْتُمُوْهُ عَقْلَ رِعَایَةٍ لَّا عَقْلَ رِوَایَةٍ، فَاِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِیْرٌ، وَ رُعَاتَهٗ قَلِیْلٌ۔
جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو، صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو۔ کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔(15)حکومت میں انسانی حقوق
خطبہ نمبر 214: وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ خَطَبَهَا بِصِفِّیْنَ صفین کے موقع پر فرمایا اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِیْ عَلَیْكُمْ حَقًّۢا بِوِلَایَةِ اَمْرِكُمْ، وَ لَكُمْ عَلَیَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِیْ لِیْ عَلَیْكُمْ، فَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاَشْیَآءِ فِی التَّوَاصُفِ، وَ اَضْیَقُهَا فِی التَّنَاصُفِ، لَا یَجْرِیْ لِاَحَدٍ اِلَّا جَرٰی عَلَیْهِ، وَ لَا یَجْرِیْ عَلَیْهِ اِلَّا جَرٰی لَهٗ۔
اللہ سبحانہ نے مجھے تمہارے امور کا اختیار دے کر میرا حق تم پر قائم کر دیا ہے اور جس طرح میرا تم پر حق ہے ویسا ہی تمہارا بھی مجھ پر حق ہے۔ یوں تو حق کے بارے میں باہمی اوصاف گنوانے میں بہت وسعت ہے، لیکن آپس میں حق و انصاف کرنے کا دائرہ بہت تنگ ہے۔ دو آدمیوں میں اس کا حق اس پر اسی وقت ہے جب دوسرے کا بھی اس پر حق ہو اور اس کا حق اس پر جب ہی ہوتا ہے جب اس کا حق اس پر بھی ہو۔ وَ لَوْ كَانَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّجْرِیَ لَهٗ وَ لَا یَجْرِیَ عَلَیْهِ، لَكَانَ ذٰلِكَ خَالِصًا لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ دُوْنَ خَلْقِهٖ، لِقُدْرَتِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لِعَدْلِهٖ فِیْ كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَیْهِ صُرُوْفُ قَضَآئِهٖ، وَ لٰكِنَّهٗ جَعَلَ حَقَّهٗ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یُّطِیْعُوْهُ، وَ جَعَلَ جَزَآءَهُمْ عَلَیْهِ مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ تَفَضُّلًا مِّنْهُ، وَ تَوَسُّعًۢا بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِیْدِ اَهْلُهٗ۔ اور اگر ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کا حق تو دوسروں پر ہو لیکن اس پر کسی کا حق نہ ہو تو یہ امر ذات باری کیلئے مخصوص ہے نہ اس کی مخلوق کیلئے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر پورا تسلط و اقتدار رکھتا ہے اور اس نے تمام ان چیزوں میں کہ جن پر اس کے فرمانِ قضا جاری ہوئے ہیں، عدل کرتے ہوئے (ہر صاحب حق کا حق دے دیا ہے) اس نے بندوں پر اپنا یہ حق رکھا ہے کہ وہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس نے محض اپنے فضل و کرم اور اپنے احسان کو وسعت دینے کی بنا پر کہ جس کا وہ اہل ہے ان کا کئی گنا اجر قرار دیا ہے۔ ثُمَّ جَعَلَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ مِنْ حُقُوْقِهٖ حُقُوْقًا افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلٰی بَعْضٍ، فَجَعَلَهَا تَتَكَافَاُ فِیْ وُجُوْهِهَا، وَ یُوْجِبُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَ لَا یُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَاۤ اِلَّا بِبَعْضٍ۔ پھر اس نے ان حقوق انسانی کو بھی کہ جنہیں ایک دوسرے پر قرار دیا ہے اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں اور کچھ ان میں سے کچھ حقوق کا باعث ہوتے ہیں اور اس وقت تک واجب نہیں ہوتے جب تک اس کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں۔ وَ اَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ مِنْ تِلْكَ الْحُقُوْقِ حَقُّ الْوَالِی عَلَی الرَّعِیَّةِ وَ حَقُّ الرَّعِیَّةِ عَلَی الْوَالِیْ، فَرِیْضَةً فَرَضَهَا اللهُ ـ سُبْحَانَهٗ ـ لِكُلٍّ عَلٰی كُلٍّ، فَجَعَلَهَا نِظَامًا لِّاُلْفَتِهِمْ، وَ عِزًّا لِّدِیْنِهِمْ، فَلَیْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِیَّةُ اِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ اِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِیَّةِ۔
اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیت پر اور رعیت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیت میں سے ہر ایک کیلئے فریضہ بنا کر عائد کیا ہے اور اسے ان میں رابطۂ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رعیت اسی وقت خوشحال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم بھی اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے جب رعیت اس کے احکام کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو۔ فَاِذَاۤ اَدَّتِ الرَّعِیَّةُ اِلَی الْوَالِیْ حَقَّهٗ، وَ اَدَّی الْوَالِیْۤ اِلَیْهَا حَقَّهَا، عَزَّ الْحَقُّ بَیْنَهُمْ، وَ قَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّیْنِ، وَ اعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ، وَ جَرَتْ عَلٰۤی اَذْلَالِهَا السُّنَنُ، فَصَلَحَ بِذٰلِكَ الزَّمَانُ، وَ طُمِعَ فِیْ بَقَآءِ الدَّوْلَةِ، وَ یَئِسَتْ مَطَامِعُ الْاَعْدَآءِ۔
جب رعیت فرمانروا کے حقوق پورے کرے اور فرمانروا رعیت کے حقوق سے عہدہ برآ ہو تو ان میں حق با وقار، دین کی راہیں استوار اور عدل و انصاف کے نشانات برقرار ہو جائیں گے اور پیغمبرؐ کی سنتیں اپنے دھڑے پر چل نکلیں گی اور زمانہ سدھر جائے گا، بقائے سلطنت کے توقعات پیدا ہو جائیں گے اور دشمنوں کی حرص و طمع یاس و ناامیدی سے بدل جائے گی۔ وَ اِذَا غَلَبَتِ الرَّعِیَّةُ وَالِیَهَا، اَوْ اَجْحَفَ الْوَالِیْ بِرَعِیَّتِهٖ، اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ، وَ ظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ، وَ كَثُرَ الْاِدْغَالُ فِی الدِّیْنِ، وَ تُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ، فَعُمِلَ بِالْهَوٰی، وَ عُطِّلَتِ الْاَحْكَامُ، وَ كَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوْسِ، فَلَا یُسْتَوْحَشُ لِعَظِیْمِ حَقٍّ عُطِّلَ، وَ لَا لِعَظِیْمِ بَاطِلٍ فُعِلَ! فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الْاَبْرَارُ، وَ تَعِزُّ الْاَشْرَارُ، وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللّٰهِ عِنْدَ الْعِبَادِ۔
اور جب رعیت حاکم پر مسلط ہو جائے یا حاکم رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقع پر ہر بات میں اختلاف ہو گا، ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے، دین میں مفسدے بڑھ جائیں گے، شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی، خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا، شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے، نفسانی بیماریاں بڑھ جائیں گی اور بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کوئی نہ گھبرائے گا۔ ایسے موقع پر نیکو کار ذلیل اور بد کردار باعزت ہو جاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں۔ فَعَلَیْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِیْ ذٰلِكَ، وَ حُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَیْهِ، فَلَیْسَ اَحَدٌ ـ وَ اِنِ اشْتَدَّ عَلٰی رِضَی اللّٰهِ حِرْصُهٗ، وَ طَالَ فِی الْعَمَلِ اجْتِهَادُهٗ ـ بِبَالِغٍ حَقِیْقَةَ مَا اللّٰهُ اَهْلُهٗ مِنَ الطَّاعَةِ لَهٗ، وَ لٰكِنْ مِّنْ وَاجِبِ حُقُوْقِ اللّٰهِ عَلَی الْعِبَادِ النَّصِیْحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ، وَ التَّعَاوُنُ عَلٰۤی اِقَامَةِ الْحَقِّ بَیْنَهُمْ، وَ لَیْسَ امْرُؤٌـ وَ اِنْ عَظُمَتْ فِی الْحَقِّ مَنْزِلَتُهٗ، وَ تَقَدَّمَتْ فِی الدِّیْنِ فَضِیْلَتُهٗ ـ بِفَوْقِ اَنْ یُّعَانَ عَلٰی مَا حَمَّلَهُ اللهُ مِنْ حَقِّهٖ، وَ لَا امْرُؤٌ ـ وَ اِنْ صَغَّرَتْهُ النُّفُوْسُ، وَ اقْتَحَمَتْهُ الْعُیُوْنُ ـ بِدُوْنِ اَنْ یُّعِیْنَ عَلٰی ذٰلِكَ اَوْ یُعَانَ عَلَیْهِ۔
لہٰذا اس حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے کو سمجھانا بجھانا اور ایک دوسرے سے بخوبی تعاون کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ اس لئے کہ کوئی شخص بھی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ جس کا وہ اہل ہے۔ چاہے وہ اس کی خوشنودیوں کو حاصل کرنے کیلئے کتنا ہی حریص ہو اور اس کی عملی کوششیں بھی بڑھی چڑھی ہوئی ہوں۔ پھر بھی اس نے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیا ہے کہ وہ مقدور بھر پند و نصیحت کریں اور اپنے درمیان حق کو قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ کوئی شخص بھی اپنے کو اس سے بے نیاز نہیں قرار دے سکتا کہ اللہ نے جس ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالا ہے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا جائے، چاہے وہ حق میں کتنا ہی بلند منزلت کیوں نہ ہو اور دین میں اسے فضیلت و برتری کیوں نہ حاصل ہو اور کوئی شخص اس سے بھی گیا گزرا نہیں کہ حق میں تعاون کرے یا اس کی طرف دست تعاون بڑھایا جائے، چاہے لوگ اسے ذلیل سمجھیں اور اپنی حقارت کی وجہ سے آنکھوں میں نہ جچے۔(16)
عدل کے ذریعے سنت کی حفاظت کرنا
حضرت علی عدلیہ کے میدان میں ایک عظیم نمونہ تھے۔ ان کا نظام عدل بے ریاستی اور بے طرفیت پر مبنی تھا، جہاں ہر انسان برابری اور انصاف کا حصہ تھا۔معنی عدالت
عدالت کے معنی لغت میں برابری، برابر کرنے کے ہے۔ اور عرف عام میں عدالت دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا درمقابل ظلم اصطلاح میں یہ معنی ہے: وضع کُلّ شیئ فی موضِعہ (ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا)اقسام عدالت
(الف) عدل تکوینی: خداوند متعال ہر مخلوق کو اس کی صلاحیت اور لیاقت کے مطابق عطافرماتا ہے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ہمارا پرودگار وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی اور پھر ہدایت کی۔(17)
(ب) عدل تشریعی: خداوند عالم پیغمبروں اور دینی قوانین پر مشتمل شریعت کو بھیج کر معنوی کمالات کے حصول کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی ہدایت کرتا ہے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔(18) اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔(19)عدل کی اہمیت
عَدْلُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سَبْعِينَ سَنَةً قِيَامٍ لَيْلُهَا وَ صِيَامٍ نَهَارُهَا وَ جَوْرُ سَاعَةٍ فِي حُكْمٍ أَشَدُّ وَ أَعْظَمُ عِنْدَ اَللَّهِ مِنَ اَلْمَعَاصِي سِتِّينَ سَنَةً ۔
ایک گھنٹے کا عدل ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے جس میں راتوں کو قیام اور دنوں میں روزے رکھے جائیں اور ایک گھنٹے کا ظلم خدا کے نزدیک ساٹھ سال کے گناہوں سے سخت ہے۔(20)
وَ سُئِلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
اَیُّمَاۤ اَفْضَلُ: الْعَدْلُ، اَوِ الْجُوْدُ؟ فَقَالَ :
آپؑ سے دریافت کیا گیا کہ عدل بہتر ہے یا سخاوت؟ فرمایا کہ:
اَلْعَدْلُ یَضَعُ الْاُمُوْرَ مَوَاضِعَهَا، وَ الْجُوْدُ یُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا، وَ الْعَدْلُ سَآئِسٌ عَامٌّ، وَ الْجُوْدُ عَارِضٌ خَاصٌّ، فَالْعَدْلُ اَشْرَفُهُمَا وَ اَفْضَلُهُمَا.
عدل تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ان کو ان کی حدوں سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل سب کی نگہداشت کرنے والا ہے اور سخاوت اسی سے مخصوص ہو گی جسے دیا جائے۔ لہٰذا عدل سخاوت سے بہتر و برتر ہے۔(21)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عدالت، ہم لوگوں کی مصلحت اور ہم روش پروردگار ہے۔ اور اسی طرح فرماتے ہیں کہ ’’العدل حیاۃ التبورُ ممات‘‘ عدالت حیات اور ظلم مرگ اجتماع ہے۔
عدالتِ علی علیہ السلام
حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے عدل کی یہ کیفیت تھی کہ مال سب کو مساوی تقسیم فرماتے۔ آنحضرت ؐ کا ارشاد آپ کے حق میں ہے کہ "وَاقْسمھم بالسوریۃ"(22)
خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے جب اپنی خلافت کے دوران مسلمانوں کے اموال کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا اور ان کے بعد جب حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی تو آپ سے گزارش کی گئی کہ گزری ہوئی باتوں پر توجہ نہ دیں اور نہ اس کو چھیڑیں بلکہ اپنی کوششوں کو ان حادثات پر صرف فرمائیں جو آپ کی خلافت کے زمانے میں پیش آنے والے ہیں تو آپ نے ان کے جواب میں میں فرمایا کہ (اَلْحَق القَدِیم لا یبطلہ شئی) حق قدیم اور پُرا نہ ہونے کی وجہ سے کبھی باطل نہیں ہوتا۔ ’’خدا کی قسم اگر کسی نے بیت المال سے اپنی شادی کی ہو یا کنیزیں خریدی ہو تو بھی میں اسے بیت المال میں پلٹا دوں گا‘‘ (خطبہ ۱۵) اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ (فَاِنَّ فِی الْعَدْلِ سَعَۃًوَ مَنْ ضَا قَ عَلَیْہِ الْعَدْلُ فَالْجُورُ عَلَیْہِ اَضْیَقُ)(23)
عدالت میں ہی آسانیاں ہیں جس پر عدالت سخت ودشوار ہوگی پھر ظلم و زیادتی تو اس پر دشوار تر ہوجائے گی۔ وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ فِيْمَا رَدَّهٗ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَطَآئِعِ عُثْمَانَ حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں جب مسلمانوں کو پلٹا دیں تو فرمایا: وَاللّٰهِ! لَوْ وَجَدْتُّهٗ قَدْ تُزُوِّجَ بِهِ النِّسَآءُ وَ مُلِكَ بِهِ الْاِمَآءُ لَرَدَدْتُّهٗ، فَاِنَّ فِی الْعَدْلِ سَعَةً، وَ مَنْ ضَاقَ عَلَیْهِ الْعَدْلُ، فَالْجَوْرُ عَلَیْهِ اَضْیَقُ۔
خدا کی قسم! اگر مجھے ایسا مال بھی کہیں نظر آتا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جا چکا ہوتا تو اسے بھی واپس پلٹا لیتا۔ چونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اُسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہو گی۔ (24)
وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ لِزِیَادِ بْنِ اَبِیْهِ ـ وَ قَدِ اسْتَخْلَفَهٗ لِعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَلٰى فَارِسٍ وَ اَعْمَالِهَا ـ فِیْ كَلَامٍ طَوِیْلٍ كَانَ بَیْنَهُمَا، نَهَاهُ فِیْهِ عَنْ تَقَدُّمِ الْخَرَاجِ:
جب زیاد ابن ابیہ کو عبد اللہ ابن عباس کی قائم مقامی میں فارس اور اس کے ملحقہ علاقوں پر عامل مقرر کیا تو ایک باہمی گفتگو کے دوران میں کہ جس میں اسے پیشگی مال گزاری کے وصول کرنے سے روکنا چاہا یہ فرمایا:
اِسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ، وَ احْذَرِ الْعَسْفَ وَ الْحَیْفَ، فَاِنَّ الْعَسْفَ یَعُوْدُ بِالْجَلَآءِ، وَ الْحَیْفَ یَدْعُوْۤ اِلَى السَّیْفِ۔
عدل کی روش پر چلو! بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو! کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا۔ (25)
وَ سُئِلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ اَیُّمَاۤ اَفْضَلُ: الْعَدْلُ، اَوِ الْجُوْدُ، فَقَالَ : آپؑ سے دریافت کیا گیا کہ عدل بہتر ہے یا سخاوت؟ فرمایا کہ:
اَلْعَدْلُ یَضَعُ الْاُمُوْرَ مَوَاضِعَهَا، وَ الْجُوْدُ یُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا، وَ الْعَدْلُ سَآئِسٌ عَامٌّ، وَ الْجُوْدُ عَارِضٌ خَاصٌّ، فَالْعَدْلُ اَشْرَفُهُمَا وَ اَفْضَلُهُمَا۔
عدل تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ان کو ان کی حدوں سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل سب کی نگہداشت کرنے والا ہے اور سخاوت اسی سے مخصوص ہو گی جسے دیا جائے۔ لہٰذا عدل سخاوت سے بہتر و برتر ہے۔ (26)حوالہ جات
1۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 232
2۔ سنن أبي داود: ۳/۳۱۸/۳۶۴۶كتاب العلم، امام ابو داؤد سلیمان ابن اشعث سحبستانی ترجمہ ابو عمار عمر فاروق سعیدی، اشاعت اول /اگسٹ ۲۰۲۱ مطبع گلشن آفیسٹ پرنٹرس
3۔ الذہبی، تذکرۃ الحفاظ جلد 1 صفحہ ۹، طبع اولیٰ الامام شمس الدین محمد ابن احمد ابن عثمان الذھنی متوفیٰ ۷۴۸ ھ اشاعت مکتب الرحمانی اردو بزار لاہور
4۔ جامع العلم و فضلہ جلد1 صفحہ ۲۷۴ ابی عمر یوسف ابن عبد البر متوفیٰ ۴۶۳ ھ
5۔ الطبقات الكبرى، لابن سعد: ۵/۱۴۳، محمد ابن سعد ابن الھاشمی البصری معروف ابن سعد دراسۃ و تحقیق محمد عبد القادر عطا اشاعت دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
6۔ سنن الدارمی، جلد 1 صفحہ 85، الامام الکبیر ابو محمد عبد اللہ ابن عبد الرحمان بن الٖفضل بن بھرام الدارمی، متوفیٰ ۲۵۵ ھ اشاعت دار الکتن العلمیہ
7۔ الکامل فی ضعفاء الرجال، ابن عدی: جل 1 صفحہ 82، امام حافظ ابو احمد عبد اللہ ابن عدی الجرجانی متوفیٰ ۳۶۵ ھ
8۔ الخطیب البغدادی: صفحہ 112، تقیید العلم مؤلف الاما م الحافظ ابو بکر احمد ابن علی بن ثابت الخطیب البغدادی تحقیق عبد الغفا رعلی
9۔ حار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ج ۴۰، ص ۱۶۰
10۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ج ۲، ص ۱۵۱
11۔ نہج البلاغہ، مکتوب (۷۷)
12۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، ج ۲ ص ۱۶۱
13۔ تذکرۃ الحفاظ جلد ۱صفحہ ۱۴
14۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۰۸
15۔ نہج البلاغہ حکمت۹۸
16۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 214۔
17۔ سورہ طہٰ آیہ ۵۰۔
18۔ سورہ النحل آیہ ۹۰۔
19۔ سورہ البقرہ آیہ ۸
20۔ بحار الانوار الجامعۃ لدرر الاخبار الائمۃ الاطھار علیھم السلام، ج۷۲، ص ۳۵۲، علامہ محمد باقر مجلسی
21۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۳۷
22۔ بحار الانوار الاجامعۃ لدرر الاخبار ائمۃ الاطھار علیھم السلام جلد نمبر ۳۸، صفحہ ۲۳۰
23۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵
24۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۵
25۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۷۶
26۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر۴۳۷
