حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (ع)
خدا کے پیارے نبی کے چچا ، امیر حمزہ امیر حمزہ زمیں کی عظمت سما کا چرچا، امیر حمزہ امیر حمزہ
وہ سب شہیدوں کے راہبر ہیں ، وہ رہنما ہیں
بدر کے غازی ، اُحد کے کشتہ، امیر حمزہ امیر حمزہ
نبیِ اکرم نے ان کی تربت کی جا کے اکثر ہے کی زیارت بتا دیا ہے مقام و رتبہ ، امیر حمزہ امیر حمزہ
حضور روتے ہیں یاد کر کے وفائیں ان کی،عطائیں ان کی دل و نگاہ و ذہن میں ہر جا ، امیر حمزہ امیر حمزہ
تمام مشرک بھگا دیے اور ابو جہل کا بھی خو ں نکالا انہی کی ضربت سے کفر ٹوٹا ، امیر حمزہ امیر حمزہ
وہ اہلِ جنت کے پیشوا ہیں، وہ اہل ایماں کے مقتدا ہیں امیر حزبِ نبی و اللہ ، امیر حمزہ امیر حمزہ
بیاں خدا کی کتاب کا ہیں، سکوں رسالتمآب کا ہیں ہمارے آقا ہمارے مولا ، امیر حمزہ امیر حمزہ
علی ولی بھی ہمیشہ کرتے تھے جاکے اُن کی جودست بوسی محافظ و اطمینانِ زہر ا ، ا میر حمزہ امیر حمزہ
پڑھا ہے پیارے نبی نے ان کا احد میں ستر دفعہ جنازہ شہید راہِ خدا میں ایسا ، امیر حمزہ امیر حمزہ
سلام تیری سیادتوں کو ، قیادتوں کو شہیرِ بطحا
علی سراپاایازتیرا، امیر حمزہ امیر حمزہ
حضور نبی کریم کے پیارے چچا اور لشکر اسلام کے پہلے کمانڈر، سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب حضور کے ہم سن اور بچپن کے ساتھی تھے۔ منشائے ایزدی کے مطابق جب سرکارختمی مرتبت کے والد ماجد سیدنا عبداللہ کا عقد مبارک سیدہ آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا سے طے ہواتو سیدہ آمنہ اپنے چچا جناب وہیب ابن عبدمناف ابن زہرہ ابن کلاب کی زیرِکفالت تھیں۔ حضرت عبدالمطلب شِیْبَۃُالْحَمْد آپ کو لے کر بنی زہرہ کی قیام گاہ گئے اور حضرت آمنہ کا نکاح اپنے صاحبزادے عبداللہ سے پڑھا۔ بحکم ایزدی آپ نے جناب وہیب کی صاحبزادی ،حضرت ہالہ سے خطبہ نکاح پڑھ کر شادی کر لی اور یہ دونوں نکاح ایک ہی مجلس میں بیک وقت منعقد ہوئے۔ حضرت ہالہ کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے ہاں حضرت حمزہ پیدا ہوئے اورآپ کی آمد کے دوسال بعد سیدتنا آمنہ و سیدنا عبداللہ ذبیح اللہ کے جگر پارے حضور سرورِکونین دنیا میں جلوہ نما ہوئے؛
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل ونویدِمسیحا
مشیتِ ایزدی حضرت عبدالمطلب کا اپنے صاحبزادے عبداللہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ جانا حالانکہ حضرت عبداللہ کے عقد مبارک کے لیے اشرافِمکہ کی دختران کم نہ تھیں،پھر ایک بھائی کی بیٹی سے اپنے بیٹے کے لیے اور دوسرے بھائی کی بیٹی سے خود اپنی شادی کرنا اور وہ بھی ایک ہی وقت اور ایک ہی محفل میں۔ اگر ان افعال کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت عبدالمطلب کے جملہ اقدامات منشائے الٰہی کے مطابق ہو رہے تھے۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کو اپنا نبیِبرحق مبعوث فرمانا تھا جس کی مدد و معاونت کا اہتمام اسی محفل میں کر دیا گیا ؛
وہ حمزہ ابنِعبدالمطلب شیر خدا حمزہ امیر قوم ،عم مصطفٰی ومرتضٰی حمزہ
کہ جن کے نور سے ہر سو اُجالاہونے والاتھا اُنہی کے دم سے حق کا بول بالاہونے والا تھا
مُعِینُ الْرَّسُوْل
سیدنا ابو طالب کے آہنی حصار کے بعد حضرت حمزہ نے رسول خدا کی مدد و معاونت کی اور اسلام کی بقا کی خاطر آپ نے میدان بدر واحد میں کفار و مشرکین مکہ کے غرور و تکبر کو خاک میں ملادیا۔ شمع رسالت کی حفاظت کرتے ہوئے غزوئہ احد میں شہادت پائی اور نطقِرسالت نے آپ کو سید الشہداء کا تاج پہنایا۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جن کا انتظام پرور دگار عالم نے عقد سیدنا عبداللہ و سیدہ آمنہ کے موقع پر ہی کر دیا تھا۔ حضور نبی کریم کے بارہ چچاؤں میں امانتِاسلام اور رفاقتِسید الانام میں سیدنا ابو طالب کے بعد جس خلوص و عقیدت کے ساتھ حضرت امیر حمزہ بن عبدالمطلب نے خدمات انجام دیں ویسی کسی اور چچا کو سعادت نہ مل سکی۔
سیدنا حمزہ کو وصیت حضرت ابو طالب
بوقت رخصت سیدنا ابو طالب نے ان الفاظ میں آپ کو وصیت فرمائی؛
ٍ اُوْصِیْ بِِِنَصْرِِالنَّبِیِّ الْخَیْرمَشْھَدَہُ عَلِیّاً اِبنِیْ وَعَمِّ الْخَیْرِِ عَبَّاساً
وَحَمْزَۃُالْاَسَدُاْلمَخْشِیِّ صَوْلَتَہُ وَجَعْفَراًاَنْ تَذُوْدَا دُوْنَہُ الْنَّاساً
حضرت نبی اکرم کی مدد و نصرت کے لیے میں آپ سب کو خصوصاًاپنے فرزند علی اور پیغمبر کے چچاعباس کو وصیت کرتا ہوں
اور شیر بیشۂ شجاعت حمزہ ،جن کی ہیبت سے سب ڈرتے ہیں اور جعفر کوکہ دیگر لوگوں کے مقابلہ میں حضور کا زیادہ ساتھ دینا اور ان کا دفاع کرنا
امیر حمزہ کا اعلانِ قبولِ اسلام
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہُ لِلْاِسْلاَمِ فَھُوَعَلیٰ نُوْرٍمِّنْ رَّبِّہِط ۲۲ الزمر
۳۹تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کشادہ کردیا تو وہ اپنے پروردگار کے نور کی روشنی میں (چلتا ہے )
اعلانِ نبوت کے چھٹے سال ایک دفعہ کو ہ صفا کے قریب رسول اللہ کے پاس سے ابو جہل ملعون کا گزر ہوا۔ اس نے آپ کو تکلیف دی اور نا زیبا کلمات کہے۔ آپ کے پیغام کی عیب جوئی کی۔ رِحْمَۃُلْلِّعَالَمِین خاموش رہے۔ عبداللہ بن جد عان کی ایک لونڈی ابو جہل کی گستاخی دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد آنحضرت قریش کی ایک مجلس کا قصد فرما کر ان کے پاس تشریف فرما ہوئے۔ سید نا امیر حمزہ شکار کا شوق رکھتے تھے اور آپ کا شمار عرب کے نامور شکاریوں میں ہوتا تھا ۔ آپ تیر اندازی کے ماہر تھے اور شیر کا شکار کیا کرتے ۔ جب شکار سے واپس تشریف لاتے تو گھر والوں کے پاس نہ جاتے جب تک خانہ کعبہ کا طواف نہ کر لیتے، قریش کی مجلس میں ٹھہرتے اور بات چیت فرماتے۔ آپ قریش میں اعزاز رکھنے والے جوان مرد تھے؛
شجاع نامور ،فرزند عبدالمطلب حمزہ وہ عم مصطفٰی ،عالی نسب ،والاحسب حمزہ
وہ حمزہ جن کو شاہِ شہسوارانِ عرب کہئے جنہیں جانِ عرب لکھیے ، جنہیں شانِ عرب کہئے مشیت تھی کہ ان کے دم سے تقویت ملے حق کو مٹے باطل کی شانِ ظاہری شوکت ملے حق کو چلے آتے تھے اک دن دشت سے وہ پشتِ توسن پر شجاعت اور جلالِ ہاشمی تھا اپنے جوبن پر
آپ عبداللہ بن جد عان کی لونڈی کے قریب سے گزرے تو حضور نبی کریم گھر تشریف لے جا چکے تھے۔ لونڈی نے کہا ’’ اے ابو عمارہ ! کاش آپ اس آفت کو دیکھتے جو آپ کے بھتیجے پر ابن ہِشام کی جانب سے آئی ہے۔ اس نے آپ کو ایذا پہنچائی اور نا زیبا کلمات کہے اور انتہا کر دی جس کے جواب میں محمدنے اس کوئی بات نہیں کی‘‘۔حضرت حمزہ برانگیختہ جلال کے عالم میں تیزی سے نکلے تو دیکھا کہ ابو جہل ملعون و مردود لوگوں میں بیٹھا لاف زنی کررہا ہے۔ اس کی طرف چلے۔ جب اس کے سر پر پہنچ گئے تو کمان اٹھائی اور اس زور سے ماری کہ ا س کا سر زخمی ہو گیا ۔ پھر فرمایا، ’’ کیا تو محمد کو نازیبا کلمات کہتا ہے۔ میں بھی ان کے دین پر ہوں۔ میں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں‘‘ ، ’’ اَنَا عَلیٰ دِےْنُہ، اَقُوْلُ مَاھُوَیقُولُ ‘‘ ، ’’ اگر ہو سکے تو وہی برتاؤ مجھ سے بھی کر‘‘ ؛
سوئے خانہ چلے جاتے تھے رستے میں یہ سن پایا بھتیجے کو میرے بوجہل نے صدمہ ہے پہنچایا
یہ سن کر دل میں غصہ روح میں غیض وغضب دوڑا پلٹ کر سوئے کعبہ ابنِ عبدالمطلب دوڑا
وہاں بوجہل اپنے ساتھیوں میں گھر کے بیٹھا تھا مثیلِابرہہ تھا ہاتھیوں میں گھر کے بیٹھا تھا
کیا حمزہ نے نعرہ او ابواجہل اور خرِبزدل محمد مصطفٰی کے دین میں اب میں بھی ہوں شامل
سنا ہے میں نے تو میرے بھتیجے کو ستاتاہے ہمیشہ گالیاں دیتا ہے اور فتنے اٹھاتا ہے
اگر کچھ آن رکھتا ہے تو آمیرے مقابل ہو کہ تیری بدزبانی کا چکھا دوں کچھ مزا تجھ کو
بلا لے ساتھ اپنے ان حمایت کرنے والوں کو ذرا میں بھی تو دیکھوں ان کمینوں کو رذالوں کو
یہ کہہ کر گھس پڑے حمزہ گروہِبدسگالاں میں گریباں سے پکڑ کر کھینچ لائے اس کو میداں میں
کماں تھی ہاتھ میں وہ سر پہ ناہنجار کے ماری گرا بوجہل سر سے ہو گیا ناپاک خوں جاری
سبھی دبکے کھڑے تھے چھا گیا تھا ایک سناٹا مگر حمزہ نے کھا کررحم اس کا سر نہیں کاٹا
کہا’’ گر آج سے میرے بھتیجے کی طرف دیکھا تیرے ناپاک چمڑے میں شتر کی لید بھر دوں گا ‘‘
یہ کہہ کر چل دیے ،مشرک بھلا کیا ٹوک سکتے تھے کہیں روباہ بھی اس شیر نر کو روک سکتے تھے
ابوجہل اس لیے دبکا پڑا تھا فرش کے اوپر مبادا واپس آکر قتل کردیں عم پیغمبر
یہاں سے جا کے حمزہ جلد تر ایمان لے آئے بھتیجے کے وسیلے سے چچا نے مرتبے پائے
بنو مخز وم ابو جہل کی مدد کو اُٹھے مگر سیدنا امیر حمزہ کی ہیبت کے باعث کچھ نہ کر سکے۔ اعلان قبول اسلام کے بعد قریش کو معلوم ہو گیا کہ اب رسول اللہ قوی اور محفوظ ہو گئے ہیں اور اب حمزہ ان کی جانب سے مدافعت کریں گے۔اس طرح شیر رسول ،سیدنا امیر حمزہ کو سرورِکائنات کی محبت میں گستاخِرسول کو سزا دے کر نجس خون کا پہلا قطرہ بہانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ اس موقع کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے ؛
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَالَہُ نُوْرًایَّمْشِیْ بہِ الْنَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہُ فِیْ الْظُّلُمٰتِ لَیْسَ بخَارِجٍمِّنْھَاطکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِریْنَ
مَاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ ہ ۱۲۲الانعام
۶کیا جو (شخص پہلے )مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور بنایاجس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں بے تکلف چلتا پھرتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت
ہے کہ (ہر طرف سے) اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے کسی طرح نہیں نکل سکتا ،اسی طرح کافروں کے واسطے ان کے اعمال بد آراستہ کر دیے گئے ہیں ۔
نور میں زندہ، شیر خدا سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب اور تاریکی میں جکڑا ابو جہل عمروْبن ہِشام ہے ۔اس مبارک موقع کو سیدنا امیر حمزہ ان اشعار میں بیان فرماتے ہیں ؛
حَمِدْتُ اللّٰہَ حِیْنَ فُئَوادِیْ اِلَی الْاِسْلَام وَالْدِّیْنِالْمُنِیْفِ
میں نے خدا کا شکر ادا کیا جب اس نے میرے دل کو ، اسلام اور بلند مرتبہ دین کی توفیق بخشی
لِدِیْنٍجَآئَ مِنْ رَّبِّعَزیْزٍ خَبِیْرٍبالْعِبَادِِبِھمْ لَطِیْفِ
اس دین کی جو عظمت و عزت والے پروردگار کی طرف سے آیا ہے ، جو بندوں کے تمام حسابات سے باخبر اور ان پر بڑا مہربان ہے
اِذَاتُلِیَتْ رَسَائِلُہُ عَلَیْنَا تَحْدرُمَعَ ذِی اللُّبِّالْحَصِیْفِ
جب اس کے پیغامات کی تلاوت ہمارے سامنے کی جاتی ہے ، تو ہر صاحب عقل اور صائب الرائے کے آنسو رواں ہو جاتے ہیں
رَسَائِلُ جَآئَ اَحْمَدُمِنْ ھُدَاھَا باٰیَاتٍ مُبَیِّنَۃِالْحُرُوْفِ
وہ پیغامات جن کی ہدایتوں کو احمد لے کر آئے ، واضح الفاظ و حروف والی آیتوں میں
وَاَحْمَدُمُصْطَفًی فِیْنَامُطَاعاً فَلَاتَفْشُوْہُ بالْقَوْلِالْعَنِیْفِ
اور احمد ہم میں برگزیدہ ہیں ،جن کے ہم اطاعت گزار ہیں ، لہٰذاتم ان کے سامنے ناملائم لفظ بھی منہ سے نہ نکالنا
فَلاَ وَاللّٰہِ نُسْلِمُہُ لِقَوْمٍ وَلَمَّانَقْض فِیْھمْ بِالْسُّیُوْفِ
تو خدا کی قسم !ہم ان کو اس قوم کے حوالے کبھی نہیں کریں گے ، جن کے بارے میںہم نے ابھی تلواروں سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے
سیدنا ومولانا حضرت ابوطالب عبدمناف نے نویدِمسرت سن کر عم مصطفٰی کی جانب تہنیت نامہ ارسال کیا ؛
صَبْراً اَبَا یَعْلیٰ عَلیٰ دِیْنِ اَحْمَدٍ وَکُنْ مُظْھِراً لِلْدِّیْنِ وُفِّقْتَ صَابِراً
وَحُطْ مَنْ اَتٰی بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِ رَبِّہْ بِصِدْقٍ وَعَزْمٍ لاَ تَکُنْ حَمْزَ کَافِراً
فَقَدْ سَرَّنِیْ اِذْ قُلْتَ اِنَّکَ مُومِنٌ فَکُنْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ اللّٰہِ نَاصِراً
وَنَادِ قُرَیْشاً بِالَّذِیْ قَدْ اَتَیْتَہُ جِھَاراً وَقُلْ: مَاکَانَ اَحْمَدُ سَاحِراً
اے ابایعلیٰ!دینِاحمد پر ثابت قدم رہنا ،دین کا اظہار کرتے رہنا ،توفیقِالٰہی تمہارے شاملِحال رہے گی
محمد مصطفٰی اپنے پروردگار کے پاس سے دینِحق لے کر آئے ہیں ۔اے حمزہ !عزم وصداقت کے ساتھ اُن کا ساتھ دینا اور تکفیر مت کرنا
اے حمزہ !جب تم نے یہ کہاکہ ’’میں ایمان لے آیاہوں ‘‘تو مجھے بہت خوشی ہوئی ،(اے میرے بھائی )دیکھو !اب خدا کی راہ میں رسو ل اللہ کی مدد کرتے رہنا
اور جس دین کو تم نے قبول کرلیا ہے اس کا قریش کے مجمع میں پورے زور وشور سے اعلان کردو اور سب کو بتلا دو کہ احمد ساحر نہیں (بلکہ دینِحق کے پیغام بر ہیں )
حضرت امیر حمزہ کی ازواج و اولاد
۱۔ انصار کے قبیلہ اوس کے سردار کی صاحبزادی، دخترالملۃ بنت مالک بن عبادہ ، آپ ےَعْلیٰ اور عامر کی والدہ تھیں۔
۲۔ خولہ بنت قیس بن فہد انصاریہ جو ثعلبہ بن غنیم بن مالک بن النجار کی اولاد میں تھیں۔ آپ سے حضرت کے فرزند عمارہ تھے۔
۳۔ سلمیٰ بنت عمیس ، آپ اسماء بنت عمیس کی بہن تھیں اور آ پ سے صاحبزادی عمارۃ تھیں جنہیں اَمَۃُاللّٰہْامامہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
کنیت
آپ کو ابو عمارہ اور کبھی ابو ےَعْلیٰ کہا جاتا تھا۔
لشکر اسلام کے پہلے کمانڈر
ہجرت کے چھ ماہ بعد رمضان المبارک میں ’’ سَرِیَّۃُحَمْزَۃ بِنْ عَبْدَالْمُطَّلِب‘‘ ہوا جس میں آپ کو افواج نبوی کا پہلا کمانڈر نامزد کیا گیا۔ یہ لوگ قریش کے تین سو افراد کا قافلہ جوابو جہل عمروْبن ہِشام کی زیر قیادت تھا روکنے کے لیے عیص کی جانب سے بحیرئہ احمر کے ساحل تک گئے ۔لڑنے مرنے کے لیے صفیں باندھ لی گئیں مگر فریقین کے حلیف مجدی بن عمرو ْاَلْجَہْنِیْکی مصالحت کے باعث جنگ کی نوبت نہ آئی۔
پہلے پرچم بردار
رسول کریم نے مدینہ آمد کے بعد اپنے دست مبارک سے پہلاپرچم ’’لوائے ابیض‘‘آپ کے لیے باندھا؛
یہ جھنڈا تھا خدا کا ،مصطفٰی کا اور قرآں کا مٹانے آیا تھا نام ونشاں فرعون وہاماں کا
یہ جھنڈا تھا جہادِفی سبیل اللہ کا جھنڈا یہ جھنڈا تھا شہنشاہوں کے شہنشاہ کا جھنڈا
سفید پرچم اور تیس سواروں (جو سب مہاجرین میں سے تھے) کی کمان میں آپ کوبحیرئہ احمر کے کنارے سریہ حمزہ بن عبدالمطلب کو روانہ فرمایا۔اس طرح آپ تاریخ اسلام کے پہلے پرچم بردار ہیںاور حضور کے دست اقدس سے پرچم پانے کا اعزاز صرف آپ کو اور سیدنا اما م علی مرتضٰی کو غزوئہ خیبر میں حاصل ہوا؛
علی بھی حمزہ بھی سرتاج تھے اولادِہاشم کے سپہ سالار تھے دونوں سپہ سالارِاعظم کے
غزوئہ الابواء ،غزوئہ ذی العشیرۃ اور غزوئہ بنی قینقاع میں بھی آپ ہی حضور پرنور کے پرچم بردار تھے؛
وہ حمزہ عم عالی مرتبت سردارِعالم کے سپہ سالارِاول تھے سپہ سالارِاعظم کے
وہ حمزہ یعنی روحِسرفروشی جانِجانبازی وہ حمزہ لشکرِاسلام کے سب سے بڑے غازی
بدر کے غازی
پہلے سریہ سے لے کر غزوئہ بد ر تک اہل اسلام سات مہمات و معرکہ جات میں مصروف رہے اور بالآخر دو ہجری کو بارہ رمضان المبارک سے لے کر تئیس رمضان المبارک تک حق و باطل کا پہلا معرکہ در پیش آیا؛
جو دیکھا اس کی آنکھوں نے وہ کب افلاک نے دیکھا حق وباطل کا پہلا معرکہ اس خاک نے دیکھا
پلٹ کر اس جگہ شیطان آیا ہی نہیں اب تک فرشتوں کی زیارت گاہ ہے یہ سرزمیں اب تک
اس معرکے میں سیدنا حمزہ نے کفار مکہ کے سردار عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا اور مہلت دیے بغیر پہلے ہی وار میں اسے فی النار کر دیا۔ عتبہ ابو سفیان کی بیوی ہندہ کا باپ ، امیر شام معاویہ کا نانا اور یزید پلید کا پڑنانا تھا؛
کیا حمزہ نے دھاوا اس طرح مکی جلیلوں پر کسی جنگل میں جیسے شیر جا پڑتا ہے فیلوں پر
جو افسر تھے انہیں آواز دے کر ٹوک کر مارا جو بھاگے سامنے سے اُن کا رستہ روک کر مارا
اس موقع پر آیات قرآنی نے ان الفاظ میںاَسَدُالْرَّسُوْل کی منظر کشی کی ہے ؛
اُوْلٰٓیئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ برُوْحٍمِّنْہُطوَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْریْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَاط
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُطاُوْلٰٓیئِکَ حِزْبُ اللّٰہِط اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ہ ۲۲المجادلۃ
۵۹یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور روح (القدس)سے ان کی تائید کی ہے اور انہیں فردوس کے( ان ہرے بھرے باغوں )میںداخل کرے گا
جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے خوش ۔یہی اللہ کا گروہ ہے ۔سن لو( کہ) بیشک اللہ کا گروہ ہی فلاح یافتہ ہے ۔
جنگِبدر کے روز سیدنا حمزہ ؑشتر مرغ کا پر بطور نشان لگائے ہوئے تھے اور بڑھ چڑھ کرکفار ومشرکین دشمنانِپہ ضربِحق لگاتے تھے ؛
مسرت کا عجب عالم تھا اسلامی غضنفرپر کہ لہراتاتھا اِک بالِشتر مرغ آپ کے سر پر
لڑائی میں یہ حمزہ کا نشانِامتیازی تھا کہ حمزہ شیر دل تھا ،نازشِمردانِغازی تھا
اُحد کے شہیدِاعظم
مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ رجَالٌصَدَقُوْامَاعَاھَدُوااللٰہِ عَلَیْہِج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرُز وَمَابَدَّلُوْاتَبْدِیْلاً ہ ۲۳ الاحزاب
۳۳مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انہوں نے جو عہد کیاتھا اسے پورا کر دکھایا،پس ان میں سے بعض مر کے پورا کر گئے اور ان میں بعض منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنا عہد)ذرا نہیں بدلا۔
کھلا رنگیں صحیفہ صبح کے رخسارِتاباں کا ہوا مضموں ہویدا سرخیِ خونِ شہیداں کا
نظر آیا اُحد پر ایک خونیں رنگ کا منظر صداقت اور طاقت کی نرالی جنگ کا منظر
درندے جمع تھے نوعِبشر کا خون پینے کو کہ مکہ آج دھمکی دینے آیا تھا مدینے کو
صف آرا اِک طرف تھا یہ نمونہ فطرتِ بد کا مقابل جس کے اِک چھوٹا سا لشکر تھا محمد کا
بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کفار مکہ زیادہ لاؤ لشکر اور افرادی قوت سے اہل اسلام پر حملہ آور ہوئے اور ایک سال بعد ہی ۷شوال، تین ہجری،۱۹مارچ۶۲۵ عیسوی بروز ہفتہ ہجرت کے بتیسویں مہینے ،میدان احد میں معرکۂ کا ر زار گرم ہوا؛
صف آرا تھے احد میں آج تین اقسام کے انساں شریف انساں ،خبیث انساں ،نمود ونام کے انساں
بظاہر تو یہ انساں ایک ہی آدم کے پوتے تھے مگر ان سب کے باطن تین پر تقسیم ہوتے تھے
بظاہر ساز تھے ہم صورت وہم رنگ تینوں کے مگر پردے سے نکلے مختلف آہنگ تینوں کے
عجب اعمال تھے ا ن کے عجب تھیں نیتیں ان کی اثر انداز ہیں تاریخ پر شخصیتیں ان کی
جب جنگ کے لیے صف بندی ہو گئی تو سبا ع بن عبدالعزیٰ خزاعی نکلا اور کہا کہ کوئی ہے جو میرے مقابل باہر نکل کر آئے؟ اس پر اُنسٹھ سالہ سیدنا حمزہ میدان میں تشریف لائے اورجواباًفرمایا،’’اے مُقَطِّعَۃُالْبُظُوْر(ختنے کرنے والی)کے بیٹے !ادھر آ‘‘۔آپ نے پہلے وار ہی میں اسے فی النار کر دیا۔دورانِجنگ آپ دونوں ہاتھوں میں دو تلواریں لے کر جنگ کرتے اور دشمن پہ وار کرتے وقت فرمایا کرتے ، ’’ اَنَااَسَدُاللّٰہْ ‘‘۔مشرکین کا پرچم ابو شیبہ عثمان بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا ۔مشرک عورتیں ہندہ کی قیادت میں ڈھول تاشے اور دف بجا کر جذبات برانگیختہ کرتیں ؛
نَحْنُ بِنَاتُ طَارقْ تَمْشِیْ عَلَی الْنُّمَارقْ اَنْ تُقَبّلُوْا الْعَانِقْ اَوَ تُدْبرُوْ الْفَارقْ فرَاقٌ غَیْرَ وَامِقْ
ہم تارئہ شب کی بیٹیاں ہیں تکیوں پر چلنے والی مقابلہ کرو گے تو تمہارے گلے لگیں گی پشت دکھاؤ گے تو جداہو جائیں گی جدائی بھی نفرت والی ہو گی
قریشی ناریاں میدان میں گاتی ہوئی نکلیں تھرکتی ،دف بجاتی ،ناز دکھلاتی ہوئی نکلیں
ابوسفیاں کی زوجہ ہند سب سے آگے آگے تھی یہ بجلی آج اس ابر غضب کے آگے آگے تھی
یہ گیت سن کر کفار ومشرکین کا پرچم بردارابو شیبہ عثمان کہتا ، اِنَّ عَلیٰ اَھْلِ الْلِّوَائِ حَقًّا اَنْ تَخْضِبُ الْصَّعْدَۃَ اَوْ تُنَدَّقاً ، یقیناپرچم بردار پہ لازم ہے کہ اُس کا نیزہ خون میں رنگ جائے یا ٹوٹ پھوٹ جائے ۔امیر حمزہ شیر خدا نے یہ سن کر اُس پہ حملہ کر دیا اور شانوں کے درمیان اس زور سے تلوار کی ضرب لگائی کہ ہاتھ اور بازو کاٹتی کمر تک پہنچ گئی۔ اسے فی النار کرنے کے بعد آپ یہ فرماتے ہوئے واپس لوٹے اَنَا اِبْنُ سَاقِیُ الْحَجِیْج، میں سَاقِیُ الْحَجِیْجْ(حضرت عبدالمطلب )کا فرزند ہوں ۔گھمسان کی لڑائی میں آپ نے کفار کے اکتیس نامی گرامی سورما زمیں بوس کر دیے ؛
وہی حمزہ قریشی افسروں کو مارنے والا کیا تھا بدر میں کفار کو جس نے تہ وبالا
جدہر اٹھتا تھا پائے حمزہ دشمن ہٹتے جاتے تھے ابھرتا تھا جہاں خورشید بادل چھٹتے جاتے تھے
سر دشمن جدہر اللہ کا یہ شیر بڑھتا تھا الٹی تھیں صفیں کوئی بھی ان کے منہ نہ چڑتا تھا
جہاں غالب نظر آتا تھا انبوہِقریش ان کو بپھر کر اس پہ جا پڑتے تھے آجاتا تھا طیش ان کو
قدم جس سمت بڑھتے تھے انہی کے ہاتھ میداں تھا نظر میں طیش پا کر جیش جیش ان سے گریزاں تھا
کمالِشانِایماں دیدنی تھی اس نظارے میں کہ حمزہ غوطہ زن تھے عین اس قلزم کے دھارے میں
وہاں حمزہ پہ نرغہ ہوگیا تھا فوجِاعدا کا تھپیڑا سہہ رہا تھا شیر حق ہر موجِ دریا کا
وہی ضیغم شکار وشیر افگن غازیء دوراں اُسی کو قتل کرنے کے یہاں درپیش تھے ساماں
خبر لیتے تھے حمزہ جس گھڑی مکی جوانوں کی وہاں وحشی کھڑا تھا آڑلے کر دو چٹانوں کی
دورانِ جنگ وحشی بن حرب نامی سیاہ فام غلام ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا۔سیدنا امیر حمزہ کفار کی صفیں الٹتے اس پتھر کے قریب آئے۔اسی اثنا میں وحشی نے آپ کی جانب نیزہ پھینکا جس کا سرا زیر ناف دوسری طرف سے پار ہو گیا۔ جان لیوامہلک زخم کھا کر ضیغمِاسلام نے زاغِکفر کو دیکھا ؛
خدا ومصطفٰی کے شیر پر یہ ضرب تھی کاری اگرچہ زخم کاری تھا مگر ہمت نہیں ہاری
کمینے کی کمیں گاہ دیکھ لی تھی مردِغازی نے کیا وحشی کا پیچھا دوڑ کر شیرحجازی نے
ادھر وحشی بھی اپنی موت آتی دیکھ کر بھاگا بدن میں رعشہ تھا بھاگا نہ جاتا تھا مگر بھاگا
مڑا اِک موڑ پر وحشی تو ساتھ اِس کے پھرے حمزہ قدم پھسلا اچانک اِک گڑھے میں جا گرے حمزہ
وحشی کا تعاقب کرتے سیدنا حمزہ ایک گڑھے میں گر پڑے جس سے آپ کی شہادت واقع ہو گئی؛
زمیں سے آسماں تک ایک نورانی غبار اٹھا فرشتہ لے کے جانِبندئہ پروردگار اٹھا
زمیں پر رہ گیا باقی فقط اِک خونچکاں لاشہ فروغِزخمِبے حد سے بہارِبے خزاں لاشہ
رخِانور پہ تھی ریشِسفید وشاندار اُن کی شہادت سے نمایاں اور شانِباوقار اُن کی
وہی شیرانہ صورت تھی وہی مردانہ چہرہ تھا شعائیں مہر کی بکھری تھیں یا دولہا کا سہرا تھا
اس عالم میںندائے حق سنائی دی ؛
یٰآیَّتُھَاالْنَّفْسِ الْمُطْمَئِنَّۃْ ہ۲۷ اِرْجعِی اِلیٰ رَبّکِ رَاضِیَۃًمَّرْضِیَۃً ہ۲۸فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ہ۲۹ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ہ۳۰ الفجر
۸۹اے اطمینا ن پا جانے والی جان ،اپنے پروردگار کی جانب چل ،تو اس سے خوش ،وہ تجھ سے راضی ،تو میرے (خاص )بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا۔
بارگہِ ایزدی نے آپ کے سینہ پر حیاتِجاودانی کا تمغۂ جرا ت سجاتے فرمایا؛
وَلَاتَقُوْلُوْالِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْْلِاللٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَاْئٌ وَّلٰکِنْ لَّاتَشْعُرُوْنَ ہ
۱۵۴وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالْثَّمَرٰتِط وَبَشِّرالْصّٰبِریْنَ ہلا ۱۵۵البقرۃ
۲اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں کبھی مردہ مت کہنا بلکہ (وہ لوگ )زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے ۔اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور اموال وجان اور پھلوں کی
کمی سے ضرور آزمائیںگے اور (اے رسول ) اُن صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے ۔
آپ کی ماورائے فہم وادراک حیاتِجاودانی ،قربِربانی اور مرزوق من اللہ ہونے کو رازقِکائنات نے یوں عیاں کیا ہے ؛
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوٰتَاجم بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ہ آل عمران
۱۶۹ شہدائے راہِخدا کومردہ گمان بھی مت کرو کہ وہ حیاتِجاودانی رکھتے ہوئے اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں ۔
اس پر الم موقع پر سیدنا علی ابن ابی طالب کی زبانِاقدس سے پہلی بار کلمۂ استرجع بلند ہو ااور آپ نے اِنّالِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رٰجعُوْنَ فرمایا۔یہ جملہ بارگاہ ایزدی میں مقبول ہو ااور آیتِقرآنی کی صورت اللہ رب العزت نے فرزند ابو طالب پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے فرمایا؛
اَلَّذِیْنَ اِذَااَصَابَتْھُمْ مُصِیْبَۃٌ قَالُوْآاِنّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رٰجعُوْنَ ہ۱۵۶ اُوْلٰیئِکَ عَلَیْھمْ صَلَوٰتٌمِنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف
وَاُولٰیئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ہ ۱۵۷البقرۃ
۲وہ جن پر جب کوئی مصیبت آن پڑے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔یہ وہ ہیں جن ان کے پروردگار کی طرف سے صلوٰۃورحمت ہے
اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔
اللہ رب العزت نے غزوئہ احد کے متعلق قرآنِمجید ،سور ۃ آلِعمران میں ساٹھ آیاتِمقدسہ نازل فرمائیں جن میں اس واقعہ کا ذکر ہے ۔رسالت مآب نے اُحد کی جنگ سے پیشتر فرمایا؛
میںنے ایک خواب دیکھا ہے خدا اس کی تعبیر بہتر کرے ۔میں نے دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جا رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کی دھار ٹوٹ گئی اور میں نے یہ دیکھا کہ گویا میں نے اپنا ہاتھ مضبوط اور مستحکم زرہ کے اندر کیا ہے اس کی تعبیر میں نے مدینہ لی ہے ۔گائے ذبح ہونے سے مراد مسلمانوں کا شہید ہونا ہے اور اپنی تلوار میں میں نے جو شکستگی دیکھی وہ ایک شخص ہے جو میرے خاندان میںسے ہے اور وہ شہید ہو گا ۔
ہندہ جگر خوارہ
سیدنا حمزہ کی شہادت کے بعد ام معاویہ عَلَیْہمَاالْھَاویَۃْ ،بغض اسلام و پیغمبر اسلام کے جذبات سے لبریزوحشی کے ہمراہ، آپ کے جسد اقدس کے قریب آئی۔اس کے کہنے پر وحشی نے اپنے خنجر سے آپ کا شکم مبارک چاک کیا اور ام معاویہ ہندہ نے آپ کا جگر مبارک نکال کر چبایااور آپ کے بدن مبارک کا مثلہ کیااور بے حرمتی کی۔اس کے بدلے ام معاویہ نے وحشی کو اپنے کپڑے،زیورات ،سونا چاندی اور بہت کچھ دیااور مکہ پہنچ کر سرخ سونے کی اشرفیاںدینے کا وعدہ کیا؛
میرا یہ کام کر وحشی میں تجھ کو شاد کردوں گی علاوہ اور باتوں کے تجھے آزاد کر دوں گی
کہا مکہ میں چل کر اور دس دینار بخشوں گی تجھے کھاناکھلاؤں گی تجھے دستار بخشوں گی
ابھی مکہ میں جانا تھا ،ابھی دینار ملنے تھے ابھی سارے جہاں کی لعنتوں کے مار ملنے تھے
مئے غفلت پلا کر تند خو مے خوار وحشی کو کیا تھا قتلِحمزہ کے لیے تیار وحشی کو
اس ملعونہ نے رسول اللہ کے پیارے چچاجان کے کان،ناک،اور ہاتھ پاؤں کاٹ لیے اور اپنے ساتھ مکہ لے گئی ۔اس بنا پر اسے اَکِلَۃُالْاَکْبَادْ،جگر کھانے والی کہا جاتا ہے۔ام معاویہ ایک بلندٹیلے پہ چڑھ کر اہلِاسلام کی ہجو میں چلاچلا کر غلیظ اشعار کہنے لگی جس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے ہندہ بنت آثاثہ نے اسے دندان شکن جواب دیا اور مشرکین کی ہجو کی ۔شہادتِامیر حمزہ کے جگر سوز موقع پہ مولائے کائنات سیدنا علی مرتضٰی فرماتے ہیں ؛
اَتَانِیْ اَنَّ ھِنْدًاحَلَّ صَغْرٍ دَعَتْ دَرْکاً وَبَشَّرَتِ الْھُنُوْداً
مجھے خبر ملی کہ ہندہ زوجۂ صخر (ابوسفیان )نے طبقۂ جہنم کی دعوت اور دوسری ہندات کو (جہنم کی )بشارت دی ہے
فَاِنْ تَفَخَّرَ بِحَمْزَۃَحِیْنَ وَلّٰی مَعَ الْشُّھَدَآئِ مُحْتَسِباً شَھیْداً
اگر وہ حمزہ (کے قتل ہونے )پر فخر کرتی ہے کہ انہوں نے دیگر شہداء کے ساتھ دنیا سے منہ موڑ لیا اور یہ کام ثواب کی نیت اور شہادت کی غرض سے کیا
فَاِنَّا قَدْ قَتَلْنَا یَوْمَ بَدْرٍ اَبَا جَھْلٍ وَعُتْبَۃَ وَالْوَلِیْداً
تو ہم نے بھی بدر کے دن ابو جہل ،عتبہ اور ولید کو قتل کیا ہے
وَقَتَلْنَا سُرَاۃَ الْنَّاسِ طُرًّا وَغَنَمْنَا الْوَلَآئِدَ وَالْعَبِیْداً
اور ہم نے قریش کے تمام سرداروں کو قتل کیا اور لونڈیوں اور غلاموں کو غنیمت بنایا
وَشَیْبَۃَ قَدْ قَتَلْنَا یَوْمَ ذَاکُمْ عَلیٰ اَثْوَابہِ عَلَقاً جَسِیْداً
اور شیبہ کو ہم نے اُس دن قتل کیا اور (حال یہ ہے کہ )اُس کے کپڑوں پر خشک خون جما تھا
فَبُوَّئَ مِنْ جَھَنَّمَ شَرَّدَارٍ عَلَیْھَا لَمْ یَجِدْ عَنْھَا مَحِیْداً
جہنم میںبدترین گھر اُس کا ٹھکانہ بنایا گیا اور وہ اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا
وَمَا سَیَّانِ مَنْ ھُوَ فِیْ جَحِیْمٍ یَکُوْنُ شَرَابُہُ فِیْھَا صَدِیْداً
اور وہ جو جہنم میں ہے اس کے پینے کے لیے پیپ ہوتی ہے
وَمَنْ ھُوَ فِیْ الْجَنَانِ یَدُرُّ فِیْھَا عَلَیْہِ الْرِّزْقُ مُغْتَبِطاً حَمِیْداً
اور وہ جو جنت میں ہے اسے وہاں ایسی روزی ملتی ہے جو قابلِرشک اور قابلِتعریف ہوتی ہے (پس جنت والے اور جہنم والے برابر نہیں ہیں )
رسول اللہ کا گریہ
کافروں کے چلے جانے کے بعدمسلمان،میدان جنگ میںآئے اور شہدا ء کو تلاش کرنے لگے۔حضور نبی کریم اور مولائے کائنات سیدناامام علی حضرت حمزہ کو تلاش کرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اور آپ کی ہیئت و حالت دیکھ کر رونے لگے۔حضرت عبداللہ ابنِمسعود روایت فرماتے ہیں کہ اس پرالم موقع پر ہم نے رسول اللہ کو اس شدت سے روتے اور گریہ زاری کرتے دیکھا کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔آپ نے سید الشہداء کے جسدِاقدس کو قبلہ روکر کے دیکھا پھر اس قدر روئے کہ آپ پر غشی کی کیفیات طاری ہو گئیں ۔آپ فرماتے تھے ؛
’’ اے رسول اللہ کے شیر_____اے اللہ کے شیر _____ اے رسول اللہ کے شیر _____ اے حمزہ ! _____ اے نیکیاں کرنے والے____ اے حمزہ ! _____ اے برائیوں سے دور رہنے والے _____ اے رسول اللہ کے محافظ _____ ‘‘
سیدہ فاطمہ زہرا اور حضرت صفیہ ہمشیرئہ حضرت حمزہ نے بھی گریہ زاری فرمائی۔حضور نے بنی عبد الا شہل کی عورتوں کا امیر حمزہ سیدالشہداء پر گریہ دیکھ کر ان کے لیے دعا فرمائی۔ انصار کی ہر عورت نے اپنے مقتول پہ رونے سے قبل سیدنا حمزہ کی بارگاہ میں اشکوں کا نذرانہ پیش کیا۔حضرت جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ محبوبِکبریا سیدنا امیر حمزہ سیدالشہداء کی ذاتِبابرکات کے حسبی ونسبی خصائل و خصائص ،کمالات وجہاتِعالی صفات کے ساتھ ساتھ آپ کے مقدس ومنور اسم گرامی ’’ حَمْزَۃْ ‘‘(بمعنی شیرنر،شہ زور،طاقتور،دوراندیش وذودفہم)کوبھی محبوب رکھتے تھے ۔انصار کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی تو اس کے والد بارگاہِرسالت میںعرض گذار ہوئے کہ بچے کا نام عنایت فرمایئے ۔ سرکارِدوعالم نے فرمایامجھے محبوب ترین نام ’’ حَمْزَۃْ ‘‘سے نومولود کو موسوم کردو۔آپ فرماتے تھے ،’’خَیْرَ اَعْمَامِیْ حَمْزَۃْ وَخَیْرَ اِخْوَانِیْ عَلِیْ اِبْنُ اَبِیْ طَالِبْ ‘‘،’’میرے بہترین چچا حمزہ اور بہترین بھائی علی ابن ابی طالب ہیں ‘‘۔آپ نے فرمایا،’’بروزِحشر میں براق اور میرے چچاحمزہ میری اونٹنی عَضْبَاء پرسوار ہوکرمیدانِقیامت میں آئیںگے ‘‘۔
اُحد بزبانِ امیر المومنین
اَللّٰہُ حَیٌّ قَدِیْمٌ قَادِرٌ صَمَدٌ وَلَیْسَ یُشْرِکُہُ فِیْ مُلْکِہِ اَحَدٌ
اللہ حی ہے ،قدیم ہے ،قادر ہے ،بے نیاز ہے اور اس کی سلطنت میں کوئی اس کا شریک نہیں
ھُوَ الَّذِیْ عَرَّفَ الْکُفَّارَ مَنْزِلَھُمْ وَالْمُوْمِنُوْنَ سَیَجْزِیْھِمْ کَمَا وُعِدُوْا
وہی ہے جس نے کافروں کو ان کا ٹھکانہ دکھلا دیا اور مومنوں کو حسبِوعدہ عنقریب جزا دے گا
فَاِنْ یَّکُنْ دَوْلَۃٌ کَانَتْ لَنَا عِظَۃً فَھَلْ عَسیٰ اَنْ یَّریٰ فِیْ غَیِّھَا رَشَدٌ
پس اگر کوئی گردش واقع ہو تو وہ ہمارے لیے نصیحت ہوتی ہے ،شاید یہ بات ہو کہ اس کی گمراہی میں ہدایت ہو
وَیَنْصُرُاللّٰہُ مَنْ وَّالاَہُ اِنَّ لَہُ نَصْرًا وَّیَمْثُلُ بالْکُفّارِ اِذْعَنَدُوْا
اور اللہ جسے دوست رکھتا ہے اُس کی مدد کرتا ہے اسی کو مدد بھی حاصل ہوسکتی ہے اور جب کفار سرکشی کرتے ہیں تو انہیں عبرت انگیز بنا دیتا ہے
فَاِنْ نَطَقْتُمْ بفَخْرٍلاَّ اَبَالَکُمْ فِیْمَنْ تَضَمَّنَ مِنْ اِخْوَانِنَا اللَّحَدُ
پس اگر تم فخر کرتے ہو تمہارے باپ نہ ہوں ، ان لوگوں کے سبب جنہیں ہمارے بھائیوں میں سے قبر نے سمیٹ لیا تو یہ فخر کی بات نہیں
فَاِنْ طَلْحَۃَ غَادَرْنَا مُنْجَدِلاً وَلِلْصَّفَائِحِ نَارٌ بَیْنَنَا تَقِدُ
اس لیے کہ ہم نے طلحہ کو زمین پہ پڑا چھوڑا اور تلواروں کے لیے آگ ہے جو ہمارے درمیان بھڑک رہی ہے
وَالْمَرْئَ عُثْمَانٌ اَرَوَّتْہُ اَسِنَّتُنَا فَجِیْبُ زَوْجَتِہِ اِذْ خُبِرَتْ قِدَدُ
ایک شخص عثمان تھا جسے ہمارے نیزوں کی دھاروں نے سیراب کر دیا ،جب اُس کی عورت کو خبر ہوئی تو اُس کا گریبان ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا
فِیْ تِسْعَۃٍ اِذْ تَوَلَّوْا بَیْنَ اَظْھَرِھِمْ لَمْ یَنْکِلُوْا مِنْ حِیَاضِ الْمَوْتِ اِذْ وَرَدُوْا
ان نو اشخاص میں سے جب اُن کے سامنے سے پھرے تو موت کے گھاٹ پہنچ کر وہاں سے نکل نہ سکے
کَانُوْا الْذَّوآئِبَ مِنْ فَھْرٍ وَّ اَکْرَمَھَا شُمُّ الْاُنُوْفِ وَحَیْثُ الْفَرْعِ وَالْعُدَدُ
وہ قبیلہ فہر کے بلند پایہ سرداروں اور اشراف میں سے تھے ،بلند ناک (شان وشوکت رکھنے والے) اور اولاد ولشکر کی جگہ پہ رہنے والے
وَاَحْمَدُ الْخَیْرِ قَدْ اَرْدٰی عَلیٰ عَجَلٍ تَحْتَ الْعِجَاجَ اُبَیًّا وَّھُوَ مُجْتَھِدٌ
بہترینِ خلائق احمد نے فوراًغبار کے نیچے اُبی کو ہلاک کرڈالا جب کہ وہ لڑائی میں کوشاں تھا
فَظَلَّتِ الْطَّیْرُ وَالْضَّبْعَانُ تَرْکَبُہُ فَحَامِلُ قَطْعَۃً مِّنْھُمْ وَمُقْتَعِدٌ
پس پرندے اور بجو اُس کی لاش پہ اتر رہے ہیں تو کچھ اُن میں سے ٹکڑے اٹھا رہے ہیں اور کچھ بیٹھے ہوئے ہیں
وَمَنْ قَتَلْتُمْ عَلیٰ مَا کَانَ مِنْ عَجَبٍ مِنَّا فَقَدْ صَادَفُوْا خَیْراً فَقَدْ سَعَدُوْا
جنہیں ہم میں سے تم نے قتل کیا (گو یہ) تعجبات میں سے ہے تو وہ بھلائی کو پہنچے اور انہوں نے سعادت حاصل کی
لَھُمْ جِنَانٌ مِّنَ الْفِرْدَوْس طَیّبَۃٌ لاَ یَعْتَریْھمْ بِھَا حَرٌّ وَّلاَ صَرَدٌ
ان کے لیے فردوسِبریں کے پاک باغات ہیں جہاں انہیںنہ گرمی لگے گی نہ سردی
صَلِّی الْاِلٰہُ عَلَیْھمْ کُلَّمَا ذُکِرُوْا فَرُبَّ مَشْھَدِ صِدْقٍ قَبْلَہُ شَھَدُوْا
اللہ اُن پہ رحمت نازل کرے جب اُن کا ذکر ہو کہ اس سے پہلے بہت سے مقام (غزوات )میں حاضر ہو چکے تھے
قَوْمٌ وَفُّوْا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ وَاحْتَسَبُوْا شُمُّ الْعَرَانِیْنَ مِنْہُمْ حَمْزَۃُ الْاَسَدُ
وہ اسی قوم سے ہیںجس نے رسو ل اللہ کے ساتھ وفا کی اور مخلص رہے ،بلند پایہ سردار جن میں سے ایک حمزہ شیر خدا تھے
وَمُصْعَبٌ ظَلَّ لَیْثاً دُوْنَہُ حَرَدًا حَتّٰی تَزَمَّلَ مِنْہُ ثَعْلَبٌ جَسَدُ
اور مصعب رسول اللہ کی حمایت میں حشمناک شیر ہوگئے ،یہاں تک کہ خون آلود نیزے کی نوک نے انہیں لپیٹ لیا (اور وہ شہید ہو گئے )
لَیْسُوْا کَقَتْلیٰ مِنَ الْکُفَّارِ اَدْخَلَھُمْ نَارَ الْجَحِیْمِ عَلیٰ اَبْوَابِھِمْ رَصَدُ
یہ لوگ کفار کے مقتولین جیسے نہیں ،(خدا )انہیں جہنم میں داخل کرے جس کے دروازوں پر نگہبان ہیں
پھر فرمایا ؛
قُرَیْشٌ بَدَتْنَابالْعَدَاوَۃِ اَوَّلاً وَجَائَ تْ لِنُطْفِیئَ نُوْرَ رَبِّمُحَمَّدٍ
قریش نے خود ہی پہلے عداوت کی ابتدا کی اور اس لیے آئے کہ رب محمد کے نور کو بجھائیں
بِاَفْوَاھِہمْ وَالْبَیْضُ بالْبَیْضِتَلْتَقِیْ باَیْدِیْھمْ مِّنْ کُلِّعَضْبٍمُّھَنَّدٍ
اپنے دہنوں سے تلواریں تلواروں سے ملیں حال تو یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں ہر قسم کی ہندی تلواریں ہیں
وَخَطِّیَۃٌ قَدْ ثُقِّفَتْ سَمْھَریَّۃٌ اَسِنَّتُھَا قَدْ حُوْدِثَتْ بمُحَدَّدٍ
اور خطی سیدھے اور سخت نیزے ہیں جن کے پھن پر نئی سان رکھی گئی ہے
فَقُلْنَا لَھُمْ لاَتَبْعَثُوْا الْحَرْبَ وَاسْلِمُوْا وَفِیْوئُ آ اِلیٰ دِیْنِالْمُبَارَکِ اَحْمَدِ
ان سے ہم نے کہا کہ لڑائی مت بھڑکاؤ اور اسلام لاؤ اور احمد کے مبارک دین کی طرف رجوع کرو
فَقَالُوْا کَفَرْنَا بالَّذِیْ قَالَ اِنَّہُ یُوَعِّدُنَا بالْحَشْرِوَالْحُکْمِفِیْ غَدٍ
تو اُن لوگوں نے کہا کہ جو کچھ احمد نے کہا ہم اسے نہیں مانتے کیونکہ وہ ہمیں حشر ونشر اور قیامت کے فیصلے کی دھمکی دیتے ہیں
فَقَتْلَھُمْ وَاللّٰہِ اَفْضَلُ قُرْبَۃٍ اِلیٰ رَبّنَا الْبَرّ الْعَظِیْم الْمُمَجَّدِ
پس خدا کی قسم ان کو قتل کرنا خدائے صاحب احسانِعظیم اور بزرگ کے نزدیک بہترین قربت اور نیکی ہے
ایک مقام پہ فرماتے ہیں؛
رَاَیْتُ الْمُشْرکِیْنَ بَغَوْا عَلَیْنَا وَلَجُّوْا فِیْ الْغَوَایَۃَ وَالْضَّلاَلِِ
میں نے دیکھا کہ مشرکین ہم پر زیادتی کررہے ہیں اور گمراہی و ضلالت سے چمٹے ہوئے ہیں
وَقَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ اِذْ نَفَرْنَا غَدَاۃَ الرَّوْعِبِاالْاَسَلِالْطُّوَالِ
اور کہا کہ جب ہم لڑائی کی صبح لمبے لمبے نیزے لے کر روانہ ہوتے ہیں تو تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں
فَاِنْ یَّبْغُوْا وَیَفْتَخِرُوْا عَلَیْنَا بِحَمْزَۃَ وَھُوَ فِیْ الْغُرَفِالْعَوَالِیْ
پس اگر وہ سرکشی کرتے ہیں اور ہم پر حضرت حمزہ کے قتل پر فخر کرتے ہیں (تو مناسب نہیں کیونکہ )حمزہ بہشت کے بلند وبالا خانوں میں ہیں
فَقَدْ اَوْدیٰ بِعُتْبَۃَ یَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ اَوْدیٰ وَجَاھَدَ غَیْرَ اٰلٍ
اور اس لیے کہ حمزہ نے بدر کے دن عتبہ کو ہلاک کیا،اور بغیر کسی قسم کی تقصیر کے ہلاک کیا
وَقَدْ ذَلَّلْتُ خَیْلَھُمْ ببَدْرٍ وَاَتْبَعْتُ الْھَزیْمَۃَ بالْرّجَالِ
اور میں نے بھی اُس کے داروں کو بدر میں شکست دی تھی ،اور ان جوانوں کے پیچھے ہزیمت لگا دی تھی
وَقَدْ غَادَرْتُ کَبْشَھُمْ جھَادًا بحَمْدِ اللّٰہِ طَلْحَۃَ فِیْ الْمَجَالِ
اور بحمد اللہ میں نے ان کے سردار طلحہ کو میدان ہی میں جہاد کر کے چھوڑ دیا
فَتُلَّ بوَجْھہِ فَرَفَعْتُ عَنْہُ رَقِیْقَ الْحَدِّ حُوْدِثَ بالْصِّقَالِ
وہ منہ کے بل گر پڑا تو میں نے اس تلوار کو جو تیز اور صیقل کی وجہ سے چمک دار تھی اُس سے اٹھا لیا
کَاَنَّ الْمِلْحَ خَالِطَہُ اِذَا مَا تَلَظّٰی کَالْعَقِیْقَۃِ فِیْ الْظِّلاَلِ
گویا نمک جب اُس پر لگایا جاتا ہے اور چمکتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابر کے سائے میں بجلی ہے
سید الشہداء کا مرثیہ
شاعر رسالت عبداللہ بن رواحہ نے ان الفاظ میں حضرت امیر حمزہ سیدالشہداء کا مرثیہ کہا؛
بَکَتْ عَیْنِیْ وَحَقٌّلَّھَا بُکَاھَا وَمَا یُغْنِیْ الْبُکَائُ وَلاَ الْعَوِیْلٌ
عَلیٰ اَسَدِ الْاِلٰہَ غَدَاۃُ قَالُوْا لِحَمْزَۃَ ذَاکُمْ الْرَّجُلُ الْقَتِیْلٌ
اُصِیْبُ الْمُسْلِمُوْنَ بِہ جَمِیْعاً ھُنَاکَ وَقَدْ اُصِیْبُ بہِ الْرَّسُوْلٌ
اَبَایَعْلیٰ لَکَ الْاَرْکَانَ ھَدَتٍ وَاَنْتَ الْمَاجِدُ الْبِرُّ الْوَصُوْلٌ
عَلَیْکَ سَلاَمُ رَبُّکَ فِیْ جِنَانٍ یُخَالِطُھَا نَعِیْمٌ لاَ یَزُوْلٌ
اَلاَیٰا ھَاشِمُ الْاَخْیَارِ صَبْراً فَکُلَّ فَعَالُکُمْ حَسَنٌ جَمِیْلٌ
رَسُوْلُ اللّٰہِ مُصْطَبِرُّ کَرِیْمٌ بِاَمْرِاللّٰہِ یَنْطِقُ اِذْ یَقُوْلٌ
اَلاَ مَنْ مُبَلِّغُ عَنِّیْ لُئَویّاً فَبُعْدَ الْیَوْمِ دَائِلَۃُ تَدُوْلٌ
وَقَبْلَ الْیَوْمِ مَا عَرَفُوْا وَذَاقُوْا وَقَائِعُنَا بہ یُشْفیْ الْعَلِیْلٌ
نَسَیْتُمْ ضَرْبُنَابِقُلَیْبِ بَدَرٍ غَدَاۃْ اَتَاکُمُ الْمَوْتَ الْعَجِیْلٌ
غَدَاۃْ ثَویٰ اَبُوْجَھْلٍ صَرِیْعاً عَلَیْہِ الْطَّیْرُحَائِمَۃَ تَجُوْلٌ
وَعُتْبَۃَ وَاِبْنُہُ خَرّاً جَمِیْعاً وَشَیْبَۃَ عُضْہُ الْسَّیْفُ الْصَّقِیْلٌ
اَلاَ یَا ھِنْد لاَ تُبْدِیْ شَمَاتاً بِحَمْزَۃَ اِنْ عِزَّکُمْ ذَلِیْلٌ
اَلاَ یَا ھِنْد فَابْکِیْ لاَتُمْلِیْ فَاَنْتَ الْوَالِہ الْعُبْریْ الْثَّکُوْلٌ
میری آنکھ رو رہی ہے اور اسے رونا چاہئے اگرچہ رونا اور چلا نا سودمند نہیں ۔(چشمِنمناک ہے )حمزہ شیر خد اپر ،جب لوگوں نے کہا کہ تمہارے حمزہ شہید ہو گئے ہیں ۔ ان کی شہادت سے تمام مسلمانوں کو صدمہ ہوا اوراس وقت رسول اللہ کو بھی صدمہ ہوا ۔اے ابایعلیٰ!آپ کی شہادت سے ارکان ہل گئے ۔آپ انتہائی بزرگ ،نیک کام کرنے والے ،صلہ رحمی کرنے والے تھے ۔آپ پر خدا کاسلام ہو ایسی جنتوں میں جن میں ایسی نعمت ہو جو کبھی زائل نہ ہو ۔اے نیک خصلت ہاشمی !صبر کیجئے کہ آپ کے سب کام اچھے ہوتے ہیں ۔رسول اللہ صبر کرنے والے بزرگ ہیں ۔ جب وہ کچھ فرماتے ہیں تو خدا کے حکم سے بولتے ہیں ۔میری طرف سے کوئی لوئی کو خبر دے کہ آج کے بعد اس کا انتقام لیا جائے گا اور اس سے پہلے بھی کیا وہ نہیں جانتے ہمارے ان واقعات کو جو بیمار کے لیے باعثِشفا ہیں ۔کیا تم لوگ جنگ بدر میں ہماری مار بھول گئے ؟جب جلدی جلدی تمہیں موت آتی تھی ۔ جب ابوجہل گرا تھا اور اس پر چیلیں اڑرہی تھیں اور عتبہ اور اس کا بیٹا گرا تھا ۔اور شیبہ کو چمکتی ہوئی تلوار نے کاٹا تھا ۔اے ہند !حمزہ کی شہادت سے خوش نہ ہو ۔تمہاری عزت ذلت سے بدل جائے گی ۔اے ہند !پے در پے رؤوکیونکہ تو (عنقریب )پریشا ن ہو کر چلا چلا کر روئے گی ۔
غَسِیْلُ الْمَلَائِکَۃْ
رسول کریم آپ کی قبر اطہر پر بیٹھ گئے اور فرمایاکہ میں نے ملائیکہ کو دیکھا کہ وہ حمزہ کو غسل دے رہے ہیں۔
ستر دفعہ جنازہ
حضور نبی کریم نے سیدنا امیر حمزہ کا جنازہ ستر دفعہ ادا کیااور آپ کو قبر کھود کر دفن کیا ۔
اَسَدُاللّٰہ وَاَسَدَرَسُوْلِہِ الْکَریْم
حضور نے مراسلۂ ایزدی بیان کرتے فرمایا،’’ اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَاَخْبِرْنِیْ اَنَّ حَمْزَۃُ مَکْتُوْبٌ فِیْ اَہْلِ الْسَّمَوٰتِ الْسَّبْعِ حَمْزَۃِ بْنُ عَبْدُالْمُطَّلِبْ اَسَدُاللّٰہْ وَاَسَدُ رَسُوْلِہ‘‘، ’’ جبرئیل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ حمزہ بن عبدالمطلب کو ساتوں آسمانوں کے درمیان اسد اللہ (اللہ کا شیر)اور اسد رسول اللہ(رسول اللہ کا شیر ) لکھا گیا ہے‘‘۔آپ کے القاب میںاَسَدُاللّٰہْ (خدا کا شیر)، اَسَدُالْرَّسُوْل (شیر رسالت)، اَسَدُالْجَنَّۃْ(جنت کا شیر)، سَیَّدُالْشُّہَدَائ(شہدائے راہِ خداکے سردار)، اَفْضَلُ الْشُّہَدَاء (وجودِباری تعالیٰ کے افضل ترین گواہ)، فَاعِلُ الْخَیْرات (نیک کام سرانجام دینے والے )، اَلْاِمَامُ الْاَبْطَالْ(جوانمردوں کے قائد)، اَلْلَّیْثُ الْضَّرْغَامْ (بپھرا ہوا مہیب شیر)معروف ہیں۔
امیر حمزہ سید الشہداء کی زیارت
حضور نبی کریم ،جنت البقیع کی طرح شہدائے احد اور قبر اطہر سیدنا امیر حمزہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زیارت کو بھی باقاعدگی سے تشریف لاتے اور اسطرح سلام پیش فرماتے تھے،’’ اَلْسَّلَامُ عَلًیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنَعِمْتُمْ عَقْبَی الْدَّار‘‘۔سیدہ،طاہرہ حضرت فاطمہ الزہرا صلوٰۃاللہ وسلامہ علیہا ہر دوسرے تیسرے دن سیدنا امیر حمزہ کی زیارت کو تشریف لاتیںاور سلام عقیدت پیش فرماتی تھیں۔آپ نے قبر اطہر پر ایک پرچم نصب فرمایاتا کہ تربتِاقدس کی پہچان باقی رہے۔ آپ اپنی شہادت تک سید الشہداء کی زیارت کو تشریف لاتی رہیں اور قبر مبارک کی دیکھ بھال اور مرمت کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتیں ۔ائمہ اہلبیتِ اطہار اور اصحاب کبار بھی حضور کے نقش قدم پر ہمیشہ سیدنا امیر حمزہ کی تربت مبارک کی زیارت کو تشریف لاتے رہے۔نبی کریم نے فرمایا، ’’ان کی زیارت کو آؤاور ان پر سلام پیش کرو۔جب تک زمین وآسمان قائم ہیںیہ سلام کا جواب دیتے رہیں گے۔‘‘
سلام کا جواب
حضرت العطاف بن خالد روایت کرتے ہیںکہ میری خالہ جو کہ ایک نیک سیرت خاتون تھیں،انہوں نے بیان کیا ،کہ ایک دن میں حضرت امیر حمزہ کی قبر مبارک پر حاضر ہوئی اور ان پر سلام پیش کیا اور ہاتھ سے سلام کا اشارہ بھی کیا۔ میں نے زمین کے نیچے سے اپنے سلام کا جواب سنا۔جنابِبیہقی نے ایسے بے شمار واقعات رقم کیے ہیںجنہوں نے سیدنا حمزہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کیا اور باقاعدہ جواب سنا۔آج بھی جو حضرات خلوص و عقیدت اور موَ دّتِ اہلبیت اطہار کے ساتھ سیدنا امیر حمزہ کی بارگاہ سلام پیش کرتے ہیںانہیں جواب بھی سنائی دیتا ہے۔ عرب وعجم پر سیدنا امیر حمزہ سید الشہداء کے تصرف اور آپ کی بارگاہ سے توسل واستمداد اور دادرسی کے متعدد واقعات زباں ذد عام ہیں۔
تربت امیر حمزہ اور تسبیح زہراء
حضرت خاتون جنت ،سیدہ فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے امیر حمزہ سیدالشہداء کی تربت اقدس کی خاک شفا لے کر تسبیح بنائی اور اس پر ذکر الٰہی فرمایاکرتی تھیں۔
فتحِ احد
حضورنبی کریم کی حیات طیبہ میں۸۵ فو جی مہمات ہوئیں جن میں آپ ہمیشہ فتح مند رہے۔۷۲غزوات میں حضور نے شرکت فرمائی جن میں۹غزوات میں تلوار چلی۔مکی زندگی میں آپ نے جہاد باللسان اور مدنی زندگی میں جہاد بالسیف فرمایا۔ہر تیسرے ماہ دشمنان خدا سے نبرد آزما رہے اور ان کی عددی برتری کے باوجود شکست فاش دی۔رسول اکرم امام الاشجعین،ماہرترین مدبرِحرب و ضرب اور دنیا کے بہترین سپہ سالار اعظم ہیں۔کفار مکہ کے نجس جانشینوں کے ابلیسی ہاتھوںسے مسخ ہونے والی تاریخ میں غزوئہ احد کو اہل اسلام کی شکست لکھا گیا ہے جو کہ سنگین تاریخی غلطی ہے اور توہین رسالت کے ساتھ ساتھ حکم قرآن کی بھی خلاف ورزی ہے۔سورئہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے؛
وَکَانُوْامِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَلَمَّاجَآئَ ھُمْ مَا عَرَفُوْاکَفَرُوْا بِہِ فَلَعْنَۃُاللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ۃ
۸۹ٓ اور پہلے سے فتح مانگتے تھے کافروں پر،پھر جب پہنچا ان کو جو پہچان رکھا تھا اس سے منکر ہوئے ، سو لعنت ہے اللہ کی منکروں پر۔(جب کافروں کا غلبہ دیکھتے تو نبی آخرالزمان کی جلد آمد کی دعا مانگتے، جب وہ تشریف لائے توخود ہی منکر ہوئے)،یہ دعا ان الفاظ میں مانگی جاتی تھی، اَللّٰھُمَّ افْتَحْ عَلَیْنَاوَانْصُرْنَابالْنَّبِیّ الْاُمِّیْ، اے ہمارے اللہ! ہمیںنبی امی کے صدقہ میں فتح و نصرت عطا فرما، جس عظیم ہستی کے وسیلہ سے فتح مانگی جاتی تھی ان کی حیات مبارکہ میں ان سے شکست منسوب کرنا جبکہ کمانڈر انچیف میدان چھوڑ کر گئے نہیں اور سیکنڈ ان کمانڈ، علی مرتضیٰ شیر خدا ،کفار کو مکہ پہنچا کر آئے ہیںاور اللہ رب العزت نے آپ کے اعزاز میں ذوالفقارِمردم شکار کا تحفہ بھیجا اور لاَفَتیٰ اِلاَّ عَلِیْ کا اعلان عام فرمایا، جبرئیل و میکائیل آپ کے دائیں بائیں رہے،اور یہ سب غزوئہ احد میں ہوا،اس کے باوجود حضور کو شکست خوردہ کہنا ،لکھنا،مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
لگی اُٹھ اُٹھ کے گرنے ہر طرف تیغِید اللہی تو ناری پھر جہنم کی طرف ہونے لگے راہی
گرایا خاک پر لاشے پہ لاشہ دستِحیدر نے کہ جنگل کاٹ ڈالا بے تحاشہ دستِحیدر نے
بھری تھی برقِباطل سوز تیغِ شیر یزداں میں لپک اٹھتا تھا اِک شعلہ سا تیروں کے گلستاں میں
اگرچہ خوفِحیدر سے تھا زُہرہ آب دشمن کا مگر امڈا ہوا تھا چار سو سیلاب دشمن کا
مفتیانِاہلسنت کا متفقہ فیصلہ و فتویٰ ہے کہ رسول کریم کو شکست خوردہ یا بھاگنے والا کہنا کفر ہے اوراس پر اصرار کرنے والا واجب القتل ہے۔غزوئہ احد میں اہل اسلام کا نقصان قدرے زیادہ ہواجس کی واحد اور بنیادی وجہ حکم رسالت سے سرتابی اورعبداللہ بن جبیر کی کمان میں پچاس تیر اندازوں کا کوہِ عینین کادرہ چھوڑدینا تھا۔ اللہ رب العزت نے تاقیامت درس حکمت دیا ہے کہ جب بھی میرے حبیب کے احکام سے ہٹ کر اپنی رائے پر چلو گے صریح نقصان اٹھاؤ گے۔
شہادتِ دندان نبوی
حضور نبی کریم کے دندان مبارک کشادہ،مضبوط،کامل اور روشن تر تھے اور ان میں سے نور کی شعائیں نکلتی تھیں۔تبسم فرماتے تو نورِدندان سے دیواروں پر روشنی چھا جاتی۔ غزوئہ احد کے دوران عتبہ بن ا بی وقاص ملعون کے پھینکے گئے پتھر سے آپ کے نیچے والے داہنی دانت پاک کا ایک کنگرہ شہید ہو گیا؛
قیامت تک لہو ٹپکے نہ کیوں چشمِمسلماں سے احد کی داستاں رنگین ہے خونِشہیداں سے
ہواس وہوش کھوناجنگ میں کچھ اہلِایماں کا اُدہر مضروب ہونا چہرئہ محبوبِیزداں کا
فقط گنتی کے چند افراد سرافراز دیکھیں گے جنہیں اللہ کے محبوب کا جانباز دیکھیں گے
نہ کثرت تھی ،نہ شوکت تھی ،نہ کچھ سامان رکھتے تھے فقط اخلاص رکھتے تھے ،فقط ایمان رکھتے تھے
شہدائے احد
غزوئہ احد میں خالد بن ولید کے عقبی حملے کے باعث اصحاب کبار زیادہ تعداد میں شہید ہوئے۔ستر اصحاب رسول کو پروانۂ بہشت ملاجن کے اسمائے گرامی یہ ہیں؛
۱۔ سید الشہداء سیدناامیر حمزہ بن سیدنا عبد المطلب بن سیدنا ہاشم ، آپ کو جبیر بن مطعم کے غلام وحشی نے شہید کیااور ام معاویہ نے بے حرمتی کی۔
۲۔ حضرت عبداللہ بن جحش ۳۔ حضرت مصعب بن عمیر ۴۔ حضرت شماس بن عثمان ۵۔ حضرت عمروْبن معاذبن نعمان ۶۔حضرت حارث بن انس بن رافع
۷۔ حضرت عمارہ بن زیاد بن سکن ۸۔ حضرت سلمہ بن ثابت بن وقش ۹۔ حضرت عمروْبن ثابت بن وقش ۱۰۔ حضرت ثابت بن وقش
۱۱۔ حضرت رفاعہ بن وقش ۱۲۔ حضرت حسیل بن جابر الیمان ، والدحضرت حذیفہ یمانی رازدار رسالت ۱۳۔ حضرت صیفی بن قینطی ۱۴۔ حضرت حباب بن قینطی
۱۵۔ حضرت عباد بن سہل ۱۶۔ حضرت حارث بن اوس بن معاذ ۱۷۔ حضرت ایاس بن اوس ۱۸۔ حضرت عبید بن تیہان ۱۹۔ حضرت حبیب بن یزید بن تیم
۲۰۔ حضرت یزیدبن خاطب ۲۱۔حضرت ابو سفیان بن حارث ۲۲۔ حضرت حنظلہ بن ابی عامر ۲۳۔ حضرت انیس بن قتادہ ۲۴۔ حضرت ابوحیہ بن ثعلبہ
۲۵۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رماہ ۲۶۔ حضرت خثیمہ ابو سعد بن خثیمہ ۲۷۔ حضرت عبداللہ بن سلمہ۲۸۔ حضرت سبیع بن حاطب ۲۹۔ حضرت عمروْ بن قیس
۳۰۔ حضرت قیس بن عمروْ بن قیس ۳۱۔ حضرت ثابت بن عمروْبن زید ۳۲۔ حضرت عامر بن مخلد ۳۳۔ حضرت ابو ہبیرہ بن حارث
۳۴۔ حضرت عمروْبن مطرب ۳۵۔ حضرت اوس بن ثابت بن المنذر ، شاعر رسالت حضرت حسّان بن ثابت کے بھائی۔ ۳۶۔ حضرت انس بن نضر ۳۷۔ حضرت قیس بن مخلد
۳۸۔ حضرت کیسان ۳۹۔ حضرت سلیم بن حارث ۴۰۔ حضرت نعمان بن عبد عمروْ ۴۱۔ حضرت خارجہ بن زید
۴۲۔ حضرت سعد بن الربیع ۴۳۔ حضرت اوس بن الارم ۴۴۔ حضرت مالک بن سنا ن حضرت ابو سعید خدری کے والد ۴۵۔حضرت سعید بن سوید
۴۶۔ حضرت عتبہ بن ربیع ۴۷۔ حضرت ثعلبہ بن سعد ۴۸۔ حضرت ثقف بن فردہ ۴۹۔ حضرت عبداللہ بن عمروْ ۵۰۔ حضرت ضمرہ جہنی ۵۱۔ حضرت نوفل بن عبداللہ
۵۲۔ حضرت عباس بن عبادہ ۵۳۔ حضرت نعمان بن مالک ۵۴۔ حضرت مجذر بن زیاد ۵۵۔ حضرت عبادہ بن حسماس ۵۶۔ حضرت رفاعہ بن عمروْ
۵۷۔ حضرت عبداللہ بن عمروْ ۵۸۔ حضرت عمروْبن جموح ۵۹۔ حضرت خلاد بن عمروْ ۶۰۔ حضرت ابو ایمن ۶۱ ۔ حضرت سلیم بن عمروْ ۶۲۔ حضرت عنترہ
۶۳۔ حضرت سہل بن قیس ۶۴۔ حضرت زکوان بن عبد قیس ۶۵۔ حضرت عبید بن معلی ۶۶۔ حضرت مالک بن نمیلہ ۶۷۔ حضرت حارث بن عدلی
۶۸۔ حضرت مالک بن ایاس ۶۹۔ حضرت ایاس بن عدلی ۷۰۔ حضرت عمروْبن ایاس رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن
یہ ریگ وسنگ کے تودے یہ قبریں پاک بازوں کی انہی سے آج دنیا بس رہی ہے سرفرازوں کی احد کی تربتیں ہیں حریت کے سنگ بنیادی ہے جن پر استوار اسلام کا ایوانِآزادی صداقت ڈھونڈنے والے فداکاری کی راہوں میں اسی منزل کو رکھتے ہیں تصور کی نگاہوں میں انہی روشن چراغوں سے زمانے میں اجالاہے خدا کااور محمد مصطفٰی کا بول بالاہے
جسدِ جاوداں
حضور کے فرمان کے مطابق حضرت سیدالشہداء امیر حمزہ اور ستر شہدائے احد کو ان کی جائے شہادت پر ہی سپرد بہشت کیاگیا۔حکم رسالت پر آپ کے محبوب اور بہادر چچا کو بھی آپ کی جائے شہادت پر دفن کیا گیا۔امیر شام معاویہ نے ماں کا کارنامہ دکھانے کی غرض سے۴۶ھ میں پانی گزرنے کا عذر کر کے آپ کی قبر مبارک کھودنے کا حکم دیااور شہدائے احد کے متعلقین کو ان کے مقتولین کی قبور کھودنے کا حکم دیا۔شہدائے احد کے طیب وطاہر ،تروتازہ اجسادِمبارکہ ظاہر ہوئے ۔جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ شہداء کے اجسام اس قدر تروتازہ تھے کہ ان کے جوڑ بآسانی کھولے اور بند کیے جا سکتے تھے ۔ سیدالشہداء کی تربت مبارکہ پر سے جیسے جیسے مٹی ہٹتی گئی،فضا میں خوشگوار مہک پھیلتی گئی ،یہاں تک کہ سید الشہداء کا جسد اقدس ظاہر ہوااور فضا ئے مدینہ، خوشبوئے فردوس سے مشکبار ہو گئی۔ترتالیس سال گزرنے کے بعد بھی آپ کا بدن مبارک بلا تغیروتبدل سالم تھااور مہک رہا تھا۔ام معاویہ عَلَیْہمَاالْھَاویَۃْ کے مثلہ کرنے کے آثار نمایاں تھے۔کھدائی کے دوران ایک کدال آپ کے قدم مبارک سے ٹکرائی گئی تووہاں سے تازہ خون جاری ہو گیا ۔
دوسرے خلیفۂ راشد سیدنا امام حسن مجتبیٰ عَلَیْہِ الْتَّحِیَّۃُ وَالْثَّنَاء نے آپ کا جنازہ پڑھایااور اہلِموَدَّ ت نے انتہائی عقیدت واحترام سے آپ کو موجودہ مقام پر دفن کیا۔خانوادئہ رسالت کا زمین بھی احترام کرتی ہے اور زمین کے باسی بھی۔حضور کا فرمان ہے اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ لَحُوْمَنَا عَلَی الْارْضِ فَلَا یُطْعِمُ مِنْہُ شَیئاً ،بے شک اللہ نے __________________________________________________________________________________________
۱۔حضرت امیر حمزہ سیدالشہداء کے تربتِاطہر پر خوبصورت روضۂ انور تعمیر کیا گیا تھا جو عاقبت نااندیش سفاکوں کی بہیمانہ تخریب کی نذر ہو گیا ۔ اب میدانِاحد میں آپ کی
تربتِاقدس مثلِآثارِبقیع ومعلی ہے ۔ ماضی قریب میں زائرین نے آپ کی قبر منورہ سے نور نکلتادیکھا جو متواتر کئی راتوں تک احد کی وادی کو منور کرتارہا۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم
ہمارے گوشت زمین پر حرام کر دیے ہیںاور وہ اس میں سے کچھ بھی نہیں کھا سکتی؛
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روزِمحشر تک ہوا اک موئے تن میلا نہ اک تارِ کفن بگڑا
حضرت امیر حمزہ کے اشعار
شاعری انداز بیا ں کا اہم جزو ہے اور عالی نسب خاندانوں کا طرئہ امتیاز رہی ہے ۔حضور نبی کریم کے آبائے طاہرین کے بے مثل اشعار ایمان و ایقان کی کیفیات سے لبریز ہیں اور ایمان پرور جواہر رکھتے ہیں۔سیدنا امیر حمزہ،جہاں بہادر جنگجواور سپہ سالار اعظم تھے وہیں شعلہ بیاں مقرر اور شیریں بیاں شاعر بھی تھے۔آپ کے چند اشعار کانثری ترجمہ درج ذیل ہے؛
حمد الٰہی
۱۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا جب اس نے میرے دل کو ، اسلام اور بلند مرتبہ دین کی توفیق بخشی۔
۲۔ اس دین کی جو عظمت و عزت والے پروردگار کی طرف سے آیا ہے ، جو بندوں کے تمام حسابات سے باخبر اور ان پر بڑا مہربان ہے ۔
۳۔ جب اس کے پیغامات کی تلاوت ہمارے سامنے کی جاتی ہے ، تو ہر صاحب عقل اور صائب الرائے کے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔
۴۔ وہ پیغامات جن کی ہدایتوں کو احمد لے کر آئے ، واضح الفاظ و حروف والی آیتوں میں۔
۵۔ اور احمد ہم میں برگزیدہ ہیں ،جن کے ہم اطاعت گزار ہیں ، لہٰذاتم ان کے سامنے ناملائم لفظ بھی منہ سے نہ نکالنا۔
۶۔ تو خدا کی قسم !ہم ان کو اس قوم کے حوالے کبھی نہیں کریں گے ، جن کے بارے میںہم نے ابھی تلواروں سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
سریہ حمزہ بن عبدالمطلب کے متعلق فرماتے ہیں؛
۱۔ سنو! میری قوم کی جہالت اور بے اصل خیالات اور مردانہ عقل و رائے کی کوتاہی پر تعجب ہے ۔
۲۔ جن کے چھوڑے ہوئے اونٹوں اور گھر میں رہنے والے محفوظ مقامات میں ہم نے قدم نہیں رکھا۔ ایسے لوگوں کا ظلم ڈھانا حیرت کی بات ہے ۔
۳۔ گویا ہم نے ان سے دشمنی کی ہے حالانکہ ہمیںان سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں،بجز اس کے کہ ہم انہیں پاکدامنی اور انصاف کی نصیحت کرتے رہے ہیں۔
۴۔ اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیںجو وہ قبول نہیں کرتے اور اس تبلیغ کا ان کے پاس یاوہ گوئی کا سادرجہ ہے۔
۵۔ پس انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی ۔یہاں تک کہ وہ جہاں اترے میں نے فضیلت کا میدان حاصل کرنے کے لیے تیزی سے ان پر چھاپہ مارا۔
۶۔ وہ ایسی چیز تھی کہ رسول اللہ کے حکم پر ان کا پہلا پرچم کشا تھا۔ایسا پرچم میرے اس واقعہ سے پہلے کبھی ظاہر نہ ہوا تھا۔
۷۔ وہ پرچم ایسا تھا کہ اس عزت و شان والے معبود کی مدد اس کے ساتھ تھی ، جس کا ہر کام بہترین ہے۔
۸۔ جس شام کو وہ لشکر جمع کر رہے تھے ۔ حالت یہ تھی کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے مدمقابل پر جوش کھا رہا تھا۔
۹۔ پھر جب ہم ایک دوسرے کے سامنے آ گئے تو انہوں نے اپنے اونٹ بٹھائے اور سواریوں کے پاؤں باندھ دیے ۔ ہم نے بھی تیر کی رسائی کے فاصلے سے اپنی
سواریوں کے پاؤں باندھ دیے۔
۱۰۔ پھر ہم نے ان سے کہا ، ہماری بازگشت تو خداوندی تعلق ہے اور تمہارا تعلق گمراہی کے سوا اور کسی سے نہیں۔
۱۱۔ پھر ابوجہل بغاوت کے جوش میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ارادے سے محروم رہا۔ جو کرنا چاہتا تھا نہ کر سکااور اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کی چالبازی رد کر دی۔
۱۲۔ حالانکہ ہم صرف تیس سوار تھے اور وہ دوسو، اس کے بعد ایک اور زیادہ۔
۱۳۔ تو اے بنی لوئی!اپنے گمراہوں کی بات نہ مانو، اور اسلام جو ایک سہل راستہ ہے ، اس کی طرف آؤ۔
۱۴۔ کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کی بارش ہو ، اس وقت تم پچھتاؤاور ندامت سے واویلا کرو۔
جنگ بدر کے متعلق فرمایا؛
۱۔ کیا تو نے زمانہ بھر کے عجیب واقعے پرغور نہیں کیا اور موت کے لیے بھی اسباب ہوتے ہیں، جن کا معاملہ ظاہر ہے ۔
۲۔ اور وہ واقعہ بجز اس کے اور کچھ نہ تھا کہ قوم کو نصیحت نے ہلاک کر ڈالاتو انہوں نے نافرمانی کی اور انکار سے عہد شکنی کی ۔
۳۔ جس شام وہ اپنا جتھا لے کر بدر کی جانب چلے ہیں تو وہ بدر کی سنگ بستہ بادل ہی میں رہ گئے۔
۴۔ ہم تو قافلے کی تلاش ہی میں نکلے تھے ۔ اس کے سوا ہمار ااور کوئی مقصد نہ تھا ۔ وہ ہماری طرف چلے تو ہم دونوں تقدیر کے ٹھہرائے ہوئے مقام پر ایک دوسرے کے
مقابل ہو گئے ۔
۵۔ پھر جب ہم ایک دوسرے کے مقابل ہو گئے تو ہمارے لیے سیدھے کیے ہوئے نیزوں سے نیزہ زنی کرنے کے سوا واپسی کی کوئی صورت نہ رہی۔
۶۔ اور بجز چمکتی ہوئی تلواروں سے مارنے کے ، جن کی دھاریں گردنوں کو الگ کر دیتی ہیں ، جن کے رنگ سفید اور جن کے جوہر نمایا ں ہیں۔
۷۔ اور ہم نے گمراہی کی دہلیز(عتبہ) کو پیوند خاک کر کے چھوڑا۔اور شیبہ کو مقتولوں کے درمیان لڑھکتا ہو اچھوڑا۔
۸۔ ان لوگوں کے حمایتی ، جو پیوند خاک ہو گئے ، ان میں عمروْبھی خاک کا پیوند ہو گیا۔ اس لیے نوحہ خوان عورتوں کے گریبان ، عمروْ کے ماتم میں تار تار ہو گئے۔
۹۔ گمراہی کے اس پرچم نے جس پرچم والوں کی قیادت ابلیس نے کی۔ آخر ان سے بیوفائی کی اور سچ تو یہ ہے کہ وہ پلید بیوفائی ہی کی طرف ہے۔
۱۰۔ جب اس نے معاملہ کو واضح طور پر دیکھ لیا تو ان سے کہا۔ میں اپنی علیحدگی سے آگاہ کیے دیتا ہوں کہ آج مجھ میں صبر کا یارا نہیں ۔
۱۱۔ کیونکہ میں ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں ،جنہیں تم نہیں دیکھ رہے اور بات یہ ہے کہ میں سزائے الٰہی سے ڈررہا ہوں کہ اللہ قہر والا ہے۔
۱۲۔ آخر وہ انہیں موت کے لیے بڑھا لایا،یہاں تک کہ وہ بھنور میں پھنس گئے۔اور جس بات کی اس نے انہیں خبر دی ،وہ اسے خوب جانتا تھا۔
۱۳۔ وہ لوگ چاہِبدر پر پہنچنے کی صبح کو ایک ہزار تھے اور ہماری جماعت ، سفید نر اونٹوں کے مثل تین سو تھے۔
۱۴۔اور ہم میں اللہ کا لشکر تھاجو ہماری مدد کرتا تھا ۔ جب کسی مقام پر تو لوگ اس بیان کی تو ضیح چاہتے تھے ۔
۱۵۔ اور جبرئیل نے ہمارے پرچم تلے رہ کر ایسی سختی کی ۔ ایک تنگ مقام میں ان پر لگاتار چلی آرہی تھی۔
یادِ سید الشہداء
صفین کی گھمسان کی لڑائی میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب سیدنا امیر حمزہ شہیدِاحداور سیدناجعفر طیار شہیدِموتہ کی یاد میں فرماتے ہیں ؛
دَعَوْتُ ھَمْدَانَ وَاَدْعُوْا حُمِیْراً لَوْ اَنَّ عِنْدِیْ یَوْمَ حَرْبِیْ جَعْفَرا
اَوْ حَمْزَۃُ الْلَّیْثُ الْھُمَامُُ الْاَزْھَرَا رَاَتْ قُرَیْشٌ نَجْمُ الْلَّیْلِظَھَرَا
میں نے(بنی ) ہمدان کو پکارا اور انہوں نے (بنی )حمیر کو پکارا ،کاش آج کی لڑائی میں میرے پاس جعفر ہوتے
یا حمزہ شیر جو صاحبِ ارادہ اور روشن تھے ،تو قریش رات کا تارا دن میں دیکھ لیتے
جنگ صفین میں ہی آپ کو یاد کرتے امیر المومنین علی ابنِابی طالب نے فرمایا ؛
وَحَمْزَۃُ الْخَیْرُ وَ تِرْبِیْ جَعْفَرٌ لَہُ جَنَاحٌ فِیْ الْجَنَانِ اَخْضَرُ
ہم میں بہترین (شخص) حمزہ اور ہم مرتبہ جعفر ہیںجن کے لیے باغاتِبہشت میں سبز پر ہیں
امیر شام معاویہ پسر ہند کو اپنے تعارف میں تحریر فرمایا ؛
مُحَمَّدُنالْنَّبِیُّ اَخِیْ وَصِھْرِیْ وَحَمْزَۃُ سَیَّدُ الْشُّہَدَآئِ عَمِّی
محمد پیغمبر میرے برادر وخسر ہیں اور سید الشہداء حمزہ میرے چچا ہیں
اشعارِقرۃ بن حجل بن عبدالمطلب
اَبُوْالْسَّادَۃِالْعَشَرْ (دس سرداروںکے والدِگرامی قدر)سیدنا عبدالمطلب کے پوتے جنابِقرۃ بن حجل مغیرہ بن عبدالمطلب اپنے خانوادئہ عالیہ سے متعلق فرماتے ہیں؛
اَذکُرْضِرَاراً عَدَّدَتْ فَتٰی نِدی وَالْلَّیْثَ حَمْزَۃً وَاذْکُرِ الْعَبَّاساً
اگر کسی فیاض نوجوان کا شمار کرنا ہے تو ضرارکاذکرکر ،شیر مرد حمزہ کاذکرکر اور عباس کاذکرکر
وَاعدُدْ زُبَیْراً وَالْمُقَوّمَ بَعْدَہُ وَالْصَّتْمَ حَجْلاً وَالْفَتٰی الْرَّء اساً
زبیر کو اور اس کے بعد مقوم کو حجل کو شمار کر جو نوجوان سردار ہے
وَاَبَاعُتَیْبَۃَفَاذْکُرُنْہُ ثَامِناً وَالْقَرْمَ عَبْدَمَنَاف الْجَسَّاساً
اور آٹھویں مقام پہ اباعتیبہ کا ذکر کرتے ہیں اور جوانمرد معاملہ فہم رمزشناس زیرک سردار عبدمناف کو یادکرتے ہیں
وَالْقَرْمَ غِیْدَاقاً تعدّ جحَاجحَا سَادُوْاعَلَی رَغْم الْعَدُوّ الْنَّاساً
بہادر غیداق کو شمار کر کہ یہ سب عظمائے قوم ہیں اور بر رغم دشمن ان کو سب کی سرداری حاصل ہو چکی ہے
وَالْحَارِثَ الْفَیَّاضَ وَلیّ مَاجداً اَیَّامٌ نَازَعَہُ الْھُمَامُ الْکَاساً
فیاض حارث کو شمار کر جو ایسا بہادر تھا کہ جام مرگ پینے کے دنوں میں اس نے دنیا سے مجد وشرف کے ساتھ منہ موڑا
مَافِی الْاَنَام عُمُوْمَۃٌکَعَمُوْمَتِیْ خَیْراً وَّلاَ کَاُنَاسِنَا اُنَاساً
جیسے چچا میرے ہیں تمام مخلوق میں ویسے اچھے چچا کسی کے نہیں اور نہ جیسے لوگ ہم میں ہیں ویسے کسی خاندان میں ہیں.
ڈاکٹرمخدوم پیر سید علی عباس شاہ