25 محرم حضرت امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ مورخین کے مطابق، آپؑ کو ولید بن عبدالملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کیا گیا۔
زیادہ معروف قول کے مطابق، آپؑ کی شہادت سنہ 94 ہجری میں ہوئی۔ اس سال کو "سنة الفقهاء” یعنی "فقیہانِ مدینہ کا سالِ وفات” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بہت سے مدینہ کے علما اسی سال دنیا سے رخصت ہوئے۔
امام زین العابدینؑ کا مزار جنت البقیع میں ہے، جو امام حسن مجتبیٰؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے روضوں کے قریب واقع ہے۔
امام سجادؑ کی زبان سے شام کے سات المناک واقعات
ایک روایت کے مطابق امام سجادؑ سے پوچھا گیا کہ کربلا کے سفر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ کون سا تھا؟
آپؑ نے تین مرتبہ فرمایا: الشام، الشام، الشام!
یعنی شام، شام، شام! خدا شام سے پناہ دے!
امامؑ نے ایک اور روایت میں "نعمان بن منذر مدائنی” سے فرمایا: "شام میں ہمارے ساتھ سات ایسے مظالم ہوئے جو اسیری کے آغاز سے انجام تک کہیں اور نہ ہوئے۔”
وہ سات دل خراش مصیبتیں درج ذیل ہیں:
1. شمشیر و نیزہ سے محاصرہ:
ظالم سپاہیوں نے ہمیں کھلے تیغ و تلوار کے حصار میں لے لیا اور حملہ آور ہوتے رہے۔ ہمیں ہجوم میں کھڑا رکھا گیا، اور ڈھول، باجے، اور ساز و آواز کے ساتھ جلوس کی صورت میں لے جایا گیا۔
2. شہداء کے سروں کی بے حرمتی:
شہداء کے سر ہماری خواتین کے ہودجوں کے ساتھ رکھے گئے۔ میرے والد کا سر، چچا عباسؑ کا سر، میری پھوپھیاں زینبؑ و اُمّ کلثومؑ کے سامنے تھا۔ علی اکبرؑ، قاسمؑ اور دیگر شہداء کے سر میری بہنوں سکینہؑ و فاطمہؑ کے سامنے لائے گئے، اُن سے کھیل کیا گیا، بعض اوقات سر زمین پر گر جاتے اور جانوروں کے سُموں تلے روند دیے جاتے۔
3. عورتوں کا ظلم و شرارت:
شام کی عورتیں چھتوں سے ہم پر پانی اور آگ پھینکتی تھیں۔ آگ میرے عمامے کو لگ گئی، اور چونکہ میرے ہاتھ گردن سے بندھے تھے، میں آگ بجھا نہ سکا۔ عمامہ جل گیا اور آگ میرے سر تک پہنچی۔
4. بازاروں میں تماشا بنایا جانا:
طلوعِ آفتاب سے غروب تک ہمیں بازاروں میں لوگوں کے تماشے کے لیے ساز و آواز کے ساتھ گھمایا گیا۔ لوگ آوازیں لگاتے: "یہ وہ لوگ ہیں جن کی اسلام میں کوئی حرمت نہیں! انہیں مار دو!”
5. یہودی و نصرانی محلوں سے گزارنا:
ہمیں ایک ہی رسی میں باندھ کر یہودیوں اور عیسائیوں کے گھروں کے سامنے سے گزارا گیا اور ان سے کہا گیا: "یہ وہی لوگ ہیں جن کے باپ دادا نے تمہارے آباؤ اجداد کو قتل کیا تھا، اب تم ان سے بدلہ لو!”
6. غلاموں کی طرح بیچنے کی کوشش:
ہمیں غلاموں کے بازار میں لے جایا گیا اور بیچنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اللہ نے انہیں اس مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔
7. سر چھپانے کو سایہ نہ تھا:
ہمیں ایسے مقام پر رکھا گیا جہاں نہ چھت تھی، نہ آرام۔ دن میں دھوپ اور رات کو ٹھنڈ سے ہم پریشان رہتے، بھوک، پیاس، اور قتل کے خوف سے مسلسل اذیت میں تھے۔
امامؑ کے آخری لمحات کی جھلک
امام زین العابدینؑ کے آخری وقت کے بارے میں چند روایات ہیں:
1. وصیت کا لمحہ:
ابوحمزہ ثمالی روایت کرتے ہیں کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا: "جب امام زین العابدینؑ کا آخری وقت آیا، تو انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: "بیٹے! تمہیں اسی بات کی وصیت کرتا ہوں جو میرے والد نے مجھے کی تھی: کبھی بھی کسی مظلوم پر ظلم نہ کرنا، خاص طور پر اگر اس کا کوئی مددگار سوائے خدا کے نہ ہو!”
2. قرآن کی تلاوت کے ساتھ وصال:
روایت ہے کہ امامؑ وفات کے قریب بے ہوش ہو گئے، ہوش میں آئے تو سورہ "الواقعة” اور "فتحنا” کی تلاوت فرمائی، پھر فرمایا: "سب تعریف اس خدا کی جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچ کر دکھایا اور ہمیں زمین (یعنی جنت) کا وارث بنایا؛ ہم جہاں چاہیں رہائش اختیار کریں!” پھر اسی وقت آپؑ کی روح پرواز کر گئی۔
امامؑ اور شتر کا دردناک تعلق
امام سجادؑ نہایت مہربان اور رحمدل تھے۔ یہاں تک کہ جانوروں پر بھی ان کی شفقت شامل حال رہتی۔ آپؑ کے پاس ایک اونٹنی تھی، جس پر آپؑ نے 22 مرتبہ حج کیا، لیکن کبھی ایک کوڑا بھی نہ مارا۔
شہادت کی رات، امامؑ نے اپنی اونٹنی کی دیکھ بھال کی وصیت کی۔
علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں: امامؑ کی وفات کے بعد وہ اونٹنی خود چل کر قبر مبارک پر پہنچی، حالانکہ کبھی قبر نہ دیکھی تھی۔ قبر پر جا کر گردن مارتی، آنسو بہاتی، اور نالہ و فریاد کرتی رہی۔
جب امام محمد باقرؑ کو خبر ملی تو آپؑ آئے اور فرمایا: "خاموش ہو جا! اللہ تجھے برکت دے!” اونٹنی پلٹی، مگر کچھ دیر بعد پھر قبر پر آئی، وہی حالت دہرائی۔ اس بار امام باقرؑ نے فرمایا:”اسے چھوڑ دو! یہ وعدہ شدہ ہے۔” اور تین دن کے اندر وہ اونٹنی بھی دنیا سے رخصت ہو گئی۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی نمایاں اور منفرد خصوصیات
1. امام سجادؑ کی زوجہ گرامی
حضرت فاطمہ خاتون، جو اُمّ عبد اللہ کے نام سے مشہور تھیں، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں۔ وہ ایسی منفرد خاتون ہیں جو بیٹی امام کی تھیں، خود امام کی زوجہ تھیں اور ایک معصوم امام کی والدہ بھی بنیں۔
2. امامت کا آغاز میدانِ کربلا سے
امام زین العابدینؑ وہ واحد امام ہیں جن کی امامت کا آغاز معرکۂ کربلا اور روز عاشورا کی شام سے ہوا۔ آپؑ نے فرمایا کہ جب ایک امام شہید ہوتا ہے اور نیا امام خدا کی طرف سے منصبِ امامت پر فائز کیا جاتا ہے، تو اس لمحے دل میں ایک خاص کیفیتِ خشوع اور خضوع پیدا ہوتی ہے جو ذمہ داریِ ولایت الٰہی کے بوجھ کا اظہار ہے۔
3. 35 سالہ غم و گریہ کا دور
آپؑ وہ اکلوتے امام ہیں جنہوں نے اپنے پورے 35 سالہ دورِ امامت میں مسلسل غم و اندوہ میں زندگی بسر کی، اور گریہ، نوحہ، دعا اور مرثیوں کے ذریعے امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی یاد کو زندہ رکھا۔
آپؑ نے عزاداری کو ایک موثر ذریعہ بنا کر ظلم کے خلاف قیام، اہل بیتؑ کی تعلیمات اور تقیہ کے ساتھ جدوجہد کا پیغام عام کیا۔
4. عبادت اور زہد کا اعلیٰ ترین نمونہ
آپؑ کی عبادت، سجدوں کی کثرت اور زہد کی انتہا نے آپؑ کو "سجاد”، "زین العابدین” اور "ذوالثفنات” جیسے القاب سے مشہور کیا۔ "ذوالثفنات” کا مطلب ہے: ایسا شخص جس کے بدن پر عبادت کی کثرت کے باعث پِینے پڑ گئی ہوں، خاص طور پر پیشانی اور سجدہ گاہ پر۔
5. صحیفہ سجادیہ: دعا کی صورت میں معارفِ الٰہی
امامؑ کی مشہور کتاب صحیفہ سجادیہ، نورانی دعاؤں کا عظیم مجموعہ ہے جو توحید، عرفان، اخلاق، معاشرت اور معنویت کے گہرے معانی سے لبریز ہے۔
6. خطبات اور عوامی نصیحتیں
امام زین العابدینؑ نے اپنی پوری زندگی میں عوام الناس کو مسلسل نصیحتیں اور مواعظ فرمائے۔ سعید بن المسیب کے مطابق، آپؑ ہر جمعے کو مسجد نبویؐ میں ایک روشن، پرمغز خطبہ دیا کرتے، جس میں لوگوں کو تقویٰ، زہد اور خودسازی کی دعوت دیتے تھے۔
7. رسالہ حقوق: انسانی زندگی کا جامع منشور
رسالۂ حقوق امامؑ کا وہ عظیم الشان علمی و اخلاقی شہکار ہے جس میں آپؑ نے انسان کی زندگی کے ہر شعبے، جیسے اللہ کے حقوق، جسم کے اعضاء، عبادات، والدین، شریک حیات، اولاد، ہمسایہ، دوست، اور معاشرتی افراد کے حقوق کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
یہ رسالہ آج بھی فرد و معاشرے کی اصلاح کے لیے ایک جامع اسلامی منشور مانا جاتا ہے، جس پر متعدد علما نے شروحات لکھی ہیں۔
8. حرز امام سجادؑ: دعا برائے تحفظ
حرز یعنی ایسی دعا جو انسان کو بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ امام سجادؑ سے منسوب دو حرزیں کتبِ دعا اور "بحارالانوار” میں موجود ہیں، جو مومنین کے لیے امان اور حفاظت کا ذریعہ ہیں۔
انگوٹھی اور اس پر کندہ کلمات
رسول اللہؐ کی سنت کے مطابق، امام سجادؑ بھی انگوٹھی پہنتے تھے، جس پر مختلف نایاب جملے نقش ہوتے:
امام صادقؑ سے روایت ہے کہ امام سجادؑ کی انگوٹھی پر لکھا تھا: الحمد لله العلی العظیم
امام رضاؑ سے منقول ہے: خزی و شقی قاتل الحسین بن علی یعنی: امام حسینؑ کے قاتل پر ذلت و بدبختی ہو۔
ایک اور روایت کے مطابق انگوٹھی پر لکھا تھا: العزة لله
اور ایک روایت میں ہے: ان الله بالغ امره
ابن صباغ مالکی کے مطابق ایک اور نقش یہ تھا: و ما توفیقی الا بالله
یعنی: میری کامیابی اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
امام حسینؑ کی انگوٹھی امام سجادؑ کے پاس کیسے پہنچی؟
امام صادقؑ سے محمد بن مسلم نے سوال کیا: کیا امام حسینؑ کی انگوٹھی بھی میدانِ کربلا میں چھین لی گئی تھی؟
امام صادقؑ نے جواب دیا:”نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ امام حسینؑ نے اپنی انگوٹھی اپنے بیٹے علی بن حسینؑ کے حوالے کی، اور انہیں اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا۔
جیسے رسول اللہؐ نے علیؑ کو، علیؑ نے حسنؑ کو، اور حسنؑ نے حسینؑ کو وصی بنایا تھا۔”
یہ انگوٹھی امام باقرؑ کو ملی، پھر امام صادقؑ کو پہنائی گئی۔ امام صادقؑ نے فرمایا: "ہر جمعے میں یہ انگوٹھی پہن کر نماز پڑھتا ہوں۔”
محمد بن مسلم کہتے ہیں: ایک جمعہ میں نے امام صادقؑ کو نماز کے بعد دیکھا کہ آپؑ نے ہاتھ بڑھایا۔
میں نے دیکھا کہ انگوٹھی پر یہ نقش تھا: لا اله الا الله عدة للقاء الله
یعنی: "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، یہی اللہ سے ملاقات کے لیے سب سے بہترین زادِ راہ ہے۔” پھر فرمایا: "یہ میرے جد امام حسینؑ کی انگوٹھی ہے۔”
یہ نقوش نہ صرف روحانی معارف رکھتے ہیں بلکہ امام سجادؑ کی گہری فکر اور عقیدے کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
سورہ نجم اور امام سجادؑ کی نسبت
مرحوم آیت اللہ کشمیری فرمایا کرتے تھے: "اگر کوئی مریض صعب العلاج (لا علاج یا خطرناک مرض کا شکار) ہو، تو روزانہ سورہ نجم پڑھیں اور اس کا ثواب امام زین العابدینؑ کی خدمت میں ہدیہ کریں۔ شرط یہ ہے کہ اس عمل کو باقاعدگی سے جاری رکھا جائے۔”








