عالمہ غیر معلمہ،عقیلہ بنی ہاشم،مظہر حیاء و عفت، پیکر صبر و شجاعت حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ولادت 5 جمادی الاول ہجرت کے تقریبا چھٹے سال ہوئی۔

نظارت رسالت،دامن عصمت اور آنگن امامت میں پنجتن پاک کے زیر سایہ آپ کی تربیت ہوئی۔

آپ کا نام مولا علی اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہما کی خواہش پر رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے حکم خدا سے زینب رکھا۔زینب یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے زین اب یعنی باپ کی زینت۔

آپ کے مشہور القاب میں عارفہ، عالمہ، فاضلہ، عابدہ، آمنہ، نائبۃ الزھرا، نائبۃ الحسین،شریکۃ الشھداء،شریکۃ الحسین،بلیغہ و فضیحہ مشہور و معروف ہیں۔

عبادت، زھد و تقویٰ ،صبر و شکیبائی،بلاغت و فصاحت اور شجاعت کے میدان میں اپ بہت ہی اعلیٰ درجے پر فائز تھیں۔

آپ اس باپ کی زینت بنی جس کی ایک ضربت کائنات کے تمام عابدوں اور زاہدوں کی سب عبادتوں سے افضل یعنی ان تمام عبادتوں کی زینت بنی۔

بچپن کا زمانہ نانا رسول خدا کی شفقتوں میں گزرا۔

بچپن ہی سے آپ ذہین و فطین تھی۔ صبر و شجاعت اور استقامت کو آپ نے بچپنے سے یوں سیکھا کہ دنیا آج بھی آپ کے ان اوصاف کمالیہ پر محو حیران ہے۔

آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمتہ زہرا کردار و عمل میں تمام عورتوں کے لئے مثالی نمونہ تھی۔عورت بطور بیٹی،عورت بطور بیوی،عورت بطور ماں تینوں جہات میں بہترین نمونہ عمل قرار پائی لہذا آپ کو اپنے کردار و سیرت کی وجہ سے سیدۃ النساء العلمین کا لقب ملا، لیکن آپ کی زندگی میں عورت بطور بہن کا کوئی کردار نہیں تھا۔ عورت بطور بہن کیسی ہونی چاہئے اس صفت کو حضرت زینب نے اپنی زندگی میں وہ کمال اور بلندی عطا کیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

بطور بیٹی آپ نے اتنی پاکیزہ زندگی بسر کی کہ علی جیسی شخصیت کے لئے باعث زینت بنی ۔

بطور بیوی آپ نے حضرت عبداللہ ابن جعفر کے ساتھ ایک مثالی زندگی بسر کی ۔ عورت بطور ماں آپ نے حضرت عون و محمد سمیت چار بیٹوں اور ایک بیٹی کی تربیت کی۔

آپ کی شادی جناب عبداللہ سے سترہویں ہجری میں ہوئی اسی سال خلیفہ دوم کے حکم پر شہر کوفہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آپ کا حق مہر چار سو ستر درھم رکھا گیا۔

مورخین کے مطابق حضرت عبداللہ سے آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔

بعض مورخین نے شادی کے وقت دو خصوصی شرائط کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلا ہر روز امام حسین علیہ السلام کی دیدار اور دوسری شرط اگر امام حسین کہیں سفر پر جائیں تو ہمراہ جانے کی اجازت ہے۔

آپ امام علی کے دور حکومت میں کوفہ میں خواتین کو درس تفسیر القرآن اور درس حدیث دیا کرتی تھیں۔آپ کے علم کے بارے میں امام سجاد کا یہ قول معروف ہے جس میں امام معصوم نے فرمایا : انت عالمۃ غیر معلمہ فھمۃ غیر مفھمہ۔

عبادات کی طرف نگاہ کریں تو امام حسین جیسی شخصیت آپ کو وصیت کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ: یا اختی لا تنسینی فی نافلۃ الیل” اے میری بہن مجھے نماز شب میں بھول نہ جانا”

کربلا کے دردناک قربانیوں کے بعد شام غریباں سے لے کر شام کی زنداں تک آپ نماز شب ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

بھائی حسین سے اتنی محبت تھیں کہ شادی کے تیسرے روز عرب دستور کے مطابق حضرت ام البنین بحیثیت ماں امام علی کے حکم پر ملنے گئی تو حضرت عبداللہ کے گھر میں جائے نماز پر بیٹھی روتی دکھائی دیتا ہے۔ حضرت ام البنین کے استفسار پر پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی کہتی ہیں کہ تین دن ہوئے میں نے اپنے بھائی حسین کو نہیں دیکھا۔

وہی بھائی جب مدینہ چھوڑ کر نکلتے ہیں تو شہزادی بھی جناب عبداللہ کو اپنی شرط یاد دلاتی ہے(بعض روایات کے مطابق) اور اجازت لے کر اس سفر میں ساتھ چلتی ہے۔

عصر عاشور کے بعد پرچم حسینیت کو تھام کر کوفہ و شام کی گلیوں، بازاروں اور درباروں میں وہ خطبات دیتی ہیں کہ دنیا کو جہاد تبیین اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ مشن و مقصد کربلا ، مظلومیت امام اور ظالمین کے ظلم کو قیامت تک آنے والے سرفروشوں اور انسانی اقدار کے پاسبانوں تک پہنچاتی ہیں۔

بھائی حسین سے قلبی محبت کے سبب آپ بھی ستاون سال سے زیادہ ژندہ نہیں رہی ہوں پندرہ رجب المرجب سن باسٹھ ہجری کو اس ظالم اور بےوفا دنیا سے چلی جاتی ہیں۔

آپ کے مرقد کے بارے میں تین معروف اقوال موجود ہیں۔

پہلا نظریہ یہ ہے کہ آپ عمر کے آخری حصے میں ناسازی طبیعت کی بناء پر ملک شام میں حضرت عبداللہ کی جاگیر پر گئی تھی پھر وہیں انتقال کرگئی یوں آپ کو ملک شام کے پایہ تخت دمشق میں سپرد خاک کیا گیا جہاں ان بھی زینبیہ کے مقام پر آپ سے منسوب روضہ موجود ہے۔

ایک قول کے مطابق آپ آخری دنوں میں مصر کے شہر قاہرہ چلی گئی تھیں جہاں علالت کے سبب آپ اس دنیا سے چلی گئی اور قاہرہ میں دفن ہیں۔ یہاں پر بھی آپ سے منسوب روضہ موجود ہے۔

تیسرے قول کے مطابق آپ مدینہ منورہ میں رہی اور وہیں رحلت کے بعد دفن ہیں اگر چہ یہاں شام اور مصر کی طرح جگہ مختص یا منسوب نہیں ہے۔ایک روایت میں عراق کا شہر انکار کا بھی ذکر ہوا ہے مگر علمائے کرام نے اسے رد کیا ہے۔

ابتدائی تینوں اقوال کے قائلین و معتقدین میں بڑے بڑے علماء کرام و محققین موجود ہیں اس لئے یہ تینوں قول اور مقامات ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ان مشہور روایتوں پر کتاب مقتل جامع الشھداء میں تفصیلی گفتگو موجود ہے۔

تحریر:محمد بشیر دولتی

حوالہ جات:

نورا الدین جزائری،خصائص الزینبیہ

شیخ راضی ال یاسین ،صلح امام حسن

محمد جواد مغنیہ،الحسین و بطلۃ کربلا

مقتل جامع الشھداء

زینب بنت علی ابن ابی طالب،دانشنامہ جہان اسلام

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے