خطبہ فدک متن:11

وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى اَعْقابِکُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّهَ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ الشَّاکِرینَ.
اور محمدؐ تو بس رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی رسول گذر چکے ہیں بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ شکر گزاروں کو عنقریب جزا دے گا۔(۸۴)
۸۴۔ اِنْقَلَبَ منقلب ہونا الٹے پاؤں پھر جانا کے معنوں میں آتا ہے جس سے مرتد ہونا مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ تحویل قبلہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ (سورۃ بقرہ آیت ۱۴۳)
تاکہ پہچان لے کہ رسول کے اتباع کرنے والے کون ہیں اور مرتد ہونے والے کون ہیں۔
دوسری جگہ فرما یا:
یا ایہا الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علی اعقابکم (آلعمران؍۱۴۹)
اے ایمان والو ! اگر تم نے کافروں کی اطاعت کی تو وہ تم کو الٹا پھیر دیں گے (مرتد بنا دیں گے)
شیخ رشید رضا مصری نے اس آیہ مجیدہ کے ذیل میں حافظ ابن قیم الجوزیہ کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ: یہ آیت رسول اللہ ؐ کی وفات سے پہلے تمہیداً نازل ہوئی ہے اور اس آیت کے ذریعہ جن لوگوں کی تنبیہ کی گئی تھی وہ وفات رسولؐ کے موقع پر ظاہر ہوا چنانچہ جس نے مرتد ہونا تھا وہ الٹے پاؤں پھر کر مرتد ہو گیا اور سچے لوگ اپنے دین پرقائم رہے۔(تفسیر المنار ج۴ ص۱۶۰ طبع مصر)
بعض کا الٹے پاؤں پھر جانا
حضرت زہراء سلام اللہ علیہانے خطبے میں مہاجرین کے بارے میں فرمایا کہ’’ تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اس کے امر و نہی میں مخاطب تم ہو اور اللہ کے دین اور وحی کے تم ذمے دار ہو تم اپنے نفسوں پر امین ہو۔ دیگر اقوام کے لئے مبلغ بھی تم ہو‘‘۔
اور انصار کے بارے میں فرمایا:
’’تم ملت کے بازو ہو اسلام کے نگہبان ہو۔ خیر و صلاح میں تم معروف ہو، جنگیں تم نے لڑی ہیں‘‘
لیکن افسوس جناب سیدہ آج مہاجرین و انصار دونوں سے نالاں ہیں۔ یہاں آپ کو عہد رسولؐ اور بعد از رسولؐ ایک نمایاں فرق نظر آئے گا جو مہاجرین و انصار زمانہ رسولؐ میں ان اوصاف کے ساتھ متصف تھے مگر آج پیغمبر کی لخت جگر جناب سیدۃ نسآء العالمین ان سے نالاں ہیں۔ دراصل مسئلہ ’’بعدی‘‘ کا ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعدد احادیث میں آیا ہے کہ آپ نے بعض صحابہ سے خطاب کر کے فرما یا: ما تحدثون بعدی میرے بعد کیا کچھ بدعتیں پیدا کرنے والے ہو۔ حضرت رسول اللہؐ سے کہا جائے گا لا تدری ما احدثوا بعدک۔ آپ کو معلوم نہیں انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں۔ چنانچہ حدیث حوض میں موجود ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر سے بعض لوگوں کو دور کیا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں گے یہ تو میرے اصحاب ہیں! اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی: لا تدری ما احدثوا بعدک آپ کو کیا معلوم انہوں نے آپ کے بعد کیا کچھ کیا ہے۔(۱) صحیح بخاری باب الحوض ج۱ ص۵۷۰ طبع میرٹھ، صحیح مسلم ج۲ صفحہ ۲۴۹ طبع نول کشورسنن ترمذی ابواب القیامۃ ج۲ ص۳۰۶ طبع دیوبند، سنن ابن ماجہ ص۱۴۱ طبع دہلی
امام مالک نے موطا میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں خطاب کر کے صراحت کے ساتھ یہی مطلب بیان فرمایا ہے :
ان رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم قال لشہداء احد: ھؤلاء اشہد علیہم فقال ابوبکر الصدیق السنا یا رسول اللّہ اخوانہم اسلمنا کما اسلموا وجاہدنا کما جاہدوا فقال رسول اللّہ: بلی، ولکن لا ادری ما تحدثون بعدی فبکی ابوبکر ثم بکی قال ائنا لکائنون بعدک۔ (مؤطا امام مالک کتاب الجہاد ص۲۸۵ طبع دیوبند)(تنویر الحوالک شرح مؤطا امام مالک ج۱ ص۳۰۷ طبع قاہرہ )
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا: ان لوگوں کے متعلق میں گواہی دوں گا (کہ ان کا ایمان صحیح تھا) ابو بکر صدیق نے کہا: یا رسول اللہ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟ ہم بھی اسلام لے آئے ہیں جس طرح یہ اسلام لائے ہیں اور ہم نے بھی جہاد کیا ہے جس طرح انہوں نے جہاد کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ہاں!۔لیکن مجھے کیا معلوم تم میرے بعد کیا کچھ کرو گے۔ اس پر ابو بکر رو پڑے اور کہا: کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ جائیں گے۔‘‘

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے