محقق: حسن رضا روحانی

چکیدہ
دشمنی کی تعریف یہ ہے کہ دشمن وہ ہوتا ہے جو شعور کے ساتھ اپنے مدمقابل سے اس انداز میں پیش آئے کہ اگر مدمقابل کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کو اس بات کا کوئی خیال نہ ہو۔ دوستی ایک مثبت رشتہ ہے جو دو افراد یا گروہوں کے درمیان بنتا ہے۔ یہ ایک شدید اتحاد ہوتا ہے جس میں اعتماد، علاقہ مندی اور احترام کا اظہار ہوتا ہے۔ دوستان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں مناتے ہیں اور مشترکہ تفریحوں اور مصالحتوں کا حصہ بنتے ہیں۔
دشمنی دو افراد یا گروہوں کے درمیان منفی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ رشتہ تشدد، حقارت،عناد اور عداوت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ دشمن ایک دوسرے سے حق لینے کی کوشش کرتے ہیں، ایک دوسرے کو قدرتی یا ذاتی خوابوں پر حملہ کرتے ہیں اور دوسرے کے ساتھ تنازعہ پیدا کرتے ہیں۔

کلیدی الفاظ
اتحا،دوستی، دشمنی،عناد، علاقہ مندی

تمہید
انسان اجتماعی اور معاشرتی زندگی گزارتاہے اور اس کی زندگی میں بہت سے رشتے اور تعلقات ہوا کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا الگ مقام اور ہر ایک کی اپنی حیثیت ہوا کرتی ہے۔ ان رشتوں میں کچھ رشتے تو خدا داد ہوتے ہیں یعنی ان میں انسان کی مرضی اور اختیار کا دخل نہیں ہوتا ہے جیسے ماں باپ، بھائی، بہن، گھر، خاندان، وغیرہ لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان پوری طرح سے خود مختار ہوتا ہے،ایسے رشتوں میں سے ایک رشتہ "دوستی "ہے۔ دوستی انسان کی عقل و فکر کی ایک حد تک عکاسی کرتی ہے، غالباً یہ حدیث ہی کا مفہوم ہے کہ ’’کسی شخص کو پہچاننا ہو تو اس کے ہم نشینوں کو دیکھو‘‘ تو اس طرح دوستی بھی ایک ایسا رشتہ ہے کہ جو انسان کی شخصیت بنانے اور بگاڑنے میں کافی حد تک موثر ہے۔ دوست ایک ایسی شخصیت ہے جو انسان سے سب سے زیادہ نزدیک اور قریب ہوتے ہے کیونکہ یہ دوست ہم سن و سال اور ہم فکر و ہم مزاج ہو تا ہے۔

دشمنی کا مفہوم
دشمنی کی تعریف یہ ہے کہ دشمن وہ ہوتا ہے جو شعور کے ساتھ اپنے مدمقابل سے اس انداز میں پیش آئے کہ اگر مدمقابل کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کو اس بات کا کوئی خیال نہ ہو۔ یہ موجود انسان بھی ہوسکتا ہے اور غیر انسانی مخلوق مثلاً جن یا شیطان۔ وہ ہر اس کام کو انجام دیتا ہے جس کے ذریعے دوسرے کو نقصان پہنچا سکےجبکہ دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں طرف ایک دوسرے کی نسبت یہ نہیں چاہتے ہے کہ ان میں سے کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچےبلکہ وہ اپنے دوست کیلئے ہمیشہ فائدے کے ہی طالب رہتے ہیں اور اس دوستی میں کمال یہ ہے کہ دوست اس حد تک ایثار کا مالک ہو کہ اپنے دوست کو نقصان سے بچانے کی خاطر خود نقصان کو برداشت کرلے اور اپنے دوست تک نقصان کو نہیں پہنچنے دے۔

دوستی کسے کہتے ہیں؟
اس عنوان کو اگرچہ ہر شخص جانتا ہے لیکن اور زیادہ سمجھنے کے لئے دوست اور دوستی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ دو ہم فکر اور ہم مزاج افراد کے درمیان ایک خاص قلبی رشتہ اور تعلق کو دوستی کہتے ہیں۔ یہ دوستی کسی نسبی یا سببی رشتہ کی محتاج نہیں ہوتی ہے بلکہ صرف دو افراد کے ایک دوسرے سے میل جول اور ملاقات سے وجود میں آتی ہے۔ زیادہ تر دوستیاں، اسکولوں، مدرسوں اور کالجوں میں ہوا کرتی ہیں۔ عام طور پر کوئی کسی سے کہہ کر دوستی نہیں کرتا بلکہ سکول میں ساتھ رہتے رہتے کھیلتے کودتے دوستی ہو جاتی ہے اور زیادہ تر ایسی دوستیاں سکولوں اور مدرسوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایسی دوستیاں اسکول کے بعد بھی باقی رہیں۔دوستی کرنا اور دوست بنانا سماج میں ایک اچھا کام سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ کام اچھے اخلاق اور خوش مزاجی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں مولائے کائنات علیؑ فرماتے ہیں ’’دوستی اور محبت عقل کا نصف حصہ ہے‘‘(حکمت نمبر، 142)آپ نے دوستی کرنے کو عقل مندی میں شمار کیا ہے۔

دوستی کی ضرورت و اہمیت
دوست اور دوستی کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ مو لا امیر المومنین ؑنے دوست کے لئے ’’بھائی‘‘(اخ) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ ؑ اپنے اس عزیز، زاہد اور پارسا دوست کی تعریف کرتے ہو ئے فرما تے ہیں کہ ’’کان لی فیما مضی اخ فی اللّٰہ۔۔۔‘‘ گذشتہ زمانےمیں میرا ایک بھائی تھا۔ گو یا یہ جملہ فرما کر آپؑ اپنے اس دوست کی کمی کا احساس کر تے ہیں۔ ایک جگہ آپؑ دوست سے بچھڑجا نے کا اظہا ر ان الفا ظ میں کرتے ہیں ’’ فقد الاحبۃ غربۃ ‘‘ دوستوں کو کھونا غریب الوطنی ہے۔
دوستی کا اثر انسانی زندگی پر کافی حد تک ہوتا ہے لہٰذا امام علیؑ  صرف اپنے فرزندوں کو ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ ؑ اپنے ایک مکتوب میں حارث ہمدانی کو مختلف نصیحتوں اور تعلیمات کے ساتھ دوست اور دوستی کی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں۔آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ ایسے آدمی سے دوستی مت کرو جس کی رائے اور نظریات کمزور ہوں اورافعال برے ہوں کیونکہ انسان کی زندگی اپنے دوست سے متاثر ہو تی ہے‘‘۔۱گر دوست اچھا ہو گا تو اس کا اچھا اثر پڑ ے گا لیکن اگر خدا نخواستہ دوست برا ہوتو اس کا برا اثر بھی پڑے گا۔ ہاں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اچھا انسان برے کے ساتھ رہ کر برا ہو جا ئے، نہیں بلکہ بہت ممکن ہے کہ وہ برے کے ساتھ رہ کر خود کو پوری طرح سے بچا ئے رکھے البتہ اس برے دوست کے ساتھ دوستی کے سبب اس کی شخصیت پر ضرور اثر پڑے گا۔
جس طرح اچھے سے دوستی کرکے انسان کی اچھا ئی اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح برے سے دوستی کرکے اس کی شخصیت پر برا اثر ہوتا ہے لہٰذا دوستی کرتے وقت اس بات کا خاص خیا ل رکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کی جائے۔
دوستی بھی ایک فطری عمل ہے جو کسی استاد یا راہنما کا محتاج نہیں ہےبلکہ انسان فطرتاً اس کی جانب بڑھتا ہے اور فطری طور پر اسے ایک دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور دوست نہ ملنے پر وہ خود کو ادھورا سمجھنے لگتا ہے۔ مولائے کائنا تؑ کے کلا م کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس طرف اشارہ ملتا ہے، جس سے دوست اور دوستی کی ضرورت اور اہمیت اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ "الغریب من لم یکن لہ حبیب”(نہج البلاغہ وصیت،31) تنہا اور غریب وہ شخص ہے کہ جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ (غریب اسے کہتے ہیں کہ جس کا اپنا کوئی نہ ہو، اسی لئے مسافر کو پردیسی یا غریب کہتے ہیں اس لئے کہ پردیس میں اس کا کوئی اپنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر کوئی اس کے لئے اجنبی ہوتا ہے) مطلب یہ ہو ا کہ جس طرح پر دیس میں انسان اکیلا اور تنہا رہتا ہے اسی طرح دوستوں کے نہ ہو نے کی وجہ سے اپنے وطن میں بھی وہ اکیلا اور تنہا رہتا ہے۔
اچھے اور امین دوست انسان کے لئے نہایت ضروری ہیں جن سے وہ دل کی باتیں کہہ سکے، جن کے مفید مشوروں سے فائدہ اٹھا سکےاور جن کی دوستی سے مدد حاصل کر سکے، چونکہ دوست ہم عمر اور ہم فکر ہوتا ہے اس لئے بلاجھجک اس سے دل کی بات کہی جا سکتی ہے۔ لہٰذا تبادلہ خیال کے لئے اچھے دوستوں کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ ہر منزل اور ہر مرحلہ میں اچھا دوست بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ دوست اگر اچھا ہے تو علمی مسائل، درس و بحث اور علمی گتھیوں کو سلجھا نے میں بہت حد تک مدد گار ہو سکتا ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہوتا وہ بالکل ہی معاشرے سے کٹا رہتا ہے اور جو دوست بنا ئے اور کھودے وہ اس سے بھی زیادہ لاچار شخص ہے اسی مطلب کی طرف امیر المومنین ؑاشارہ فرما تے ہیں: ’’ بے چارہ و ہ شخص ہے جو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز اور لاچار وہ ہے جو دوست بنا نے کے بعد اسے کھودے ‘‘۔(نہج البلاغہ، حکمت 11)

دوستی کے معیارات
مولا علی علیہ السلام نے دوستی کو ایمانداری، محبت، اور وفا کے ساتھ جوڑا ہے۔ ان کی دوستی میں ایمانداری کا مطلب ہے کہ دوست کو کبھی دغا نہیں دینا چاہیے اور ایمانداری کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے۔ انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا علیہ السلام کے ساتھ اپنی دوستی کو مثالی بنائی اور اپنی زندگی میں دوستوں کی حقیقی محبت کا اظہار کیا۔
وَقِّرِ اللّٰهَ وَ اَحْبِبْ اَحِبّاءَهٗ۔ (نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۶۹)
اللہ کی عظمت کا خیال رکھو اور اس کے دوستوں سے دوستی کرو۔
یہاں جس انسان کامل کے فرامین سے کامیاب زندگی کے اصول بیان کئے جا رہے ہیں اگر اس کی زندگی کی کامیابی کو ایک جملے میں بیان کرنا ہوتو وہ یہی جملہ ہے جو آپ نے حارث ہمدانی کو تعلیم دی ہے۔ اور وہ جملہ ہے : اللہ کی عظمت کا خیال” نگاہ میں عظمت خدا رچ بس جائے توپھر اللہ کے علاوہ کائنات کی کسی چیز پرنظر نہیں ٹھہرتی، پھر اللہ کی عظمت کا اظہار اس کے بندے اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ ہی کے لئے ان کی محبت ہوتی ہے اور اللہ ہی کے لئے ان کا کسی سے اختلاف و بغض ہوتا ہے۔ اللہ کے محبوب بندوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اللہ کی عظمت ذہن میں جاگزیں ہوتی ہے۔ جنہیں اللہ سے محبت ہو جاتی ہے باقی سب محبتیں اس کے دل سے نکل جاتی ہیں اور جب دل میں اللہ کی محبت رچ بس جائے پھر سکون ہی سکون ہے بلکہ پھر وہ سکون بانٹنے والے بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ والے سکون ہی تقسیم کرتے ہیں جو انھیں اللہ سے بڑی مقدار میں نصیب ہوا ہوتا ہے۔

دشمنی کے معیارات
مولا علی علیہ السلام نے دشمنی کو ایک انصافی اور حکمت کی روشنی میں دیکھا ہے۔ انہوں نے دشمنوں کے ساتھ مصالحت اور صلح کے لئے بھی کوششیں کی ہیں جبکہ انصاف کی بنیاد پر دشمنوں کے خلاف کڑی تدابیر اپنائی ہیں۔ ان کی حکومت میں انصاف کی روایتیں دشمنوں کو مختلف مواقع پر اپنے انصافی نظام میں شامل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
دوستی ا ور دشمنی میں توازن
لا يَحِيْفُ عَلٰی مَنْ يُبْغِضُ،وَلَا يَاْثَمُ فِيْمَنْ يُحِبُّ۔(نہج البلاغہ،خطبہ 191)
جس کا دشمن ہو اس کے خلاف زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہو اس کی خاطر گناہ نہیں کرتا۔
انسان کامل کے لیے مذہبی دنیا میں مختلف نام ہیں۔ متقی، محسن، عبادالرحمٰن اور ابرار کہا جاتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں انسان کامل کے درجنوں اوصاف و خصوصیات متقی کے عنوان سے بیان فرمائے ہیں۔ انسان کامل یا کامیاب انسان کی دو خصوصیات اس جگہ بیان ہوئی ہیں۔ انسان کامل کی سب سے پہلے تو کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہوتی اور اگر کوئی اس سے دشمنی کرتا بھی ہے تو یہ اسے معاف کر دیتا ہے مگر اصولوں کی بنیاد پر کسی سے مخالفت یا نفرت کرے تو یہ نفرت اسے اصول اور انصاف سے باہر نہیں لے جاسکتی۔ دشمن سے انتقام کی طاقت رکھتا ہے تو انتقام میں بھی اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔
امیرالمومنینؑ حقیقت میں ایسے ہی انسان کی تربیت کرنا چاہتے ہیں جو بغض میں بھی انصاف کو مدنظر رکھے اور خود امامؑ نے اپنی آخری وصیت میں اس اصول پر تاکید فرماتے ہوئے انسان کامل کے کردار کا نمونہ روشن کر دیا۔ آپؑ کو جب زخم لگا تو بیٹوں کو وصیت کی۔’’دیکھو ! جب میں اس ضرب سے مر جاؤں تو ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا‘‘۔
دشمن سے برتاؤ
خُذْ عَلٰی عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَاِنَّهٗ اَحْلَى الظَّفَرَيْنِ۔(وصیت 31)
دشمن سے فضل و کرم سے پیش آؤ کیونکہ دو قسم کی کامیابیوں میں سے یہ زیادہ میٹھی کامیابی ہے۔
دشمن سے لطف و کرم کے ساتھ پیش آؤ یہ کوئی معمولی دستورالعمل نہیں ہے۔ یہ ایک کامیاب انسان کی طرز زندگی ہے۔ وہ شخصیت جو اپنے قاتل کے لیے بھی اپنے بچوں کو وصیت کر رہی تھی کہ اُس نے مجھے ایک وار سے زخمی کیا ہے لہٰذا میرے مرنے کے بعد اس پر بھی ایک ہی وار کرنا اور دیگر مہربانی کی تاکیدیں اس کے سوا تھیں۔ امیرالمومنینؑ کی یہ وصیت جو امامؑ نے اپنے بیٹے کے لیے تحریر فرمائی کے بارے میں مشہور عیسائی مصنف جورج جورداق لکھتے ہیں کہ علیؑ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ” آپ اور آپ کا انسانی بھائی” یہ انسان کو انسان کا بھائی سمجھنے والی شخصیت کی وصیت ہے۔ اگر انسانوں میں انسانیت کایہ رشتہ بیدار ہو جائے تو دُنیا کے بہت سے مسائل حل ہو جا ئیں گے۔
یہاں آپؑ دشمن سے لطف و کرم کی بات کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دشمن سے لطف و کرم سے پیش آنا دو کامیابیوں میں سے میٹھی اور خوش مزہ کامیابی ہے۔اس لیے کہ اگر دشمن پر غلبہ و انتقام کے ذریعہ کامیاب ہوئے تو ممکن ہے کل اُسے دوبارہ قوّت و طاقت حاصل ہو اور وہ آپ سے جنگ پر آمادہ ہو سکتا ہے اور آپ کو شکست بھی دے سکتا ہے تو یہ وقتی کامیابی حساب ہو گی مگر آپ نے اگر عفو و احسان کے ذریعے دشمنی کو مٹا دی تو مخالفت ختم ہو سکتی ہے اور یہ دشمنی و انتقام دوستی و احسان میں بدل سکتی ہے اور یہ بڑی اور دیرپا کامیابی ہو گی۔

اللہ کا دشمن
مَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اللهِ كَانَ اللّٰهُ خَصْمَهٗ دُوْنَ عِبَادِهٖ۔(مکتوب نمبر، 53)
جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کاحریف و دشمن بن جاتا ہے۔
انسان کی زندگی کے زینت اعمال میں سے عدل و انصاف ہے اور انصاف کے متضاد ظلم ہے۔ انصاف یعنی اجتماعی حقوق میں اپنے اور دوسروں کے درمیان برابری کو مدنظر رکھنا۔ روایات میں انصاف کی یہ تعریف بھی ذکر کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے چاہتے ہو وہ دوسروں کے لیے بھی چاہو اور جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے بھی نا پسند کرو۔ اس حصے میں امیرالمومنینؑ نے بطور گورنر مالک اشتر کو انصاف کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اللہ کے بندوں پر ظلم و زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے اللہ سے دشمنی کی اور اس کا حریف اللہ ہوگا۔ اب جس کا حریف و مد مقابل اللہ ہے اس سے بدتر کون ہو سکتا ہے۔اس فرمان سے انسان کی عظمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا کیا مقام ہے۔ یہاں کسی نیک و پارسا انسان کا نہیں بلکہ عام انسان کا تذکرہ ہے۔

دوست کا دشمن
لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّصَدِيْقِكَ صَدِيْقاً فَتُعَادِيَ صَدِيْقَكَ۔(وصیت 31)
اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاؤ گے۔
دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس پر امیر المومنینؑ کے متعدد فرامین موجود ہیں اور ان اصولوں کو اگر الگ جمع کیا جائے تو مکمل کتاب بنتی ہے۔ ’’ نہج البلاغہ میں دوستی‘‘ کے عنوان سے بعض کتابیں موجود ہیں۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو اس وصیت میں امیر المومنینؑ نے بار بار دوستی کے متعلق ارشادات فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔اکثر لوگ اپنی زندگی میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ ہر شخص سے دوستی کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ انسان دو ضدوں کو ایک جگہ جمع کر لے اور ہر کسی کو خوش رکھے۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ منافقت ہوگی۔ اگر آپ کا کوئی واقعی دوست ہے تو اس دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے دشمن کو دوست نہ بنائیں ورنہ پہلے شخص سے آپ کی دوستی مشکوک ہو جائے گی۔ ہاں یہ خیال رہے کہ دوست کی دوسرے شخص سے دشمنی کسی اصول اور قانون کے تحت ہو اگر دوست کی غلطی کی وجہ سے دشمنی ہے تو دوست کو متوجہ کیا جائے اور اس دشمنی کو ختم کیا جائے۔ یہ دوستی کے تقاضوں میں سے اور محبت کے ثبوت میں سے ایک اچھا عمل ہوگا۔
قرآن مجید نے اللہ کے دشمنوں سے دوستی سے منع کیا ہے اور امیر المومنینؑ نے اسی مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔اس فرمان سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ ایسے شخص سے دوستی رکھو جو انسانیت کا احترام کرنے والا ہو اور ہر کسی سے دشمنی رکھنے والا نہ ہو۔اس لیے دوست کے انتخاب میں دقت لازمی ہے۔دوست وہ بنائیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے فوائد کی خاطر دوسروں کے بڑے بڑے خسارے کو پسند نہ کرتا ہو بلکہ دوست اسے بنائیں جو خود بڑے بڑے گھاٹے کھا کر دوسروں کے چھوٹے چھوٹے فوائد کی تمنا رکھتا ہو۔

دوستی کی حد
دوستی کس حد تک ہونی چاہیے، کیا ہم دوست سے صرف کسی خاص موضوع پر ہی گفتگو اور دوستانہ رکھیں یا پھر اپنی ساری با تیں اور راز کھول دیں، اور دوست کو پوری طرح سے اپنی زندگی میں شریک کرلیں، یا پھر دوستی محدود رکھیں۔کس طرح کا رویہ ہو نا چاہیے ؟ مو لا ئے کائنات ؑنے اس عنوان کے ایک معیار اور ایک حدکو معین کردیا ہے۔ اور ایک لطیف اشارہ فرما دیا، آپؑ فرما تے ہیں کہ’’ دوست سے دوستی کرو لیکن ایک حد تک، ممکن ہے کہ ایک دن وہی تمہا را دشمن ہو جا ئے اور دشمن سے دشمنی بھی ایک معین حد تک کرو ممکن ہے کہ وہ کبھی تمہا را دوست ہوجا ئے۔ اس قیمتی حکمت میں مولا ئے کا ئنا ت ؑ نے ہم لوگوں کو ایک معیا ر دیا کہ دوستی اور دشمنی دونوں مناسب حد تک رکھنا چاہیے۔ تا کہ اگر خدا نخواستہ دوست دشمن ہو جا ئے تو بچنے کی کو ئی صورت با قی رہے، ورنہ اگر کو ئی پردہ نہیں رہا تو پھر بچا نہیں جا سکتا ہے۔ اسی طرح دشمن سے دشمنی بھی ایک حد تک ہو، حد سے زیا دہ کی صورت میں اگر اتفا قاً وہ دوست بن گیا تو پھر شرمندگی ہو گی۔ اور اس کے مقا بل خود کو ہلکا محسوس کرے گا۔ دوستی اور دشمنی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ نہ دوستی اور محبت ہمیں اپنے دوست کے حق میں اندھا بنا دے اور نہ ہی دشمن سے دشمنی ہمیں اس کی اچھائیوں پر پردہ ڈالنے پر مجبور کرے، معاشرہ اور سماج میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو اگر کسی سے خوش ہیں تو اس کے سارے کاموں یہاں تک کہ برے کاموں میں بھی اس کی تعریف ہی کرتے ہیں لیکن اگر کسی سے ناراض ہو تے ہیں تو اس کے اچھے کاموں کو بھی برا ہی کہتے ہیں۔ الغرض کسی بھی کام کے سلسلہ میں صحیح نتیجہ دینے والے بہت ہی کم افراد ہوتے ہیں،اسی مفہوم کی طرف شیر خدا اشارہ فرماتے ہیں ’’تمہارا دوست وہی ہے جو تمہیں ٹوکے اور وہ دشمن ہے جو (تمہاری تعریفیں کر کر کے)تمہیں مغرور بنا دے۔
اِنْ اَرَدْتَ قَطِيْعَةَ اَخِيْكَ فَاسْتَبْقِ لَهٗ مِنْ نَفْسِكَ بَقِيَّةً يَرْجِعُ اِلَيْهَا اِنْ بَدَا لَهٗ ذَلِكَ يَوْماً مَّا۔ (وصیت 31)
کسی دوست سے تعلقات قطع کرنا چاہو تو اپنے دل میں اتنی جگہ رہنے دو کہ اگر اُس کا رویّہ بدلے تو اس کے لئے گنجائش ہو۔
یہ انسانی تعلقات اور معاشرتی روابط کے لیے ایک نہایت ہی قیمتی اصول ہے۔ معاشرتی موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں میں آپ کو یہ طریقے تو عام ملیں گے کہ آپ تعلقات کیسے بڑھا سکتے ہیں، تعلقات ٹوٹنے سے کیسے بچا سکتے ہیں اور معاشرے میں اپنے مقام کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں مگر امیرالمومنینؑ کا یہ فرمان خاص اہمیت کا حامل ہے کہ جب حالات مجبور کریں اور تعلقات توڑنے کی نوبت آ جائے تو اُس وقت سب راہوں کو مکمل بندنہ کریں۔ تعلقات توڑتے وقت بھی تعلقات جوڑنے کی سوچ ذہن میں رہے اور اتنی گنجائش باقی رہے کہ کل اگر زمانہ اور تجربات حالات بدل دیں تو واپسی کا راستہ باقی ہو۔ ایک دوسرے کا آمنا سامنا کرنا پڑے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا پڑے تو شرمساری نہ ہو۔ اگر یہ سوچ انسان کے ذہن میں رہے کہ پہلے تو یہ روابط کٹنے سے ہی محفوظ رہیں اور اگر روابط کٹ بھی گئے تو زیادہ امکان یہی رہے گا کہ ایک دن وہ تعلقات دوبارہ جڑ جائیں۔

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے