حضرت اَیّوب خدا کے پیغمبروں میں سے تھے جنہیں خدا کی طرف سے اولاد اور مال و دولت نیز مختلف بیماریوں کے ذریعے امتحان میں ڈالا گیا۔ حضرت ایوب نے ان امتحانات کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اور خدا کی عبادت اور شُکر سے دست بردار نہیں ہوئے۔ اسی بنا پر قرآن میں ان کو نیکی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔

 

قرآن میں حضرت ایوب کے امتحانات کی تفصیلات بیان نہیں ہوئی، لیکن عہد عتیق اور بعض اسلامی احادیث میں اس حوالے سے مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں جن کے مطابق آپ کی بیماری کی وجہ سے لوگ آپ سے دور ہو گئے تھے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انبیاء میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جس سے لوگ ان سے دور ہونے کا سبب بنیں۔

عہد عتیق اور بعض اسلامی احادیث میں الہی امتحانات کے مقابلے میں حضرت ایوب کی بے صبری کی حکایت‌ بھی آئی ہے، لیکن قرآن میں ان کو ایک صابر انسان قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح بعض آیت :”واذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّہُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ” سے استناد کرتے ہوئے حضرت ایوب پر شیطان کے غلبے کی بات کرتے ہوئے ان کی عصمت میں تردید کا اظہار بھی کیا گیا ہے؛ البتہ کہتے ہیں کہ شیطان کو صرف ان کی جسم پر غلبہ حاصل ہوا تھا ان کی نفس پر غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا جس کی بنا پر ان کی عصمت میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا ہے۔ چونکہ خود قرآن کے مطابق شیطان کو خدا کے نیک بندوں کے نفسوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا اور قرآن میں حضرت ایوب کو خدا کے نیک بندوں میں شمار کیا گیا ہے۔

مفسرین کے مطابق حضرت ایوب نے اپنی زوجہ پر 100 کوڑے مارنے کی قسم کھائی، لیکن بعد میں اس کام سے پشیمان ہوئے، لیکن قسم کھانے کی وجہ سے ان کو معاف نہیں کر سکتے تھے۔ اس بنا پر آپ پر وحی نازل ہوئی کہ نازک لکڑیوں کے ایک گچھے کے ذریعے اپنی بیوی پر کوڑے ماریں تاکہ قسم پر عمل کر سکیں۔ البتہ حضرت ایوب نے کیوں قسم کھائی اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے۔ بعض ان کی زوجہ کی طرف سے کچھ غلطی سرزد ہونے کو اس قسم کی علت قرار دیتے ہیں۔

حضرت ایوب کے محل دفن کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں؛ اس کے باوجود مختلف ممالک میں آپ سے منسوب مقبرے موجود ہیں؛ من جملہ ان میں عراق کے جنوبی شہر حلہ سے دس کیلو میٹر کے فاصلے پر “الرّانْجِیَّہ” نامی مقام پر موجود مقبرہ بھی آپ سے منسوب ہے۔

نسب اور خاندان

حضرت ایوب حضرت ابراہیم کی نسل سے [2] خدا کے انبیاء[3] میں سے تھے۔ آپ کا نسب باپ کی جانب سے چار [4] یا پانچ[5] واسطوں کے ذریعے حضرت ابراہیم ملتا ہے۔ اسی طرح آپ کا شمار والدہ کی جانب سے حضرت لوط کے نواسوں میں ہوتا ہے۔[6] آپ کی زوجہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، علامہ مجلسی کے مطابق مشہور آپ کی زوجہ کو حضرت یوسف کی نسل سے قرار دیتے ہیں۔[7] البتہ بعض احادیث میں حضرت یوسف کی بیٹی[8] اور بعض دوسری احادیث میں حضرت یعقوب کی بیٹی[9] قرار دی گئی ہے۔ بعض ذوالکفل کو حضرت ایوب کے بیٹے بشر قرار دیتے ہیں جو خدا کے انبیاء میں سے تھے۔[10]

امتحان الہی

تفصیلی مضمون: صبر ایوب

قرآنی آیات کے مطابق حضرت ایوب بیماری اور اولاد کے چھن جانے کے ذریعے امتحان الہی میں مبتلاء ہوئے اور انہوں نے ان امتحانات کے مقابلے میں صبر کیا۔[11] اس کے بعد انہیں دوبارہ اولاد اور صحت و سلامتی عطا ہوئی۔[12] اسی طرح احادیث کے مطابق حضرت ایوب کافی مال و دولت کے مالک بھی تھے جنہیں مذکورہ امتحان میں ہاتھ سے دھو بیٹھے۔[13] قرآن میں آپ کو “عبدَنا”(ہمارے بندے)، “نِعم‌العبد” (نیک بندے)، “صابر” اور “اَوّاب” (خدا کی طرف لوٹ آنے والا)[14] جیسے ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔[15]

ردیف آیت سورہ آیت نمبر موضوع

۱ وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا ہَدَيْنَا وَنُوحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَہَارُونَ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ انعام ۸۴ حضرت ابراہیم یا حضرت نوح کی نسل سے ہونا[نوٹ 1]
۲ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَہَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا نساء ۱۶۳ نبوت
۳ وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّہُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿۸۳﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَكَشَفْنَا مَا بِہِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُمْ مَعَہُمْ رَحْمَۃً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ انبیاء ۸۳-۸۴ دعا قبول ہونا اور دوبارہ اولاد اور سلامتی نصیب ہونا۔
۴ واذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّہُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴿٤١﴾ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ ہَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ ﴿٤٢﴾ وَوَہَبْنَا لَہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُمْ مَعَہُمْ رَحْمَۃً مِنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿٤٣﴾ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّہُ أَوَّابٌ ﴿٤٤﴾ سورہ ص ۴۱-۴۴ بیماری سے چھٹکارا، اہل و عیال کی واپسی، قسم کھانے کا واقعہ اور آپ کے صابر اور “اوّاب” ہونے کی طرف اشارہ۔

امتحان کا واقعہ
حضرت ایوب سے منسوب دعا

«اللَّہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ الْيَوْمَ فَأَعِذْنِي وَ أَسْتَجِيرُ بِكَ الْيَوْمَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاءِ فَأَجِرْنِي وَ أَسْتَغِيثُ بِكَ الْيَوْمَ فَأَغِثْنِي وَ أَسْتَصْرِخُك الْيَوْمَ عَلَى عَدُوِّكَ وَ عَدُوِّي فَاصْرُخْنِي وَ أَسْتَنْصِرُكَ الْيَوْمَ فَانْصُرْنِي وَ أَسْتَعِينُ بِكَ الْيَوْمَ عَلَى أَمْرِي فَأَعِنِّي وَ أَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ فَاكْفِنِي وَ أَعْتَصِمُ‏ بِكَ فَاعْصِمْنِي وَ آمَنُ بِكَ فَآمِنِّي وَ أَسْأَلُكَ فَأَعْطِنِي وَ أَسْتَرْزِقُكَ فَارْزُقْنِي وَ أَسْتَغْفِرُكَ فَاغْفِرْ لِي وَ أَدْعُوكَ فَاذْكُرْنِي وَ أَسْتَرْحِمُكَ فَارْحَمْنِي۔»[16]

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق خدا نے حضرت ایوب کو نعمتو سے نوازا تو آپ ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ ایک دن شیطان حضرت ایوب کے شکر گزاری سے متعلق آگاہ ہوا اور ان سے حسد کرتے ہوئے کہا: خدایا اگر حضرت ایوب سے دنیاوی نعمات چھین لے تو پھر ایوب شکر ادا نہیں کرے گا۔ اس بنا پر خدا نے شیطان کو حضرت ایوب کی اولاد اور مال و دولت پر مسلط کیا۔ مختصر عرصے میں حضرت ایوب اولاد اور مال و دولت سے محروم ہو گئے؛ لیکن حضرت ایوب کی شکر گزاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد آپ زراعت اور مال مویشیوں سے بھی محروم ہو گئے، پھر بھی ان کی شکرگزاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد ابلیس نے حضرت ایوب کے بدن پر دم کیا جس سے ان کے بدن میں بہت سارے زخم پیدا ہوئے اور ان میں کیڑے مکوڑے پیدا ہونے لگے؛ چنانچہ ان کے بدن سے آنے والی بد بو کی وجہ سے ان کو آبادی سے دور کیا گیا؛ لیکن ایوب اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد شیطان حضرت ایوب کے بعض اصحاب کے ساتھ ان کے پاس گیا اور ان سے کہا ہمارے خیال میں آپ جس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہیں وہ آپ کی گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اس پر حضرت ایوب نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کبھی کھانا نہیں کھایا جب تک کوئی یتیم ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو اور جب بھی خدا کی اطاعت کے دو راہوں میں سے سخت ترین راستے کو انتخاب کیا ہے … اس کے بعد خدا نے ایک فرشتہ‌ نازل فرمایا جس نے اپنا پاؤوں زمین پر مارا تو وہاں سے پانی بہنا شروع ہوا جس سے حضرت ایوب کو غسل دیا گیا جس سے ان کے جسم میں موجود تمام زخم ٹھیک ہو گئے۔[17]

علامہ طباطبایی اس حدیث کو اہل‌ بیتؑ سے منقول دوسری احادیث کے منافی قرار دیتے ہیں؛[18] امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ حضرت ایوب کے بدن پر نہ کوئی زخم ایجاد ہوا تھا اور نہ کوئی کیڑے پیدا ہوئے تھے اسی طرح ان کے چہرے پر بھی کسی قسم کا کوئی عیب پیدا نہیں ہوا تھا؛ بلکہ لوگوں کے حضرت ایوب سے دور ہونے کی وجہ فقر و تتگدستی اور ظاہری کمزوری تھی؛ چونکہ لوگ خدا کے نزدیک ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ ­نہیں تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ بہت جلد شفا پائیں گے۔[19] اسی طرح مذکور حدیث ان احادیث کے ساتھ بھی منافات رکھتی ہے جن کی بنا پر حضرت ایوب سمیت خدا کے دوسرے تمام انبیاء معصوم ہیں؛[20] کیونکہ عصمت کے مراتب میں سے ایک یہ ہے کہ انیباء میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو لوگوں کی ان سے دوری کا سبب بنے؛ کیونکہ لوگوں کا انبیاء سے دور ہونا بعثت کے اہداف کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔[21]

کتاب مقدس میں حضرت ایوب کا تذکرہ

عہد عتیق کی 39 کتابوں میں سے ایک کتاب ایوب ہے۔ اس کتاب میں خدا کی طرف سے حضرت ایوب کو عطا کی گئی نعمات،[22] ان سے امتحان لئے جانے کی داستان، شیطان کا ان کے بدن اور مال دو دولت پر مسلط ہونا[23] اور بعض جوانوں کا حضرت ایوب سے خطا سرزند کا اعتراف لینے کی کوشش[24] وغیره سے بحث ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عہد عتیق میں قرآن کے برخلاف حضرت ایوب کو ایک بے صبر اور ناشکر انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[25] اسی طرح کتاب مقدس حضرت ایوب کی قسم کی داستان ذکر نہیں ہوئی ہے۔[26]

فلسفہ ابتلاء

حضرت ایوب کی بیماری اور اولاد سے محروم ہونا خدا کی طرف سے ایک امتحان تھا۔ اہل سنت مفسر قُرطُبی کے مطابق حضرت ایوب کی حالت ان امتحانات سے پہلے، امتحانات کے دوران اور امتحانات کے بعد، یکسان تھی یعنی ہر حال میں آپ خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔[27] اسی طرح علامہ طباطبایی نے ایک حدیث نقل کی ہے اس کے مطابق حضرت ایوب پر آنے والی مصیبت کی علت یہ تھی کہ لوگ ان کے بارے میں ربوبیت کا دعوا نہ کریں اور خدا کی طرف سے عطا کرده نعمتوں کو دیکھ کر خود ان کو خدا نہ سمجھ بیٹھیں؛ اسی طرح اس کا ایک اور فلسفہ یہ بھی تھا کہ ان کو دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کریں اور کسی کمزور، فقیر یا بیمار شخص کو اس کی ضعیفی، فقر و تنگدستی اور بیماری کی وجہ سے پست نہ سمجھیں کیونکہ ممکن ہے خدا اس کمزور شخص کو طاقتور، فقیر کو غنی اور بیمار شخص کو صحت و سلامتی عنایت کرے؛ اور یہ بھی جان لیں کہ یہ خدا ہی ہیں جو جس کو چاہے مریض کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ انبیاء میں سے کیوں نہ ہو ارو جس کو چاہے شفا عطا کرتا ہے۔[28]

قسم کی داستان

حضرت ایوب نے قاسم کھائی کہ جب بھی بیماری سے افاقہ ملے تو اپنی بیوی کو 100 کوڑے ماریں گے؛[29] لیکن جب بیماری سے نجات ملی تو بیماری کے دوران اپنی زوجہ کی خدمات اور وفاداری کو دیکھ کر اسے معاف کرنے کا فیصلہ کیا لیکن قسم اس چیز میں مانع بن رہی تھی۔[30] اس بنا پر خدا کی طرف سے وحی ہوئی کہ لکڑیوں کے ایک نازک گچھے کے ذریعے اپنی بیوی کو ماریں تاکہ قسم کی مخالفت نہ ہو۔[31]

حضرت ایوب کے قسم کی علت کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے: پہلی صدی ہجری کے مفسر قرآن ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ شیطان حضرت ایوب کی زوجہ سے پاس آیا اور کہا: میں تمہارے شوہر کا علاج کرتا ہوں لیکن ایک شرط ہے وہ یہ کہ ان کی صحت یابی کے بعد ان سے کہیں کہ انہیں بیماری سے نجات دینے والا فقط میں (شیطان) ہوں۔ حضرت ایوب کی زوجہ جو اپنے شوہر کی بیماری سے تنگ آ چکی تھی، نے شیطان کی بات قبول کی۔ اس بنا پر حضرت ایوب نے ا­نہیں 100 کوڑے مارنے کی قسم کھائی۔[32] بعض کہتے ہیں کہ حضرت ایوب نے اپنی بیوی کو کسی کام کے لئے بھیجا، آپ کی بیوی نے واپس آنے میں دیر کی، چونکہ حضرت ایوب بیماری کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے اپنی بیوی سے سخت ناراض ہو گئے اور یہ قسم کھائی۔[33] اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ حضرت ایوب اور ان کی بیوی کے درمیان کوئی مسئلہ پیش آیا[34] اور آپ کی بیوی نے آپ کو اپنی باتوں کے ذریعے بہت تکلیف پہنچائی جس پر آپ نے یہ قسم کھائی۔[35]

ایک حدیث کے مطابق حضرت ایوب نے بیماری سے نجات پانے کے بعد قسم کھائی: حضرت ایوب بیماری کی حالت میں شہر اور آبادی سے باہر زندگی گزارتے تھے، آپ کی بیوی کھانا لانے کے لئے شہر گئی اور کھانا خریدنے کے لئے اپنی گیسو فروخت کی۔ جب وہ حضرت ایوب کے پاس آئی تو اس وقت حضرت ایوب بیماری سے شفا پا چکے تھے اور جب ان کو اپنی بیوی کے گیسو فروخت کرنے کے معاملے کا پتہ چلا تو ان کو 100 کوڑے مارنے کی قسم کھائی؛ لیکن جب اس کام کی علت سے آگاہ ہوئے تو پشیمان ہوئے۔[36] البتہ اس حدیث کے معتبر ہونے میں تردید پائی جاتی ہے کیونکہ یہ حدیث ایک تو عصمت انبیاء کے بارے میں شیعہ اعتقادات کے منافی ہے،[37]، اسی طرح یہ حدیث دوسری احادیث کے ساتھ بھی منافات رکھتی ہے،[38] اسی طرح اس حدیث میں حضرت ایوب کی جلد بازی (اپنی بیوی سے پوچھے بغیر ان سے بدگمان‌ ہونا اور کے لئے سزا تعیین کرنا) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ایک پیغمبر سے بعید ہے نیز اس حدیث کا ایک راوی بھی مجہول‌ ہے۔[39]

اہل‌ سنت بعض مفسرین نے حضرت ایوب کے قسم کھانے کی داستان سے یہ استنباط کیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی تأدیب کی خاطر اسے مار سکتا ہے۔[40]

عصمت

بعض مفسرین سورہ ص کی آیت: واذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّہُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ[41] جس میں حضرت ایوب کے شیطان سے متأثر ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سے استناد کرتے ہوئے آپ کی عصمت میں تردیک کی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مذکور آیت کی بنا پر حضرت ایوب شیطان کی وجہ سے مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا اور شیطان سے متأثر ہونا عصمت کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔[42] اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ شیطان حضرت ایوب کے نفس پر مسلط نہیں ہوا تھا اگر ایسا ہوتا تو ان کی عصمت میں خلل آ جاتا؛ بلکہ شیطان ان کے بدن میں اثر انداز ہوا تھا؛[43] کیونکہ قرآن کریم کی آیت: “إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْہِمْ سُلْطَانٌ؛(ترجمہ: بتحقیق تم(شیطان) کو میرے بندوں پر کوئی تسلط نہیں ہے”)،[44] کے مطابق شیطان کو خدا کے بندوں پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے اور سورہ ص کی آیت نمبر 41 کے مطابق حضرت ایوب خدا کا نیک بندہ ہے۔[45]

کتاب تنزیہ الانبیاء جو انبیاء کی عصمت کے بارے میں لکھی گئی ہے، میں حضرت ایوب کی عصمت کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے۔[46]

مدفن

بخارا میں حضرت ایوب سے منسوب مقبرہ
حضرت ایوب بحر المیّت کے جنوب مغرب اور خلیج عَقَبہ کے شمال میں عُوص نامی جگہ یا دمشق اور اَذرِعات کے درمیان بَثَنِیَّہ نامی جگہ پر زندگی گزارتے تھے۔[47] اسی طرح ترکیہ کے شہر اورفہ میں ایک غار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ایوب بیماری کے دوران اس غار میں رہتے تھے۔[48]

کہا جاتا ہے کہ حضرت ایوب نے 200 سال عمر کی۔[49] عہد عتیق کے مطابق اس میں سے 140 سال بیماری سے شفا پانے کے بعد سے متعلق تھی۔[50] اسی طرح ایک حدیث کے مطابق 7[51] یا 18 سال[52] بیمار رہے اور آخر کار ایک چشمہ کے پاس جس کے نزدیک آپ نے بیماری سے شفا پائی تھی، دفن ہوئے۔[53] آپ کے محل دفن کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں؛ اسی بنا پر مختلف ممالک میں آپ سے منسوب مقبرے موجود ہیں من جملہ ان میں عراق، لبنان، فلسطین اور عمان شامل ہیں۔[54] عراق کے جنوبی شہر حلہ سے دس کیلو میٹر کے فاصلے پر الرّانْجِیَّہ نامی مقام پر موجود مقبرہ آپ سے منسوب ہے کہا جاتا ہے کہ مقبرہ آپ کے محل زندگی سے زیادہ نزدیک ہونے کی بنا پر زیادہ مشہور ہے۔[55]

اسی طرح عمان میں بندر صلالہ سے 7 کیلو میٹر کے فاصلے پر کوہ اِتّین نیز ایران کے شہر بجنورد کے ایک گاؤں گرماب اور ازبکستان کے شہر بخارا میں بھی آپ سے منسوب مزارات موجود ہیں۔[56] البتہ یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ بخارا میں موجود آپ سے منسوب مقبرہ سلسلہ تیموریان میں تیمور لنگ کے ابداعات میں سے ہو۔[57]

 

……………………………………

حوالہ جات :

  1. مرکز تراث الحلہ
  2. سورہ انعام، آیہ ۸۴۔
  3. سورہ نساء، آیہ ۱۶۳۔
  4. ابن حبیب، المحبر، دارآفاق الجدیدہ، ص۵۔
  5. مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۵؛ ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۸۷۔
  6. مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۵؛ ثعلبی، الشکف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۸۷۔
  7. مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۵۔
  8. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۹-۲۴۲۔
  9. مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۵۔
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳۲۵۔
  11. سورہ صاد، آيہ ۴۴۔
  12. سورہ انبیاء، آیہ۸۴۔
  13. ملاحظہ کریں: قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۹-۲۴۲۔
  14. جزایری، قصص الانبیاء، ۱۴۰۴ق، ص۱۹۸۔
  15. سورہ ص، آیات ۴۱-۴۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۰-۲۱۱۔
  16. کفعمی، المصباح (جنۃ الامان الواقیۃ)، ۱۴۰۵ق، ص۲۹۶-۲۹۷۔
  17. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۹-۲۴۲؛ مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۹-۵۶۵۔
  18. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔
  19. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۹۹-۴۰۰۔
  20. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔
  21. ابوالفتوح رازی، روض‌الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۳، ص۲۱۳؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، مؤسسۃ الامام الصادق، ص۱۱۴۔
  22. کتاب مقدس، ایوب، ۱:۱-۶
  23. کتاب مقدس، ایوب، ۱-۲۔
  24. کتاب مقدس، ایوب، ۳-۲۷۔‌
  25. کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ ‌زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۲۰۔
  26. کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ ‌زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۲۰۔
  27. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۲۱۶۔
  28. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔
  29. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۰۔
  30. مکارم، تفسیر نمونہ،۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۲۹۹۔
  31. سورہ ص، آیہ ۴۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۰۔
  32. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۲۹۹؛ جزایری، قصص ‌الانبیاء، ۱۴۰۴ق، ص۱۹۸۔
  33. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۲۹۹۔
  34. مغنیہ، تفسیرالکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۳۸۲۔
  35. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۷۴۶۔
  36. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۹-۲۴۲؛ مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۶۵-۵۵۹۔
  37. ابو الفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۳، ص۲۱۳؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، مؤسسۃ الامام الصادق، ص۱۱۴۔
  38. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔
  39. کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۱۷۔
  40. جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص۲۶۰۔
  41. سورہ ص، آیہ۴۱۔
  42. ملاحظہ کریں: نصری، مبانی رسالت انبیاء در قرآن ۱۳۸۸ش، ص۲۶۰-۲۶۱۔
  43. طباطبایی، المیزان، ج۱۷، ص۲۰۹۔
  44. سورہ اسراء، آیہ ۶۵۔
  45. نصری، مبانی رسالت انبیاء در قرآن ۱۳۸۸ش، ص۲۶۰-۲۶۱۔
  46. سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء، ۱۲۵۰ق، ص۵۹-۶۴۔
  47. شوقی، اطلس قرآن، ۱۳۸۸ش، ص۱۰۹۔
  48. بی ‌آزار شیرازی، باستان‌ شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۶ش، ص۳۵۰۔
  49. ابن حبیب، المحبر، دار آفاق الجدیدہ، ص۵۔
  50. کتاب مقدس، ایوب ۱: ۴۲۔
  51. جزایری، قصص الانبیاء، ۱۴۰۴ق، ص۱۹۸و۲۰۰۔
  52. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۶۷۲؛ جزایری، قصص الانبیاء، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۷۔
  53. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۶۷۵۔
  54. « مرکز تراث الحلہ»
  55. رامین ‌نژاد، مزار پیامبران، ۱۳۸۷ش، ص۵۹-۶۳۔
  56. رامین ‌نژاد، مزار پیامبران، ۱۳۸۷ش، ص۵۹-۶۳۔
  57. رامین ‌نژاد، مزار پیامبران، ۱۳۸۷ش، ص۵۹-۶۳۔
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے