خطبہ فدک متن:6
مَکْدُوداً فی ذاتِ اللَّهِ،
وہ راہ خدا میں جانفشاں،
مُجْتَهِداً فی اَمْرِ اللَّهِ،
اللہ کے معاملے میں مجاہد (۵۳)،
قَریباً مِنْ رَسُولِ اللهِ،
رسول اللہ کے نہایت قریبی (۵۴)
تشریح کلمات
مکدود:
کدّسے اسم مفعول جاں فشانی۔
۵۳۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی ؑ کے جسم اطہر پر صرف احد کی جنگ میں اسی (۸۰) زخم ایسے لگ گئے تھے کہ مرہم زخم کی ایک طرف سے دوسری طرف نکل جاتا تھا۔
۵۴۔ اس سلسلہ میں متعدد احادیث تمام اسلامی مکاتب فکر کی بنیادی کتب میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ سے فرمایا:
لحمک لحمی ودمک دمی۔ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی۔ علی منی و انا منہ
سَیِّداً فی اَوْلِیاءِ اللَّهِ،
اور اولیاء اللہ کے سردار تھے۔ (۵۵)
مُشَمِّراً ناصِحاً مُجِدّاً کادِحاً،
وہ(جہاد کیلئے) ہمہ وقت کمر بستہ، امت کے خیر خواہ، عزم محکم کے مالک (اور) راہ حق میں جفاکش تھے۔
لا تَأْخُذُهُ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمٍ.
راہ خدا میں وہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے
وَ اَنْتُمَ فی رَفاهِیَّةٍ مِنَ الْعَیْشِ،
مگر تم ان دنوں عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے،
و ادِعُونَ فاکِهُونَ آمِنُونَ،
نیز سکون اور خوشی میں امن و امان کے ساتھ رہتے تھے۔
تَتَرَبَّصُونَ بِنَا الدَّوائِرَ،
تم اس انتظار میں رہتے تھے کہ ہم پر مصیبتیں آئیں
وَ تَتَوَکَّفُونَ الْاَخْبارَ،
اور تمہیں بری خبریں سننے کو ملیں۔
تشریح کلمات
مشمراً :
کپڑے کو پنڈلیوں سے اوپر اٹھانا۔
کادح:
جفاکش۔
وادعون :
آسودہ ۔
فاکھون :
ہنسی مزاح۔
تربص:
انتظار۔
دوائر:
مصائب۔
تتوکفون :
توقع رکھتے تھے۔
۵۵۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص۴۳ مطبوعہ بیروت میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ کے بارے میں فرمایا:
یا انس اسکب لی وضؤاً فصلی رکعتین ثم قال یا انس یدخل علیک من ہذا الباب امیر المؤمنین و سید المرسلین وقائد الغر المحجلین و خاتم الوصیین
اے انس! وضو کے لئے پانی فراہم کرو۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر فرمایا: اے انس! اس دروازے سے تیرے پاس وہ شخص آئے گا جو مومنوں کا امیر، مسلمانوں کا سردار اور روشن چہرے والوں کے رہنما اور خاتم اوصیاء ہو گا۔
وَ تَنْکُصُونَ عِنْدَ النِّزالِ،وَ تَفِرُّونَ مِنَ الْقِتالِ
تم جنگ کے وقت پسپائی اختیار کر تے تھے اور لڑائی میں راہ فرار اختیار کرتے تھے۔ (۵۶)
فَلَمَّا اِختارَ اللَّهُ لِنَبِیِّهِ دارَ اَنْبِیائِهِ وَ مَأْوى اَصْفِیائِهِ،
پھر جب اللہ نے اپنے نبیؐ کے لئے مسکن انبیاء اور برگزیدہ گان کی قرار گاہ (آخرت) کو پسند کیا۔
تشریح کلمات
نکص:
پسپائی اختیار کی۔
نزال:
مقابلہ۔ جنگ کا۔
۵۶۔ تاریخ کے ادنی طالب علم پر بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں کن لوگوں نے راہ فرار اختیار کی۔ قرآن کریم نے بھی اس بات کو اپنے صفحات پر اس انداز میں ثبت کیا ہے کہ بھاگنے والوں کے لیے عذر کی گنجائش باقی نہ رہے فرمایا:
اذتصعدون ولاتلوون علی احد و الرسول یدعوکم فی اخراکم ( سورہ آل عمران آیت۱۵۳)
جب تم چڑھائی کی طرف بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھ رہے تھے حالانکہ رسول تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے۔
اس آیت میں والرسول یدعوکم ’’رسول تمہیں پکار رہے تھے‘‘ کا جملہ شاہد ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پکار سن رہے تھے اور بھاگ رہے تھے۔ اگر نہ سنتے تو یدعوکم کی تعبیر اختیار نہ فرماتا۔
یوم حنین کے بارے میں فرمایا:
لقد نصرکم اللّہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئاً و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین (سورہ توبہ آیت۲۵)
بتحقیق اللہ بہت سے مقامات پر تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تم کو غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آیا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
ظَهَرَ فیکُمْ حَسْکَةُ النِّفاقِ،
تو تمہارے دلوں میں نفاق کے کانٹے نکل آئے (۵۷)
وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدّینِ،
اور دین کا لبادہ تار تار ہو گیا۔
وَ نَطَقَ کاظِمُ الْغَاوِیْنَ،
ضلالت کی زبانیں چلنے لگیں۔
وَ نَبَغَ خَامِلُ الْاَقَلّینَ،
بے مایہ لوگوں نے سر اٹھانا شروع کیا،
وَ هَدَرَ فَنیقُ الْمُبْطِلینَ،
اور باطل کے سرداروں نے گرجنا شروع کر دیا۔ (۵۸)
فَخَطَرَ فی عَرَصاتِکُمْ،
پھر وہ دم ہلاتے ہوئے تمہارے اجتماعات میں آگئے۔
تشریح کلمات
حسیکۃ:
کانٹا۔
سمل:
بوسیدہ ہو گیا۔
جلباب:
قمیص، چادر۔
نبغ:
نبوغ ظاہر ہونا۔
خامل:
گمنام پست آدمی۔
ہدر:
گرجنا، اونٹ کا بلبلانا۔
فنیق:
سردار۔نر اونٹ ۔
خَطَرَ:؟
دم ہلایا۔
۵۷۔صحیح بخاری کتاب الدیات میں حسب ذیل حدیث مروی ہے :
عن ابن عمر انہ سمع النبیؐ یقول: لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض
عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : میرے بعد تم کافر مت بنو کہ ایک دوسرے کی گردن مارو۔
ابوذرعہ اپنے دادا حضرت جریر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
انصت الناس ثم قال: لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض
لوگوں کو خاموش کیا پھر فرمایا: میرے بعد کافر مت بنو کہ ایک دوسرے کی گردن مارو
۵۸۔ حضرت علی ؑ نے بھی اس وقت کے حالات پر اسی قسم کا تبصرہ فرمایا ہے:
الا و ان بلیتکم قد عادت کھیئتھا یوم بعث اللّہ نبیکم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم والذی بعثہ بالحق لتبلبلُن بلبلۃ ولتغربلن غربلۃ و لتساطن سوط القدر حتی یعود اسفلکم اعلاکم و اعلاکم اسفلکم ولیسبقن سابقون کانوا قصروا و لیقصرن سباقون کانوا سبقوا (نہج البلاغۃ خطبہ۱۶طبع مصر)
تمہیں جاننا چاہئے کہ تمہارے لیے وہی ابتلا پھر پلٹ آیا ہے جو رسولؐ کی بعثت کے وقت موجود تھا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور تم اس طرح خلط ملط کیے جاؤ گے جس طرح(چمچے سے) ہنڈیا۔ یہاں تک تمہارے ادنی لوگ اعلیٰ اور اعلیٰ لوگ ادنی ہو جائیں گے، جو پیچھے تھے وہ آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔








