زینب (س) بقائے دین رسالت کا نام ہے
تحریر: سیدہ زہراء شیرازی
ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ گلیاں خاموش، کوچے ویران، ہر دل میں اداسی کا ڈیرہ تھا۔ بات ہی ایسی تھی، یہ گھرانہ ہی نہیں پوری امت یتیم ہوئی تھی۔ سایہ محبت کیا اٹھا، دین خدا اور بندگان خدا یکدم ہی کڑی دھوپ میں آگئے۔ اس گھر میں تو قیامت گزری تھی۔ جہاں رسول خدا (ص) پانچ دفعہ اس گھرانے کے مکینوں پر سالم بھیجتے تھے۔ سلمان جو کہ اہل بیت میں سے قرار دیئے گئے تھے، پریشان تھے، اتنے کہ بے چینی حد سے سوا تھی۔ دل تھا کہ کسی طور ٹھرتا ہی نہ تھا۔ اتنے بڑے نقصان پر بنت رسول کا سامنا کرنے سے گریزاں، سلمان درماندہ پھر رہے تھے۔ آخر کیونکر بنت رسول کا سامنا کریں، کیسے تعزیت کریں، کیسے ان کا غم دیکھیں، بہت ہمت جمع کی، بہت سوچا۔۔۔ بہت تفکر کیا! اخرکار خانہ بنت رسول میں آئے۔ غم و حزن، حسرت و یاس، گھر کے در و دیوار میں مجسم نظر آئے۔ آخر سلسلہ وحی بند ہوا تھا۔ اس بیٹی کے سر سے سایہ پدری اٹھا تھا، جو رحمت للعالمین کے لیے رحمت تھی، کیونکر جدائی کا داغ سہتی۔
ہمت جمع کی۔ اپنی عرض جناب امیر (ع) کو پیش کی۔ جناب فاطمہ (س) آئیں۔ آخرکار سامنا ہوا! یا بنت نبی (ص)! کیسے آپ کو تعزیت پیش کی جائے کہ یہ غم سہنا مقدر ٹھرا! یہ جدائی جو دلوں سے زندگی کا احساس چھین لیتی ہے۔ غم، حسرت، یاس، یتیمی، کیا کیا دکھ نہ تھے، جو روئے مبارک مخدومہ کائنات پر عیاں نہ تھے۔ پس پردہ گویا ہوئیں۔ اے سلمان! تم سب نے کیسے گوارا کر لیا کہ اس پاک چہرے پر مٹی ڈالو! کیسے رخ مصطفی (ص) کو دفن کرکے آگئے۔۔۔۔۔ بخدا نوحہ، گریہ، حسرت، بے بسی کیا کچھ اس جملے میں پوشیدہ نہیں تھا۔۔ شاید دنیا کا کوئی نوحہ، گریہ، مرثیہ اس غم کی ترجمانی نہ کر پائے، نہ آج تک کوئی کرسکا۔ پھر چشم فلک نے محض پچھتر دن بعد اس بیٹی کو رفتہ رفتہ قبر کی جانب جاتے ہوئے دیکھا! حتی کہ بنت نبی مرثیہ، “صرنا لیالیا” پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
اب کربلا کے مجاہدے کی باری ہے۔ امام عالی مقام نے اپنی چار سالہ سکینہ کو سپرد خدا کیا۔ سکینہ دعائیں کر رہی ہیں کہ بابا صحیح سالمت واپس آجائیں۔۔۔ ایسے میں سر سے پائوں تک لہو میں ڈوبے ہوئے شہادت امام کی خبر دینے زخمی ذوالجناح در خیمہ پر موجود ہے۔ بے زبان نے نہ جانے کتنے تیر کھائے ہیں۔ کتنے ظلم سہے! کیسے کیسے اپنے سوار کو بچانے کی کوشش نہ کی! مگر بے بسی نے امام کو قتل ہوتے دکھایا۔ سر نیہوڑائے در خیمہ پر پہنچا۔۔ کرب و الم سے فریاد آسمان تک پہنچتی تھی۔ بیبیوں نے حلقہ ماتم میں لیا۔۔ گریہ کیا۔ لیکن ایک کونے میں کھڑی سکینہ اپنے معصوم سوالوں کے جواب خود ہی تلاش کرتی رہیں۔۔۔ جب کچھ بن نہ پایا تو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتیں ذوالجناح کے قریب آئیں۔ اور گویا ہوئیں۔۔۔ اے ذوالجناح! کیا وقت ذبح میرے بابا کو پانی ملا یا پیاسے ہی ذبح کر دیئے” پھر آخرکار ایک منظر شام کے زندان نے دیکھا کہ بابا کی جدائی کے مرض میں مبتلا سکینہ، درد ہجر پدر برداشت نہ کر پائیں۔۔ اور اپنے بابا سے جا ملیں۔۔۔۔
درد کا سلسلہ رکتا نہیں۔۔۔ زینب بنت علی، نانا کی وفات، ماں کی بے کسی اور شہادت، پھر بابا کا زخمی سر، بھائی کے جگر کے ٹکڑے، پھر تیروں کی برسات میں زخمی ہوا لاشہ حسن (ع)، سب دیکھ چکی ہیں۔۔۔ اب باری ہے ذبح عظیم کی۔۔۔ انصار، بھائی، بیٹے بھتیجے، بھانجے، بیٹے سب کی قربانیوں کے بعد شہادت امام عالی مقام (ع) کا مرحلہ ہے۔ انتہائے کرب و اذیت و الم و مصائب میں اپنا حوصلہ برقرار رکھنے والی علی کی علی بیٹی شام غریباں ہر دل کی ڈھارس اور آس ہیں۔ زینب اب زینب نہیں، عباس ہیں۔۔۔ گو کہ حوصلہ امام عالی مقام میں بھی کم نہ تھا۔ ماں، باپ، بھائی، بھتیجے، بیٹے، بھانجے، اصحاب و انصار سب کی شہادتیں دیکھیں، بیمار بیٹے کی بے بسی اور بیماری، آئندہ مصائب کا نوحہ تھی۔ کیسے بہن اور بیٹی کو چھوڑ کر جانا پڑا! لیکن حوصلہ نہ تھا کہ جہاد اکبر کا مرحلہ دیکھتے!! دوبارہ در زہراء کو جلتا ہوا دیکھتے۔
لیکن زہرا (س) کی مظلوم بیٹی! کون سا مصائب کا کوہ گراں نہ تھا، جو زینب (س) نے سر نہ کیا۔۔۔۔ خیبر شکن باپ کی بیٹی نے ظلمتوں کے گہرے بادلوں کو فنا کیا۔ جبر کی زنجیروں کو اپنے پا بہ زنجیر ہاتھوں سے کاٹ ڈالا۔ ظلم کے شعلوں کو اپنے صبر و استقامت سے بجھایا۔۔۔ رہتی دنیا تک انتظام ہدایت کیا۔ استبداد کے ستونوں کو گرایا۔ لیکن۔۔۔ اسقدر مصائب و الم کے باوجود، صبر زہرا و علی (ع) کے با وصف، بعد کربلا دین کی سرحدوں کا دفاع کیا۔۔۔ علی (ع) یعسوب الدین ہیں، زینب یعسوب الشریعت بن گئیں۔۔ حتی کہ سخت مشکل میں بھی اذہان انسانی میں وسوسہء شیطانی پیدا کرنے والوں نے قتل حسین کے مذموم اور ناپاک فعل کو ارادہء خداوندی میں ملفوف کرنے کی کوشش کی تو زینب بنت علی (ع) نے گستاخی کرنے والی زبانوں کو خاموش کروایا۔
تعارف توحید آپکی زبان سے جاری ہوا اور توحید پرستی آپ کے عمل سے واضح ہوئی اور اس مصیبت میں بھی فرماتی ہیں۔۔ میں نے خدا سے بجز خیر و زیبائی کے کچھ نہ پایا” بے شک کربلا ہدایت ہے اور ذات زینب بنت علی وہ شمع ہدایت ہیں، جس کی روشنی ہدایت کے متلاشیوں کو کبھی گمراہ نہیں ہونے دیتی۔۔۔ جو محافظ حرمت دین خدا و مقصد حسین علیہ السلام ہیں اور ان کی مجاہدت کے سبب دین خدا کے راستے روشنی سے منور ہوئے اور اسی روشنی کے فیض سے عالم معرفت جگمگا رہا ہے۔