حدیث عزاداری کسے کہتےہیں؟
اہل تشیع کے نزدیک عزاداری پر سب سے مضبوط حدیث ریان ابن الشبیب کی حدیث ہے۔ اسے منابع حدیثی شیعہ میں حدیث یابن الشبیب بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ماہ محرم میں پیش آنے والے واقعات اور کربلا کی جنگ کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ اس روایت کو وثاقت اور اعتبار کے لحاظ سے اور اس کے تمام راویوں کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کی وجہ سے صحیح روایت یا حسن روایت کے طور پر سمجھا گیا ہے۔ یہ روایت امالی شیخ صدوق اور عیون اخبار الرضا میں آئی ہے جسے ریان ابن الشبیب نامی شخص نے علی ابن موسی الرضا (شیعہ امامیہ کے آٹھویں امام) سے نقل کیا ہے۔
روایت کی صداقت کی تصدیق و تائید میں ، علم حدیث کے شیعہ علما نے ، سند کی درستی کے علاوہ ، قرائن صدوری ،تواتر معنوی اور قاعده تسامح در ادله سنن کو بھی دلیل بنایا ہے۔
اس روایت کے مندرجات میں دعاؤں کے ایام ، ماہ محرم کی خصوصیت اور اس کے آغاز کا ذکر ، واقعہ کربلا اور سید الشہداء امام حسین کی المناک شہادت اور ان کے مظلوم اصحاب پر ڈھائے گئے مظالم شامل ہے، ماتم کی ضرورت کے ساتھ ساتھ حسینی رسومات کو زندہ رکھنے کو لازمی قرار دیا ہے اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کو برپا کرنے کے طریقوں کو بیان کیا گیا ہے اس کے آخری حصے میں حسین بن علی کے قتل کے بعد وقوع پزیر ہونے والے کچھ حیرت انگیز اور غیر معمولی واقعات بھی شامل ہیں ، جن میں خون کی بارش اور سرخ اور سیاہ آندھی شامل ہیں۔
حدیث عزاداری:
ماہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی اھل بیت علیہم السلام کے شیعہ بسنے والے شہر و بازار سب جگہ ایک خاص قسم کا ماحول وجود میں آتا ہے،مساجد اور امام بارگاہیں سیاہ پوش ہوجاتی ہیں اور ایک خاص قسم کا پرچم اور بینریں خاص جگہوں پر نصیب کردیتے ہیں ۔
محبان اھل بیت کے کردار اور گفتار ،طور و طریقہ سب امام حسین علیہم السلام کے جاودانی تحریک سے الہام لیتے ہوئے حسینی رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔
سب قیام کربلا کے مرکزی لیڈر امام حسین علیہ السلام اور ان کے یار و انصار اور شہدائ کربلا کا تذکرہ ہی ہوتا ہے ۔
خلاصہ کلام سب جگہ حسینی ماحول اور شیعہ ہو یا سنی سب حسینی بن جاتے ہیں ۔
ساتھ ہی اهل بيت عليهم السلام، کے دشمن اور ان کے دشمنوں کی وکلالت کرنے والے لوگ عزاداری کے بارے میں شبھات کو سوشل میڈیا پر نشر کرنے اور ہر جگہ عزاداری اور شیعوں کے خلاف بولنے اور لکھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے شبھات کی وجہ سے شیعہ اور اھل بیت سے عقیدت رکھنے والے اھل سنت کے جوانوں کے نظریات مزید پختہ ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے شبھات کے کو سننے کے بعد ان کے جواب کو تلاش کرتے ہیں اور کیونکہ مخالفین کے سارے شبھات کا احسن انداز میں جواب دیے گئے ہیں لہذا انہیں دیکھ کر ان کے نظریات میں پختگی آجاتی ہے۔
شیعہ مخالفین کے بعض شبھات:
کیا امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا بدعت ہے ؟
کیا اصحاب نے ان پر گریہ اور عزاداری کی ہے ؟
کیا شیعوں کے اماموں نے امام حسين عليه السلام پر عزاداري کی ہے؟ کیا ائمه نے ان پر گریہ کیا ہے ؟
کیا عزاداری کرنے کا ثواب بھی ہے ؟ یا بغیر ثواب کے عزاداری کرتے ہیں ؟
یہ سوالات اس قسم کے اھم ترین سوالات میں سے ہیں۔
امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت کے ضمن میں ان سوالات کا بہترین اندار میں جواب دیا ہے۔
پہلے ہم اصل روایت اور اس کے ترجمے کو نقل کرتے ہیں اور پھر اس روایت میں موجود مختلف قسم کےموضوعات کو بیان کرتے ہیں ۔
ایک اھم اور قابل توجہ نکتہ :
اصل بحث کو شروع کرنے سے پہلے اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ شیعہ جوانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شیعہ اپنے نظریات کو قرآن ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ کی تعلیمات سے لیتے ہیں۔ یعنی انہیں بزرگوں کے رفتار اور گفتار ہمارے لئے حجت ہے۔
صحابہ کے رفتار اور گفتار ہمارے لئے حجت نہیں ہےکیونکہ شیعہ اور اھل سنت کے نظریے کے مطابق صحابہ معصوم نہیں ہیں ۔اسی لئے ان کی اطاعت اور پیروی بھی ضروری نہیں ہے ۔
جیساکہ بعض صحابہ عاشورا کے دن امام حسين عليه السلام کے مقابلے میں کھڑے تھے اور فرزند پیغمبر کو شہیدکرنے ہزاروں لوگوں کی کمانڈری کر رہے تھے ہم نے اس سلسلے میں ایک الگ مقالے میں ان اصحاب کا ذکر کیا ہے۔
کیا کوفه کے شیعوں نے امام حسین علیه اسلام کو شهید کیا؟
اهل بيت عليهم السلام، امام حسين عليه السلام کی عزاداری کے لئے خاص اھتمام کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔انہیں میں سے ایک درج ذیل ہے ۔
امام رضا ع سے اس سلسلے کی ایک جامع روایت
مرحوم شيخ صدوق رحمة الله عليه، نے كتاب الامالي، میں اس روایت کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الرَّيَّانِ بْنِ شَبِيبٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا عليه السلام فِي أَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ- فَقَالَ لِي:
يَا ابْنَ شَبِيبٍ أَصَائِمٌ أَنْتَ فَقُلْتُ لَا فَقَالَ إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي دَعَا فِيهِ زَكَرِيَّا عليه السلام رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعاءِ فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَنَادَتْ زَكَرِيَّا وَ هُوَ قائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى فَمَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ ثُمَّ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ كَمَا اسْتَجَابَ لِزَكَرِيَّا عليه السلام.
ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنَّ الْمُحَرَّمَ هُوَ الشَّهْرُ الَّذِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فِيمَا مَضَى يُحَرِّمُونَ فِيهِ الظُّلْمَ وَ الْقِتَالَ لِحُرْمَتِهِ فَمَا عَرَفَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ حُرْمَةَ شَهْرِهَا وَ لَا حُرْمَةَ نَبِيِّهَا صلي الله عليه وآله لَقَدْ قَتَلُوا فِي هَذَا الشَّهْرِ ذُرِّيَّتَهُ وَ سَبَوْا نِسَاءَهُ وَ انْتَهَبُوا ثَقَلَهُ فَلَا غَفَرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ أَبَداً.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ فَوَجَدُوهُ قَدْ قُتِلَ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عليه السلام أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ جَدِّي عليه السلام مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباً أَحْمَرَ.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ عليه السلام حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ عليه السلام.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ وَ آلِهِ صلي الله عليه وآله فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً.
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَه».
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين _متوفاى381ق _ ، الأمالي، ص 192، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.)
ریان بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا(ع)کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ع)نے مجھ سے فرمایا:
۔ اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا (ع) نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ خدا نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے کہا جبکہ وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہ: خداوند متعال تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔
۔اس کے بعد فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی (ص) کی حرمت کا خیال رکھا۔ انہوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرم(ص) کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گا۔
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے اور انکے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا، جن کی روئے زمیں پر کوئی مثال نہیں تھی۔ ان کے قتل پر ساتوں زمین و آسماں نے گریہ کیا. امام(ع) کی نصرت کے لئے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انہوں نے امام کو مقتول پایا۔ اسوقت سے یہ فرشتے آپ (ع) کی قبر پر پریشان اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہونگے ظہور کے وقت یہ ان کے انصار میں سے ہونگے اور ان کا نعرہ ہوگا’’یا لثارات الحسین‘‘
۔اے ابن شبیب ! میرے بابا نے اپنے بابا سے اور انھوں نے اپنے جد امجد سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین(ع) کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔
۔اے ابن شبیب! اگر تم حسین(ع) پر اتنا گریہ و زاری کرو یہاں تک کہ تمہارے اشک رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دیگا چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔
۔اے ابن شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس عالم میں ملاقات کرو کہ تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسین(ع) کی زیارت کرو۔
۔اے ابن شبیب ! اگر چاہتے ہو کہ جنت میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ بنے ہوئے حجروں میں رہو، تو حسین(ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔
۔اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب ملے تو جب بھی حسین(ع) کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔)
۔اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کریگا ، اللہ اسے اسی پتھر کے ساتھ روز قیامت محشور کرے گا۔
(وسائل الشيعة ، ج14، ص 502، باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛ الأمالي( للصدوق)،ص 130، المجلس السابع و العشرون)
سند کی تصحیح:
روایت کی سند صحیح قرار دینے والے چند شیعہ علما کے اقوال: مرحوم علامهي مجلسي نے روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه، کے شروع میں واضح طور پر کہا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
«و في الحسن كالصحيح، عن الريان بن شبيب قال: دخلت على الرضا عليه السلام في أول يوم من المحرم فقال لي يا بن شبيب أ صائم أنت؟ فقلت: لا،..»
«ایک حسن روایت کہ جو صحیح روایت کی طرح ہے،اس میں امام ریان بن شبث نقل کرتے ہیں کہ میں اول محرم کو امام کے پاس گیا ، یہ روایت صحیح ہے۔
(مجلسى، محمدتقى بن مقصودعلى، ـ متوفاي 1070 ق – ، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه، ج 5، ص 383، (ط – القديمة) – قم، چاپ: دوم، 1406 ق.)
مرحوم محقق بحراني نے بحی الحدائق الناضره، میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
«وروى في كتاب المجالس وعيون الأخبار في الصحيح عن الريان بن شبيب قال : ” دخلت على الرضا عليه السلام في أول يوم من المحرم فقال لي يا ابن شبيب أصائم أنت ؟ فقلت لا . …»
« مجالس کی کتابوں میں اور و عيون الاخبار، میں ريان بن شبيب سے صحيح سند روايت نقل ہوئی ہے ۔ وہ محرم کی پہلی تاریخ کو امام رضا عليه السلام کے پاس پہنچا ….»
البحراني، الشيخ يوسف، – متوفاي 1186 ق – ، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة، ج 13، ص 377، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، طبق برنامه مكتبه اهل البيت.
شيخ هادي نجفي کہ جو عصر حاضر کے ایک معتبر عالم ہیں ،انہوں نے بھی اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے:
«الرواية معتبرة الإسناد. ونقلها الصدوق أيضا بهذا السند في الأمالي : المجلس السابع والعشرون ح 5 / 112 .»
«یہ روایت سند کے اعتبار سے معتبر ہے ، شيخ صدوق نے بھی اس روایت کو اسی سند کے ساتھ کتاب الامالي، مجلس 27 میں نقل کیا ہے .»( النجفي، الشيخ هادي، موسوعة أحاديث أهل البيت (ع)، ج 2، ص 78، طبق برنامه مكتبه اهل البيت.)
لہذا اس روایت کی سند شیعہ علما کے نذدیک صحیح ہے۔
اس حدیث میں بیان شدہ موضوعات کی تحلیل:
اس حدیث کے مختلف حصوں میں بیان مختلف مطالب اور موضوعات اهل بيت عليهم السلام کے محبین اور خاص کر شیعوں کے لئے قابل غور اور قابل فکر ہیں اور اس حدیث کے بعض حصوں میں ایسےنکلمات موجود ہیں کہ جو مختلف میڈیا کے ذریعے بیان ہونے والے شبھات کا ٹھوس جواب ہے۔
اس حدیث کے مختلف موضوعات:
1. اول محرم کے عبادات:
اس روایت کے شروع کے جملوں میں اس دن روزہ رکھنے کے فوائد کے بیان میں ہے ، جیساکہ حضرت زكرياي ، علي نبينا وآله وعليه السلام، نے اس دن دعا کیاور ان کی دعا مستجاب بھی ہوگی۔
«فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ شَبِيبٍ أَصَائِمٌ أَنْتَ فَقُلْتُ لَا فَقَالَ إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي دَعَا فِيهِ زَكَرِيَّا عليه السلام رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعاءِ فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَنَادَتْ زَكَرِيَّا وَ هُوَ قائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى فَمَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ ثُمَّ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ كَمَا اسْتَجَابَ لِزَكَرِيَّا عليه السلام».
« اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا (ع) نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ خدا نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے کہا جبکہ وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہ: خداوند متعال تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔
2. زمانہ جاہلیت میں اس مہنے کا احترام رکھا جاتا تھا لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہوا اور نام لیوا مسلمانوں نے اس مہینے کی حرمت کا خیال نہیں رکھا۔
«ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنَّ الْمُحَرَّمَ هُوَ الشَّهْرُ الَّذِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فِيمَا مَضَى يُحَرِّمُونَ فِيهِ الظُّلْمَ وَ الْقِتَالَ لِحُرْمَتِهِ فَمَا عَرَفَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ حُرْمَةَ شَهْرِهَا وَ لَا حُرْمَةَ نَبِيِّهَا صلي الله عليه وآله لَقَدْ قَتَلُوا فِي هَذَا الشَّهْرِ ذُرِّيَّتَهُ وَ سَبَوْا نِسَاءَهُ وَ انْتَهَبُوا ثَقَلَهُ فَلَا غَفَرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ أَبَداً».
اس کے بعد فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی (ص) کی حرمت کا خیال رکھا۔ انہوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرم(ص) کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گا۔
آٹھویں امام رضائ علیہ السلام کی اس سلسلے میں اور بھی روایات موجود ہیں انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ:
«حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْرُورٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مَحْمُودٍ قَالَ قَالَ الرِّضَا عليه السلام إِنَّ الْمُحَرَّمَ شَهْرٌ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يُحَرِّمُونَ فِيهِ الْقِتَالَفَاسْتُحِلَّتْ فِيهِ دِمَاؤُنَا وَ هُتِكَ فِيهِ حُرْمَتُنَا وَ سُبِيَ فِيهِ ذَرَارِيُّنَا وَ نِسَاؤُنَا وَ أُضْرِمَتِ النِّيرَانُ فِي مَضَارِبِنَا وَ انْتُهِبَ مَا فِيهَا مِنْ ثَقَلِنَا وَ لَمْ تُرْعَ لِرَسُولِ اللَّهِ حُرْمَةٌ فِي أَمْرِنَا.
اس کے بعد فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی (ص) کی حرمت کا خیال رکھا۔
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين – متوفاى381 ق-، الأمالي، ص 129، ح 2، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.)
امام علیہ السلام نے اھل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو زمان جاہلی کے لوگوں سے بھی بدتر قرار دیا ۔۔۔
کیونکہ اس دور کے لوگ تمام تر دشمنی کے باوجود اس مہینے کی حرمت کا خیال رکھتے اور جنگ بندی کرتے تھے لیکن اپنے کو امت میں سے سمجھنے والوں نے اس مہینے کی حرمت کا خیال نہیں رکھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزندوں کا خون بہایا ،ان کی مخدرات کو اسیر بنایا ،یہاں تک کہ ان کے خیموں کو آگ لگادی ۔ان کے مال اموال لوٹ لیے ۔لہذا یہ لوگ اپنے اس ظلم و ببریت اور سفاکانہ کاموں کی وجہ سے عصر جاہلی کے لوگوں سے بھی آگے نکل گئے ۔
3. امام حسين ع پر گریہ اور عزاداری کا حکم:
امام رضا عليه السلام نے بنی امیہ کی طرف سے اھل بیت علیہم السلام پر ظلم اور واقعہ کربلا کو بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا کہ اگر کسی پر رونا ہے تو سب سے پہلے حسين عليه السلام کی مظلومیت پر رویے :
«يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ».
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے ۔
4. امام حسين ع پر گریہ کا ثواب:
اس فرمان کا ایک حصہ امام حسین علیہ السلام پر رونے کے آثار کو بیان کرتا ہے کہ جو آپ کی مظلومیت پر آنسو بہائے گا اس کے سارے گناہ پاک ہوجائے گا:
«يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ عليه السلام حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً».
«اے ابن شبیب! اگر تم حسین(ع) پر اتنا گریہ و زاری کرو یہاں تک کہ تمہارے اشک رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دیگا چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔
امام حسین علیہ السلام پر گریہ کا ثواب شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں بہت زیادہ نقل ہوا ہے۔
5. بني هاشم کے شہدا زمین پر بہترین شہدا میں سے ہیں:
امام نے اس حدیث کے ایک اہم حصے میں امام حسين عليه السلام کے ساتھ كربلا میں شہید ہونے والے بنی ھاشم کے شہدا کی عظمت اور مقام بیان فرمایا:
«وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ».
« امام حسين عليه السلام کے ساتھ اھل بیت کے ۱۸لوگ شہید ہوئے ،کہ ان جیسے شہید روی زمین پر کہیں بھی نہیں۔
6. امام حسين ع کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے واقعات کا بیان:
امام حسين عليه السلام کی شہادت کے بعد، عصر عاشور کو ایسے واقعات دنیا میں رونما ہوئے کہ جو ایک طرف سے امام حسین علیہ السلام کی حقانیت کی دلیل اور اس سلسلے کے معجزات میں سے یے، اور یہ واقعات شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں، انہیں میں سے ایک آسمان اور زمين کا آپ پر گریہ کرنا ہے۔
امام هشتم عليه السلام، بیان فرماتے ہیں:
«وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ»
سات آسمان اور زمین ان پر روئے ۔
اسی طرح امام فرماتے ہے کہ آسمان اس مصیبت پر خون کے آنسو رویا ۔
« يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عليه السلام أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ جَدِّي عليه السلام مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباً أَحْمَرَ».
۔اے ابن شبیب ! میرے بابا نے اپنے بابا سے اور انھوں نے اپنے جد امجد سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین(ع) کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔
شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں اس سلسلے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔
7. فرشتوں کا امام حسين عليه السلام کی نصرت کے لئے آنا فرشتے امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لئے آئیں۔ لیکن جس وقت پہنچے تو امام شہید ہوچکے تھے لہذا امام مھدی علیہ السلام کے ظہور تک آپ کی قبر کے پاس غم و اندوہ کی حالت میں رہیں گے ۔
«وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ فَوَجَدُوهُ قَدْ قُتِلَ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ».
«. امام(ع) کی نصرت کے لئے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انہوں نے امام کو مقتول پایا۔ اسوقت سے یہ فرشتے آپ (ع) کی قبر پر پریشان اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہونگے ظہور کے وقت یہ ان کے انصار میں سے ہونگے اور ان کا نعرہ ہوگا’’یا لثارات الحسین‘‘
بعض روایات کے مطابق جس وقت امام مدینہ سے چلے اس وقت کچھ فرشتے اور جنات آپ کی نصرت کے لئے آئے لیکن امام علیہ السلام نے ان کو اجازت نہیں دی ،جیساکہ مرحوم سيد بن طاوس نے شيخ مفيد رحمة الله عليه سے یوں نقل کیا ہے:
شيخ مفيد محمّد بن محمّد بن نعمان رضى اللَّه عنه نے اپنی کتاب «مولد النّبي و مولد الاوصياء» میں امام جعفر صادق عليه السلام سے نقل کیا ہے: جس وقت امام حسين عليه السّلام نے مكّه سے عراق کی طرف سفر کا آغاز فرمایا تو اس وقت فرشتوں کے مختلف گروہ بہشتی گھوڑوں پر سوار ہوکر گروہ منظم انداز میں مسلح ہوکر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور امام کو سلام کرنے کے بعض امام سے یوں مخاطب ہوئے : اے وہ شخصیت جو اپنے نانا، بابا اور بھائی کے بعد اللہ کی حجت ہیں۔اللہ نے ہمارے ذریعے بہت سے موقعوں پر آپ کے جد بزرگوار کی مدد کی ابھی ہمیں آپ کی مدد کے لئے بھیجا ہے ۔
امام نے فرمایا : ہمارا وعدہ گاہ وہ گودال ہے جہاں میں شہید ہوجاوں گا اور یہ کربلا میں ہوگا وہاں میرے پاس آنا ۔
فرشتوں نے عرض کیا :اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں ۔ آگر آپ دشمنوں سے خائف ہو تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔ امام نے فرمایا : جب تک میں میرے مقام اور وعدہ گاہ تک نہ پہنچوں مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا ۔
مومن جنوں میں سے بعض آپ کے پاس آئے اور کہا :مولا ہم آپ کے شیعہ اور آپ کے چاہنے والے ہیں ۔آپ جو حکم ہمیں دیں اس پر عمل کریں گے ۔آگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے سارے دشمنوں کو ہم قتل کردیں تو آپ کی یہاں سے حرکت سے پہلے ہی ہم آپ کے فرمان پر عمل کر کے سب کو قتل کر دیں گے۔
آپ نے فرمایا : اللہ تم لوگوں کو جزای خیر دئے ،کیا میرے جد رسول خدا صلي الله عليه وآله پر نازل شدہ قرآن کی تلاوت نہیں کی ہے کہ اللہ نے فرمایا ؟
(سيد بن طاوس – متوفاي 664 ق- اللهوف على قتلى الطفوف، ص 67، ناشر: جهان، مكان چاپ: تهران، سال چاپ: 1348 ش)
اس روایت کو دیکھنے کے بعد یہ سوال ذھن میں آتا ہے کہ امام نے کیوں اس پیشکش کو قبول نہیں فرمایا ؟
اسی روایت میں دقت کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسی میں ہی اس سوال کا جواب بھی موجود ہے ۔
۱: لوگوں کا امتحان:
«فَإِذَا أَقَمْتُ فِي مَكَانِي فَبِمَا يُمْتَحَنُ هَذَا الْخَلْقُ الْمَتْعُوسُ وَ بِمَا ذَا يُخْتَبَرُونَ وَ مَنْ ذَا يَكُونُ سَاكِنَ حُفْرَتِي…»
«اگر میں اپنی جگہ بیٹھا رہوں تو یہ بدبخت لوگوں کا کس کے ذریعے امتحان ہوگا ؟ اور کون قبر میں میری جگہ لے گا ؟»
۲: کربلا میں ہدایت پانا یا ہلاک ہونے پر دلیل:
اسی روایت میں ہے کہ امام نے جنات سے فرمایا :
وَ نَحْنُ وَ اللَّهِ أَقْدَرُ عَلَيْهِمْ مِنْكُمْ وَ لَكِنْ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ثُمَّ سَارَ حَتَّى مَرَّ بِالتَّنْعِيم.
اللہ کی قسم ہم تم لوگوں سے زیادہ ان لوگوں کو نابود کرنے پر قدرت رکھتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جو ہلاک ہو یا ابدی زندگی جس کے نصیب میں آئے وہ دلیل کے ساتھ ہو ۔اس کے بعد امام نے منزل تنعیم کی طرف حرکت کی۔
(سيد بن طاوس – متوفاي 664 ق- اللهوف على قتلى الطفوف، ص 67، ناشر: جهان، مكان چاپ: تهران، سال چاپ: 1348 ش)
لہذا حضرت سيد الشهدا عليه السلام کربلا کے واقعے کو معجزے کے ساتھ ختم کرنا نہیں چاہتے تھے ۔بلکہ طبعی طور پر اس واقعے کے واقع ہونے کو چاہتے تھے ۔ تاکہ آپ کا یہ قیام آئندہ آنے والوں کے لئے درس گاہ اور نمونہ عمل ہو۔
٣. ثواب زيارت امام حسين عليه السلام
امام رضا عليه السلام، کے فرمان کے ایک حصے میں امام حسين عليه السلام کی قبر مطہر کی زیارت کے ثواب کا ذکر موجود ہے:
«يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ عليه السلام».
« اے ابن شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس عالم میں ملاقات کرو کہ تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسین(ع) کی زیارت کرو۔».
امام کے اس فرمان میں زیارت پر اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کا جواب موجود ہے ۔
9. امام حسين ع کے قاتلوں پر لعنت:
امام رضا عليه السلام نے ابن شبيب کو امام حسين عليه السلام کے قاتلوں پر لعنت کا حکم دیا۔
«يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ وَ آلِهِ صلي الله عليه وآله فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ».
« اے ابن شبیب ! اگر چاہتے ہو کہ جنت میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ بنے ہوئے حجروں میں رہو، تو حسین(ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔».
«لعن»، لعنت کا معنی گالی دینا نہیں ہے ؛ بلکہ اللہ کی رحمت سے دوری کی دعا کرنا ہے .
مشہور لغت شناس جوهري کہتا ہے:
«اللعن : الطرد والابعاد من الخير».
«لغت میں لعنت سے مراد اچھائی اور خوبی سے دور کرنا ہے ».
(الجوهري، اسماعيل بن حماد – متوفاي393 ق-، الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية، ج 6 ص 2196، تحقيق: أحمد عبد الغفور العطار، ناشر: دار العلم للملايين – بيروت – لبنان، چاپ : الرابعة سال چاپ : 1407 – 1987 م)
نووي کہ جو صحيح مسلم کے شارحین میں سے ہے وہ لکھتا ہے :
«فإن اللعن في اللغة هو الطرد والابعاد». «لغت میں لعنت سے مراد دور کرنا ».
(النووي الشافعي، يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام – متوفاى676 ق -، شرح النووي علي صحيح مسلم، ج 9، ص141، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة الثانية، 1392 هـ.)
لہذا اس روایت کے مطابق اہل بیت علیہم السلام کے دشمن لعنت کے مستحق ہے اور وہ اللہ کے لطف اور رحمت سے دور ہوں گے۔
10. امام حسين ع کے اصحاب کی صف میں ہونے کے آرزو رکھنے والوں کے لئے شہادت کاثواب۔
امام حسين عليه السلام کے شیعہ اور محب یہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش ہم بھی کربلا میں ہوتے تو امام کے اصحاب کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ۔
امام رضا علیہ السلام نے اس قسم کی آرزوں کے بیان میں فرمایا : يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً،: یہ لوگ گویا ایسا ہے کہ جیسے یہ کربلا میں ہوں اور امام کے اصحاب کے ساتھ شہید ہوئے ہوں ۔
«يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً».
«۔اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب ملے تو جب بھی حسین(ع) کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔
11. اهل بيت ع کے حزن و اندوھ میں شریک ہونا:
یقینا اهل بيت عليهم السلام کے محب ہونے اور ان کے شیعہ ہونے کا تقاضا ہے کہ ان کے غم اور ان کی خوشی میں شریک رہے اور اس طریقے سے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرئے . امام رضا عليه السلام نے بھی اس فرمان میں اس چیز کی طرف اشارہ فرمایا :
«يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَه».
«اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کریگا ، اللہ اسے اسی پتھر کے ساتھ روز قیامت محشور کرے گا ».
امير مؤمنین عليه السلام نے بھی فرمایا ہے : ہمارے شیعوں کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم میں غمزدہ ہوتے ہیں :
«إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى اطَّلَعَ إِلَى الْأَرْضِ فَاخْتَارَنَا وَ اخْتَارَ لَنَا شِيعَةً يَنْصُرُونَنَا وَ يَفْرَحُونَ لِفَرَحِنَا وَ يَحْزَنُونَ لِحُزْنِنَا وَ يَبْذُلُونَ أَمْوَالَهُمْ وَ أَنْفُسَهُمْ فِينَا أُولَئِكَ مِنَّا وَ إِلَيْنَا.»
«اللہ نے زمین پر نگاہ ڈالی اور ہمیں انتخاب کیا اور ہمارے لئے ایسے شیعوں کا انتخاب کیا جو ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم میں غمزدہ ہوتے ہیں اورہماری راہ میں اپنی جان اور مال کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔یہیں لوگ ہم سے ہیں اور انہیں ہماری طرف لوٹا دئے جائیں گے ۔
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين – متوفاى381 ق -، الخصال، ج2، ص 635، تحقيق، تصحيح وتعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلمية في قم المقدسة، سال چاپ 1403 – 1362)
عزاداری کی مجالس میں شرکت،کالے لباس پہننا۔سینہ زنی ۔نوحہ خوانی ۔۔۔۔۔ یہ سب امور اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم اور ان پر آنے والے مصائب پر حزن و اندوہ اور غم کے اظہار کے مصداق اور غم کے اظہار کا عملی نمونہ ہے۔
سید شہدا کے عزاداروں کو مندرجہ بالا نکات کے علاوہ عزاداری کے سلسلے میں کچھ دوسرے آداب کا خیال رکھنا چاہئے کہ جن میں سے بعض کو مرحوم سيد بن طاوس نے كتاب اقبال الاعمال، میں نسبتا تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔
انشا اللہ یہ اھل بیت علیہم السلام کے شیعوں اور محبوں کے لئے نمونہ عمل اور سر مشق ہوگا۔
اعلم أن المواساة لأئمة الزمان وأصحاب الاحسان في السرور والأحزان ، من مهمات أهل الصفاء وذوي الوفاء والمخلصين في الولاء ، وفي هذا العشر كان أكثر اجتماع الأعداء على قتل ذرية سيد الأنبياء صلوات الله عليه وآله ، والتهجم بذلك على كسر حرمة الله جل جلاله مالك الدنيا والآخرة ، وكسر حرمة رسوله عليه السلام صاحب النعم الباطنة والظاهرة ، وكسر حرمة الاسلام والمسلمين ولبس أثواب الحزن على فساد أمور الدنيا والدين . فينبغي من أول ليلة من هذا الشهر ان يظهر على الوجوه والحركات والسكنات شعار آداب أهل المصائب المعظمات في كلما يتقلب الانسان فيه ، وان يقصد الانسان بذلك اظهار موالات أولياء الله ومعاداة أعاديه …
جان لے کہ زمانے کے پیشواوں اور اہل احسان سے ہمدردی کے اظہار کے لئے ان کی خوشی میں خوش ہونا اور ان کے غم میں مغموم ہونا ،یہ اھل صفا ، اھل وفا اور ان کی ولایت کے ساتھ مخلص لوگوں کا شیوہ اور وتیرہ ہے ۔
محرم کے پہلے دس دنوں میں دشمنوں نے سید الانبیا کی ذریت کو قتل کرنے کے لئے بڑا اجتماع کیا اور اللہ کی حرمت ، اللہ کے رسول ص کی حرمت اور اسلام و مسلمین کی حرمت کو پامال کرنے کےلئے اقدام کیا اور حزن و اندوہ اور فتنہ و فساد کے لباس کو دین و دنیا کے امور کے لئے زیب تن کیا ۔
لہذا مناسب یہی ہے کہ اس مہینے کی پہلی رات سے ہی چہرے کے انداز ،اٹھنے بیٹھنے اور مصیبت سے دوچار ہونے والوں کے آداب کا خیال رکھے اور مقصد اللہ کے اولیا سے دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی کا اظہار ہو۔
انہوں نے آخر میں ایک ایسی روایت سے اس پر استدلال کیا ہے جس کو ابراهيم بن ابي محمود نے امام رضا عليه السلام سے نقل کیا ہے۔
(السيد ابن طاووس – متوفاي 664 ق-، إقبال الأعمال، ج 3، ص 28 ، تحقيق : جواد القيومي الاصفهاني، ناشر : مكتب الإعلام الإسلامي، چاپ : الأولى سال چاپ : رجب 1414.)