مقالہ نگار: سہیل عباس مطہری
چکیدہ
آج حکمران اس باگ ڈور میں ہیں کہ کس طرح ایک اعلیٰ وارفع درجہ کی حکمرانی کرے جس کے لئے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے آزماتے ہیں چاہے وہ ظلم و بربریت کا سبب بنے یا فتنہ و فساد کا سبب بنے جسکی وجہ سے وہ ملک و قوم کو مزید تباہ و برباد کرتے ہیں۔ لیکن اس ہستی کی طرزحکمرانی کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں جس ہستی نے اپنے دور حکومت میں ہزاروں مشکلات ہونے کے باوجود ایسا نظام لایا جو عدل و انصاف پر مبنی تھا۔ جس کا دور حکومت قرآن و سنت پر مبنی دورحکومت تھا تو کیوں نہ آج کے حکمران حضرت علی ؑ کی طرز حکمرانی کو اپنائے اور ایسا نظام لائے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو۔ آپؑ کی طرز حکمرانی حکمرانوں کے نمونہ عمل ہے۔ آپؑ نے اپنے کلام میں حکمرانوں کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں جن پر چل کر حکمران اعلیٰ و ارفع درجے کی حکمرانی کرسکتاہے۔
اسی سلسلے میں اس مقالے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ آپؑ کی سیرت اور کلام سے چند حکمرانوں کے رہنما اصول بیان کریں جس میں خصوصاً نہج البلاغہ سے استفادہ کیا گیا ہے اور دیگر چند کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔مقدمہ
انسان اپنی زندگی گزارنے میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔وہ تن تنہا اپنی زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ معاشرے کا محتاج ہوتا ہے۔وہ دوسرے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے تاکہ ایک دوسروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے اور اپنی زندگی کو خوبصورت طریقے سے گزارے۔ جب انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارتا ہے اور معاشرے کے ساتھ منسلک رہتا ہے تو اس کا سامنا مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے کچھ بد مزاج بداخلاق ہوتے ہیں اور کچھ اچھے مزاج کے ہوتے ہیں، کچھ کے اندر غصہ بہت ہوتا ہے، کچھ کے اندر صبر بہت ہوتا ہیں، کچھ لوگ محبت کرنے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ نفرت کرنے والے اور کبھی کبھی جب انسا ن کو سکون نہیں ملتا تو وہ دوسروں کے حقوق پر بھی ڈھاکہ مارتا ہے اور یوں معاشرے میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور نظام درہم برہم ہوتا ہے۔
پس انسانوں نے ضرورت سمجھا کہ کیوں نہ ایسا گروہ ہو جو ہمارے معاشرے کو چلائے، ہمارے معاشرے میں نظم و نسق پیدا کرے، انسانی حقوق کا احترام کرے اور بد نظمی کا انسداد کرے۔ اور یوں اسی گروہ کو اردو زبان میں "حکومت ” کہلائی گئی اور انگریزی زبان میں "Government”کہلائی گی۔
یوں تمدنی ارتقا ءاور معاشرتی بلندی حکومت کی تشکیل سے وابستہ ہوگئی۔ اگر حکومت اپنی حکمرانی اچھی طریقے سے کرے تو معاشرہ بھی خوشحالی کی طرف جائے گا۔ معاشرے میں امن ہوگا لیکن اگر حکومت اپنی حکمرانی اچھے طریقے سے نہ کرے تو معاشرہ تنزلی کی طرف جائے گا یوں عوام اپنے حکمرانوں کے طرز عمل سے متاثر ہوتے ہیں اور وہی طریقہ اپناتے ہیں جو ان کے حکمران اپناتے ہیں۔ اگر وہ نیک ہوبلند کردار والے ہو اور معاشرے میں اچھے کاموں کا اجرا کرے، ترقیاتی منصوبے بنائے تو عوام بھی اچھائی کی طرف آئے گی اور معاشرے میں بھی خوشحالی آئے گی۔ اس لئے معاشرے کی بقاء ملک کی بقا ءاور عوام کی فلاح و بہبود حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔
تاریخ انسانیت میں دیکھا جائےتو ایک اچھی حکمرانی اور اعلیٰ طرز و شفافیت پر مبنی حکمرانی رسول خدا ﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتی ہے۔ آپؑ نے متواتر جنگوں کے باوجود ایک اچھے معاشرے کی ازسرنو تشکیل کی،رفاہ عامہ کے کام انجام دیئے، رعایا کی شکایتیں سنیں، استحصال کی روک تھام کی، ناروا بندشوں کو ختم کرکے لوگوں کو آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا، عمال کی کارگزاریوں کا ہر پہلو سے جائزہ لیا، تعمیری عناصر کی حوصلہ افزائی کی اور معاشرے میں مختلف طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین کیا اور نسلی وملکی تفریق و امتیازات کو ختم کرکے معاشرتی عدل کو فروغ دیا۔
تو کیوں نہ ہمارے حکمران حضرت علی ؑ کی حکمرانی کے اصولوں پر گامزن ہو، مولا علیؑ کے طرز حکمرانی کو اپنائے اور ایسا نظام لائے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو، کیوں نہ ہمارے حکمران حضرت علی ؑ کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے اور آپؑ کے کردار کو اپنائے اور ایسا نظام لائے جو قرآن و سنت پر مبنی ہو۔حکومت
لفظ "حکومت” بنیادی طور پر عربی زبان کا لفظ ہےاور اس کا مادہ ح۔ک۔م سے ہے اور جس کا معنی روک لینا، تھام لینا، منع کرنا،لگام دیناہے۔
اسی طرح "احکم عن الامر”کے معنی یہ ہے کہ اسے اس بات سے روک دیا۔ اس سے مراد یہ ہوا کہ ہر انسان کی کوئی حد ہوتی ہے اور اس کو اس کی حد سے آگے بڑھنے نہیں دینا اس کو روک لینا اس کو اس کی حد سے آگے بڑھنے سے منع کرنا حکومت کہلاتا ہے۔
اسی طرح "الحَکمُ” سے مراد صاحب اختیار ہے۔ اور ایسا صاحب اختیا جو حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتا جیسا کہ یہ لفظ قرآن میں آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَھۡلِھا
اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک منصف عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ (سورہ نساء آیت نمبر ۳۵)یوں یہاں سے حکومت نکلا جس سے مراد وہ صاحب اختیار لوگ جو عوام کے حقوق مقرر کردیں اور اور ان کو ان سے آگے تجاوز کرنے نہ دے۔
پس ہم حکومت کی تعریف یوں کرسکتے ہیں:"حکومت ایک ایسا انتظامی نظام ہے جس کے تحت آئین کے مطابق عوام کے حقوق کو مقرر کرنےاور ان کو ان حقوق سے تجاوز نہ کرنے کا حق معاشرے کے مخصوص افراد کو ہوتا ہے اس کو حکومت کہا جاتا ہے ”
لیکن اس کی تعریف مختلف لوگوں نے مختلف کی ہے۔
Oxford dictionary” میں اس کا معنی Government”انگریزی زبان میں حکومت کی جگہ پر استعمال ہونے والا لفظ
میں یوں کیا گیا ہے۔“A government is the system by which a state or community is controlled”
"حکومت ایک ایسا نظام ہے جس سے ریاست اور معاشرے کو کنٹرول کیاجاتا ہے”۔حضرت علیؑ کی حکمرانی
حضرت علی علیہ السلام نے حکومت وحکمرانی کو کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی ہدف اور مقصد کے لئے ایک ذریعہ سمجھا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت حضرت علی علیہ السلام اپنی بوسیدہ نعلین میں ٹانکا لگا رہے تھے۔ حضرت(ع)نے ابن عباس سے پوچھا: اے ابن عباس! یہ بتاؤ ہماری اس نعلین کی کیا قیمت ہے؟ ابن عباس نے کہا، کوئی قیمت نہیں! آپؑ نے فرمایا میری نظر میں یہ نعلین تم لوگوں پر کی جانے والی حکومت سے بہتر ہے مگر یہ کہ میں اس حکومت کے ذریعہ عدالت کا اجرا کرسکوں، حق صاحب حق کو دلاسکوں اور باطل کو نابودکرسکوں۔
یہی وجہ ہے کہ آپؑ کے اس قلیل دور حکومت میں عدل و انصاف کا چرچا تھا۔ آپؑ کو اپنے دور حکومت میں مشکلات بھی بہت آئی اور کئی واقعات رونما ہوئےجن میں معروف جنگِ جمل،صفین اورنہروان ہیں۔ اور فرقہ واریت کے مسائل، سیاسی اختلافات اور دوسرے کئی فتوحات شامل ہے لیکن ان مشکلات کے باوجود بھی آپؑ نے ان فتوحات کی سرکوبی کی، دین اسلام کی ترویج کی اور عدل کے قیام کے لئے بھرپور کوششیں کی اور ایسا نظام لایا کہ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ علیؑ کے دور حکومت میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کا دور حکومت یاد آگیا۔
آپؑ کا دور حکومت قرآن و سنت پر مبنی تھا۔ جب سنہ ۳۵ ہجری کو خلافت کا منصب آپ ؑ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپؑ نے پہلے تو انکار کردیا لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو اس شرط کے ساتھ قبول فرمائی کہ میں صرف قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں گا تو لوگوں نے آپؑ کے اس شرط کو قبول کی تو یوں آپ ؑ نے حکومت قبول فرمائی۔
ویسے تو آپؑ کی سیرت سے اور آپؑ کے کلام سے حکمرانی کے رہنما اصول بہت زیادہ ملتے ہیں لیکن ان سب کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے اسلئے آپؑ کے اصولوں میں سے چند اصول ذکر کریں گے۔تقویٰ
تقوی کی تعریف میں آیت اللہ ابراہیم امینی فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہ نہیں ہے کہ دنیاوی امور سے اجتناب کرکے اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا بلکہ تقویٰ ایک اندورنی طاقت اور ضبط نفس کی قدرت ہے جو نفس کو اتنا طاقتور بنادیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مطیع اور فرمانبردار ہوجاتا ہے۔ (امینی، آیت اللہ ابراہیم، خود سازی یعنی تزکیہ نفس اور تہذیب نفس، مترجم مولانا اختر عباس نجفی،ناشر: ثاقب پبلی کیشنز لاہور پاکستان)
حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجا اور ایک خط ان کے نام لکھا جن میں آپؑ نے حکمرانی کے رہنما اصول بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔ اور ان تمام اصولوں کی ابتدا تقوی ٰسے کی ہے۔ آپؑ فرماتے ہے کہ:اَمَرَهٗ بِتَقْوَى اللّٰهِ، وَ اِیْثَارِ طَاعَتِهٖ وَ اتِّبَاعِ مَاۤ اَمَرَ بِهٖ فِیْ كِتَابِهٖ: مِنْ فَرَآئِضِهٖ وَ سُنَنِهٖ۔
ترجمہ: انہیں حکم ہے کہ اللہ کا خوف کریں، اس کی اطاعت کو مقدم سمجھیں اور جن فرائض و سنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے، ان کا اتباع کریں۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)ان تمام اصولوں پر تقویٰ کو مقدم کرکے مولا یہ بتلا تے ہیں کہ تمام اصولوں کا محور و مرکز تقوی ٰہے۔ تقویٰ ہی کےذریعے انسان واجبات کی ادائیگی کا پابند ہوجاتا ہے اور محرمات کو ترک کرتا ہے۔ جب کسی حکمران کے اندر خوفِ خدا آجا تا ہے تو اس کے اندر سے دنیا پرستی ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی آخرت کو بہتر بنانے میں مصروف ہوجاتا ہے اور ایسے ایسے کاموں کا اجرا کرتا ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنتا ہے۔
جب حکمرانوں کے اندر تقویٰ آجاتی ہے تو وہ اصل حاکم اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ حکومت کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور خود کو ایک نائب کے طور پر مانتا ہے۔ یوں ملک میں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین اور احکام کو جاری کرتا ہے۔ اور پروردگار عالم بھی اپنی لاریب کتاب میں کئی مقامات پر تقویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو یوں بیان فرما رہا ہے۔
پروردگار عالم کا ارشاد ہے کہ:وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ
اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۹۷)عدل
کائنات کا پورا نظام عدل پر استوار ہے۔ عدل ہی کے ذریعے کائنات کا نظام چل رہا ہے چاہے وہ نظام شمسی ہو یا نظام قمری غرض یہ کہ کائنات کا پورا نظام عدل پر برقرار ہے تو کیسے انسان کا سماجی نظام، معاشرتی نظام بغیر عدل و انصاف کے استوار ہوسکتا ہے۔ عدل و انصاف ہی کے ذریعے معاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔ عدل و انصاف سے ہی معاشرہ قائم رہتا ہے۔
اور آپؑ کے حکومت میں آنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپؑ چاہتے تھے کی اس حکومت کے ذریعے عدل و انصاف کا قائم کیا جائے اور اس کے شواہد ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ آپؑ نے عدل کے نفاذ میں اپنے دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا۔
ایک مرتبہ آپؑ کے قریبی چاہنے والا جس کا نام نجاشی بتایا جاتا ہے جو بہت بڑا شاعر تھا آپؑ کے مدح میں اشعار کہا کرتا تھا اس نے ایک دن شراب پی لی، تو آپ ؑ نے اس پر شراب پی نے کی حد جاری کردی اور بعد میں جب اس کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے لہٰذا کفارہ کے طور پر شریعت کی حد جاری کردی ہے۔
اسی طرح آپ ؑ کے فرمودات بھی بہت ہیں جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں:إِنَّ اَلْعَدْلَ مِيزَانُ اَللّٰهِ سُبْحَانَهُ اَلَّذِي وَضَعَهُ فِي اَلْخَلْقِ وَ نَصَبَهُ لِإِقَامَةِ اَلْحَقِّ فَلاَ تُخَالِفْهُ فِي مِيزَانِهِ وَ لاَ تُعَارِضْهُ فِي سُلْطَانِهِ۔
انصاف، اللہ تعالی کا ترازو ہے جسے انسانوں کے درمیان قائم کیا گیا ہے اور حق کی حفاظت کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے ترازو کے خلاف عمل نہ کریں اور اس کی طاقت کے خلاف مقابلہ نہ کریں۔(غرر الحکم،جلد۱،صفحہ ۲۲۴)اور اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں انبیاء و مرسلین کے بعثت کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں۔
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ۔
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔ (سورہ حدید، آیت نمبر ۲۵)رحمدلی
اگر حکمران قسی القلب ہو تو عوام کے اندر اس کے لئے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور عوام حکمرانوں سے دور باگنے لگتی ہے اور اپنی مشکلات کو بیان نہیں کرپاتی ہیں۔ اپنی شکایات بتا نہیں پاتے ہیں یوں عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلہ آجاتا ہے۔ اور قسی القلب حکمران عوام پر ظلم کرنے سے نہیں ڈرتا اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی سزائیں دینے لگتا ہے یوں عوام امن سے نہیں رہ سکتے اس لئے مولا علی علیہ السلام کی نظر میں ایک حکمران کے اندر رحمدلی ہونی چاہئے اس کے اندر ہمدردی ہونی چاہیے۔مولا فرماتے ہیں:
وَ اَشْعِر لرَّحْمَةَ لِلرَّعِیَّةِ وَ الْمَحَبَّةَ لَهُمْ وَ اللُّطْفَ بِهِمْ، وَ لَا تَكُوْنَنَّ عَلَیْهِمْ سَبُعًا ضَارِیًا تَغْتَنِمُ اَكْلَهُمْ۔
رعایا کیلئے اپنے دل کے اندر رحم و رافت اور لطف و محبت کو جگہ دو۔ ان کیلئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)اسی طرح مغرب کا فلسفی جس کا نام سینٹ تھامس ایکیناس وہ کہتا ہے کہ
Mercy is the foundation of justice.
"رحم انصاف کی بنیاد ہے”۔منصفانہ معاشرہ صرف قوانین اور سزاؤں کی سختی سے قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں ان لوگوں کے لیے ہمدردانہ اور رحمدلانہ رویہ بھی شامل ہونا چاہیے۔رحم ایک ایسی بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے جس پر انصاف قائم ہوتا ہے، اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ رحم پر غور کئے بغیر قانون کو سختی سے لاگو کرنا بے جا سختی کا باعث بن سکتا ہے اور معافی، بحالی اور نجات کے لیے گہری انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔
اور مولا علی علیہ السلام نے کئی برس پہلے فرمایا تھا کہ حکمرانوں کے اندر عوام کے لئے رحمدلی ہونی چاہیے۔فروتنی
حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں حکمرانوں کی خصوصیات میں سے ایک فروتنی ہے یعنی تواضع انکساری ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مغرور نہ ہو۔ وہ حکمران بننے پر تکبر نہ کرے بلکہ فروتنی کا اظہار کرے عاجزی کا اظہار کرے۔ حکمرانوں کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر چیز اسی کے قدرت میں ہے اور اللہ ان پر وہ قدرت رکھتا ہے جو وہ خود اپنے اوپر نہیں رکھتے۔
اگر حکمران غرور اور تکبر کرنے لگے تو اس سے عوام کے دل میں نفرتوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ معاشرے میں فساد برپا ہوتا ہے اور جو غرور کرتا ہے پروردگار عالم بھی ان کو ذلیل خوار کرتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ:وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ۔
ترجمہ: اور لوگوں سے (غرور و تکبر سے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقیناً دوست نہیں رکھتا۔ (سورہ لقمان، آیت نمبر ۱۸)یہی وجہ ہے کہ آپؑ نے اپنی پوری زندگی میں اور اپنے دور حکومت میں تواضع و انکساری کا مظاہرہ کیا۔ آپؑ نے حکومت ملنے پرکبھی غرور نہیں کیا اور دنیاوی مواقع میں بھی آپؑ نے سادگی کا مظاہرہ کیا۔ آپ ؑ کا فرمان ہے کہ:
عَجِبْتُ لاِبْنِ آدَمَ أَوَّلُهُ نُطْفَةٌ وَ آخِرُهُ جِيفَةٌ وَ هُوَ قَائِمٌ بَيْنَهُمَا وِعَاءٌ لِلْغَائِطِ ثُمَّ يَتَكَبَّرُ۔
مجھے فرزند آدم پر تعجب ہوتا ہے جس کی ابتدا ایک نطفہ ہے اور انتہا مردار وہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان، غلاظت و گندگی کا برتن بنا پھرتا ہے اور پھر غرور اور تکبر بھی کرتا ہے۔(بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام،جلد۷۰،صفحہ۲۳۴)خود پسندی سے بچنا
خود پسندی ایک ایسی برائی ہے جو ایک عام مسلمان کےشایان شان نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان تو کجا ایک انسان کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ خود کو اعلیٰ و ارفع سمجھے اور لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے۔ کیونکہ جب کوئی شخص خود پسندی کا شکار ہوتا ہے،خود کو اعلیٰ مقام پر فائز سمجھتا ہے تو وہ اپنی آخرت کو برباد تو کرتا ہی ہے ساتھ ساتھ اپنی دنیا کو بھی برباد کرتا ہے پھر وہ دنیا میں ترقی نہیں کرپاتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو کمال کے درجے پر دیکھتا ہے اور ترقی وہی بندہ کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو ادنی ٰ سمجھتا ہے اور کمال کے درجے تک پہنچنا چاہتا ہے اور یہی چیز ہمیں مولا علیؑ کے کلام میں ملتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
اَلْاِعْجَابُ یَمْنَعُ مِنَ الْاِزْدِیَادِ۔
خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے۔(نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۱۶۷)اور اگر یہی خودپسندی کسی حکمران کے اندر آجاتی ہے تو وہ حکمران خود کو بھی ضرر دیتا ہے اور عوام کو بھی ضرر دیتا ہے اور ملکی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا ہے۔
اس لئے حضرت علیؑ نے مالک اشتر کو اس بات پر زوردی کہ اے مالک خودپسندی سے بچتے رہو۔۔۔وَ اِیَّاكَ وَ الْاِعْجَابَ بِنَفْسِكَ وَ الثِّقَةَ بِمَا یُعْجِبُكَ مِنْهَا وَ حُبَّ الْاِطْرَآءِ، فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ اَوْثَقِ فُرَصِ الشَّیْطٰنِ فِی نَفْسِهٖ، لِیَمْحَقَ مَا یَكُوْنُ مِنْ اِحْسَانِ الْمُحْسِنِیْنَ۔
اور دیکھو! خود پسندی سے بچتے رہنا، اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں ان پر اترانا نہیں، اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرناکیونکہ شیطان کو جو مواقع ملا کرتے ہیں، ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکو کاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)بہترین وزرا کا انتخاب
ریاست کی سلامتی اور بقاء کیلئے وزرا ہی ہراول دستہ رہی ہے۔ کسی بھی حکومت کی کامیابی میں انتظامی افسروں کا کلیدی کردار ہوتا ہے،وزرا ہی ملک کے ہر شعبے کو چلاتے ہیں وہ انتظامیہ کے طور پر کام کرتے ہے۔ اگر حکمران اپنے وزرا کا انتخاب بہتر طریقے سے نہ کرے اور بہتر وزرا کا چناؤ نہ کرے تو اس سے ملک پستی کی طرف جا تا ہے۔ ملک میں فتنہ فساد برپا ہوتا ہے۔ ظلم و بربریت ہوتی ہے اور ملک میں امن و سکون ختم ہوجاتا ہے۔ مولا فرماتے ہیں:
اِنَّ شَرَّ وُزَرَآئِكَ مَنْ كَانَ لِلْاَشْرَارِ قَبْلَكَ وَزِیْرًا، وَ مَنْ شَرِكَهُمْ فِی الْاٰثَامِ، فَلَا یَكُوْنَنَّ لَكَ بِطَانَةً، فَاِنَّهُمْ اَعْوَانُ الْاَثَمَةِ وَ اِخْوَانُ الظَّلَمَةِ، وَ اَنْتَ وَاجِدٌ مِّنْهُمْ خَیْرَ الْخَلَفِ مِمَّنْ لَّهٗ مِثْلُ اٰرَآئِهِمْ وَ نَفَاذِهِمْ، وَ لَیْسَ عَلَیْهِ مِثْلُ اٰصَارِهِمْ وَ اَوْزَارِهِمْ، مِمَّنْ لَّمْ یُعَاوِنْ ظَالِمًا عَلٰى ظُلْمِهٖ وَ لَا اٰثِمًا عَلٰۤى اِثْمِهٖ، اُولٰٓئِكَ اَخَفُّ عَلَیْكَ مَؤٗنَةً، وَ اَحْسَنُ لَكَ مَعُوْنَةً، وَ اَحْنٰى عَلَیْكَ عَطْفًا، وَ اَقَلُّ لِغَیْرِكَ اِلْفًا، فَاتَّخِذْ اُولٰٓئِكَ خَاصَّةً لِّخَلَوَاتِكَ وَ حَفَلَاتِك۔
تمہارے لئے سب سے بد تر وزیر وہ ہو گا جو تم سے پہلے بدکرداروں کا وزیر اور گناہوں میں ان کا شریک رہ چکا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو تدبیر و رائے اور کارکردگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہوں گےمگر ان کی طرح گناہوں کی گرانباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں، جنہوں نے نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گنہگار کا اس کے گناہ میں ہاتھ بٹایا ہو۔ ان کا بوجھ تم پر ہلکا ہو گا، اور یہ تمہارے بہترین معاون ثابت ہوں گے، اور تمہاری طرف محبت سے جھکنے والے ہوں گے، اور تمہارے علاوہ دوسروں سے ربط ضبط نہ رکھیں گے، انہی کو تم خلوت و جلوت میں اپنا مصاحب خاص ٹھہرانا۔(نہج البلاغہ،مکتوب نمبر ۵۳)آپؑ نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا کہ کس طرح کے لوگوں کو وزیر بنانا چاہئے اور کس طرح کے لوگوں کو وزیر نہیں بنانا چاہئے۔
اور اگر آپ ؑ کے دور حکومت میں دیکھے تو آپؑ کے وزرا میں ہمیں ایسے عظیم لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی مثال ہمیں کہی نہیں ملتی مالک اشتر جیسے عظیم وزرا جن کی بہادری کے قصے ہمیں تاریخ کے کتابوں میں ملتے ہین۔اقلیتوں کو تحفظ دینا
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دور حکومت میں مذہبی اقلیتوں کا بہت خیال رکھا اور تاریخ میں مذکور ہے کہ آپؑ کا دور اقلیتوں کا پر امن دور رہا ہے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ آپؑ نے ایک پریشان حال بوڑھے عیسائی کو دیکھ کر مسلمانوں کی ملامت کی اور پھر بیت المال سے اس بوڑھے کے لئے ماہانہ وظیفہ معین کردیا، اور اسی طرح کئی واقعات ہیں جن میں ہمیں واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپؑ نے اقلیتوں کو تحفظ دی۔
اور جو خط آپؑ نے مالک اشتر کے نام پہ لکھاتھا اس میں فرماتے ہیں:فَاِنَّهُمْ صِنْفَانِ: اِمَّا اَخٌ لَّكَ فِی الدِّیْنِ وَ اِمَّا نَظِیْرٌ لَّكَ فِی الْخَلْقِ، یَفْرُطُ مِنْهُمُ الزَّلَلُ، وَ تَعْرِضُ لَهُمُ الْعِلَلُ، وَ یُؤْتٰى عَلٰۤى اَیْدِیْهِمْ فِی الْعَمْدِ وَ الْخَطَاِ، فَاَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلَ الَّذِیْ تُحِبُّ اَنْ یُّعْطِیَكَ اللّٰهُ مِنْ عَفْوِهٖ وَ صَفْحِهٖ۔
رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوقِ خدا۔ ان سے لغزشیں بھی ہوں گی، خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی۔ تم ان سے اسی طرح عفو و در گزر سے کام لینا جس طرح اللہ سے اپنے لئے عفو و درگزر کو پسند کرتے ہو۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)مولا فرماتے ہیں کہ اگر تمہاری رعایا میں کچھ لوگ ایسے ہو جو تمہارے ہم مذہب اور ہم مسلک نہ ہو تو ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ، ان پر ظلم نہ کرو کیونکہ آخر وہ بھی تو تمہاری طرح مخلوق ِخدا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان سے خطا بھی ہو۔
تاجروں کیساتھ اچھا برتاؤ
کسی بھی ملک کو خوشحال بنانے میں کسی بھی ریاست کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں اس ملک اور ریاست کے تاجروں کا اہم کردار ہوتا ہےکیونکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہے جن کے ذریعے لو گوں کی ضروریات مہیا کی جاتی ہے۔ لوگوں کی ضروریات کو پورا کیاجاتا ہے۔
اور خصوصاً اس دور میں جہاں پر انسانی ترقی کی بنیاد معاشی پختگی کو قرار دیا جانے لگا ہے۔ معاشی استحکام کو قرار دیا جانے لگا ہے۔اگر وسائل و اسباب ہوتو قدر کی جاتی ہے وگرنہ ظلم پہ ظلم کئے جاتے ہیں۔ تو اس دور میں معاشی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور یہ معاشی استحکام تاجروں کو تحفظ اور ان کو بہترین مواقع میسر کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
حضرت علی ؑ نے اپنے دور حکومت میں تاجروں کو بہت تحفظ دیا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ان کو بہترین مواقع دیئے اور آپؑ نے مالک اشتر کے نام لکھے ہوئے خط میں بھی اس اصول کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ثُمَّ اسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وَ ذَوِی الصِّنَاعَاتِ، وَ اَوْصِ بِهِمْ خَیْرًا، الْمُقِیْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُضْطَرِبِ بِمَالِهٖ، وَ الْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِهٖ، فَاِنَّهُمْ مَوَادُّ الْمَنَافِعِ، وَ اَسْبَابُ الْمَرَافِقِ۔
پھر تمہیں تاجروں اور صنّاعوں کے خیال اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے، اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے، خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیوپار کرنے والے ہوں یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں، یا جسمانی مشقت (مزدوری یا دستکاری) سے کمانے والے ہوں، کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔(نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۵۳)ایفائے عہد
انسان اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر مختلف مراحل پر عہد و پیمان کرتا ہے اور اگر وہ وعدہ کی تکمیل نہ کرے۔ وعدے کو پورا نہ کرے تو نہ صرف اس شخص سے اعتماد اٹھ جاتا ہے بلکہ پروردگار عالم بھی ناراض ہوجاتا ہے اور اگر کوئی حاکم یا مسؤل ایفائے عہد نہ کرے تو اس سے معاشرے کی استحکامیت ختم ہوجاتی ہے۔ معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے۔
اس لئے مولا علی ؑ نے اپنے کلام میں عہد کو پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی ہے حتی ٰکہ اگر کسی دشمن سے بھی کوئی عہد و پیماں کی ہو تو اس کو بھی پورا کرنے کی تاکید کی ہے آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:وَ اِنْ عَقَدْتَّ بَیْنَكَ وَ بَیْنَ عَدُوِّكَ عُقْدَةً، اَوْ اَلْبَسْتَهٗ مِنْكَ ذِمَّةً، فَحُطْ عَهْدَكَ بِالْوَفَآءِ، وَ ارْعَ ذِمَّتَكَ بِالْاَمَانَةِ، وَ اجْعَلْ نَفْسَكَ جُنَّةً دُوْنَ مَاۤ اَعْطَیْتَ، فَاِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ فَرَآئِضِ اللّٰهِ شَیْءٌ النَّاسُ اَشَدُّ عَلَیْهِ اجْتِمَاعًا، مَعَ تَفَرُّقِ اَهْوَآئِهِمْ، وَ تَشَتُّتِ اٰرَآئِهِمْ، مِنْ تَعْظِیْمِ الْوَفَآءِ بِالْعُهُوْد۔
اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو، یا اسے اپنے دامن میں پناہ دو تو پھر عہد کی پابندی کرو، وعدہ کا لحاظ رکھو، اور اپنے قول و قرار کی حفاظت کیلئے اپنی جان کو سپر بنا دو۔ کیونکہ اللہ کے فرائض میں سے ایفائے عہد کی ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کی اہمیت پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف رایوں کے باوجود یکجہتی سے متفق ہو۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)اور پروردگار عالم بھی اپنی لاریب کتاب میں متعدد مقامات پر وعدے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا۔
اور عہد کو پورا کرو، یقینًا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (سورہ اسراء، آیت نمبر ۳۴)باہمی مشاورت
انسان کو جب اپنی ذاتی زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آئے یا کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ لوگوں سے مشورہ کرتا ہے۔ اس مشکلات کے حل کے لئے مختلف ماہرین سے رابطہ کرتا ہے اور مشکل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مولا علی ؑ بھی اس چیز کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَاْیِهٖ هَلَكَ، وَ مَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِیْ عُقُوْلِهَا۔
جو خودرائی سے کام لے گا وہ تباہ و برباد ہوگا، اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہوجائے گا۔(نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۱۶۱)اور جو حکمران ملک اور ریاست کے معاشی، معاشرتی، سیاسی، ثقافتی اور دیگر معاملات میں اس شعبے کے ماہرین سے مشورہ نہیں کرے گا تو وہ نہ صرف خود کو برباد کرے گا بلکہ پورے ملک اور ریاست کو تباہ و برباد کرے گا۔
اور ہمیں مولا علیؑ کے دور حکومت میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپؑ مختلف معاملات میں چاہے وہ سیاسی ہو چاہے وہ معاشی ہو دوسروں سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
اور پروردگار عالم بھی اپنے رسولﷺ کو مشورہ کرنے حکم دیتا ہے حالنکہ آپﷺ دنیا کے عظیم دانشور تھے۔ پروردگار عالم اپنی لاریب کتاب میں فرماتا ہے:فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ.
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (سورہ آلعمران، آیت نمبر ۱۵۹)وہ لوگ جن سے مشورہ نہیں کرنا چاہئے
اور حضرت علی ؑ اپنے خط میں مالک اشتر کو اسی سلسلے میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:وَ لَا تُدْخِلَنَّ فِیْ مَشُوْرَتِكَ بَخِیْلًا یَّعْدِلُ بِكَ عَنِ الْفَضْلِ، وَ یَعِدُكَ الْفَقْرَ، وَ لَا جَبَانًا یُّضْعِفُكَ عَنِ الْاُمُوْرِ، وَ لَا حَرِیْصًا یُّزَیِّنُ لَكَ الشَّرَهَ بِالْجَوْرِ، فَاِنَّ الْبُخْلَ وَ الْجُبْنَ وَ الْحِرْصَ غَرَآئِزُ شَتّٰى یَجْمَعُهَا سُوْٓءُ الظَّنِّ بِاللّٰه۔
اپنے مشورے میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا اور فقر و افلاس کا خطرہ دلائے گا، اور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ وہ تمہاری ہمت پست کر دے گا، اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹورنے کو تمہاری نظروں میں سجا دے گا۔ یاد رکھو! کہ بخل، بزدلی اور حرص اگرچہ الگ الگ خصلتیں ہیں، مگر اللہ سے بد گمانی ان سب میں شریک ہے۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)حضرت علی ؑ کے اس قول میں موجود شرائط سے معلوم ہوتا ہےکہ مشورہ کرتے وقت اس مشیر کے اخلاقی خصلتوں کو دیکھا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے اس کے مشوروں میں بڑا فرق آتاہے۔ اگر وہ بخیل ہو تو وہ اپنے مشوروں میں بھلائی کرنے سے روکے گا اگر وہ بزدل ہو تو ہمت پست کردینے والا مشورہ دےگا۔
یتیم پروری
ہمیں حضرت علیؑ کی سیرت میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپؑ نے اپنی پوری زندگی یتیموں کا خاص خیال رکھا۔ آپؑ نصف شب کے بعد اپنے گھر سے نکلتے اور دن بھر کی کمائی سے یتیموں کو غذا و دیگر اشیا ء پہنچاتے تھے اور اپنی پہچان ہونے نہیں دیتے تھے۔ اور خصوصاً آپؑ نے اپنے دور حکومت میں یتیموں کا بہت زیادہ خاص خیال رکھا۔
ایک دفعہ آپؑ کے دور حکومت میں ایران کے شہر ہمدان کے رہنے والا ایک شخص آپؑ کے خدمت میں شہد اور انجیر کا تحفہ لیکر آیا تو آپؑ نے حکم دیا کہ یتیم بچوں کو لیکر آؤ، جب بچے آگئے تو آپؑ نے شہد کی مشک کھول کر کہا کہ بچو جتنا شہد کھانا ہے کھا لو پھر اسی مشک سے برتنوں میں شہد نکالنے کا حکم دیا کہ اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے تو کچھ لوگوں نے آپؑ کے اس عمل پر اعتراض کیا کہ آپؑ نے یتیموں کو مشک سے کیوں منہ لگا کر پینے دیا۔ تو آپ ؑ نے فرمایا کہ امام یتیموں کا باپ اور سرپرست ہوتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس طرح کے کاموں کی اجازت ان کو دے تاکہ ان کو یتیمی کا احساس نہ ہو۔ (بحار الانوار، جلد ۴۱،صفحہ ۱۲۳)
اور آپ ؑ نے اپنے خطبوں اور کلاموں میں بھی یتیم پروری کی بڑی تاکید کی ہے۔ جب آپؑ کو ابن ملجم لعنہ اللہ نے ضربت لگائی تو آپؑ نے حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسینؑ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ:وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِی الْاَیْتَامِ، فَلَا تُغِبُّوْۤا اَفْوَاهَهُمْ، وَ لَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِكُمْ۔
(دیکھو!) یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ان کے کام و دہن کیلئے فاقہ کی نوبت نہ آئے، اور تمہاری موجودگی میں وہ تباہ و برباد نہ ہو جائیں۔ (نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۴۷)اور اسی طرح آپ ؑ نے مالک اشتر کے نام لکھے گئے خط میں فرمایا کہ:
وَ تَعَهَّدْ اَهْلَ الْیُتْمِ وَ ذَوِی الرِّقَّةِ فِی السِّنِّ، مِمَّنْ لَّا حِیْلَةَ لَهٗ، وَ لَا یَنْصِبُ لِلْمَسْئَلَةِ نَفْسَهٗ، وَ ذٰلِكَ عَلَى الْوُلَاةِ ثَقِیْلٌ، وَ الْحَقُّ كُلُّهٗ ثَقِیْلٌ، وَ قَدْ یُخَفِّفُهُ اللّٰهُ عَلٰۤى اَقْوَامٍ طَلَبُوا الْعَاقِبَةَ فَصَبَّرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ، وَ وَثِقُوْا بِصِدْقِ مَوْعُوْدِ اللّٰهِ لَهُم۔
اور دیکھو یتیموں اور سال خوردہ بوڑھوں کا خیال رکھنا کہ جو نہ کوئی سہارا رکھتے ہیں اور نہ سوال کیلئے اٹھتے ہیں، اور یہی وہ کام ہے جو حکام پر گراں گزرتا ہے (اور حق تو بہرحال گراں ہی ہوا کرتا ہے)۔ ہاں خدا ان لوگوں کیلئے جو عقبیٰ کے طلبگار رہتے ہیں، اس کی گرانیوں کو ہلکا کر دیتا ہے، وہ اسے اپنی ذات پر جھیل لے جاتے ہیں اور اللہ نے جو ان سے وعدہ کیا ہے اس کی سچائی پر بھروسا رکھتے ہیں۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳)
