رشتۂ آئینِ حق زنجیرِ پاست

پاسِ فرمانِ جنابِ مصطفیٰ است

ورنہ گردِ تربتش گردیدمی

سجدہ‌ها بر خاکِ او پا شیدمی

آئینِ حق سے وابستگی میرے قدموں کی زنجیر ہے اور مجھے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے حکم کا پورا پاس ہے۔ ورنہ میں فاطمۂ زہراؑ کی تربت کے گرد طواف کرتا اور اس کی خاک پر سجدے کرتا۔

علامہ اقبال:

کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی عظمت عقل کے دلائل کی منتظر نہیں رہتی، وہ دلیل سے پہلے دل میں اتر جاتی ہے۔ انسان ابھی سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ یہ عظمت کیا ہے، کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے، کہ اچانک دل جھکنے لگتا ہے۔ ایک انجانی سی کیفیت روح کو گھیر لیتی ہے، احترام لرزہ بن کر وجود میں سرایت کر جاتا ہے، اور جذبہ ایسی سمت بڑھتا ہے جہاں لفظ کم اور احساس زیادہ ہو جاتا ہے۔ آدمی خود کو سجدے کی آخری سرحد پر کھڑا پاتا ہے، مگر اسی لمحے کوئی باطنی آواز اُبھرتی ہے اور قدم روک لیتی ہے—یہ سجدہ نہیں، یہ ادب ہے؛ یہ بندگی نہیں، یہ عشق ہے۔

یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں عقل خاموش ہو کر دل کی گواہی سننے لگتی ہے، جہاں محبت اپنی انتہا کو چھوتی ہے مگر تجاوز نہیں کرتی، جہاں عقیدت حد پار کرنے کے بجائے خود حد بن جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان پہلی بار سمجھتا ہے کہ کچھ عظمتیں جھکانے کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ جھکنا سکھانے کے لیے ہوتی ہیں۔

جنابِ فاطمۂ زہراء سلامُ اللہ علیہا ایسی ہی ہستی ہیں۔ ان کی عظمت اعلان نہیں، حضور ہے؛ دلیل نہیں، احساس ہے؛ نعرہ نہیں، خاموش حجت ہے۔ ان کے تصور ہی سے دل سنبھل جاتا ہے، نظریں جھک جاتی ہیں اور زبان بے ساختہ محتاط ہو جاتی ہے۔ ان کے مقام پر پہنچ کر انسان یہ سیکھتا ہے کہ حقیقی بلندی کیا ہے اور حقیقی عاجزی کسے کہتے ہیں۔

یہ عظمت انسان کو نہ صرف اپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ سنبھال بھی لیتی ہے۔ ایک سمت دل کو اپنی جانب بلاتی ہے، اور دوسری سمت اسے خدائے واحد کی طرف موڑ دیتی ہے۔ یہی وہ فکری اور روحانی جمال ہے جہاں محبت گمراہ نہیں ہوتی، اور جذبہ عبادت سے ٹکرا کر ادب میں ڈھل جاتا ہے۔ فاطمۂ زہراء سلامُ اللہ علیہا کا مقام انسان کو یہی حقیقت سمجھاتا ہے کہ جب عشق خالص ہو جائے تو وہ خود انسان کو اس کی حد کا شعور عطا کر دیتا ہے۔

اور شاید یہی عظمت کی سب سے بڑی پہچان ہے—کہ وہ انسان کو اپنے رب کے اور قریب ہو جانے کا راستہ دکھا دے، بغیر خود اس راستے کی رکاوٹ بنے۔

ان کی عظمت محض اس نسبت کا نام نہیں کہ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی ہیں، بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ان کا وجود خود آئینِ حق کا مظہر ہے۔ وہ حق کے نظام میں اس طرح شامل ہیں کہ ان سے محبت بھی تبھی معتبر ہے جب حق کے دائرے میں رہے۔ ان کی عظمت دل کو بے قرار بھی کرتی ہے اور سنبھلنا بھی سکھاتی ہے۔

ان کی پاکیزگی اس درجے کی ہے کہ اگر زمین پر کسی ذرّے کو سجدے کے لائق سمجھا جا سکتا تو وہ ان کے قدموں کی خاک ہوتی—مگر خود جنابِ زہراءؑ کی سیرت یہ اعلان کرتی ہے کہ سجدہ صرف خدا کے لیے ہے۔ یوں ان کی ذات انسان کو محبت کی انتہا تک لے جا کر شریعت کی حد پر روک دیتی ہے۔ یہی ان کی عظمت کا نازک ترین اور روشن ترین پہلو ہے۔

ان کا وقار یہ تھا کہ رسولِ خداؐ ان کے احترام میں کھڑے ہوتے، اور ان کی عظمت یہ کہ وہ خود ہر لمحہ رسولؐ کے فرمان کی پاسدار رہیں۔ ان کی زندگی اس بات کی شہادت ہے کہ محبوب ترین ہستی بھی قانونِ الٰہی سے جدا نہیں، بلکہ اس کی سب سے حسین تصویر ہوتی ہے۔ ان کی شان میں کوئی ایسی بات نہیں جو توحید کے توازن کو بگاڑ دے—بلکہ ان کی ذات توحید کی حفاظت بن جاتی ہے۔

بیٹی کے روپ میں وہ ایسی تھیں کہ باپ کے دکھ اور تھکن کو لفظوں کے بغیر سمجھ لیتی تھیں، اس کی پیشانی پر ابھرتی ہوئی فکروں کو خاموش تسلی میں ڈھال دیتی تھیں۔ زوجہ کے مقام پر پہنچیں تو ایسی شریکِ سفر بنیں کہ شوہر کے عدل، اس کے مقصد اور اس کی تنہائی سب میں برابر کی ہمراز رہیں۔ اور ماں کی حیثیت سے ایسی تربیت گاہ بن گئیں کہ ان کی گود سے اٹھنے والے کرداروں نے قیامت تک کے لیے دین کو زندگی عطا کر دی۔

یہ عظمت نہ کسی تعارف کی محتاج ہے، نہ کسی نعرے کی؛ یہ اپنے وجود سے خود بولتی ہے، خود ثابت ہوتی ہے—اور خاموشی سے تاریخ پر دلیل بن کر قائم رہتی ہے

ان کی مظلومیت بھی عبادت کی طرح خاموش اور باوقار ہے۔ وہ چیخ کر حق نہیں مانگتیں، مگر ایسی گواہی چھوڑ جاتی ہیں کہ باطل بولنے سے پہلے کانپنے لگتا ہے۔ ان کا صبر امت کے لیے یہ سبق بن جاتا ہے کہ حق پر رہتے ہوئے خاموشی بھی احتجاج ہو سکتی ہے—اگر وہ وقار کے ساتھ ہو۔

ایسی عظمت کے سامنے انسان جب سجدہ ریز ہونا چاہتا ہے، تو یہی عظمت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ سجدہ صرف خدا کے سامنے ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں محبت حد میں رہتی ہے اور عقیدت گمراہ نہیں ہوتی۔ یہی وہ میزان ہے جو بتاتی ہے کہ اہلِ بیتؑ سے سچی محبت، اطاعتِ خدا اور اتباعِ رسولؐ سے جدا نہیں ہو سکتی۔

سلام ہو اس پاکیزہ ہستی پر جن کی عظمت دل کو سر بسجود کرنا سکھاتی ہے، مگر ساتھ ہی بتا دیتی ہے کہ سجدہ صرف ربِ کائنات کے لیے ہے۔

جنابِ فاطمۂ زہراء سلامُ اللہ علیہا وہ میزان ہیں؛ جس کے بغیر محبت راستہ کھو دیتی ہے اور عظمت اپنی حد سے آگے بڑھ جاتی ہے۔

تحریر:مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے