تحریر: انور علی راہی (جامعۃ المصطفیٰ کراچی)

آج امتِ مسلمہ میں پھیلی ہوئی انتشار پسندی اور تفرقہ بازی تنزلی و زوال کا بڑا سبب بن چکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے لیے سب سے زیادہ رنج و غم کا باعث یہی ہے کہ امتِ مصطفیٰ اختلاف و نفاق کا شکار ہے۔ ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پر خوشیاں تو مناتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقیقی مسرت کس چیز میں ہے۔ وہ رسول جن کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:

"مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ۚ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ” (الفتح: 29) ترجمہ: محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت مہربان ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ان پر تعلیمات کے اثرات نے جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو ضلالت سے نکال کر ہدایت و کرامت پر گامزن کیا۔ مگر آج امت پر ڈھائے جانے والے مظالم سب کے سامنے ہیں، اور افسوس کہ باہمی تفرقہ و انتشار وحدت و اخوت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔

علامہ اقبال ؒنے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

ہو حلقۂ یاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

وحدت و اخوت کی حقیقت:

وحدت کا مطلب یہ نہیں کہ تمام مسلمان اپنے اعتقادات و مسالک کو چھوڑ دیں، اور نہ ہی یہ کہ اپنے عقائد کو دوسروں پر زبردستی مسلط کریں۔ اسی طرح وحدت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی ایک گروہ یا جماعت کے جھنڈے تلے سب جمع ہو جائیں۔
بلکہ وحدت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمان مشترکات پر ایک ہو جائیں، اختلافی مسائل کو اپنے مخصوص دائرے تک محدود رکھیں، ایک دوسرے کی مقدسات کا احترام کریں اور مشترکہ دشمن کے مقابلے میں صفِ واحد بن جائیں۔ یہی حکمت عملی امت کو ترقی اور دشمنانِ اسلام سے نجات دلانے کا راستہ ہے۔

سیرتِ رسول (ص) اور عقدِ اخوت
مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے سب سے پہلا عملی قدم مسلمانوں کے درمیان اخوت قائم کرنا اٹھایا۔ مہاجرین اور انصار، جو پہلے ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے، حضور (ص)کی حکمت عملی سے بھائی بھائی بن گئے۔ یہ صرف ایک دعویٰ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ذمہ داریوں اور حقوق کی تقسیم تھی۔

قرآن مجید میں فرمایا گیا: "وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ” (النساء: 64) ترجمہ: ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

لہٰذا، حضور اکرم (ص )صرف نصیحت کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ ان کی اطاعت کے ذریعے ایک منظم اور متحد معاشرہ قائم کرنے کے لیے آئے تھے۔

قرآن کا پیغامِ وحدت
قرآن بار بار تفرقے اور نزاع سے روکتا ہے:

"وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ” (الانفال: 46)
ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ تم کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری شان و شوکت جاتی رہے گی۔

اسی طرح قرآن یہ بھی کہتا ہے:

"وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا” (آل عمران: 105)
ترجمہ: ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو اختلاف اور تفرقہ بازی میں پڑ گئے۔

وحدت میں رکاوٹیں
اسلام نے واضح کر دیا کہ ایمان اور فسق برابر نہیں ہوسکتے:

"اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسۡتَوٗنَ” (السجدہ: 18)

لہٰذا وحدت کے لیے پہلے اخلاقی و روحانی تزکیہ ضروری ہے۔ بدقسمتی سے آج علماء اور امت میں وحدت کی کمی کی بڑی وجہ اخلاقی کمزوری ہے۔

نتیجہ
رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیمات میں وحدت و اخوت کی بنیادی اہمیت ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا، کہ جس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرا بے چین ہو جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمان وحدت و اخوت کے پرچم تلے جمع ہوئے تو دنیا کی سب سے عظیم قوم بن گئے، اور جب تفرقے میں پڑے تو ذلت ان کا مقدر بن گئی۔
آج امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکات پر متحد ہو، ایک دوسرے کی مقدسات کا احترام کرے اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں یک جان ہو کر کھڑی ہو۔ یہی رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حقیقی تعلیم اور ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے