خطبہ فدک متن:7

وَ اَطْلَعَ الشَّیْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ،هَاتِفاً بِکُمْ،

شیطان بھی اپنی کمین گاہ سے سر نکالا اور تمہیں پکارنے لگا۔

فَأَلْفاکُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجِیْبَیْنَ،

اس نے تمہیں اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پایا۔

وَ لِلْغِرَّةِ فِیهِ مُلاحِظِیْنَ،

اور اس کے مکرو فریب کے لیے آمادہ و منتظر پایا۔

ثُمَّ اسْتَنْهَضَکُمْ فَوَجَدَکُمْ خِفافاً،

پھر شیطان نے تمہیں اپنے مقصد کے لئے اٹھایا اور تمہیں سبک رفتاری سے اٹھتے دیکھا۔

تشریح کلمات

مغرز:

ڈسنے کی جگہ ۔ کمین گاہ۔

الفاکم:

پایا تم کو۔

الغرۃ:

دھوکہ۔

وَ اَحْمَشَکُمْ فَاَلْفاکُمْ غِضاباً،

اس نے تمہیں بھڑکایا تو تم فوراً غضب میں آ گئے۔

فَوَسَمْتُمْ غَیْرَ اِبِلِکُمْ،

تم نے اپنے نشان دوسروں کے اونٹوں پر لگا دیے۔ (۵۹)

وَ وَرَدْتُمْ غَیْرَ مَشْرَبِکُمْ. هذا،

اور اپنے گھاٹ کی جگہ دوسروں کے گھاٹ سے پانی بھرنے کی کوشش کی۔(۶۰)

وَ الْعَهْدُ قَریبٌ،وَالْکَلْمُ رَحیبٌ،

یہ تمہاری حالت ہے جبکہ ابھی عہد رسول قریب ہی گذرا ہے، زخم گہرا ہے (۶۱)

وَ الْجُرْحُ لَمَّا یَنْدَمِلُ،

اور جراحت ابھی مندمل نہیں ہوئی۔

وَ الرَّسُولُ لَمَّا یُقْبَرُ، اِبْتِداراً زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ،

ابھی رسول ؐ کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ تم نے فتنہ کا بہانہ بنا کر عجلت سے کام لیا۔

تشریح کلمات

احمسکم :

تمہیں بھڑکایا حمس جوش دلایا۔

وسمتم الوسم:

نشان لگانا۔

الکلم:

زخم۔

رحیب:

وسیع

۵۹۔ تم نے دوسروں کے اونٹوں پر اپنا نشان لگایا ہے یعنی دوسروں کے حقوق پر بے جا تصرف کیا ہے۔ واضح رہے کہ عربوں میں یہ رواج عام تھا کہ ہر مالک اپنے اونٹوں پر خاص قسم کی نشانی لگاتے تھے کہ مالک اپنے اونٹ کو پہچان سکے۔

۶۰۔ ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنا اپنا گھاٹ مخصوص رکھتے تھے۔ اس فرمان میں یہ اشارہ ہے کہ تم کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے تھا مگر تم نے دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی ہے۔

۶۱۔ یعنی عہد رسالتؐ کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔

۶۲۔یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین سے پہلے مسند خلافت پرقبضہ کرنے کے عمل کی سرزنش کی جا رہی ہے۔ خلافت پر قبضہ کرنے والوں کی یہ توجیہ پیش کی کہ ہم نے فتنہ کے خوف سے تدفین رسولؐ پر خلافت کو ترجیح دی۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی جس کی رو سے جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والوں نے یہ عذر تراشا تھا کہ ہم نے جنگ میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ رومی عورتوں پر فریفتہ ہو کر کہیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ قرآن حکیم نے ان کے جواب میں فرمایا تھا: الا فی الفتنہ سقطوا دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں یعنی یہ عذر تراشی خود سب سے بڑا فتنہ ہے۔

۶۳۔ یعنی امامت و خلافت سے تمہارا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ عام انسان نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ مقام تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ تاریخی شواہد گواہ ہیں کہ عام مہاجرین اور انصار میں سے کسی کو اس بات میں شک نہ تھا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلافت حضرت علی ؑ کی ہو گی۔

(ملاحظہ فرمائیں:موفقیات ص۵۸۰ طبع بغداد)

۶۴۔تمام ادیان میں امامت کا جو مقام و معیار رہا ہے وہ قرآن پاک سے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نسلوں میں امامت کا سلسلہ قائم رہا تو کس اساس پر رہا۔

اَلا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا، وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْکافِرینَ.

دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ (توبہ؍۴۹)

فَهَیْهاتَ مِنْکُمْ، وَ کَیْفَ بِکُمْ،

تم سے بعید تھا کہ تم نے یہ کیسے سوچا؟

وَ اَنَّى تُؤْفَکُونَ،

تم کدھر بہکے جا رہے ہو؟ (۶۳)

وَ کِتابُ اللَّهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ،

حالانکہ کتاب خدا تمہارے درمیان ہے، (۶۴)

اُمُورُهُ ظاهِرَةٌ،

جس کے دستور واضح،

وَ اَحْکامُهُ زاهِرَةٌ،

احکام روشن،

وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ،

تعلیمات آشکار،

و زَواجِرُهُ لائِحَةٌ،

تنبیہات غیر مبہم،

وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ،

اور اس کے اوامر واضح ہیں۔

وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ،

اس قرآن کو تم نے پس پشت ڈال دیا۔ کیا تم اس سے منہ موڑ لینا چاہتے ہو؟

أَرَغْبَةً عَنْهُ تُریدُونَ؟ اَمْ بِغَیْرِهِ تَحْکُمُونَ؟

کیا تم اس کے بغیر فیصلے کرنے کے خواہاں ہو؟

بِئْسَ لِلظَّالمینَ بَدَلاً،

یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے

وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلامِ دیناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ، وَ هُوَ فِی الْاخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینِ.

اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا اِلى رَیْثَ اَنْ تَسْکُنَ نَفْرَتَها، وَ یَسْلَسَ قِیادَها،

پھر تمہیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدکے ہوئے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا (۶۵)

ثُمَّ اَخَذْتُمْ تُورُونَ وَ قْدَتَها،

پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا

وَ تُهَیِّجُونَ جَمْرَتَها،

اور اس کے شعلے کو پھیلانا شروع کیا

تشریح کلمات

لم تلبثوا، لبث:

انتظار کرنا۔ ٹھہرے رہنا۔

ریثما:

بقدر۔

یسلس، سلس:

آسان ہونا۔

تورون:

آگ بھڑکانا۔

وَقْدَۃ:

شعلہ۔

جمرۃ:

چنگاری۔

۶۵۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا وصال سوموار کے دن ظہر کے وقت ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب، مغیرہ بن شعبہ کے ہمراہ آئے اور نبی کریمؐ کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر کہنے لگے: کیا گہری بے ہوشی ہے رسولؐ اللہ کی، مغیرہ نے کہا: حضور کا انتقال ہو گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم فتنہ پرور آدمی ہو۔ رسولؐ اللہ منافقین کے خاتمہ تک زندہ رہیں گے (مسند امام احمد ج۳ ص ۲۱۰)۔ اس وقت حضرت ابوبکر مدینہ سے باہر اپنے گھر ’’المسنح‘‘نامی جگہ پر تھے۔

مشہور مؤرخ ابن جریر طبری نے لکھا ہے : لما قبض النبیؐ کان ابوبکر غائباً فجأبعد ثلاثۃ ایام ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوا تو ابوبکر غائب تھے، تین دن بعد آئے‘‘۔(تاریخ طبری ج۳ ص ۱۹۸ طبع مصر)

حضرت ابن ام مکتوم ؓنے حضرت عمر کو یہ آیت پڑھ کر سنائی: وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افأن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم تو حضرت عمر نے اعتنا نہ کی۔

دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر کو مسجد میں لوگوں نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ حضرت عمر اس قدر بولتے رہے کہ منہ سے جھاگ نکلنے لگا (کنزالعمال ج ۲ص۵۳طبعدکن) جب حضرت ابوبکر اپنے گھر مسخ سے آگئے تو انہوں نے بھی اسی آیت کی تلاوت کی جو ابن ام مکتومؓ پہلے سنا چکے تھے۔ اس پر حضرت عمر نے کہا :کیا یہ آیت قرآن میں ہے؟ اور بعد ازاں مان گئے کہ حضور ؐکا انتقال ہو گیا ہے یعنی حضرت ابوبکر کے آنے کے بعد قبول کیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت لینے کے بعد عام بیعت کے لئے وہ مسجد نبوی آگئے تو حضرت عباس ؓاور حضرت علی ؑابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غسل دینے میں مصروف تھے (العقد الفرید ج ۴ ص ۲۵۸ طبع مطعبۃ ازہریہ مصر)۔چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر جو حضرت ابوبکر کے نواسے اور جناب اسماء بنت ابی بکرؓ کے فرزند ارحمبند ہیں روایت کرتے ہیں کہ ان ابابکر وعمر لم یشہدا دفن النبی ؐ وکانا فی الانصار فدفن قبل ان یرجعا ’’حضرت ابوبکر وعمر دونوں جنازہ اور دفن رسول ؐ میں حاضر نہیں ہوئے اور وہ دونوں انصار میں تھے اور حضورؐ ان دونوں کے واپس ہونے سے پہلے ہی دفن کر دئیے گئے‘‘ (کنز العمال ج۳ص۱۴۰ طبع دکن)۔یہ لوگ رسول اللہؐ کی تدفین کے لیے بھی حاضر نہ ہوئے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’ہمیں رسول اللہ ؐ کی تدفین کا علم بدھ کی رات کو ہوا‘‘۔(تاریخ طبری ۲ ص ۴۵۲)۔ اس سلسلہ میں مزید تحقیق کے لیے تاریخی کتب کا مطالعہ ضرور کریں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے