عبادت جن و انس کا مقصدِ خلقت اور انسانیت کی معراج ہے۔ البتہ اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ کمال "عابد” ہونے میں نہیں ہے، بلکہ "عبد” ہونے میں ہے۔ جیسا کہ عارف باللہ سالک الی اللہ حضرت علامہ حسن زادہ آملی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "عابد” کے بجائے "عبد” بنو، شیطان نے تقریبا 6000 سال تک عبادت کی اور عابد ہوا، لیکن عبد نہ ہو سکا؛ مطلب یہ کہ جب تک "عبد” نہیں بنو گے عبادت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، "عبد” ہونا یعنی یہ دیکھو کہ تمہارا خدا کیا چاہتا ہے یہ نہ دیکھو کہ تمہارا دل کیا چاہتا ہے۔”

اللہ نے جب اپنے حبیب کو معراج عطا کی تو انہیں حبیب و محبوب، طہ و یس، مزمل و مدثر، نبی و رسول جیسے القاب سے یاد نہیں کیا بلکہ لفظ "عبد” کا استعمال کیا۔ مطلب یہ کہ یہ معراج "عبد” کو ہوئی، تو جب صاحب معراج "عابد” نہیں "عبد” ہے تو جو تحفہ معراج ہو بلکہ مقصد معراج ہو اس کی عبادت پر گفتگو کرنا صرف میرے لئے محال ہی نہیں، بلکہ خدا و خاصان خدا کے علاوہ کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ اس موضوع پر جتنا لکھا گیا کم لکھا گیا، جتنا بیان ہوا کم بیان ہوا۔

کیونکہ جو ذات مثل شب قدر ہو اس کا ادراک ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا اس سلسلہ میں معصومین علیہم السلام کی زبان سے جو بیان ہوا ہے اسی میں سے کچھ ہم بیان کر سکتے ہیں۔

ظاہر ہے جو ذات "عبد” ہو اس کی نہ صرف نماز و روزہ عبادت ہیں بلکہ زندگی کا ہر لمحہ بندگی پروردگار میں بسر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے معبود کے سامنے تسلیم محض ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اگر محراب عبادت میں ہیں تو مشغول عبادت ہیں، اگر محراب عبادت میں نہیں بلکہ اپنے ذاتی یا گھریلو امور کی انجام دہی فرما رہی ہیں تب بھی مصروف عبادت ہیں۔

البتہ یہاں نماز، روزہ اور دعا جیسی خاص عبادات کا بیان مقصود ہے کہ جس طرح آپ گھر کے دیگر امور بروقت انجام دیتی تھیں اسی طرح یہ عبادتیں بھی اول وقت انجام دیتی تھیں۔ بلکہ جب بھی آپ کو گھریلو کاموں سے فراغت ملتی عبادت میں مشغول ہو جاتیں — نماز، دعا اور گریہ و زاری میں مصروف رہتیں۔ آپ کی دعائیں ہمیشہ دوسروں کے لئے ہوتیں، اپنے لئے نہیں ہوتی تھیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا: میری والدہ (حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا) شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتیں، جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتیں تو اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا کرتیں، لیکن اپنے لئے کچھ نہیں مانگتیں۔

میں نے ایک دن عرض کیا: "والدہ گرامی! آپ اپنے لئے بھی اسی طرح دعا کیوں نہیں کرتیں جس طرح دوسروں کے لئے دعا کرتی ہیں؟” فرمایا: "بیٹا! پہلے پڑوسی، پھر اپنا گھر۔” (کشف الغمة، جلد 1 صفحہ 468)

وہ تسبیح جو "تسبیح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا” کے نام سے مشہور ہے، شیعہ و سنی دونوں معتبر کتابوں اور اسناد میں روایت ہوئی ہے اور سب کے نزدیک معتبر ہے۔ جو لوگ تعقیبات اور سنت پر عمل کے پابند ہیں، وہ اس تسبیح کو ہر نماز کے بعد پڑھتے ہیں: چونتیس (34) مرتبہ "اللہ اکبر”، تینتیس (33) مرتبہ "سبحان اللہ” اور تینتیس (33) مرتبہ "الحمد للہ”۔

اسی طرح علامہ سید ابن طاؤس رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب "اقبال الاعمال” میں ان دعاؤں کو نقل کیا ہے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نمازِ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کے بعد پابندی سے پڑھا کرتی تھیں۔ اسی طرح بعض دیگر دعائیں بھی آپ سے منقول ہیں جو مختلف پریشانیوں اور حاجتوں کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں۔ جو لوگ دعاؤں اور مستحبات کے پابند ہیں، وہ ان دعاؤں سے واقف ہیں۔

البتہ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر معصومین علیہم السلام کے یہاں جہاں عبادتوں میں کثرت نظر آتی ہے وہیں کیفیت پر بھی اس سے زیادہ توجہ رہی ہے۔ یعنی ان کی تمام عبادتوں میں صرف معبود ہی نظر آئے گا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مَنْ اَصْعَدَ اِلَی اللّه ِ خالِصَ عِبادَتِه، اَهْبَطَ اللّه ُ [الیه] اَفْضَلَ مَصْلِحَته” یعنی جو شخص اپنی خالص عبادت اپنے پروردگار کی جانب بلند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی بہترین مصلحت (بھلائی) اس کی جانب نازل کرتا ہے۔ (تحف العقول، صفحہ 960)

بے شک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عبادی سیرت تمام بشریت کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔ روزانہ خصوصا شب جمعہ بالاخص شب قدر میں آپ کی عبادت، نماز، دعا اور مناجات اپنی مثال آپ ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو آسمان کے فرشتوں کے لئے ایک روشن ستارے کی مانند چمکتی ہیں۔ خداوندِ متعال فرشتوں سے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! دیکھو میری بہترین عبادت گذار فاطمہ کو، وہ میرے سامنے کھڑی ہے، میرے خوف سے اُس کا سارا وجود لرز رہا ہے اور وہ پوری توجہ اور حضور قلب کے ساتھ میری عبادت میں مشغول ہے۔ تم گواہ رہو کہ میں نے ان کے چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے نجات دے دی ہے۔ (امالى شيخ صدوق ، صفحہ 99 و100)

خدا ہمیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معرفت عطا فرمائے اور ان کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے