خطبہ فدک متن:10
سَرْعانَ ما اَحْدَثْتُمْ
کس سرعت سے تم نے بد عت شروع کر دی
وَ عَجْلانَ ذا اِهالَةٍ،
اور کتنی جلدی اندر کی غلاظت باہر نکل آئی۔
وَ لَکُمْ طاقَةٌ بِما اُحاوِلُ،
حالانکہ تم میری کوششوں میں تعاون کر سکتے تھے
وَ قُوَّةٌ عَلى ما اَطْلُبُ وَ اُزاوِلُ.
اور میرے مطالبے کی تائید و حمایت کر سکتے تھے۔
اَتَقُولُونَ ماتَ مُحَمَّدٌ؟
کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ محمدؐ اس دنیا میں نہیں رہے (لہٰذا ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی)؟
فَخَطْبٌ جَلیلٌ اِسْتَوْسَعَ وَ هْنُهُ،
ان کی رحلت عظیم سانحہ ہے،
وَاسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ،
جس کی دراڑ کشادہ ہے،
وَ انْفَتَقَ رَتْقُهُ،
اس کا شگاف اتنا چوڑا ہے جسے بھرا نہیں جا سکتا۔
تشریح کلمات
عجلان ذا اہالہ:
کتنی جلدی اس کی چربی نکل آئی۔
کہتے ہیں ایک شخص کا ایک لاغر بکرا تھا جس کی ناک سے برابر چھینک نکلتی رہتی تھی۔ لوگ اس سے پوچھتے یہ کیا ہے؟ تو وہ جواب دیا کرتا تھا کہ یہ بکرے کی چربی ہے جو اس کی ناک سے بہہ رہی ہے۔ یہاں سے یہ ضرب المثل مشہور ہو گئی کہ ہر اس بات کے لیے جس میں تیزی سے تبدیلی آتی ہے۔
ازاول :
المزاولۃ کوشش کرنا
الخطب:
عظیم سانحہ۔
وہیہ: اَلَوَہْی:
شگاف۔
استنھر:
وسیع ہو گیا۔
فتقہ:
اس کا شگاف۔
رتقہ، الرتق:
جوڑنا۔
وَ اُظْلِمَتِ الْاَرْضُ لِغَیْبَتِهِ،
ان کی رحلت سے زمین پر اندھیرا چھا گیا
وَ کُسِفَتِ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ انْتَثَرَتِ
نیز سورج اور چاند کو گرہن لگ گیا،
النُّجُومُ لِمُصیبَتِهِ،
ستارے بکھر گئے،
وَ اَکْدَتِ الْامالُ،
امیدیں یاس میں بدل گئیں،
وَ خَشَعَتِ الْجِبالُ،
اور پہاڑ شکست و ریخت سے دوچار ہو گئے۔
وَ اُضیعَ الْحَریمُ،وَ اُزیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَماتِهِ
حضور کی رحلت کے موقع پر نہ تو حرم رسول کو تخفظ ملا اور نہ ہی حرمت رسول کا لحاظ رکھا گیا۔(۸۰)
فَتِلْکَ وَاللَّهِ النَّازِلَةُ الْکُبْرى
بخدا یہ بہت بڑا حادثہ تھا
وَ الْمُصیبَةُ الْعُظْمى،
اور عظیم مصیبت تھی۔
تشریح کلمات
انتشرت:
پراکندہ ہوئی، پھیل گئی۔
اکدت:
کسی چیز کو ہاتھ سے چھینا۔
۸۰۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء ؑ کے گھر کو آگ لگانے کی جسارت کی گئی کہ جس دروازے پر پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر روز صبح آیت تطہیر تلاوت فرمایا کرتے تھے چنانچہ مہاجرین کی چند شخصیات جو حضرت ابو بکر کی بیعت سے راضی نہ تھے وہ حضرت علی ؑ کے ہاں حضرت فاطمہ ؑ کے گھر میں جمع ہو گئے(تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۲۶طبع بیروت، تاریخ ابو االفداء ج۱ص۶۴ طبع مصر)حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو بھیجا کہ جاکر انہیں حضرت فاطمہ کے گھر سے نکالیں۔ اور ان سے کہا کہ اگر وہ نہ نکلیں تو گھر کو جلا دو، وہ آگ لے کر دروازہ زہراء پر پہنچ گئے کہ گھر کو آگ لگا دیں۔ تو گھر سے حضرت فاطمہؑ نے فرمایا: کیا تو ہمارا گھر جلانے آیا ہے؟ کہا: ہاں! مگر یہ کہ آپ لوگ بھی داخل ہو جائیں، جس میں امت داخل ہو گئی ہے۔ (انساب الاشراف ج۱ص۵۸۶ طبع بیروت،کنز العمال ج۱ ص۵۸۶، ج۳ ص۱۴۰ طبع دکن، العقد الفرید ج۲ ص۶۴طبع قاہرہ)۔
امام بلاذری کی مشہور کتاب انساب الاشراف میں یہی واقعہ ان الفاظ میں آیا ہوا ہے :
فتلقتہ فاطمۃ علی الباب فقالت فاطمۃ: یا ابن الخطاب اتراک محرقا علی بابی؟ قال:نعم
اے ابن خطاب! کیا تو میرا دروازہ جلانے والا ہے؟ کہا: ہاں۔
تاریخ یعقوبی میں یہ واقعہ ان لفظوں میں بیان ہوا ہے :
فاتوا جماعۃ ھجموا علی الدار ۔۔۔ وکسر سیفہ۔۔ای سیف علی ودخلوا الدار(تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۲۶)
ایک جماعت نے گھر پر حملہ کیا اور حضرت علیؑ کی تلوار توڑدی۔ پھر گھر میں داخل ہو گئی۔
امام ابوبکر جوہری اپنی بیش بہا تصنیف ’’ السقیفۃ وفدک‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
وخرجت فاطمۃ تبکی وتصیح فنہنہت من الناس(السقیفۃ وفدک صفحہ ۸۸،۔ شرح ابن ابی الحدید ج۱ص۱۳۴ طبع مصر)
حضرت فاطمہؑ گھر سے روتی ہوئی او ر فریاد کرتی ہوئی نکلیں اور لوگوں سے رک جانے کا مطالبہ کیا۔
حضرت ابو بکر نے اپنی وفات سے تھوڑا پہلے اس سانحہ پر اظہار ندامت کیا تھا خود ان کے الفاظ یہ ہیں:
وددت انی لم اکشف بیت فاطمۃ عن شئی وان کانوا قد اغلقوہ علی الحرب (تاریخ الطبری ج ۲ص۲۱۹، طبع مصر تاریخ الاسلام للذہبی ج۲ صفحہ۲۰۱ قاہرہ، کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۳۵ طبع دکن)
کاش کہ میں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کیا ہوتا اگرچہ وہ جنگ کے لئے ہی جمع ہو گئے ہوتے۔
لامِثْلُها نازِلَةٌ، وَ لا بائِقَةٌ عاجِلَةٌ
نہ اس جیسا کوئی دل خراش واقعہ کبھی پیش آیا نہ اتنی بڑی مصیبت واقع ہوئی۔(۸۱)
تشریح کلمات
بائقۃ :
مصیبت ۔
۸۱۔ یہ جملے حرم رسول کی اہانت سے متعلق ہیں۔
اُعْلِنَ بِها، کِتابُ اللَّهِ جَلَّ ثَناؤُهُ فی
اللہ کی کتاب نے تو اس کا پہلے اعلان کر دیا ہے (۸۲)
اَفْنِیَتِکُمْ هِتَافاً وَصُراخاً وَتِلاوَةً وَاِلْحاناً،
جسے تم اپنے گھروں میں بلند اور دھیمی آواز میں خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہو
وَ لَقَبْلَهُ ما حَلَّ بِاَنْبِیاءِ اللَّهِ وَ رُسُلِهِ، حُکْمٌ فَصْلٌ وَ قَضاءٌ حَتْمٌ.
ایسا اعلان جس سے سابقہ انبیا و رُسل کو دوچار ہونا پڑا ہے جو ایک حتمی فیصلہ اور قطعی حکم ہے (۸۳) (وہ اعلان یہ ہے)
تشریح کلمات
افنیتکم :
جمع فناء المنزل۔ گھر کے آس پاس۔
۸۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد لوگوں کے الٹے پاؤں پھر جانے سے متعلق قرآن مجید کی پیش گوئی کی طرف اشارہ ہے۔
۸۳۔ یعنی یہ ایک حتمی اور قطعی واقعہ ہے کہ ہر امت اپنے رسول کی وفات کے بعد الٹے پاؤں پھر گئی جیسا کہ سورۃ مریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ذکر کے بعد فرمایا:
اولئک الذین انعم اللّہ علیھم من النبین من ذریۃ آدم وممن حملنا مع نوح ومن ذریۃ ابراہیم و اسرائیل و ممن ہدینا و اجتبینا اذا تتلی علیہم آیات الرحمن خروا سجدا و بکیاۃ فخلف من بعد ہم خلف اضاعوا الصلوۃ و اتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیا ۃ (سورہ مریم؍۵۸۔ ۵۹)
یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ اولاد آدم میں سے اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا۔ اور ابراہیم و اسرائیل کی اولاد میں سے۔ اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔
مندرجہ بالاآیت میں تمام انبیاء علیہم السلام کا اجمالی ذکر آیا ہے۔ چونکہ انبیاء علیہم السلام تین سلسلوں میں آئے ہیں۔ حضرت آدمؑ۔ حضرت نوح ؑاور حضرت ابراہیمؑ۔ ان کے ساتھ دیگر برگزیدہ ہستیوں کا بھی ذکرآیا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمایا ہے اس جامع ذکر کے بعد یوں استثنا فرما دیا کہ ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے۔








