خطبہ فدک متن:8
وَ تَسْتَجیبُونَ لِهِتافِ الشَّیْطانِ الْغَوِىِّ،
اور تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے۔
وَ اِطْفاءِ اَنْوارِالدّینِ الْجَلِیِّ، وَ اِهْمالِ سُنَنِ النَّبِیِّ الصَّفِیِّ،
تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبی کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے۔
تشریح کلمات
ہتاف:
پکار۔
تُسِرُّونَ حَسْواً فِی ارْتِغاءٍ،
تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو(۶۶)
وَ تَمْشُونَ لِاَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ فِی الْخَمَرِ وَ الضَّرَّاءِ،
اور رسولؐ کی اولاد اور اہل بیت ؑکے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو۔ (۶۷)
وَ نَصْبِرُ مِنْکُمْ عَلى مِثْلِ حَزِّ الْمَدى، وَ وَخْزِالسِّنَانِفىِالْحَشَاءِ
تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے
تشریح کلمات
حسواً:
تھوڑا تھوڑا کر کے پینا۔
الارتغاء:
دودھ سے جھاگ اتارنا۔
الخمر :
چھپانا، خفیہ رکھنا۔
الضراء :
گھنے درخت۔
الحز:
کاٹنا۔
الُمدُی :
چھری، خنجر۔
وَخز:
زخم لگانا۔
۶۶۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے :’’ دودھ کے برتن سے بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جانا‘‘۔ یہ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کسی کے لیے بظاہر کام کرتا دکھائی دے لیکن درحقیقت وہ اپنے مفاد میں کام کر رہا ہو۔
۶۷۔ حکومت کو تین گروہوں کی طرف سے مخالفت کا خدشہ تھا۔ انصار، بنی امیہ اور بنی ہاشم۔ مگر سب سے زیادہ بنی ہاشم سے خطرہ تھا۔ اس لیے اہل بیت ؑپر تشدد کیا گیا اور بنی ہاشم میں سے کسی کو بھی کوئی منصب نہیں دیا گیا۔ البتہ انصار اور بنی امیہ کے ساتھ سمجھوتہ ہو گیا اور ان کو بھی اقتدار میں شریک کیا گیا ان کو بڑے کلیدی عہدوں سے نوازا۔ چنانچہ حبر الامت حضرت ابن عباسؓ نے حلب کی گورنری کی درخواست پیش کی لیکن یہ کہ کر رد کر دی گئی کہ اگر ہم بنی ہاشم کو شریک اقتدار کریں تو وہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کر سکتے ہیں جبکہ ابو سفیان نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں کہا تھا: انی لاری عجاجۃ لایطفئہا الا الدم ’’میں اس قسم کا گرد و غبار دیکھ رہا ہوں جس کو صرف خون ہی ختم کر سکتا ہے‘‘ لیکن برسر اقتدار افراد نے ابوسفیان کے بیٹے یزید بن ابی سفیان کو شام کا والی بنا دیا اور اس کے مرنے کے فوراً بعد اس کے بھائی معاویہ کو والی بنا دیا گیا۔
وَ اَنْتُمُ الانَ تَزَْعُمُونَ اَنْ لا اِرْثَ لَنا
اب تمہارا یہ خیال ہے کہ رسول ؐ کی میراث میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہیـ۔
أَفَحُکْمَ الْجاهِلِیَّةِ تَبْغُونَ،
کیا تم لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہو؟(۶۸)
وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُکْماً لِقَومٍ یُوقِنُونَ،
اور اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟
أَفَلا تَعْلَمُونَ؟
کیا تم جانتے نہیں ہو؟
بَلى،قَدْ تَجَلَّى لَکُمْ کَالشَّمْسِ الضَّاحِیَةِ
کیوں نہیں! یہ بات تمہارے لیے روز روشن کی طرح واضح ہے
أَنّی اِبْنَتُهُ
کہ میں رسولؐ کی بیٹی ہوں۔
اَیُّهَا الْمُسْلِمُونَ! أَاُغْلَبُ عَلى اِرْثی؟
مسلمانو! کیا میں ارث میں محرومی پر مجبور ہوں (۶۹)
یَابْنَ اَبیقُحافَةَ! اَفی کِتابِ اللَّهِ تَرِثُ اَباکَ وَ لا اَرِثُ اَبی؟ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً فَرِیّاً،
اے ابو قحافہ کے بیٹے!کیا اللہ کی کتاب میں ہے کہ تمہیں اپنے باپ کی میراث مل جائے اور مجھے اپنے باپ کی میراث نہ ملے۔ (۷۰)
اَفَعَلى عَمْدٍ تَرَکْتُمْ کِتابَ اللَّهِ
تم نے بری چیز پیش کی کیا تم نے جان بوجھ کر کتاب اللہ کو ترک کیا
وَ نَبَذْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ،
اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے
۶۸۔ چونکہ جاہلیت میں لڑکی و ارث نہیں بن سکتی تھی۔
۶۹۔اس تعبیر میں کہ (کیا میں ارث سے محرومی پر مجبور و مغلوب ہوں؟) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ارث سے محرومی کے لئے منطق اور دلیل کی جگہ طاقت استعمال کی گئی ہے۔
۷۰۔اس جملے میں میراث نہ ملنے کو ایک قسم کی اہانت قرار دیا ہے : اے مخاطب! کیا تو اس قابل ہے کہ اپنے باپ کا وارث بن جائے لیکن میں اس قابل نہیں ہوں کہ اپنے والد کی وارث بنوں؟۔
ترکہ ٔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے درج ذیل املاک بطور ترکہ چھوڑے:
۱۔ حوائط سبعہ سات احاطے
۲۔ بنی نضیر کا قطعہ ارضی
۳۔ خیبر کے تین قلعے
۴۔ وادی قری کی ایک تہائی حصہ
۵۔ مھزور (مدینہ میں بازار کی ایک جگہ)
۶ ۔ فدک
حوائط سبعہ میں سے چھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وقف فرمایا تھا۔ بنی نضیر کی زمین میں سے کچھ عبدالرحمن ؓبن عوف اور ابی دجانہ ؓوغیرہ کو مرحمت فرمایا تھا۔ خیبر کے کچھ قلعے ازواج کو عنایت فرمایا اور فدک حضرت فاطمۃ الزھراء علیھا السلام کو عنایت فرمائے اس سلسلہ میں مزید کتب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد دیگر افراد سے کوئی چیز واپس نہیں لی گئی۔ صرف فدک کو حضرت زھراء علیھا السلام کے قبضہ سے واپس لیا گیا۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو حاکم وقت سے تین چیزوں کا مطالبہ تھا:
۱۔ ھبہ: حضرت فاطمہؑ نے فرمایا : فدک رسول اللہ ؐنے مجھے ہبہ کر کے دیا۔ جس پر حضرت ابو بکر نے گواہ طلب کیے حضرت فاطمہؑ نے حضرت ام ایمن، رسول کے غلام رباح اور حضرت علی ؑ کو بطور گواہ پیش کیا لیکن یہ گواہ رد کردئے گئے(ملاحظہ ہو فتوح البلدان ج۱ ص۳۴ مطبوعہ مصر)
۲۔ ارث: یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اپنے والد کی میراث کا مطالبہ کیا تو صرف ایک راوی کو روایت کی بنیاد بنا کریہ مطالبہ مسترد کیا گیا اور راوی بھی خود مدعی ہے۔
۳۔سہم ذوالقربیٰ: حضرت فاطمہ ؑ نے اپنے والد کی میراث سے محرومیت کے بعد خمس میں سے سہم ذوالقربی (یعنی رسول کے قرابتداروں کا حصہ) کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ بھی صرف ایک صحابی کی روایت کی بنیاد پر رد کیا گیا۔ حضرت ام ہانی ؓکا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ ؑنے سہم ذوالقربی کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ ذوالقربی کا حصہ میری زندگی میں تو ان کو ملے گا لیکن میری زندگی کے بعد ان کو نہیں ملے گا (ملاخطہ ہو کنز العمال ج۵ ص۳۶۷)
إذْ یَقُولُ:
جبکہ قرآن کہتا ہے
وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ
اور سلیمان داؤد کے وارث بنے(۷۱)
وَ قالَ فیما اقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ زَکَرِیَّا اِذْ قالَ:
اور یحییٰ بن زکریا کے ذکر میں فرمایا: جب انہوں نے خدا سے عرض کی:
فَهَبْ لی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیّاً
پس تو مجھے اپنے فضل سے ایک جانشین عطا فرما
یَرِثُنی وَ یَرِثُ مِنْ الِیَعْقُوبَ،
جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے، (۷۲)
۷۱۔ اس آیت مبارکہ کا اطلاق مالی میراث کو بھی شامل ہے، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ یہاں وراثت سے مراد حکمت و نبوت نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حضرت داؤد علیہ السلام کی زندگی میں ہی حکمت دے دی گئی تھی چنانچہ ارشاد رب العباد ہے:
و داؤد و سلیمان اذ یحکمٰن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم و کنا لحکمھم شاھدین۔ ففھمنٰھا سلیمان وکلاً آتینا حکماً و علماً (سورۂ انبیاء ۷۸۔۷۹)
اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے مشاہدہ کر رہے تھے۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا ۔
۷۲۔حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی:
انی خفت الموالی من ورائی و کانت امرأتی عاقراً فہب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب.
میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے فضل سے مجھے ایک جانشین عطا فرما جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے۔
ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اپنے رشتہ داروں سے نبوت کی میراث لے جانے کا خوف تو نہیں تھا کیونکہ نبوت ایسی چیز نہیں جسے رشتہ دار ناجائز طور پر لے جائیں۔ بلکہ یہاں یقینا مالی وارثت مراد ہے۔
اس سلسلے میں امام سرخسی کا استنباط قابل توجہ ہے ۔ آپ اپنی معروف فقہی کتاب ’’المبسوط‘‘ جلد ۱۲، صفحہ ۳۶ باب الوقف طبع دار الکتب العلمیہ بیروت میں لکھتے ہیں :
واستدل بعض مشایخنا رحمھم اللّٰہ تعالی بقولہ علیہ الصلوۃ والسلام انّا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ فقالوا معناہ ما ترکناہ صدقۃ لا یورث ذلک و لیس المراد ان اموال الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لا تورث وقد قال اللّہ تعالی {وورث سلیمان داؤد} وقال اللّہ تعالی: {فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب} فحاشا ان یتکلم رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم بخلاف المنزل فعلی ھذا التاویل فی الحدیث بیان ان لزوم الوقف من الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام خاصۃ بناء علی ان الوعد منھم کالعھد من غیرھم.
ہمارے بعض اساتذہ نے وقف کے ناقابل تنسیخ ہونے پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: انّا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو مال بعنوان صدقہ (وقف) چھوڑا ہے اس کا ہم سے کوئی وارث نہیں ہوتا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے اموال کے وارث نہیں ہوتے جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا:وورث سلیمان داؤد نیز فرمایا :فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من اٰل یعقوب پس ممکن نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف بات کریں۔ حدیث کی اس توجیہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے وقف کا ناقابل تنسیخ ہونا ایک خصوصی بات ہے کیونکہ انبیاء کے ’’وعدے‘‘ دوسرے لوگوں کے ’’معاہدے‘‘ کی طرح ہے‘‘۔
وَ قالَ: وَ اوُلُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی ببَعْضٍ فی کِتابِ اللَّهِ،
نیز فرمایا: اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (۷۳)
۷۳۔اس آیت میں وراثت کا ایک اصول صریح لفظوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خونی رشتہ دار وراثت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اس سے پہلے انصار و مہاجرین میں باہمی توارث کا حکم نافذ تھا جو اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔
وَ قالَ:
نیز فرمایا:
یُوصیکُمُ اللَّهُ فی اَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ،
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ (۷۴)
وَ قالَ:
نیز فرمایا:
اِنْ تَرَکَ خَیْراً الْوَصِیَّةَ لِلْوالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبَیْنِ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَى الْمُتَّقینَ
اگر مرنے والا مال چھوڑ جائے، تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے مناسب طور پر وصیت کرے۔ (۷۵)
وَ زَعَمْتُمْ اَنْ لا حَظْوَةَ لی، وَ لا اَرِثُ مِنْ اَبی، وَ لا رَحِمَ بَیْنَنا،
اس کے باوجود تمہارا خیال ہے کہ میرے باپ کی طرف سے میرے لیے نہ کوئی وقعت ہے نہ ارث اور نہ ہمارے درمیان کوئی رشتہ۔
اَفَخَصَّکُمُ اللَّهُ بِایَةٍ اَخْرَجَ اَبی مِنْها؟
کیا اللہ نے تمہارے لیے کوئی مخصوص آیت نازل کی ہے جس میں میرے والد گرامی شامل نہیں ہیں؟
اَمْ هَلْ تَقُولُونَ: اِنَّ اَهْلَ مِلَّتَیْنِ لا یَتَوارَثانِ؟
کیا تم یہ کہتے ہو کہ دو مختلف دین والے باہم وارث نہیں بن سکتے۔
تشریح کلمات
حْظوۃ:
عزت، منزلت۔
۷۴۔ اولاد کی میراث کے بارے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس صریح ہدایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔
۷۵۔والدین اور قریبی رشتہ داروں کے بارے میں ارث کے باوجود وصیت کی تاکید ہے چونکہ والدین ہر صورت میں وارث ہیں تو جہاں میراث کے باوجود وصیت کا حکم ہے وہاں اصل میراث سے محروم کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟








