ولی عہدی کی رسم کا انعقاد:
یکم رمضان 201 ہجری ولی عہدی کا جشن منعقد ہوا، بڑی شان و شوکت کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی، سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بیعت کی، پھر اور لوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے، سونے اور چاندی کے سکے سر مبارک پر نثار ہوئے اور تمام ارکان سلطنت اور ملازمین میں انعامات تقسیم ہوئے۔ مامون نے حکم دیا کہ حضرت کے نام کا سکہ تیار کیا جائے، چنانچہ درہم و دینار پر حضرت کے نام کا نقش ہوا، اور اس وقت کی تمام مملکت میں وہ سکہ چلایا گیا، جمعہ کے خطبہ میں حضرت کا نام نامی داخل کیا گیا۔یہ ظاہر ہے کہ حضرت کے نام مبارک کا سکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اور ضمانت کی حیثیت رکھتا تھا، اس سکہ کو سفر و حضر میں حرز جان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امر تھا۔صاحب کتاب جنات الخلود نے بحر و بر کے سفر میں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کا ذکر کیا ہے، اسی کی یادگار میں بطور ضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی سفر میں بازو پر امام ضامن ثامن کا پیسہ باندھتے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ 33 ہزار عباسی مرد و زن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کو ولیعہد خلافت بنایا گیا۔ اس کے بعد اس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضا کے لیے بیعت لی اور دربار کا لباس بجائے سیاہ کے، سبز قرار دیا گیا جو سادات کا امتیازی لباس تھا، فوج کی وردی بھی بدل دی گئی تمام ملک میں احکام شاہی نافذ ہوئے کہ مامون کے بعد علی رضا تخت و تاج کے مالک ہیں اور ان کا لقب ہے، الرضا من آل محمد

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ قبول ولیعہدی کے سلسلہ میں آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا تھا، اس پر گواہ کی حیثیت سے فضل ابن سہل ، سہل ابن فضل ، یحیی ابن اکثم، عبد اللہ ابن طاہر، ثمامہ ابن اشرس ، بشر ابن معتمر ، حماد ابن نعمان وغیرہ کے دستخط تھے، انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اس جلسہ ولیعہدی میں اپنے مخصوص عقیدت مندوں کو قریب بلا کر کان میں فرمایا تھا کہ اس تقریب پر دل میں خوشی کو جگہ نہ دو۔
(صواعق محرقہ ص 122،مطالب السول ص 282 ،وسیلة النجات ص 379 ،تاریخ آئمہ ص 472،تاریخ احمدی ص 354)

حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کا دشمنوں پر اثر:
تاریخ اسلام میں ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کی خبر سن کر بغداد کے عباسی یہ خیال کر کے کہ خلافت ہمارے خاندان سے نکل چکی ہے، کمال دل سوختہ ہوئے اور انہوں نے ابراہیم ابن مہدی کو بغداد کے تخت پر بٹھا دیا اور محرم 202 ہجری میں مامون کی معزولی کا اعلان کر دیا، بغداد اور اس کے نواح میں بالکل بد نظمی پھیل گئی، لوٹ مار شروع ہو گئی، جنوبی عراق اور حجاز میں بھی معاملات کی حالت ایسی ہی خراب ہو رہی تھی۔فضل وزیر اعظم سب خبروں کو بادشاہ سے پوشیدہ رکھتا تھا مگر امام رضا علیہ السلام نے اسے خبر دار کر دیا، بادشاہ وزیر کی طرف سے بدگمان ہو گیا۔ مامون کو جب ان شورشوں کی خبر ہوئی تو بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ سرخس میں پہنچ کر اس نے فضل ابن سہل وزیر سلطنت کو حمام میں قتل کرا دیا۔
(تاریخ اسلام، ج ص 61)

شمس العلماء شبلی نعمانی حضرت امام رضا کی بیعت ولیعہدی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس انوکھے حکم نے بغداد میں ایک قیامت انگیز ہلچل مچا دی اور مامون سے مخالفت کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بعض نے سبز رنگ وغیرہ کے اختیار کرنے کے حکم کی جبری طور پر تعمیل کی مگر عام صدا یہی تھی کہ خلافت خاندان عباس کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔
(المامون، ص 82)

حضرت امام رضا علیہ السلام اور نماز عید:
ولی عہدی کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عید کا موقع آ گیا، مامون نے حضرت سے کہلا بھیجا کہ آپ سواری پر جا کر لوگوں کو نماز عید پڑھائیں،حضرت نے فرمایا کہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کر لی ہے کہ بادشاہت اور حکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گا اور نہ اس کے قریب جاؤں گا، اس وجہ سے تم مجھ کو اس نماز عید سے بھی معاف کر دو تو بہتر ہے ورنہ میں نماز عید کے لیے اسی طرح جاؤں گا کہ جس طرح میرے جد امجد حضرت محمد رسول اللہﷺ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ مامون نے کہا کہ آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں جائیں، اس کے بعد اس نے سواروں اور پیادوں کو حکم دیا کہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔

جب یہ خبر شہر میں مشہور ہوئی تو لوگ عید کے روز سڑکوں اور چھتوں پر حضرت کی سواری کی شان دیکھنے کو جمع ہو گئے، بہت بھیڑ لگ گئی عورتوں اور مردوں سب کو آرزو تھی کہ حضرت کی زیارت کریں اور آفتاب نکلنے کے بعد حضرت نے غسل کیا اور کپڑے بدلے، سفید عمامہ سر پر باندھا، عطر لگایا اور عصا ہاتھ میں لے کر عید گاہ جانے پر آمادہ ہو گئے، اس کے بعد نوکروں اور غلاموں کو حکم دیا کہ تم بھی غسل کر کے کپڑے بدل لو اور اسی طرح میرے ساتھ پیدل چلو۔اس انتظام کے بعد حضرت گھر سے باہر نکلے کہ ننگے پاؤں ہو گئے اور پھر دو تین قدم چل کر کھڑے ہو گئے اور سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے کہا:اللہ اکبر اللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اور فوج کے سپاہیوں نے بھی تکبر کہی۔راوی کا بیان ہے کہ جب امام رضا علیہ السلام تکبر کہتے تھے تو ہم لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ در و دیوار اور زمین و آسمان سے حضرت کی تکبیر کا جواب سنائی دیتا ہے۔اس ہیبت کو دیکھ کر یہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اور خود لشکر والے زمین پر گر پڑے، سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے چھریوں سے اپنی جوتیوں کے کل تسمے کاٹ دئیے اور جلدی جلدی جوتیاں پھینک کر ننگے پاؤں ہو گئے، شہر بھر کے لوگ چیخ چیخ کر رونے لگے ایک کہرام بپا ہو گیا۔اس کی خبر مامون کو بھی ہو گئی، اس کے وزیر فضل ابن سہل نے اس سے کہا کہ اگر امام رضا اسی حالت میں عید گاہ تک پہنچ جائیں گے تو معلوم نہیں کیا فتنہ اور ہنگامہ برپا ہو جائے گا، سب لوگ ان کی طرف ہو جائیں گے اور ہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے۔وزیر کی اس بات پر متنبہ ہو کر مامون نے ایک شخص کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر کہلا بھیجا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کہ جو آپ سے عید گاہ جانے کے لیے کہا ہے، اس سے آپ کو زحمت ہو رہی ہے اور میں آپ کی مشقت کو پسند نہیں کرتا، بہتر ہے کہ آپ واپس چلے آئیں اور عید گاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں، پہلے جو شخص نماز پڑھاتا تھا، وہی پڑھائے گا۔ یہ سن کر حضرت امام رضا علیہ السلام واپس تشریف لائے اور نماز عید نہ پڑھا سکے۔
(وسیلة النجات، ص 382،مطالب السول، ص 282،نور الابصار، ص 143)

مامون نے کیوں امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنایا ؟مامون عباسیوں میں خلافت کے لیے سب سے زیادہ اہل اور سزاوار تھا لیکن چونکہ بنی عباس اس کے مخالف تھے، اس کے استاد فضل ابن سہل کے بھی سر سخت دشمن تھے۔دوسری بات یہ کہ امین (مامون کا بھائی) ماں اور باپ کی طرف سے اصیل عرب، جبکہ مامون کی ماں ایک معمولی سے کنیز تھی، امین کو اس پر ہر لحاظ سے برتری اور فوقیت حاصل تھی۔اسکے علاوہ اکثر امراء امین رشید کے طرف دار تھے، فوج کے بڑے بڑے افسر بھی اسی کے چاہنے والے تھے۔اسکے مقابلے میں مامون کی تکیہ گاہ اور پناہ گاہ کیا تھی …لوگ…نہیں… درباری نہیں، فوج نہیں، عباسی خاندان نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مامون کو حکومت کرنے کے لیے ہر طرف سے خطرہ ہی خطرہ تھا اور وہ کسی بھی صورت میں اپنی حکومت کو پائدار اور باقی نہیں رکھ سکتا تھا۔تین گروہ کم از کم ضرور اس کے مقابلے میں تھے:
علوی شیعہ، اعراب، امین اور خاندان بنی عباس
اسکے علاوہ خود اہل خراسان بھی اب اس سے ناراض تھے اور اس کی حکومت کے لیے خطرہ ثابت ہو رہے تھے، ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، مامون کے لیے چند راہ حل تھے کہ جنکے ذریعے سے وہ اپنی حکومت کو بچا سکتا تھا:
علویوں اور شیعوں کی بغاوت کو سرکوب کرنا (صلح یا شمشیر کے ذریعے)۔
علویوں سے عباسی حکومت کے لیے جواز اور مشروعیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا۔
عربوں کا اعتماد حاصل کرنا اور ان میں محبوبیت پانا۔
اپنی حکومت کے جواز کے لیے ایرانیوں اور خراسانیوں سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا۔
علویوں کو اہل دنیا ثابت کرتے ہوئے ان کی محبوبیت اور احترام کو ختم یا کم کرنا۔
اپنے لیے ہرخطرے سے محفوظ رہنے کے لیے اسباب فراہم کرنا۔
عباسیوں کو راضی اور خوشنود رکھنا۔
جی ہاں! یہ سب ایسی راہ حل ہیں کہ جو صرف اور صرف امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی کے ذریعے سے ہی انجام تک پہنچ سکتی ہیں اور خاص کر امام رضا علیہ السلام جیسی محبوب شخصیت کے خطرے سے بھی وہ محفوظ و مصون رہ سکتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی ہی کے ذریعہ وہ علویوں کو خلع سلاح بھی کر سکتا تھا، ان کی محبوبیت بھی ختم کر سکتا تھا۔ ان سے اور ایرانیوں سے جو اہل بیت کی مشروعیت اور جواز کا مدرک لے سکتا تھا، عباسیوں اور عربوں میں یہ آشکار کیا کہ اگر اپنے بھائی کو قتل کیا ہے لیکن حکومت کو اس کے اہل اور سزاوار شخص تک بھی پہنچایا ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے ولایت عہدی قبول کرنے کی دلیلیں:
اگر امام رضا علیہ السلام ولایت عہدی قبول نہ کرتے تو انکی ذات کے علاوہ تمام علویوں، شیعوں اور دوستداران اہل بیت کی جان کو خطرہ تھا، لہذا لازم تھا کہ امام اپنی اور اپنے چاہنے والوں کو بچائیں، خاص طور پر امام کا وجود ہر زمانے کے لیے لازم اور ضروری ہوتا ہے تا کہ لوگوں کی ہدایت کریں، انہیں فکری و فرہنگی مشکلات سے نجات دیں، کفر و الحاد کی دیواروں کو توڑ کر لوگوں کو خدا شناسی کی طرف لے جائیں، امامت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے لوگوں کو ان کے ہدف اور مقصد سے آگاہ کریں، اس بناء پر امام نے اپنے شرعی فریضے کو انجام دیتے ہوئے اس منصب کو قبول کیا۔
عباسیوں سے جو کہ اہل بیت کے سر سخت دشمن تھے، قبول کروایا کہ خلافت آل محمد کا حق ہے۔
ولایت عہدی کو قبول کیا تاکہ لوگ آل محمد کو سیاست کے میدان میں حاضر پائیں اور کوئی یہ نہ کہے کہ یہ لوگ جو علماء اور فقہاء تھے، سیاست اور دینوی امور سے بے خبر تھے۔
دشمن و دوست سے اعتراف کروائیں کہ خلافت ہمارا حق ہے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے شوری میں شرکت کر کے اس کو اپنا حق ثابت کیا۔
مامون کے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹا کر اس کی مکروہ پالیسی اور سازش کو آشکار کر دیا تا کہ لوگ اس کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔
اگر امام رضا علیہ السلام اس منصب ولایت عہدی کو قبول نہ کرتے تو اس صورت میں جان بھی جاتی، شیعہ اور دوست بھی مشکلات میں مبتلا ہو جاتے اور امام اپنے اہداف تک بھی نہ پہنچ پاتے لیکن ولایت عہدی کے منصب کو قبول کر کے دشمن سے انہوں نے اپنے خلافت کے حقدار ہونے اور مامون اور عباسیوں کے غاصب ہونے کو سب پر آشکار اور عیاں کر دیا۔
مامون کی تمام سازشوں کو سب پر بے نقاب کر دیا مختلف ادیان اور مکاتب مثلا جاثلیق، راس الجالوت، عمران صائبی جو کہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے، کے ساتھ مناظرے کر کے، انہیں شکست دے کر مکتب اہل بیت کو حق ثابت کر دیا، اس خلافت کا حقدار صرف اپنے آپ کو ثابت کر دیا۔ حقیقت میں مامون چاہتا تھا کہ امام کو انکے مرتبہ اور مقام سے نیچے لائے لیکن یہاں پر بھی امام نے اس کی بدنیتی کو فاش کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ عہد مامون میں اگرچہ مامون کی نیت خراب تھی لیکن امام نے ولایت عہدی کا فائدہ اٹھایا اور دنیا والوں پر مکتب اہل بیت کی حقانیت کو ثابت کر دیا اور اس کے علاوہ شیعہ بلکہ اسلام و مسلمین کو عزت و عظمت اور سربلند کر کے ہمیشہ کے لیے سرفراز اور جاودان کر دیا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے