سوال:
روز عاشورا امام حسین(ع) کی شھادت کے بعد عالم کائنات میں کون کون سے حوادث و واقعات رونما ہوئے؟
جواب:
1- آسمان کے ستاروں کا آپس میں ٹکرانا:
2- آسمان نے خون کے اشک بہائے:
3- آسمان کا گریہ کرنا:
4- دنیا کا تاریک ہو جانا:
5- آسمان کا سرخ ہو جانا:
6- دار الامارۃ کی دیوار نے خون کے اشک بہائے:
7- سورج کو گرہن لگنا:
8- پتھروں کے نیچے سے تازے خون کا جاری ہونا:
9- جڑی بوٹیوں کا خاک میں تبدیل ہو جانا:
10- امام حسین(ع) سے غنیمت میں لیے گئے اونٹ کے گوشت کا کڑوا ہو جانا:
11- امام حسین(ع) سے غنیمت میں لیے گئے اونٹ کے گوشت سے آگ کا دکھائی دینا۔
تفصیلی جواب:
شیعیان کا عقیدہ ہے کہ امام اور رسول خدا(ص) کا جانشین بنانا اور نصب کرنا یہ خداوند کا کام ہے۔ لوگوں کو اس کام میں کسی قسم کی دخالت کی اجازت اور ضرورت نہیں ہے۔ جس کہ طرح نبی اور رسول کا انتخاب خداوند کا کام ہے اور لوگوں کو اس میں کوئی حق انتخاب حاصل نہیں ہے۔ قرآن کی بہت سی آیات میں یہ مطلب بیان ہوا ہے۔
خداوند نے حضرت ابراھیم(ع) کی امامت کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
إِنِّی جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماما۔ البقره / 124.
میں نے آپ کو لوگوں کے لیے امام بنایا ہے۔
ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ:
وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ وَ كلاًُّ جَعَلْنَا نَبِيًّا. مريم / 49.
ہم نے اسحاق اور یعقوب کو اس کو بخشا ہے اور ہر ایک کو ہم نے نبی بنایا ہے۔
اس آیت کے مطابق حضرت ابرھیم کو امام بنانا یہ خدا کے اختیار میں ہے۔ جس طرح کہ نبی بنانا بھی خدا کے اختیار میں ہے۔ قرآن کی کسی بھی آیت میں خداوند نے نبی اور امام بنانے کا حق لوگوں کے سپرد نہیں کیا۔
شیعوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح انبیاء کو اپنی نبوت اور رسالت کو ثابت کرنے کے لیے معجزے اور خارق العادۃ(غیر معمولی) کام کے دکھانے اور انجام دینے کی ضرورت ہے، اسی انبیاء کے اوصیاء اور جانشینوں کو بھی اپنی جانشینی اور امامت کو ثابت کرنے کے لیے کرامت اور خارق العادۃ(غیر معمولی) کام کو دکھانے اور انجام دینے کی ضرورت ہے تا کہ لوگ ان کی بات پر یقین کر کے انکی امامت کو قبول کر لیں ورنہ انکی امامت کی کوئی تصدیق اور قبول نہیں کرے گا۔
آئمہ اہل بيت(ع) میں سے ہر ایک کے پاس معجزے اور کرامات تھیں کہ لوگ ان کو دیکھ کر انکی بات کو مان کر انکی امامت کو قبول کر لیتے تھے۔
امام حسین(ع) کے پاس بھی معجزے اور بہت سی کرامات تھیں انکی زندگی میں اور حتی انکی شھادت کے بعد بھی ان کے وجود مقدس سے کرامات ظاہر ہوتی رہی ہیں کیونکہ امام حسین(ع) امام از طرف خداوند، معصوم اور اپنے بھائی امام حسن(ع) کی شھادت کے بعد امام بنے تھے اور محال ہے کہ خداوند ان معجزات اور کرامات کو کسی نا اہل اور جھوٹا امامت کا دعوی کرنے والے کو دے دے کیونکہ اگر ایسا ہو تو لوگوں کو گمراہ کرنے میں اس جھوٹے نبی یا امام کے ساتھ خداوند بھی شریک ہو گا۔( نعوذ باللہ)۔
اس تحریر میں ہم امام حسین(ع) کے ان معجزات کو بیان کرتے ہیں جو ان کی شھادت کے بعد رونما ہوئے ہیں۔ یہ وہ معجزات ہیں کہ ہر عقل مند انسان کی عقل ان کو مشاہدہ کر کے حیران رہ جاتی ہے۔ حق اور باطل واضح ہونے اور ہدایت کے طالب انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہ معجزات کافی ہیں۔
1- آسمان کے ستاروں کا آپس میں ٹکرانا:
عن عيسي بن الحارث الكندي، قال: لما قتل الحسين مكثنا سبعة أيام إذا صلينا فنظرنا إلي الشمس علي أطراف الحيطان كأنها الملاحف المعصفرة، ونظرنا إلي الكواكب يضرب بعضها بعضا.
عیسی بن حارث کندی کہتا ہے کہ: جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو سات دن تک جب بھی ہم عصر کی نماز پڑھتے تو دیکھتے کہ سورج کی وہ شعاعیں جو گھروں کی دیواروں پر پڑتی ہیں اس قدر سرخ تھیں کہ گویا سرخ رنگ کی چادریں دیواروں پر ڈالی ہوئی ہیں اور ہم دیکھتے تھے کہ بعض ستارے آپس میں ٹکراتے رہتے تھے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 432 – 433
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 227.
2- آسمان نے خون کے اشک بہائے:
عَنْ نَضْرَةَ الْأَزْدِيَّةِ قَالَتْ: لَمَّا أَنْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بن علي(عليهما السلام) مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً فَأَصْبَحْتُ وَ كُلُّ شَيْ ءٍ لَنَا مَلْآنُ دَما ۔
نضرۃ ازدیہ کہتا ہے کہ: جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو آسمان سے خون برستا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ ہمارے گھر کی تمام چیزیں اور سامان خون آلود ہو گئی تھیں۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312، 313
الثقات، ابن حبان، ج 5، ص 487
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 227 – 228
جعفر بن سليمان قال حدثني خالتي أم سالم قالت لما قتل الحسين بن علي مطرنا مطرا كالدم علي البيوت والجدر قال وبلغني أنه كان بخراسان والشام والكوفة۔
جعفر بن سلیمان کہتا ہے کہ میری خالہ ام سالم نے کہا ہے کہ: جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو خون کی بارش گھروں اور دیواروں پر برستی تھی اور کہا کہ مجھے خبر ملی ہے یہی خون والی بارش شام، خراسان اور کوفہ میں بھی برسی تھی۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433 – 434
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312 – 313
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 16
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 228 – 229
3- آسمان کا گریہ کرنا:
عن ابن سيرين قال لم تبك السماء علي أحد بعد يحيي بن زكريا إلا علي الحسين بن علي.
ابن سرین نے کہا کہ: آسمان نے حضرت یحیی بن زکریا اور امام حسین(ع) کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے گریہ نہیں کیا۔
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 225 – 226
4- دنیا کا تاریک ہو جانا:
حدثنا خلف بن خليفة، عن أبيه، قال: لما قتل الحسين اسودت السماء، وظهرت الكواكب نهارا حتي رأيت الجوزاء عند العصر وسقط التراب الأحمر.
خلف بن خلیفہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ: جب امام حسین(ع) شھید ہو گئے تو آسمان اتنا تاریک ہو گیا کہ دوپہر کے وقت آسمان پر ستارے ظاہر ہو گئے۔ یہاں تک کہ ستارہ جوزا دوپہر کے وقت دیکھا گیا اور سرخ رنگ کی خاک آسمان سے گری تھی۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 431 – 432
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 226
وقال: وقال علي بن مسهر، عن جدته: لما قتل الحسين كنت جارية شابة، فمكثت السماء بضعة أيام بلياليهن كأنها علقة.
علی بن مسھر اپنی جدّہ سے نقل کرتا ہے کہ: جب امام حسین(ع) شھید ہوئے تو میں اس وقت ایک جوان لڑکی تھی۔ اس وقت آسمان سے چند دن اور چند رات خون کے لوتھڑے برستے تھے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 432
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 226
5- آسمان کا سرخ ہو جانا:
وقال علي بن محمد المدائني، عن علي بن مدرك، عن جده الأسود بن قيس: احمرت آفاق السماء بعد قتل الحسين بستة أشهر، نري ذلك في آفاق السماء كأنها الدم. قال: فحدثت بذلك شريكا، فقال لي: ما أنت من الأسود؟، قلت: هو جدي أبو أمي قال: أم والله إن كان لصدوق الحديث، عظيم الأمانة، مكرما للضيف.
علی بن مدرک اپنے نانا اسود بن قیس سے نقل کرتا ہے کہ: پورا آسمان امام حسین(ع) کی شھادت کے بعد چھے ماہ تک سرخ رنگ کا ہو گیا تھا۔ ہم آسمان کو خون کی طرح دیکھتے تھے۔
علی بن محمد مدائنی نے اس سے سوال کیا کہ تمہارا اسود سے کیا رشتہ ہے؟ اس نے کہا وہ میری ماں کے بابا ہیں۔ اس نے کہا خدا کی قسم کہ وہ ایک سچّا، امانت دار اور مہمان نواز بندہ تھا۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 432
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 227
وقال عباس بن محمد الدوري، عن يحيي بن معين: حدثنا جرير، عن يزيد بن أبي زياد، قال: قتل الحسين ولي أربع عشرة سنة، وصار الورس الذي كان في عسكرهم رمادا واحمرت آفاق السماء ونحروا ناقة في عسكرهم فكانوا يرون في لحمها النيران۔
یزید بن ابی زیاد کہتا ہے کہ: جب میں چودہ سال کا تھا کہ امام حسین(ع) کو شھید کیا گیا۔ جڑی بوٹیاں لشکر کے درمیان مٹی میں تبدیل ہو گئی اور پورا آسمان سرخ ہو گیا۔ جب لشکر والوں نے ایک اونٹ کو ذبح کیا تو اس کے گوشت سے آگ کے شعلے نکلتے تھے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 434 – 435
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 313
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 230
عن هشام عن محمد قال تعلم هذه الحمرة في الأفق مم هو فقال من يوم قتل الحسين بن علي.
ہشام نے محمد سے نقل کیا ہے کہ: کیا تم جانتے ہو کہ آسمان کب سے سرخ ہوا ہے؟ جس دن حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا اس دن سرخی کو آسمان پر دیکھا گیا تھا۔
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 228
6- دار الامارۃ کی دیوار نے خون کے اشک بہائے:
حدثني أبو يحيي مهدي بن ميمون قال: سمعت مروان مولي هند بنت المهلب، قال: حدثني بواب عبيد الله بن زياد أنه لما جئ برأس الحسين فوضع بين يديه، رأيت حيطان دار الامارة تسايل دما۔
جب امام حسین(ع) کے مبارک سر کو ابن زیاد کے سامنے رکھا گیا تو میں نے دیکھا کہ دار الامارۃ کی دیواروں سے خون جاری ہو گیا۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433 – 434
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 229
7– سورج کو گرہن لگنا:
عَن أَبُو قَبِيلٍ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ(عليه السلام) كُسِفَتِ الشَّمْسُ كَسْفَةً بَدَتِ الْكَوَاكِبُ نِصْفَ النَّهَارِ حَتَّي ظَنَنَّا أَنَّهَا هِي
جب امام حسین(ع) کو شھید کیا گیا تو سورج کو گرہن لگ گیا اور اس قدر اندھیرا ہو گیا کہ دوپہر کے وقت آسمان پر ستارے نظر آنے لگے۔ میں نے اس واقعے سے یہ سمجھا کہ قیامت آ گئی ہے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 228
تلخيص الحبير، ابن حجر، ج 5، ص 84
السنن الكبري، البيهقي، ج 3، ص 337
8- پتھروں کے نیچے سے تازے خون کا جاری ہونا:
( وقال) يعقوب بن سفيان ثنا سليمان ابن حرب ثنا حماد بن زيد عن معمر قال َ أَوَّلُ مَا عُرِفَ الزُّهْرِيُّ تَكَلَّمَ فِي مَجْلِسِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَقَالَ الْوَلِيدُ أَيُّكُمْ يَعْلَمُ مَا فَعَلَتْ أَحْجَارُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ يَوْمَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ فَقَالَ الزُّهْرِيُّ بَلَغَنِي أَنَّهُ لَمْ يُقْلَبْ حجرا إِلَّا وَ تَحْتَهُ دَمٌ عَبِيط.
ابو بکر بیھقی نے معروف سے روایت کی ہے کہ ولید بن عبد الملک نے زہری سے پوچھا کہ جس دن امام حسین(ع) کو قتل کیا گیا اس دن بیت المقدس کے پتھروں کی کیا حالت تھی؟ زہری نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ امام حسین(ع) کی شھادت والے دن جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا اس کے نیچے سے تازہ خون نکلتا ہوا نظر آتا تھا۔
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 434
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 314
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 16
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 229
عَنْ أُمِّ حَيَّانَ قَالَتْ يَوْمَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ أَظْلَمَتْ عَلَيْنَا ثَلَاثاً وَ لَمْ يَمَسَّ أَحَدٌ مِنْ زَعْفَرَانِهِمْ شَيْئاً فَجَعَلَهُ عَلَي وَجْهِهِ إِلَّا احْتَرَقَ وَ لَمْ يُقَلَّبْ حَجَرٌ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ إِلَّا أَصْيب تَحْتَهُ دَماً عَبِيطا۔
ام حیان سے نقل ہوا ہے کہ: امام حسین(ع) کی شھادت والے دن آسمان تین دن اور تین رات تاریک ہو گیا تھا اور جو بھی زعفران کو ہاتھ لگاتا تھا اس کا ہاتھ جل جاتا تھا اور بیت المقدس میں ہر پتھر کے نیچے سے خون نظر آتا تھا۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 434
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 229
محمد بن عمر بن علی عن أبيه قال أرسل عبد الملك إلي ابن رأس الجالوت فقال هل كان في قتل الحسين علامة قال ابن رأس الجالوت ما كشف يومئذ حجر إلا وجد تحته دم عبيط
عبد الملک نے ایک بندے کو راس الجالوت کے بیٹے کے پاس بیجھا تا کہ اس سے پرچھے کہ کیا امام حسین(ع) کے قتل ہونے کی کوئی علامت دنیا میں دیکھی گئی ہے یا نہیں؟ اس نے جواب میں کہا کہ: علامت یہ ہے کہ اس وقت جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون دکھائی دیتا تھا۔
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 16
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 229 – 230
9- جڑی بوٹیوں کا خاک میں تبدیل ہو جانا:
( وقال) ابن معين حدثنا جرير ثنا يزيد بن أبي زياد قال قتل الحسين ولي أربع عشرة سنة وصار الورس الذي في عسكرهم رمادا.
یزید بن ابی زیاد کہتا ہے کہ:: جب میں چودہ سال کا تھا کہ امام حسین(ع) کو شھید کیا گیا۔ اس وقت جڑی بوٹیاں لشکر کے درمیان مٹی میں تبدیل ہو گئی تھیں۔
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 434 – 435
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 313
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 230
( وقال) الحميدي عن أبن عيينة عن جدته أم أبيه قالت لقد رأيت الورس عاد رمادا ولقد رأيت اللحم كأن فيه النار حين قتل الحسين.
ابن عیینہ نے اپنی دادی سے نقل کیا ہے کہ: امام حسین(ع) کی شھادت کے وقت ایک جڑی بوٹی ہے بنام ورس، وہ مٹی میں تبدیل ہو گئی اور گوشت میں آگ نظر آتی تھی۔
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 435
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 313
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 16
وقال محمد بن المنذر البغدادي، عن سفيان بن عيينة: حدثتني جدتي أم عيينة: أن حمالا كان يحمل ورسا فهوي قتل الحسين، فصار ورسه رمادا.
ام عيينہ کہتا ہے کہ: ایک شخص ورس کی جڑی بوٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں آیا کہ میں بھی حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے شرکت کروں گا اسی وقت وہ جڑی بوٹی خاک میں تبدیل ہو گئی۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 435
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 231
أخبرنا أبو محمد السلمي أنا أبو بكر الخطيب وأخبرنا أبو القاسم بن السمرقندي أنا أبو بكر قالا أنا أبو الحسين أنا عبد الله نا يعقوب نا أبو نعيم نا عقبة بن أبي حفصة السلولي عن أبيه قال إن كان الورس من ورس الحسين يقال به هكذا فيصير رمادا.
ورس: وہ ایک جڑی بوٹی ہے جو مانند تل کے دانوں کی طرح ہے سبز پتوں کے ساتھ کہ اس کے رنگ سے کپڑوں وغیرہ کو رنگ کیا جاتا ہے۔ یہ یمن میں زیادہ ہوتی ہے۔ ورس کا لباس یعنی سرخ لباس۔
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 230 – 231
10– امام حسین(ع) سے غنیمت میں لیے گئے اونٹ کے گوشت کا کڑوا ہو جانا:
عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ أَصَابُوا إِبِلًا فِي عَسْكَرِ الْحُسَيْنِ(عليه السلام) يَوْمَ قُتِلَ فَنَحَرُوهَا وَ طَبَخُوهَا قَالَ فَصَارَتْ مِثْلَ الْعَلْقَمِ فَمَا اسْتَطَاعُوا أَنْ يُسِيغُوا مِنْهَا شَيْئا.
جمیل بن مرہ کہتا ہے کہ: اس اونٹ کو کہ جس کو امام حسین(ع) کے لشکر سے لوٹ کر لے گئے تھے پھر جب اس کو نحر کر کے کھانے کے لیے پکایا گیا تو وہ اتنا کڑوا ہو گیا کہ بالکل اس کو کھایا نہ جا سکا۔
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 306
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 435 – 436
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 16
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 231
وقال محمد بن عبد الله الحضرمي: حدثنا أحمد بن يحيي الصوفي، قال: حدثنا أبو غسان، قال: حدثنا، أبو نمير عم الحسن ابن شعيب، عن أبي حميد الطحان، قال: كنت في خزاعة فجاؤوا بشئ من تركة الحسين فقيل لهم: ننحر أو نبيع فنقسم؟ قالوا: انحروا، قال: فجعل علي جفنة فلما وضعت فارت نارا.
حمید طحان سے روایت ہوئی ہے کہ: میں قبیلہ خزاعہ میں تھا۔ ان چیزوں میں سے کہ جن کو امام حسین(ع) سے لوٹا گیا اور قبیلے میں لایا گیا، ایک اونٹ تھا۔ اس قبیلے کے لوگوں نے کہا کہ اس اونٹ کو نحر کریں یا فروخت کر دیں؟ جو لوٹ کر لایا تھا اس نے کہا کہ میں اس کو نحر کرنا چاہتا ہوں۔
حمید نے کہا کہ: جب اس اونٹ کو نحر کرنے کے لیے تیار کیا تو اس نے اپنی ڈھال کو زمین پر رکھا۔ جب میں اس کو نحر کر رہا تھا کہ اچانک ڈھال سے پانی کی طرح آگ نکلنا شروع ہو گئی۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 435 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 231.
( وقال) ابن معين حدثنا جرير ثنا زَيْدِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ قَالَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ وَ لِي أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً وَ صَارَ الْوَرْسُ رَمَاداً الَّذِي كَانَ فِي عَسْكَرِهِمْ وَ احْمَرَّتْ آفَاقُ السَّمَاءِ وَ نَحَرُوا نَاقَةً فِي عَسْكَرِهِمْ فَكَانُوا يَرَوْنَ فِي لَحْمِهَا النِّيرَان.
بن معین نے جریر اور اس نے یزید بن زیاد سے روایت کی ہے کہ: جس سال امام حسین(ع) کو شھید کیا گیا میری عمر چودہ سال تھی۔ انہی دنوں میں نے سنا کہ قاتلین کے لشکر میں کچھ آثار ظاہر ہوئے ہیں اس شھادت کی وجہ سے ان میں سے ایک اثر یہ تھا کہ ورس کی جڑی بوٹی خاک میں تبدیل ہو گئی، آسمان سرخ ہو گیا اور لشکر میں جب اونٹ کو ذبح کیا گیا تو اتنا گرم تھا کہ گویا اس میں آگ لگی ہوئی ہے۔
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305 و تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 434 – 435 و سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 313 و تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 230