جامعۃ الزہرا کی اُستاد اور اسلامی تاریخ کی محقق محترمہ راحلہ ضائفی کہتی ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی کا مطالعہ آج کی مسلمان عورت کو یہ سکھاتا ہے کہ آزمائش اور بحران کے وقت خود اعتمادی، خاندانی ہمدردی اور حوصلے کے ساتھ کس طرح راہِ نجات اختیار کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت زینبؑ کی زندگی کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک، سانحۂ کربلا سے پہلے کا دور اور دوسرا، اُس کے بعد کا۔ دونوں زمانوں میں حضرت زینبؑ نے سخت ترین حالات جھیلے، لیکن ہر مرحلے پر صبر، ہمت اور سچائی کا عملی مظاہرہ کیا۔

راحلہ ضائفی نے کہا کہ پانچ برس کی عمر میں ماں کا سایہ اُٹھ جانے کے بعد حضرت زینبؑ نے اپنے بھائیوں، بہن اور والد محترم حضرت علیؑ کے ساتھ جس طرح دلی وابستگی اور ساتھ نبھایا، وہ اُس عمر کے لیے حیرت انگیز مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت زینبؑ کا لقب ام المصائب اُن کے بے شمار دکھوں اور قربانیوں کی گواہی ہے، جبکہ "عقیلہ بنی ہاشم” اُن کی عقل، فہم اور قیادت کی علامت ہے۔ وہ صرف دینی شعور رکھنے والی خاتون نہ تھیں، بلکہ اسلام کی ایک بیدار مغز اور باوقار رہنما بھی تھیں۔

راحلہ ضائفی نے زور دے کر کہا کہ حضرت زینبؑ کی شخصیت کسی ایک زمانے یا صنف کے لیے محدود نہیں، بلکہ اُن کی زندگی عبادت، سماجی خدمت، سیاسی بصیرت اور فکری رہنمائی کا ایسا نمونہ ہے جو ہر دور کے انسان کے لیے ہدایت کا سر چشمہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کی مسلمان عورت حضرت زینبؑ کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزار سکتی ہے؛ خصوصاً ایسے حالات میں جب گھر اور خاندان کو مسائل کا سامنا ہو، تو اُسے چاہیے کہ ہمت، عقل مندی اور دینی شعور کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ کا سہارا بنے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے