کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام خلافت کے مستحق تھے؟
بیشک دین اسلام کی بقا اور اس کی حیات کو جاری رکھنے کے لئے محافظ ہادی اور مسلسل ایسے شائستہ افراد کی ضرورت ہے جو دین کے معارف اور دستور کو لوگوں تک پہنچائیں،اور دین کے صحیح قواعد و ضوابط کو اسلامی معاشره میں نافذ کریں- چونکہ تخلیق کا ایک مقصد ، لوگوں کی براه راست ہدایت کر نا ہے ، اس لئے خداوند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ، دین کی حفاظت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے کسی قائد و پیشوا کو مقرر ومعین کرے اور لوگوں کو ان کی محدود عقل کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے ، جو اکثر نفسانی خواہشات کی شکار ہوجاتی ہے-
حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا ثبوت ، امامت کے خاص مباحث میں سے ہے، اس کو ثابت کر نے کے لئے صرف براه راست عقلی دلیل سے استفاده نہیں کیا جاسکتا بلکہ آیات و روایات اور تاریخی واقعات سے استناد کر کے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآلہ وسلم کی خلافت و امامت کے عہده کو ثابت کیا جاسکتا ہے:
الف: قرآنی دلیل:
قرآن مجید میں بہت سی آیات پائی جاتی ہیں جن کی شان نزول پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآلہ وسلم کی احادیث سے استفاده کر کے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو ثابت کیا جاسکتا ہے- اس سلسلے میں جن آیات کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے وه حسب ذیل ہیں: آیہ تبلیغ ، آیہ ولایت ، آیہ اولی الامر اور آیہ صادقین – تفصیلی جواب میں ان کی تشریح کی جائے گی-
ب :حدیثی دلیل:
شیعه اور اہل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی ایسی روایتیں نقل کی گئی ہیں، جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : “میرے بعد میرے وصی اور جانشین علی(ع) بن ابیطالب ہیں، ان کے بعد ان کےدو بیٹے حسن و حسین (علیہما السلام) اور ان کے بعد امام حسین (ع) کی نسل سے یکے بعد دیگرے نو امام ہیں-” لیکن یہ روایت ان روایتوں کے علاوه ہے جو حدیث منزلت، حدیث غدیر خم اور مشہور حدیث ثقلین کے نام سے بیان ہوئی ہیں ، یا وه احادیث جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ” میرے بعد باره خلیفہ ہوں گے جن کے ذریعه دین عزیز ہوگا-“
تفصیلی جوابات
اس میں کوئی شک وشبھہ نہیں ہے کہ دین اسلام کی بقاء اور اس کی حیات کو جاری رکھنے کے لئے محافظ، ہادی اور مسلسل ایسے شائستہ اور کامل و معصوم انسانوں کی ضرورت ہے جو دین کے معارف اور احکام کو لوگوں تک پہنچاے اور دین کے صحیح قواعد وضوابط کو اسلامی معاشره میں نافذ کریں ، اس لیے کہ تخلیق کے مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کی بلاواسطہ ہدایت کر نا ہے ، اس لئے خدائے مہربان کی حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد دین کی حفاظت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے کسی قائد وپیشوا کو مقرر و معین فر مائے اور لوگوں کو ان کی محدود عقل کے رحم وکرم پر نہ چھوڑ دے،جو اکثر نفسانی خواہشات کی شکار ہو جا تی ہے ، لہذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد تمام زمانوں کے لئے ، اور لوگوں کی ہدایت ، دین کی حفاظت اور اس کے احکام کے نفاذ کے لئے معصوم اور علم لدنی کے مالک اماموں کی ضرورت عقلی دلیل سے ثابت اور واضح ہےـ
امام علی علیہ السلام کی امامت کا ثبوت، امامت کے خاص مباحث میں سے ہے- اس کو ثابت کر نے کے لئے براه راست صرف عقلی دلیل سے استفاده نہیں کیا جاسکتا ہے ، بلکہ امامت اور ہر زمانہ میں [1] امام کی ضرورت کے سلسلہ میں عقلی دلیل سے کام لے کر ، اور آیات اور روایات اور تاریخی واقعات سے استناد کر کے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و امامت کو ثابت کیا جاسکتا ہے اور اس طریقہ سے مقصد تک پہنچا جاسکتا ہے-
ذیل میں ہم گنجائش کے مطابق اس سلسلہ میں قرآن مجید اور احادیث میں موجود دلائل کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کو ثابت کریں گے:
الف: قرآنی دلیل:
قرآن مجید میں بہت سی ایسی آیات پائی جاتی ہیں جو امام علی(ع)اور دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں- البتہ ان آیات کی دلالت [2] ان بے شمار (متواتر) احادیث کے پیش نظر ہے کہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں- ہم یہاں پر چند ایسی آیات کی طرف اشاره کریں گے جن کی شان نزول کے بارے میں نقل کی گئی احادیث کو شیعہ اور اہل سنت دونوں قبول کرتے ہیں: [3]
١- آیہ تبلیغ: “اے پیغمبر! آپ اس حکم کو (لوگوں تک) پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا خداوند متعال آپ کو لوگوں کے (ممکنہ) شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کا فروں کی ہدایت نہیں کر تا ہےـ” [4]
مذکوره آیہ کریمہ میں خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص) کو پوری شدت کے ساتھـ حکم د یا ہے کہ اپنی رسالت کو پہنچادیں اور روایات کے مطابق ،اس آیہ شریفه کے نازل ہو نے کے بعد غدیر خم نام کے مقام پر حضرت علی(ع) کے بارے میں فر مایا : ” جس کا میں مولا ہوں اس کے علی(ع) بھی مولا ہیں ” اور اس طرح انہیں اپنا جانشین معین فرمایاـ [5]
٢- آیہ ولایت: “ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ یے اور اس کا رسول اور وه صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواه دیتے ہیں ـ” [6]
مفسرین اور محد ثین کی ایک بڑی تعداد نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے [7]
اہل سنت کے مشہور دانشور،” سیوطی” اپنی تفسیر” الدر المنثور” میں اس آیت کے ذیل میں ” ابن عباس” سے نقل کر تے ہوئے کہتے ہیں ” علی(ع) نماز میں رکوع کی حالت میں تھے کہ ایک سائل نے مدد کی درخواست کی اور حضرت (ع) نے اپنی انگوٹھی صدقہ کے طور پر اسےدیدی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائل سے پوچھا : یہ انگوٹھی ، کس نے تمہیں صدقہ کے طور پر دی؟ سائل نے حضرت علی(ع) کی طرف اشاره کر کے بتایا” اس شخص نے جو رکوع کی حالت میں ہے” اس وقت یہ آیه نازل ہوئی ـ” [8]
اس کے علاوه اہل سنت کے دانشوروں میں سے ” واحدی” [9] اور” زمخشری” [10] نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ آیہ” انما ولیکم اللہ” حضرت علی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ـ
فخر رازی ، اپنی تفسیر میں عبداللہ بن سلام سے نقل کرتے ہیں کہ،جب یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ، میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا که علی(ع) نے رکوع کی حالت میں ایک حاجتمند کو صدقہ دیا، اسی وجہ سے ہم ا ن کی ولایت کو قبول کر تے ہیں ! اس کے علاوه اس آیہ شریفہ کی شان نزول کے بارے میں اسی کے مشابہ ایک اور روایت ابوذر سے نقل کی گئی ہے ـ [11]
طبری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیہ شریفہ کے ذیل میں اور اس کی شان نزول کے بارے میں متعدد روایتیں نقل کی ہیں ، اکثر ان روایتوں میں کہا گیا ہے کہ: ” یہ آیت حضرت علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ـ” [12]
مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب ” الغدیر” میں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس آیت کے نازل ہو نے کے سلسلہ میں اہل سنت کی تقریباً بیس معتبر کتا بوں سے ان کے صحیح اور محکم اسناد و منابع ذکر کر کے متعدد روایتیں نقل کی ہیں ـ[13]
اس آیہ ولایت میں ، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت، خداوند عالم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت کی فہرست میں قرار پائی ہے ـ
٣- آیہ اولی الامر: ” ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہی میں سے ہیں ـ” [14]
اس کے علاوه دانشوروں [15] نے کہا ہے کہ آیہ اولی الامر حضرت علی علیہ الاسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ـ
مثلاً : “حاکم حسکانی “، حنفی نیشا پوری ( اہل سنت کے مشهور مفسر) نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں پانچ حدیثیں نقل کی ہیں کہ ان سب میں ” اولی الامر” کا عنوان حضرت علی علیه السلام پر منطبق ہوا ہے ـ[16]
ابو حیان اندلسی مغربی اپنی تفسیر ” البحر المحیط” میں اولی الامر کے بارے میں نقل کئے گئے اقوال کو (تین مفسرین) مقاتل ، میمون اور کلبی سے نقل کر تے ہیں ،جن سے مراد، ائمہ اهل بیت علیهم السلام ہیں ـ[17]
( اہل سنت کے ایک عالم)ابوبکر بن مٶمن شیرازی نے اپنے رسالہ” اعتقاد” میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ مذکوره آیہ شریفہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ـ [18]
اس کے علاوه اس آیہ شریفہ میں ایک ہی سیاق سے اور تکرار کے بغیر (اطیعوا) خدا ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت واجب قرار دی گئی ہے، اس لحاظ سے اولی الامر معصوم ہیں جیسے خدا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو مطلق طور پر ان کی اطاعت کا حکم معنی نہیں رکھتا، اور روایات کے مطابق ، معصوم صرف شیعوں کے امام ہیں ـ
جوکچھـ ذکر ہوا ، وه ان احادیث کا ایک حصہ تھا جو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اور قابل قبول راویوں سے اور شیعوں کی کتابوں میں صرف حضرت علی کی امامت کے بارے میں نازل ہوئی مذکوره تین آیتوں کے بارے میں نقل کیاگیا ہے . ان آیات و روایات کے بارے میں اہل سنت کی کتابوں میں کچھـ مزید قابل ذکر نکات پائے جاتے ہیں، ان کے بارے میں تفصیلی معلو مات حاصل کر نے کے لئے قابل اعتبار کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہےـ
خلاصہ کےطور پر ذکر کی گئی مذکوره تین آیتوں کے علاوه مزید کئی آیات حضرت علی(ع) اور دوسرے ائمہ اطہار علیهم السلام کی امامت کے بارے میں بلا واسطہ وضا حت کرتی ہیں ، جن کو اہل سنت کی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، مثال کے طور پر درج ذیل آیات قابل ذکر ہیں:
آیہ صادقین: “یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله وکونوا مع الصادقین” [19] اور آیہ قربی:” قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المود ۃ فی القربی” [20] – اس کے علاوه حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اطہار علیهم السلام کی ولایت و امامت کو بلا واسطہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات میں بیان کیا گیا ہے ، جو اہل سنت اور شیعوں کی کتابوں میں درج کی گئی ہیں ـ
مذ کوره آیات کے علاوه کئی دوسری آیات بھی ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صحابیوں پر حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور برتری بیان کرتی ہیں ـ اب ہم عقل کے حکم کے استناد پر کہ ” مرجوح” کو” ارحج” پر مقدم کر نا قبیح ہے، نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی و امامت کے حقدار حضرت علی علیہ السلام ہیں ـ
ب حدیثی دلیل:
شیعوں اور اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت نقل کی گئ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ:” میرے بعد میرے وصی اور جانشین علی بن ابیطالب (ع) ہیں اور ان کے بعد آپ (ع) کے دو فرزند حسن وحسین (علیهما السلام)اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کی نسل سے (یکے بعد دیگرے) نو فرزند ہیں ـ [21] البتہ یہ روایت ان روایتوں کے علاوه ہے جو ” حدیث یوم الدار” ، ” حدیث منزلت” حدیث غدیر خم اور مشهور” حدیث ثقلین” کے سلسلے میں بیان ہوئی ہیں یا وه احادیث جن میں فرمایا ہے : “میرے بعد باره خلیفہ ہوں گے جن کی وجہ سے دین عزیز ہوگا ـ”
بحث کو واضح کر نے کے لئے ہم ذیل میں خلاصہ کے طور پر تین اہم روایتوں کی طرف اشارہ کر تے ہیں:
١- حدیث منزلت:
اس حدیث کی داستان یوں ہے کہ: غزوہ تبوک کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بہت سے صحابیوں کے ہمراه مدینہ سے باہر تشریف لائے اور رومانیہ کی طرف روانہ ہوئے ـ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنی جگہ پر جانشین کے طور پر حضرت علی علیہ السلام کو مقرر فرمایا، تا کہ مدینہ رہبر سے خالی نہ رہے ـ بعض صحابیوں نےً طعنہ زنی کے طور پر زبان کھولی اور کہا :” پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی(ع) کو مدینہ میں رکھا تاکہ عورتوں اور بچوں کی نگرانی کریں !”
حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی اور آنحضرت نے اس وقت یہ تاریخی جملہ فرمایا “: میرے نزدیک تمھارا مقام و منزلت ، حضرت موسی(ع) کے نزدیک ہارون کے بہ نسبت مقام و منزلت کے مانند ہے، صرف اس فرق کے ساتھـ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نهیں ہوگا-” [22]
٢- حدیث ثقلین:
یه حدیث اہل سنت کی بہت سی معتبر کتابوں [23] میں نقل کی گئی ہے کہ: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر یوں فرمایا “: لوگو! عنقریب مجھے خدا وند عالم کی طرف سے بلاوا آئے گا اور میں خدا کی اس دعوت کو قبول کروں گا ـ میں آپ کے در میان دو گرانقدر چیزیں یاد گار کے طور پر چھوڑ تا ہوں ، ان میں سے ایک خدا کی کتاب اور دوسری میری عترت(ع) ہے ، خدا کی کتاب ایک رسی کے مانند ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت وہی میرے اهل بیت (ع) ہیں ـ یہ دونوں آپس میں جدا نہیں ہونگے ، یہاں تک کہ حوض کوثر پرمجھـ سے آملیں گے ـ لہذا دیکھئے کہ آپ میرے بعد ان کے ساتھـ کیسا برتاٶ کریں گے ـ” [24]
حدیث غدیر:
غدیر کا واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں پیش آیا ہے ـ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن فرمایا :” من کنت مولاه فهذا علی مولاه” ” جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) بھی مولا ہیں ـ” اور اس طرح علی بن ابیطالب کی امامت کی وضاحت فرما کر اپنی رسالت کی ذمہ داری انجام دی ـ
اس واقعہ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد [25] (١١٠ افراد)، ٨٤تابعین اور ٣٦ دانشوروں اور مصنفوں نے نقل کیا ہے ـ علامہ امینی نے ( اہل سنت و شیعہ کی ) اسلامی کتا بوں میں سے مستحکم دلائل کے ساتھـ اپنی مشہور کتاب “الغدیر” میں ان تمام روایتوں کو درج کیا ہے ـ
جوکچھـ بیان ہوا، وه حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کے سلسلے میں بے شمار دلائل میں سے مشتے از خروارے کے مانند هے- [26]
اس موضوع کے سلسلے میں معلومات حاصل کر نے کے لئے مندرجه ذیل منابع کا مطالعہ کر سکتے ہیں:
تفسیر پیام قرآن، تحت نظر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی،ج٩( امامت وولایت در قرآن مجید،صفحہ ١٧٧کے بعد)
عنوان : “اثبات امامت امام علی (ع) از قرآن” ، سوال نمبر 3121 (3399)-
[1] – مزید معلو مات کے لئے ملاحظہ ہو:١- دلا یل عقلی امامت نمبر٦٧١- ٢- دلایل عقلی امام زمان (عج)نمبر ٥٨٢-
[2] – اس امر کی آگاهی کے لئے که قرآن مجید میں کیوں واضح طور پر اماموں کے نام نہیں آئے ہیں ؟ ملاحظہ ہو عنوان: “نام امامان علیهم السلام در قرآن ـ
[3] – مزید جانکاری کے لئے ملاحظہ ہو عنوان:” دلایل اعتقاد به امامت و امامان”
[4] ” یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک—” مائده، ٦٧ مزید معلو مات کے لئے ملاحظہ ہو عنوان:” اہل سنت وآیہ تبلیغ”
[5] – مکارم شیرازی ، پیام قرآن ،ج٩، امامت در قرآن ،ص١٨٢ کے بعد ـ
[6] – ” انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه—” مائده، ٥٥-
[7] – چونکہ روایات کے مطابق جس نے رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دی ہے وه حضرت علی( ع) تھے ـ
[8] – الدر المنثور،ج٢،ص٢٩٣-
[9] – اسباب النزول، ص١٤٨-
[10] – تفسیر کشاف،ج١،ص٦٤٩-
[11] – تفسیر مخر رازی،ج١٢،ص٢٦-
[12] -تفسیر طبری،ج٦،ص١٨٦-
[13] – الغدیر ،ج٢،ص٥٢ و ٥٣-
[14] – ” یا ایها الذین امنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم—” نساء ٥٩-
[15] – تفسیر برہان میں بھی منابع اہل بیت(ع) سے اس آیت کے ذیل میں دسیوں روایتیں نقل کی گئی ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ: مذکوره آیہ شریفہ حضرت علی اور دوسرے تمام ائمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہاں تک کہ بعض روایتوں میں ایک ایک کر کے بارہ اماموں کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں ـ تفسیر بر هان ، ج١،ص٣٨١- ٣٨٧-
[16] – شواهد التنزیل ،ج١،ص١٤٨ تا ١٥١-
[17] – بحر المحیط ،ج٣،ص٢٧٨-
[18] – احقاق الحق،ج٣،ص٤٢٥-
[19] -” یا ایها الذین امنوا اتقوا الله وکونوا مع الصادقین—” توبه،١١٩-روا یتوں میں آیا ہے کہ: “صادقین” سے مراد حضرت علی(ع) اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اطہار علیہم السلام ہیں :ینابیع الموده ، ص١١٥و شواهد التنزیًل،ج١،ص٢٦٢)
[20] – شوری، ٣٣- مزید معلو مات کے لئے ملاحظہ ہو: “اہل بیت علیہم السلام و آیہ مودت”
[21] – تذ کره الخواص، سبط بن جوزی، طبع لبنان،ص٣٢٧ ، ایضاً ینا بیع الموده، شیخ سلیمان قندو زی، باب ٧٧، ص٤٤٤، طبع اسلامبول: اسی طرح فرائد السمطین ، جو ینی ، بیروت ، ج٢،ص١٣٤-
[22] – ” انت منی بمنزله هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی : فضائل الخمسه ، ج١،ص٣١٦- ٢٩٩-
[23] – صحیح مسلم ، صحیح ترمذی ، ج٢،ص ٣٠٨: خصائص نسائی ، ص ٢١پیغ مستدرک حاکم ،ج٣،ص١٠٩: مسند احمدبن حنبل،ج٣،ص١٧-
[24] – ” انی اوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله عز وجل وعترتی ـ کتاب الله حبل ممدودمن السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی ، انهما لن یفتر قا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بم تخلفونی فیهما : فضائل الخمسه ، ج٢،ص٥٣- ٤٤-
[25] – ابو سعید خدری ، زیدبن ارقم، جابر بن عبدالله انصاری ، ابن عباس، براء بن عازب ، حذیفہ، ابو ہریرہ، ابن مسعود و عامر بن لیلی ان میں شامل ہیں ـ
[26] – مزید معلو مات کے لئے علامہ امینی کی گراں بها کتاب ” الغدیر” ج١اور کتاب: ” پیشوائی از نظر اسلام ” تالیف آیت اللہ جعفر سبحانی ص ٢٧٤ و٣١٧ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جو حدیث غدیر کے اسناد و تجزیه پر مشتمل ہے ـ
One Response
مسلسل ایسے شائستہ افراد کی ضرورت ہے جو دین کے معارف اور دستور کو لوگوں تک پہنچائیں،اور دین کے صحیح قواعد و ضوابط کو اسلامی معاشره میں نافذ کریں- چونکہ تخلیق کا ایک مقصد ، لوگوں کی براه راست ہدایت کر نا ہے ، اس لئے خداوند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ، دین کی حفاظت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے کسی قائد و پیشوا کو مقرر ومعین کرے اور لوگوں کو ان کی محدود عقل کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے ، جو اک