خطبہ فدک متن:9

اَوَ لَسْتُ اَنَا وَ اَبی مِنْ اَهْلِ مِلَّةٍ واحِدَةٍ؟

کیا میں اور میرے والد ایک ہی دین سے تعلق نہیں رکھتے؟

اَمْ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْانِ وَ عُمُومِهِ مِنْ اَبی وَابْنِ عَمّی؟

کیا میرے باپ اور میرے چچازاد (علی ؑ) سے زیادہ تم قرآن کے عمومی و خصوصی احکام کا علم رکھتے ہو۔ (۷۶)

۷۶۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے میراث کی چار صورتیں بتائی ہیں جن کے مطابق آپ ارث سے محروم رہ سکتی تھیں۔

پہلی صورت :یہ کہ درمیان میں کوئی رشتہ نہ ہو ٫لا رحم بیننا۔

دوسری صورت :یہ کہ قرآنی آیت سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو کہ ان کا کوئی وارث نہیں بن سکتا۔

تیسری صورت : یہ کہ اگر دونوں رشتہ دار ایک دین سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو آپس میں وارث نہ بن سکیں گے۔

چوتھی صورت :یہ کہ میراث کے بارے میں قرآن کے عمومی حکم کی تخصیص پر کوئی دلیل موجود ہو۔

پہلی صورت سب کے لئے واضح ہے کہ جناب فاطمۃ الزھراء ؑ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی ہیں۔

دوسری صورت بھی واضح ہے کہ قرآن میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دے۔

تیسری صورت بھی واضح ہے کہ (باپ اور بیٹی) دونوں ایک ہی دین(اسلام) سے تعلق رکھتے ہیں۔

چوتھی صورت یہ تھی کہ کسی خاص ارث کے بارے میں قرآن کے حکم کی عام دلیل سے تخصیص ہو گئی ہو۔

اس چوتھی صورت کے بارے میں جناب فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا یہ استدلال فرماتی ہیں کہ اگر میراث کے قرآنی حکم کی تخصیص ہو گئی ہوتی تو اس کا واحد ماخذ میرے پدر بزرگوار ہیں۔ کیا تم ان سے زیادہ جانتے ہو؟ ان کے بعد میرے ابن عم (علی ابن ابی طالبؑ) قرآنی علوم کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آیا تم ان سے بھی زیادہ جانتے ہو؟ واضح رہے کہ آیت وانذر عشیرتک الاقربین (سورہ شعراء آیت :۲۱۴) ’’اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو تنبیہ کیجئے‘‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فرض عینی ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ان کے متعلقہ احکام بیان فرمائیں۔ یہاں نہ اللہ کا رسول اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں کہ جناب فاطمہ ؑ کو میراث کا حکم تعلیم نہ فرمائیں نہ حضورؐ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراء ؑ اپنے باپ کے حکم کی نافرمانی کر سکتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیان کے باوجود میراث کا مطالبہ کریں۔

یہ بھی واضح رہے کہ میراث رسول ؐ کے بارے میں خود مدعی کے علاوہ کوئی اور شاہد یا راوی موجود نہ تھا چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :

واختلفوا فی میراثہ فما وجدوا عند احد من ذلک علما فقال ابوبکر سمعت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم یقول: انا معشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ (کنز العمال ج۱۴ص۱۳۰)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کے بارے میں اختلاف ہوا تو اس بارے میں کسی کے پاس کوئی علم نہ تھا صرف ابوبکر نے کہا :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے: ہم انبیاء وارث نہیں بناتے جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔

علاوہ ازیں علامہ ابن ابی الحدید بغدادی نے بھی شرح نہج البلاغہ میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وارث نہ بننے کی روایت صرف حضرت ابوبکر نے بیان کی ہے۔

فَدُونَکَها مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً

لے جاؤ!! (میری وراثت کو) اس آمادہ سواری کی طرح جس کی مہار ہاتھ میں ہو۔

تَلْقاکَ یَوْمَ حَشْرِکَ

تمہارے ساتھ حشر میں میری ملاقات ہو گی

فَنِعْمَ الْحَکَمُ اللَّهُ،

جہاں بہترین فیصلہ سنانے والا اللہ ہو گا

وَ الزَّعیمُ مُحَمَّدٌ،

اور محمدؐ کی سرپرستی ہو گی

وَ الْمَوْعِدُ الْقِیامَةُ،

اور عدالت کی وعدہ گاہ قیامت ہو گی،

وَ عِنْدَ السَّاعَةِ یَخْسِرُ الْمُبْطِلُونَ،

جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے

وَ لا یَنْفَعُکُمْ اِذْ تَنْدِمُونَ،

اس وقت ندامت سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا،

تشریح کلمات

مخطومۃ:

الخطام نکیل ڈالنا۔

مرحولہ:

کجاوہ باندھا ہو آمادہ اونٹ۔

وَ لِکُلِّ نَبَأٍ مُسْتَقَرٌّ، وَ لَسَوْفَ تَعْلَمُونَ

ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔(۷۷)

مَنْ یَأْتیهِ عَذابٌ یُخْزیهِ،

کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے

وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذابٌ مُقیمٌ

اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والا ہے۔(۷۸)

ثم رمت بطرفها نحو الانصار،فقالت:

پھر انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

یا مَعْشَرَ النَّقیبَةِ وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ

اے بزرگو اور ملت کے بازؤو

وَ حَضَنَةَ الْاِسْلامِ!

اور اسلام کے نگہبانو! (۷۹)

ما هذِهِ الْغَمیزَةُ فی حَقّی

میرے حق میں اس حد تک تساہل،

وَ السِّنَةُ عَنْ ظُلامَتی؟

مجھے میرا حق دلانے میں اتنی کوتاہی کا کیا مطلب ؟

اَما کانَ رَسُولُ‏اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ اَبی یَقُولُ:

کیا اللہ کے رسول اور میرے پدر بزرگوار یہ نہیں فرماتے تھے:

اَلْمَرْءُ یُحْفَظُ فی وُلْدِهِ،

کہ شخصیت کا احترام اس کی اولاد کے احترام کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے؟

تشریح کلمات

طَرَفْ:

نگاہ ۔

البقیۃ:

قوم کے با اثر افراد۔

حضنۃ:

نگہبان۔

غمیزۃ :

عقل و علم میں تساہل و کمزوری۔

سنۃ :

اونگھ، کوتاہی۔

۷۷۔ سورہ انعام آیت ۶۷۔۷۸۔ سورہ زمر آیت ۴۰۔

۷۹۔ا نصار کے متعلق حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:

ہم واللّہ ربوا الاسلام کما یربی الفلو مع غنائہم بایدیہم السیاط والسنتہم السلاط (نہج البلاغہ ج ۳حکمت نمبر۴۶۵)

خدا کی قسم انہوں نے اپنی خوشحالی سے اسلام کی اس طرح تربیت کی جس طرح ایک سالہ بچھڑے کو پالا پوسا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے