خطبہ فدک متن:2
فَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ مِنْ تَعَبِ هذِهِ الدَّارِ فی راحَةٍ، اب محمدؐ دنیا کی تکلیفوں سے آزاد ہیں۔ قَدْ حُفَّ بِالْمَلائِکَةِ الْاَبْرارِ مقرب فرشتے ان کے گرد حلقہ بگوش ہیں۔ وَ رِضْوانِ الرَّبِّ الْغَفَّارِ، آپ ربّ غفار کی خوشنودی وَ مُجاوَرَةِ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ، اور خدائے جبار کے سایۂ رحمت میں آسودہ ہیں۔ صَلَّى اللَّهُ عَلی أَبی نَبِیِّهِ وَ اَمینِهِ اللہ کی رحمت ہو اس کے نبی امین پر وَ خِیَرَتِهِ مِنَ الْخَلْقِ وَ صَفِیِّهِ، جو ساری مخلوقات سے منتخب و پسندیدہ ہیں۔ وَ السَّلامُ عَلَیْهِ وَ رَحْمَةُاللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ اور اللہ کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں ہوں آپ پر۔ ثم التفت الى اهل المجلس و قالت: پھر اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا: اَنْتُمْ عِبادَ اللَّهِ نُصُبُ اَمْرِهِ وَ نَهْیِهِ، اللہ کے بندو! تم ہی تو اللہ کے امر و نہی کے علمدار ہو، وَ حَمَلَةُ دینِهِ وَ وَحْیِهِ، اللہ کے دین اور اس کی وحی (کے احکام) کے ذمے دار ہو۔ وَ اُمَناءُ اللَّهِ عَلى اَنْفُسِکُمْ، تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو، وَ بُلَغاؤُهُ اِلَى الْاُمَمِ، دیگر اقوام کے لئے (اس کے دین کے) بھی مبلغ تم ہو۔ (۲۰)
۲۰۔ احکام خداوندی اور وحی الٰہی کے پہلے مخاطبین وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے براہ راست احکام سنتے تھے۔ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا تھا کہ وہ ان احکام کو پوری دیانتداری سے حفظ کرکے دوسرے لوگوں تک امانتداری سے پہنچا دیں۔ چنانچہ آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: فلیبلغ الشاھد الغائب حاضر لوگ غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔ البتہ ان احکام کو حفظ کرنے اور امانتداری کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے میں سب لوگ یکساں نہ تھے۔ کچھ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتیں سنتے تو تھے لیکن کچھ سمجھنے کے اہل نہ تھے چنانچہ قرآن حکیم اس کی یوں گواہی دیتا ہے ۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ۔ حَتّٰی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اَنِفًا۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَاتَّبَعُوْآ اَھْوَآئَ ھُم (سورہ ٔ محمد آیت ۱۶) اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ(کی باتوں) کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں کہ اس (نبی) نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اسی طرح فرمودات رسولؐ کو پوری امانت کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے فریضے پر بھی لوگ یکساں طور پر عمل پیرا نہ ہوئے۔یہاں مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ زَعیمُ حَقٍّ لَهُ فیکُمْ، اس کی طرف سے برحق رہنما تمہارے درمیان موجود ہے۔ (۲۱) وَ عَهْدٍ قَدَّمَهُ اِلَیْکُمْ، اور تم سے عہد و پیمان بھی پہلے سے لیا جا چکا ہے۔(۲۲)
۲۱۔ زعیم حق سے مراد حضرت علی ؑ کی ذات ہو سکتی ہے۔ لہ‘ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹتی ہے یعنی اللہ کی طرف سے وہ ذات بھی تمہارے درمیان موجود ہے جس کی زعامت اور قیادت مبنی برحق ہے۔
۲۲۔ اس عہد سے مراد وہ عہد ہو سکتا ہے جو غدیر خم کے موقع پر لوگوں سے لیا گیا۔ چنانچہ غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ بہت سے جلیل القدر اصحاب رسول ؐ اور تابعین ؒکی متواتر روایت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔ ظاہر ہے ایک لاکھ کے مجمع نے رسول اللہؐ سے یہ حدیث سنی تھی تو حضرت زہرا ؑکے زمانے میں یقینا ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے رسولؐ اللہ سے یہ حدیث سنی تھی۔ وَ بَقِیَّةٍ اِسْتَخْلَفَها عَلَیْکُمْ: آپ نے ایک (گراں بہا) ذخیرے کو تمہارے درمیان جانشین بنایا (۲۳) وَ مَعَنَا کِتابُ اللَّهِ اور اللہ کی کتاب بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ کِتابُ اللَّهِ النَّاطِقُ یہ اللہ کی ناطق کتاب وَ الْقُرْانُ الصَّادِقُ، سچا قرآن، و النُّورُ السَّاطِعُ چمکتا نور، وَ الضِّیاءُ اللاَّمِعُ، اور روشن چراغ ہے بَیِّنَةً بَصائِرُهُ، اس کے دروس عبرت واضح مُنْکَشِفَةً سَرائِرُهُ، اور اس کے اسرار و رموز آشکار مُنْجَلِیَةً ظَواهِرُهُ، اور اس کے ظاہری معانی روشن ہیں۔ مُغْتَبِطَةً بِهِ اَشْیاعُهُ، اس کے پیروکار قابل رشک ہیں(۲۴)
۲۳۔ یہ ایک متواتر حدیث ثقلین کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی) یہ حدیث بھی متعدد صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ برصغیر کے محقق علی الاطلاق علامہ میر حامد حسین لکھنوی ؒ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب دو ضخیم جلدوں میں ’’عبقات الانوار‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی ہے۔
۲۴۔ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث مروی ہے: والفضیلۃ الکبری و السعادۃ العظمی من استضاء بہ نورہ اللہ ومن عقد بہ امرہ عصمہ اللہ ومن تمسک بہ انقذہ اللہ (بحار الانوار ۸۹؍۳۱) قرآن سب سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑی سعاوت ہے جو اس کے ذریعے روشنی طلب کرے اللہ اسے منور کر دیتا ہے اور جو اپنے معاملہ کو قرآن سے وابستہ کرے اللہ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ اور جو اس سے متمسک ہوا اللہ اسے نجات دیتا ہے۔ قائِداً اِلَى الرِّضْوانِ اِتِّباعُهُ، اس کی پیروی رضوان کی طرف لے جاتی ہے۔ (۲۵) مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اسْتِماعُهُ اسے سننا بھی ذریعۂ نجات ہے۔ (۲۶) بِهِ تُنالُ حُجَجُ اللَّهِ الْمُنَوَّرَةُ، اس قرآن کے ذریعے اللہ کی روشن دلیلوں کو پایا جا سکتا ہے۔ (۲۷)
۲۵۔ قرآن مجید کا اتباع مؤمن کو مقام رضوان پر فائز کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ سورۂ توبہ آیت ۷۲ میں جنت کے اعلی ترین درجہ یعنی جنت عدن کے ذکر کے بعد یوں فرمایا گیا ہے: ورضوان من اللہ اکبر ذلک ہو الفوز العظیم اور اللہ کی طرف سے خوشنودی ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی جنت کے اعلی ترین درجہ یعنی جنت عدن سے بھی بڑھ کر ہے۔ ممکن ہے ’’اکبر‘‘ سے مراد اکبر من کل شئیہو یعنی جنت کی تمام نعمتیں خواہ کتنی عظیم کیوں نہ ہوں رضائے رب کے مقابلہ میں کچھ نہیں اور ممکن ہے اکبر من ان یوصف ہو یعنی اللہ کی خوشنودی کی نعمت توصیف و بیان کی حد سے بڑھ کر ہے۔ مؤمن جب جنت میں رب رحیم کے جوار میں اس کی خوشنودی کی پرسکون اور کیف و سرور کی فضا میں قدم رکھے گا تو اس کے لئے ایک لمحہ بھی وصف و بیان سے بڑھ کر ہو گا۔
۲۶۔ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب تمام اعمال میں سب سے زیادہ ہے۔ پیغمبر اسلامؐ سے حدیث ہے:احب الاعمال الی اللہ الحال المرتحل حضرت امام زین العابدین ؑسے جب پوچھا گیا تو یہی فرمایا کہ بہترین عمل الحال المرتحل(العدۃ ص ۲۹۹)ہے یعنی قرآن کی تلاوت شروع کر کے ختم کرنا۔ اسی طرح قرآن کی تلاوت کا سننا بھی کار ثواب ہے۔ بلکہ جب تلاوت قرآن کی آواز آ رہی ہو تواسے توجہ سے سننا بھی موجب ثواب ہے۔ واذاقری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون (سورہ اعراف آیت ۲۰۴) جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
۲۷۔ اللہ تعالیٰ کی روشن دلیلیں جس کے پاس ہوں وہ یقینا کامیاب وکامران ہے۔ چنانچہ جب قل فللّہ الحجۃ البالغۃ کا مطلب حضرت امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا تو آپ ؑنے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر ایک بندہ سے سوال فرمائے گا کہ تو دنیا میں عالم تھا یا جاہل؟ اگر جواب دے کہ میں عالم تھا تو فرمائے گا: پھر تم نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر کہے جاہل تھا تو فرمائے گا کہ تم نے علم حاصل کیوں نہیں کیا تاکہ تم اس پر عمل کرتا ؟یہی حجت بالغہ ہے جو اللہ اپنے بندے پر قائم فرماتا ہے۔ اگر انسان قرآنی تعلیمات حاصل کر کے اس پر عمل کرے تو اس صورت میں حجت اور دلیل اس کے پاس ہوتی ہے۔(امالی شیخ طوسی صفحہ ۹) وَ عَزائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ، بیان شدہ واجبات کو،(۲۸) وَ مَحارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ، منع شدہ محرمات کو، وَ بَیِّناتُهُ الْجالِیَةُ، روشن دلائل کو، وَ بَراهینُهُ الْکافِیَةُ، اطمینان بخش براہین کو، وَ فَضائِلُهُ الْمَنْدُوبَةُ، مستحبات پر مشتمل فضائل کو،(۲۹) وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ، جائز مباحات کو، وَ شَرائِعُهُ الْمَکْتُوبَةُ. اور اس کے واجب دستور کو پایاجا سکتا ہے۔ فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، اللہ نے ایمان کو شرک سے تمہیں پاک کرنے کا، (۳۰) وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ، نماز کو تمہیں تکبر سے محفوظ رکھنے کا،(۳۱)
۲۸۔ (عزائم) فرائض اور واجبات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’رخص‘‘ آتا ہے جو مباحات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں رخص بھی ہیں اور عزائم بھی واجبات کا ذکر ہے اور مباحات کا بھی۔ مثلاً وکلوا مما رزقکم اللہ حلالا طیبا(۵:۸۸) جو حلال و پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اسے کھاؤ۔
۲۹۔ اس جملے کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ’’ اس کی طرف سے دعوت شدہ فضائل کو‘‘ ممکن ہے مندوب کا مطلب مستحبات ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مندوب لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہو یعنی ’’دعوت شدہ‘‘ـ
۳۰۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ غیر اللہ پرتکیہ کرنا سراسر ایمان کے منافی ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان اور غیر اللہ پربھی جن سے شرک لازم آتا ہو یہ دونوں ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔ البتہ جہاں ایمان باللہ کمزور ہو جاتا ہے تو وہاں غیر اللہ پر بھروسہ کے لئے گنجائش نکل آتی ہے۔ لیکن جب ایمان پختہ ہو تو ایسی آلودگیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
۳۱۔ نماز اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا عملی اعتراف ہے۔جب بندہ خدا کی کبریائی کا معترف ہو جائے تواپنی کبریائی کا تصور نہیں کر سکتا لہٰذا نمازی تکبر کی بیماری میں مبتلا نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: ولنا فی ذلک من تعفیر عتاق الوجوہ بالتراب تواضعاً والتصاق کرائم الجوارح بالارض تصافرا ً (نہج البلاغۃ) اور ہمارے خوبصورت چہروں کو خاک پر رکھنے میں تواضع ہے اور اہم اعضاء کو زمین پر رکھنے میں فروتنی ہے۔








