حضرت آدم، اولین انسان اور تمام انسانوں کے والد ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنی روح ان کے جسم میں پھونکی، اور پھر آدم کو خلق کرنے کے لئے اپنی تعریف کی۔ فرشتوں کو حکم ملا کہ ان کو سجدہ کریں۔ آپ کی بیوی حضرت حوا تھیں۔ ممنوعہ پھل کھانے کی وجہ سے آپ کو جنت سے باہر نکال دیا گیا۔ آپ اللہ تعالی کی طرف سے زمین پر پہلے خلیفہ اور پہلے پیغمبر تھے۔

خلقت کا طریقہ، اللہ تعالی کی طرف سے آپ کے جسم میں روح کا پھونکا جانا، آپ کی عصمت اور پھر زمین پر ہبوط بہت طولانی کلامی و حدیثی ابحاث میں سے ہیں۔

لغوی بحث
آدم کا لفظ عبری زبان کے لفظ اَدَم سے لیا گیا ہے، لیکن اس لفظ کی عبری زبان میں اصلی جڑ اور اس کا ریشہ معلوم نہیں ہے۔ اس لغت کا مؤنث لفظ اَدَمہ عبری زبان میں زمین یا مٹی کے معنی میں ہے۔

پرانی جنوبی عربی میں لفظ ادم کی اصلیت خادم اور غلام کے معنی میں ہے۔[1]

عربی زبان میں بھی ادم کی جڑ کا بہت وسیع استعمال ہے؛ اس جڑ کے مفردات میں سے اُدٗمہ یعنی مباشرت کا وسیلہ، اونٹ میں ادمہ اس کی آنکھوں میں سفیدی اور سیاھی کو کہا جاتا ہے، جبکہ یہی انسان کے لئے استعمال ہو تو اس کا معنی گندمی رنگ کا ہونا ہوتا ہے۔[2]

نام رکھنے کی وجہ
انسانوں کے باپ کا آدم ںام رکھنے کی وجہ کو ازہری نے زجاج سے یوں نقل کیا ہے کہ یہ لفظ “ادیم الارض” کے شقوق میں سے ہے، کیونکہ انسان کو مٹی سے خلق کیا گیا ہے۔ راغب اصفہانی نے اس مسئلے کو مزید تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:

کیونکہ آدم کے جسم کو زمین پر موجود مٹی (ادیم) سے بنایا گیا ہے؛
کیونکہ اس کے چمڑے کا رنگ گندمی (آدم) تھا؛
کیونکہ آپ مختلف عناصر اور طاقتوں کے امتزاج سے خلق کیے گئے ہیں۔ (اُدٗمہ: الفت اور امتزاج)؛
کیونکہ آپ روح الہی کے پھونکے جانے سے معطر و خوشبو ہو چکے ہیں۔ اِدام: جو چیز کھانے کو خوشبو دار اور معطر کر دے)[3]
اسلامی نکتۂ نگاہ
حضرت آدم اور آپ کی خلقت کا موضوع، اسلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام کی نگاہ میں حضرت آدم پہلے پیغمبر ہیں اور جب مسلمان نبوت کے آغاز اور خاتمے کو بیان کرنا چاہیں تو آدم سے خاتم کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ جو کچھ بھی حضرت آدم کے بارے میں تفسیری، حدیثی تاریخی اور ادب کی کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ سب کچھ آیات قرآن پر مبتنی ہے۔ قرآن کریم میں 25 مرتبہ حضرت آدم کا نام ذکر ہوا ہے، لیکن آپ کی خلقت کی کہانی کو سورہ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ اسراء، سورہ طہ اور سورہ ص میں بیان کیا گیا ہے۔

قرانی نکتۂ نگاہ
مفسرین کرام نے قرآنی آیات میں سے مختلف نکات کو بیان فرمایا ہے اور بہت سارے سوالات اٹھائے ہیں۔ سب سے اہم مباحث کا بعض حصہ درج ذیل مذکور کیا جا رہا ہے:

اللہ کا خلیفہ
خلیفہ کا لفظ اس آیت میں جہاں پر بیان ہوا ہے کہ: میں آپ کے لئے زمین پر جانشین اور خلیفہ مقرر کر رہا ہوں۔[4] اس کا کیا معنی بنتا ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف نظریات بیان فرمائے ہیں، اگرچہ ان میں سے اکثر اسی بات کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں کہ حضرت آدم زمین پر اللہ تعالی کا خلیفہ ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی روایات پیش کی جاتی ہیں، لیکن آخر کار مفسرین کی کلام کا اختتام اسی بات پر ہوتا ہے کہ حضرت آدم اللہ تعالی کے جانشین اور خلیفہ ہیں۔[5]

حضرت آدم کی خلقت کے بارے میں اللہ اور فرشتوں کی گفتگو
حضرت آدم کو خلق کرنے کے بارے میں جو گفتگو اللہ تعالی اور فرشتوں کے درمیان واقع ہوئی اس میں فرشتوں نے اللہ تعالی سے عرض کی: کیا آپ زمین پر ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جو تباہ کاری کرے گا اور خون بہائے گا!؟[6] فرشتوں کو کہاں سے معلوم تھا کہ انسان اس زمین پر ان دو بلاؤں میں مبتلاء ہوں گے؟ مفسرین اس سلسلے میں مختلف روایات اور ایسی دلائل پیش کرتے ہیں جن سے ایک یا دو نتیجوں کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔

طبری نے بہت سی روایات نقل کی ہیں اور ایک تقسیم میں، ان اقوال کو یوں نقل کیا ہے:
بعض نے کہا ہے کہ انسانوں سے پہلے، زمین پر جن ہوا کرتے تھے جنھوں نے زمین پر تباہی اور خون بہایا تھا اور فرشتوں نے ان کی عاقبت کو حضرت آدم اور آپ کی ذریت پر قیاس کیا۔

بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے خود فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بناںا چاہتا ہوں، انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا ہو گا؟ تو فرمایا: وہ تباہی کرے گا اور خون بہائے گا۔ تو پوچھا کہ پھر کیوں خلق کریں گے؟ جواب میں فرمایا: میں نے انسانوں کی فطرت میں بہت ساری خوبیان اور نیکیاں رکھ دی ہیں جن کے بارے میں آپ کو معلوم ہی نہیں۔

بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کی خلقت سے پہلے، فرشتوں کو اس کے بارے میں کچھ معلومات دی تھیں اور بعض دوسری معلومات ان سے چھپائی تھیں اور فرشتوں نے اپنی آگاھی اور معلومات کے مطابق یہ سوال کیا تھا۔[7]

طبرسی فرماتے ہیں اس بارے میں تین قول ہیں:
انسانوں سے پہلے جن اس زمین پر موجود تھے جو تباہی کرتے اور خون بہایا کرتے تھے اور فرشتوں نے ان کے کاموں کو آنے والے انسان سے قیاس کیا ہے۔

فرشتوں نے صرف سوالیہ طور پر یوں کہا ہے یعنی: اے خدا! کیا انسانی نسل کے لئے تباہی اور خون بہانے کا امکان موجود ہے یا نہیں؟

اللہ تعالی نے خود فرشتوں کو بتایا ہوا تھا کہ یوں ہوگا، لیکن خلقت کے دوسرے فواید کو ان سے چھپا رکھا تھا تا کہ اللہ تعالی کی حکمت اور علم کا زیادہ سے زیادہ یقیں حاصل کریں۔[8]

حضرت آدم کی جسم میں اللہ تعالی کی روح کا پھونکا جانا
اللہ تعالی کا سورہ حجر اور سورہ ص میں یوں ارشاد ہو رہا ہے: ہم نے اپنی روح کو آدم کے جسم میں پھونکا۔ دوسری مقام پر بھی (حضرت آدم اور حضرت عیسی) کے بارے میں اللہ تعالی نے روح کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ روح کا اللہ تعالی کی طرف منسوب ہونا کیا معنی رکھ سکتا ہے؟ مفسرین نے اس بارے میں مختلف ارشادات فرمائے ہیں۔

ان افراد کے عقیدے کے مطابق پھونکنا یعنی کسی چیز میں ہوا کو جاری کرنا اور یہاں پر مراد حضرت آدم کو جان بخشنے سے، زندگی عطا کرنا ہے۔ روح کو اپنی طرف منسوب کرنا فی الواقع حضرت آدم کا احترام کرنا ہے۔[9] تشریف و تکریم کی وجہ سے اللہ تعالی نے حضرت آدم کے روح کو اپنی طرف نسبت دی ہے۔[10] اور اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایسی جان کو جس کا تعلق جسم سے ہے اس کو خلق فرمایا ہے، نہ یہ کہ گمان کیا جائے کہ ہوا جیسی کوئی چیز انسان کے جسم میں داخل کی گئی ہے۔[11]

حضرت آدم کو فرشتوں کا سجدہ
تمام مفسرین نے فرمایا ہے کہ فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنا عبادت کا سجدہ نہیں تھا، کیونکہ تمام مسلمانوں کا متفقہ طور عقیدہ یہ ہے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ تعالی ہی سے مختص ہے، اور ہر قسم کی تعظیم و تکریم جو عبادت کی صورت میں ہو، اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لئے کفر اور شرک ہے۔ تو اب فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنا کیا معنی رکھ سکتا ہے؟ مختلف کلام اور نظریات کو اکٹھا کر کے اگر یکجا بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سجدہ آپ کی عظمت اور آپ پر سلام و درود بھیجنے کے معنی میں تھا۔

حضرت حوا
حضرت آدم کی کہانی میں کئی بار آپ کی بیوی (حوا) کا بھی ذکر آیا ہے۔ آپ کی بیوی کا اسلامی ثقافت میں کیا نام اور کیا کہانی ہے؟ قرآن کریم میں تین مرتبہ تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک ہی نفس سے خلق فرمایا ہے، اور اس کی بیوی کو اس سے خلق کیا ہے۔[12]

شجرہ ممنوعہ
حضرت آدم کی کہانی میں ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت کی تمام کھانے والی چیزیں ان پر حلال کیں اور آپ ان کو کھانے میں آزاد تھے، صرف اور صرف ایک درخت کے قریب جانے اور اس سے کھانے کو منع فرمایا تھا۔ یہ درخت کون سا درخت تھا؟ طبری نے ابن عباس، ابو مالک، ابو عطیہ، قتادہ اور دوسروں سے بہت سی روایات نقل کی ہیں کہ یہ درخت، گندم کی بوٹی تھی۔ بعض دوسری روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ درخت انگور کی بیل یا انجیر کا درخت تھا۔ طوسی نے گندم، انگور اور انجیر والی روایات کے علاوہ حضرت علی(ع) سے ایک روایت نقل کی ہے کہ یہ درخت، کافور کا درخت تھا۔[13]

حضرت آدم کی عصمت

حضرت آدم کی کہانی اور انبیاء(ع) کی عصمت کا آپس میں گہرا رابطہ ہے۔ مسلمانوں کے اعتقادات کے مطابق، کیونکہ انبیاء(ع) اللہ تعالی کا پیغام لوگوں تک لاتے ہیں اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا تمام گناہوں سے پاک و طاہر ہونا چاہئے۔

لیکن حضرت آدم کی خلقت کی کہانی میں ایسی آیات ملتی ہیں جن کو انبیاء کی عصمت کے لحاظ سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ من جملہ یہ آیات: “شیطان نے حضرت آدم و حضرت حوا کو جنت سے لغزش میں مبتلا کیا۔”[14] * ان کو دھوکہ دیا؛ انھوں نے عرض کی اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔[15] “شیطان نے آپ کو وسوسہ کیا ۔ ۔ ۔ حضرت آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوا۔” اور ۔ ۔ ۔[16]

ایک سادہ اور مختصر جواب جو مفسرین نے ان آیات اور انبیاء کی عصمت میں تطابق کے لحاظ سے جو دیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت آدم اس لغزش اور خطا کو انجام دیتے وقت “دار تکلیف” میں نہیں تھے یا آپ اس وقت مقام نبوت پر فائز نہیں ہوئے تھے، یا جو کچھ حضرت آدم سے سرزد ہوا وہ ترک اولیٰ تھا نہ کہ گناہ۔

……………………………………………………….

حوالہ جات :

1 جودائیكا، ج۲، ص۲۳۵ ؛ هسٹینگز، ج۱، ص ۸۴
2 جوهری ؛ ازهری ؛ زبیدی اسی مادہ کے ذیل میں
3 ج۱، ص ۳۸
4 بقره (۲): ۳۰
5 شیخ طوسی، ج۲، ص ۱۶۵
6 بقره (۲): ۳۰
7 تفسیر، ج۱، ص ۱۵۸ ـ ۱۶۶
8 ج۱، ص ۷۴
9 طوسی، ج۶، ص۳۲۳
10 فخر رازی، ج۱۹، ص۱۸۲
11 طباطبایی، ج۱۲، ص ۱۵۴
12 نساء (۴):۱ ؛ اعراف (۷): ۱۸۹ ؛ زمر (۳۹): ۶
13 ج۱، ص۱۵۷
14 بقره (۲): ۳۶
15 اعراف (۷): ۲۲ و ۲۳
16 طہ (۲۰): ۱۲۰ و ۱۲۱

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے