خطبہ فدک متن:12
ایهاً بَنی قیلَةَ! ءَ اُهْضَمُ تُراثَ اَبی
تم سے بعید تھا اے قیلہ کے فرزندو(۸۵)
وَ اَنْتُمْ بِمَرْأى مِنّی وَ مَسْمَعٍ وَ مُنْتَدى وَ مَجْمَعٍ،
(کہ) میرے باپ کی میراث مجھ سے چھینی جائے اور تم سامنے کھڑے دیکھ رہے ہو، میری آنکھوں کے سامنے بھرے مجمعوں اور محفلوں کے سامنے میری دعوت تم تک پہنچ چکی ہے
تَلْبَسُکُمُ الدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُکُمُ الْخُبْرَةُ،
میرے حالات سے تم آگاہ ہو
تشریح کلمات
اَیھاً : اسم فعل:
ھیھات دور ہونا۔
منتدی:
محفل۔
الجُنۃ:
ڈھال۔
علامہ جلال الدین سیوطی درج بالا حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ھؤلاء اشہد علیہم‘‘ ای اشہد لہم بالایمان الصحیح والسلامۃ من الذنوب الموبقات ومن التبدیل و التغییر و المنافستہ و نحو ذلک.
نبی اکرم نے جو فرمایا میں ان شہداء کے متعلق گواہی دوں گا یعنی: ان کا ایمان صحیح تھا اور بڑے مہلک گناہوں سے محفوظ تھے اور کسی تبدیلی و تغیراور دنیا کے لالچ سے بھی محفوظ تھے۔ (وفاء الوفاء ج۳ صفحہ ۹۳۱ طبع بیروت)
علامہ سہودی نے بھی اس واقعہ کو بعنوان شہادۃ الرسول لشہداء احد کے ذیل میں لکھا ہے:
ثم وقف رسول اللّہ موقفاً آخر فقال ھؤلاء اصحابی الذین اشہدلہم یوم القیمۃ فقال ابو بکر: فما نحن باصحابک فقال بلی ولکن لا ادری کیف تکونون بعدی انہم خرجوا من الدنیا خماصاً.
پھر رسول اللہ دوسری جگہ (لاشوں کے پاس) کھڑے ہوے اور فرمایا یہ میرے وہ اصحاب ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن گواہی دوں گا۔ پس ابوبکر نے کہا: کیا ہم آپ کے اصحاب نہیں ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا: ہاں! لیکن میں نہیں جانتا میرے بعد تمہارا کردار کیسے ہو گا۔ یہ لوگ دنیا سے خالی شکم گئے ہیں۔
۸۵۔قیلۃ: قبیلہ اوس اور خزرج کا سلسلٔہ نسب جس نامدار خاتون تک پہنچتا ہے اس کا نام قیلہ تھا۔
وَ اَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ وَ الْعُدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْقُوَّةِ، وَ عِنْدَکُمُ السِّلاحُ وَ الْجُنَّةُ،
اور تم تعداد و استعداد سامان حرب اور قوت میں کمزور نہیں ہو، تمہارے پاس کافی اسلحہ اور دفاعی سامان موجود ہے
تُوافیکُمُ الدَّعْوَةُ فَلا تُجیبُونَ،
میری پکار تم تک پہنچ رہی ہے اور چپ سادھے ہوئے ہو۔
وَ تَأْتیکُمُ الصَّرْخَةُ فَلا تُغیثُونَ، وَ اَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْکِفاحِ،
میری فریاد تم سن رہے ہو اور فریاد رسی نہیں کرتے ہو حالانکہ بہادری میں تمہاری شہرت ہے
مَعْرُوفُونَ بِالْخَیْرِ وَ الصَّلاحِ،
اور خیر و صلاح میں تم معروف ہو
وَ النُّخْبَةُ الَّتی انْتُخِبَتْ،
تم وہ برگزیدہ لوگ ہو
وَ الْخِیَرَةُ الَّتِی اخْتیرَتْ لَنا اَهْلَ الْبَیْتِ
جو ہم اہل البیت کے لئے پسندیدہ لوگوں میں شمار ہوتے ہو۔
قاتَلْتُمُ الْعَرَبَ،
عربوں کے خلاف جنگ تم نے لڑی
وَ تَحَمَّلْتُمُ الْکَدَّ وَ التَّعَبَ،
اذیت اور سختیاں تم نے برداشت کیں
وَ ناطَحْتُمُ الْاُمَمَ،
دیگر اقوام کے ساتھ نبرد آزما تم ہوئے
وَ کافَحْتُمُ الْبُهَمَ،
جنگجوؤں کا مقابلہ تم نے کیا (۸۶)
تشریح کلمات
کفاح:
ڈھال اور زرہ کے بغیر لڑنا۔
النخبۃ:
چیدہ لوگ۔
ناطحتم:
ایک دوسرے کو سینگ مارا۔
۸۶۔زر ارہ حضرت امام محمد باقر ؑ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
فرزندان قیلہ (انصار) کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی تلواریں اٹھائی جا سکی اور نماز اور جنگ میں صفیں باندھی گئی اور علناً اذان دی گئی اور یا ایہا الذین امنوا پر مشتمل آیتیں نازل ہونا شروع ہو گئی۔ بحار الانوار ۲۲:۳۱۲۔
لا نَبْرَحُ اَوْ تَبْرَحُونَ،
تم ہمیشہ ہمارے ساتھ اور ہم تمہارے ساتھ رہے
نَأْمُرُکُمْ فَتَأْتَمِرُونَ،
اور تم نے ہمارے احکام کی تعمیل کی
حَتَّى اِذا دارَتْ بِنا رَحَى الْاِسْلامِ، وَ دَرَّ حَلَبُ الْاَیَّامِ،
یہاں تک جب ہمارے ذریعے اسلام اپنے محور میں گھومنے لگا اور زمانے کی برکتیں فرواں ہو گئیں۔
وَ خَضَعَتْ نُعْرَةُ الشِّرْکِ،
شرک کا نعرہ دب گیا
وَ سَکَنَتْ فَوْرَةُ الْاِفْکِ،
جھوٹ کا زور ٹوٹا
وَ خَمَدَتْ نِیْرَانُ الْکُفْرِ،
کفر کی آگ بجھی
وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ الْهَرَجِ،
فتنے کی آواز دب گئی
وَ اسْتَوْسَقَ نِظامُ الدّینِ،
اور دین کا نظام مستحکم ہو گیا
فَاَنَّى حِزْتُمْ بَعْدَ الْبَیَانِ،
تو اب حقیقت واضح ہونے کے بعد متحیر کیوں ہو
وَاَسْرَرْتُمْ بَعْدَ الْاِعْلَانِ،
(حقیقت) آشکار ہونے کے بعد پردہ کیوں ڈالتے ہو
وَ نَکَصْتُمْ بَعْدَ الْاِقْدَامِ، وَاَشْرَکْتُمْ بَعْدَ الْاِیْمَانِ؟
پیش قدمی کے بعد پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو ایمان کے بعد شرک کے مرتکب کیوں ہو رہے ہو؟
تشریح کلمات
رحی:
چکی۔
در:
فراواں ہونا۔
حلب:
دودھ دوہنا۔
النعرۃ:
تکبر۔ ناک کا اندرونی حصہ۔
فورۃ :
پھوٹنا۔ جوش مارنا۔
الافک:
جھوٹ۔
خمدت:
خاموش ہو گئی۔
ہدأت :
ساکن ہونا ٹھرنا۔
استوسق:
منظم حاصل ہوا۔
الا تقاتلون ِقَوْماً نَکَثُوا اَیْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ،
کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑتے ہیں
وَ هَمُّوا بِاِخْرَاجِ الرَّسُولِ
اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا؟
وَ هُمْ بَدَؤُکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ،
انہی لوگوں نے تم سے زیادتی میں پہل کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟
اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنینَ
اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔(۸۷)
اَلا وَ قَدْ أَرىٰ اَنْ قَدْ اَخْلَدْتُمْ اِلَى الْخَفْضِ،
اچھا۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم راحت طلب ہو گئے ہو
وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ الْقَبْضِ،
اور جو شخص معاملات کے حل و عقد یعنی امور مملکت چلانے کا زیادہ حقدار تھا اسے تم نے نظر انداز کر دیا،
وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ،وَ نَجَوْتُمْ بِالضّیقِ مِنَ السَّعَةِ،
تم نے اپنے لیے کنج عافیت تلاش کر لیا اور تنگ دستی سے نکل کر تونگری حاصل کر لی (۸۸)
تشریح کلمات
نکثوا:
نکث عہد توڑنا۔
الخفض:
آسائش زندگی۔
الدعۃ:
راحت کی زندگی۔
السعۃ:
تونگری۔
۸۷۔ سورۂ توبہ؍ ۱۳۔
۸۸۔اسلامی تاریخ میں کچھ حضرات کی دولت کا ذکر آیا ہے سب کو بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے البتہ صرف ایک اشارہ کیا جاتا ہے کہ ایک انصاری نے ترکہ میں جو سونا چھوڑا تھا اس کو کلہاڑے سے کاٹ کر وارثوں میں تقسیم کیا گیا۔








